اسلام - دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ

شمشاد

لائبریرین
اسلام

دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ



ڈاکٹر ذاکر نائیک


مترجم
سید امتیاز احمد



دار النوادر
الحمد مارکیٹ، اردو بازار، لاہور​
 

شمشاد

لائبریرین
ترتیب​


|صفحہ نمبر
ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک اجمالی تعارف|7

حصہ اول​

|صفحہ نمبر
اسلام اور عالمی بھائی چارہ --- ڈاکٹر ذاکر نائیک|13

حصہ دوم
سوالات و جوابات

|صفحہ نمبر
اسلام میں کافر کا تصور کیا ہے؟|29
کیا مسلمان خانہ کعبہ کی عبادت کرتے ہیں؟|51
کیا کائنات کے دوسرے حصوں میں انسان موجود ہیں؟|53
کیا اسلام بھائی چارے کا مذہب نہیں ہے؟|55
اگر تمام مذاہب اللہ نے بنائے ہیں تو لڑائی کس بات کی ہے؟|64
کیا کسی ہندو کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ اتفاق کرنے کی وجہ سے مسلمان کہا جا سکتا ہے؟|68
بیش تر مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد کیوں ہیں؟|71
اگر تمام مذاہب میں اچھی باتیں ہیں تو پھر مذہب کے نام پر لڑائیاں کیوں ہوتی ہیں؟|77
 

شمشاد

لائبریرین
|صفحہ نمبر
کیا اسلام تلوار کی مدد سے پھیلا؟|83
مسلمان فرقوں میں کیوں تقسیم ہیں؟|88
بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے بہترین طریقہ کار کیا ہے؟|91
کیا کسی بھی مذہب کی اچھی باتوں کی پیروی کر لینا کافی ہے؟|92
عالمی بھائی چارے اور مسلم بھائی چارے کا فرق|100
بھائی چارے کے حوالے سے ہندو مت اور عیسائیت کا کردار|102
*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر ذاکر نائیک

ایک اجمالی تعارف

اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کے جس کام کا آغاز کفارِ مکہ نے کیا تھا، اسے مخالفین و معاندین اسلام نے ہر دور میں جاری رکھا۔ لیکن ہر دور میں اللہ تعالٰی نے ایسے علمائے حق بھی پیدا فرمائے جو ہر سطح پر مخالفین کے الزامات کے جوابات بھی دیتے رہے اور دین اسلام کا حقیقی پیغام بھی عالم انسانیت تک پہنچاتے رہے۔

رزم حق و باطل کا یہ سلسلہ دورِ حاضر میں بھی اسی طرح جارو و ساری ہے۔ جو کام ماضی قریب میں کولڈزائیر، مارگولیتھ، ٹسڈل، ٹوری اور سپرنگر جیسے متعصب جانبدار اور بے انصاف مستشرقین اپنی کتابوں کے ذریعے کر رہے تھے، وہی کام آج کے مغربی ذرائع ابلاغ زیادہ زور و شور، زیادہ موثر، زیادہ منظم لیکن غیر محسوس طریقے سے کر رہے ہیں۔ جھوٹ اس کثرت اور اس تواتر کے ساتھ بولا جا رہا ہے کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسے سچ ماننے پر تیار نظر آتے ہیں۔

یہ صورتِ حال تقاضا کرتی ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمان علما میں سے کچھ لوگ اٹھیں جو جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے مؤثر عصری اسلوب میں اسلام کا آفاقی پیغام پوری انسانیت اور خصوصاً مغربی دنیا تک پہنچائیں تا کہ ایک طرف تو مغربی میڈیا کے پروپیگنڈا کا توڑ کیا جا سکے اور دوسری طرف نام نہاد دانش وروں اور مستشرقین کی جانب سے اسلام اور پیغمبر اسلام پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کا مدلل اور مسکت جواب بھی دیا جا سکے۔

اس حوالے سے دورِ حاضر میں جن مسلمان علما اور دانشوروں کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے دین حق کی ترجمانی کی توفیق عطا ہوئی، ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا شمار دورِ حاضر کے معروف ترین علما میں ہوتا ہے۔

ذاکر نائیک، جن کا پورا نام ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک ہے، 18 اکتوبر 1965ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں پیدا ہوئے۔ آج کل یہ شہر ممبئی کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا بچپن اور جوانی اسی شہر میں گزرے، جو فلم سازی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ لیکن اس شہر کی رنگینیاں انہیں اپنے دین سے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہاں کے سینٹ پیڑز ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذاکر صاحب کشن چند چیلا رام کالج میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں ممبئی کے نائر ہسپتال سے وابستہ ٹوپی والا میڈیکل کالج سے انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی اور یوں یونیورسٹی آف ممبئی کی جانب سے MBBS کی ڈگری ملی۔

ڈاکٹر صاحب کو علم طب کے علاوہ علمِ اسلامی اور مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ مزید برآں وہ عوامی خدمت کے مختلف شعبوں مثلاً سماجی، اخلاقی، تعلیمی اور معاشی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبوں سے بھی وابستہ ہیں۔

لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اصل وجہ شہرت ان کا مخصوص اور گیر معمولی اندازِ خطابت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت مؤثر پیرائے میں کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ قرآن و حدیث اور دیگر مذاہب کے متون مقدسہ سے مؤثر اور برمحل ھوالے پیش کرتے ہیں۔ ان کا حافطہ غیر معمولی ہے اور انہیں علم منطق، علم مناظرہ اور جدید سائنسی حقائق کا علم بھی حاصل ہے۔ وہ مختلف نقطہ ہائے نظر کا تقابل اور تنقیدی تجزیہ کرنے کے بعد اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے بھی مقبول ہیں۔

ان کی تقاریر کے بعد بالعموم سوال و جواب کا ایک وقفہ ہوتا ہے جس میں وہ حاضرین کی جانب سے پوچھے جانے والے تند و تیز سوالات کے تشفی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وہ اب تک ایک ہزار کے لگ بھگ خطبات پیش کر چکے ہیں۔ اور اس دوران میں بے شمار مسلمان اور غیر مسلم خواتین و حضرات کے ذہنوں میں اسلام کے ھوالے سے موجود شبہات اور تحفظات دور کرنے کا سبب بنے ہیں۔ وہ نہ صرف خطبات اور تقاریر کی صورت میں بلکہ مباحثوں، مکالموں اور مناظروں کے ذریعے بھی اسلام کا دفاع اور ترجمانی کرتے ہیں۔ متعدد غیر مسلم علما کے ساتھ انہوں نے مناظرے کیے جن میں انہیں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔

اس مقصد کے لیے ڈاکٹر ذاکر نے نہ صرف ہندوستان میں تقاریر کیں بلکہ دنیا بھر کا سفر کر کے غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت اپنے دلنشیں پیرائے اور جدید اسلوب میں پہنچانے کی سعادت حاصل کی۔ وہ اب تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینڈا، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، زطر، بحرین، جنوبی افریقہ، ماریش، آسٹریلیا، ملیشیا، شنگاپور، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، گیانا اور متعدد دیگر ممالک میں عوامی اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نہ صرف یہ کہ خود اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے متعدد تربیتی پروگراموں کا بھی اہتمام کیا جن میں مسلمان نوجوانوں کو تربیت اور رہنمائی فراہم کی گئی تا کہ وہ اسلام کا پیغام اور دعوت لوگوں تک مؤثر طریقے سے پہنچانے کے قابل ہو سکیں۔ ان پروگراموں کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور بہت سے نوجوان یہاں سے تربیت حاصل کر کے اسلام کے داعی اور مبلغ بنے۔

ذاکر نائیک اس وقت ممبئی میں قائم تین تنظیموں کے سربراہ ہیں :

1 – Islamic Research Foundation
2 – IRF Educational Trust
3 – Islamic Dimentions

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دورِ حاضر میں اسلام کا پیغام مغربی دنیا تک انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں، جدید اسلوب میں اور انٹرنیٹ، سیٹلائیٹ چینلوں جیسے جدید اور مؤثر ذرائع کے ذریعے پہنچانا عالم اسلام کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اس شعبے میں ڈاکٹر ذکر نائیک کی خدمات لائق صد تبریک ہیں۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ دیگر علما بھی یہی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کریں گے۔

دار النوادر، لاہور نے اب تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کی درج ذیل کتب کے معیاری اور مستند ترجمے شائع کیے ہیں جن کو عوام الناس میں حد درجہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ الحمد للہ

1 – مذاہب عالم میں تصورِ خدا اور غیر مسلموں کے اسلام کے بارے میں 20 سوال
2 – قرآن اور سائنس
3 – اسلام میں خواتین کے حقوق
4 – اسلام دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ
5 – گوشت خوری – جائز یا ناجائز
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام اور عالمی بھائی چارہ​

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔​

يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَاُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّہِ اَتْقَاكُمْ اِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (سورۃ الحجرات (49)، آیۃ 13)

آج ہمارا موضوع ہے عالمی بھائی چارہ۔ بھائی چارے کی متعدد اقسام ہیں یعنی کئی طرح کا بھائی چارہ ممکن ہے۔ مثال کے طور پر :

- خاندان اور قرابت داری کی بنیاد پر بھائی چارہ
- علاقے اور وطن کی بنا پر بھائی چارہ
- ذات پات اور قوم یا قبیلے کی بنیاد پر بھائی چارہ
- اور عقاید کی بنیاد پر قائم بھائی چارہ

لیکن بھائی چارے کے متذکرہ بالا تمام تصورات محدود ہیں جب کہ اسلام لامحدود عالمی بھائی چارے کا تصور پیش کرتا ہے۔ میں نے گفتگو کا آغاز جس آیت سے کیا ہے، اس میں اسلام میں بھائی چارے کا تصور بہت واضح طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے :


يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَاُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّہِ اَتْقَاكُمْ اِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (سورۃ الحجرات (49)، آیۃ 13)

" اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔ "

اس آیت مبارکہ میں قرآن بنی نوع انسان سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم کو قبیلوں اور قوموں میں اس لیے تقسیم کیا گیا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو یعنی یہ تقسیم محض تعارف کے لیے ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا جائے۔ اللہ تعالٰی کے ہاں فضیلت اور برتری کا معیار جنس، ذات، رنگ و نسل اور مال و دولت نہیں ہے۔ معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے، پرہیزگاری، نیکوکاری اور حسن عمل ہے۔ جو شخص زیادہ متقی ہے، زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ تعالٰی سے زیادہ ڈرنے والا ہے وہی اللہ کے ہاں زیادہ عزت والا ہے اور اللہ تعالٰی ہر شے کے بارے میں پورا علم رکھتا ہے۔

قرآن مجید میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

وَمِنْ آيَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ۔ (سورۃ روم (30)، آیت 22)

" اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔

یہاں قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ رنگ، نسل اور زبانوں کا اختلاف اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ یہ کالے، گورے، لال ، پیلے لوگ سب اللہ تعالٰی کی نشانیاں ہیں۔ لہٰذا اس اختلاف کی بنیاد پر نفرت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ روئے زمین پر بولی جانے والی ہر زبان خوبصورت ہے۔ اگر آپ نےکوئی زبان پہلے نہیں سنی ہوئی یا آپ یہ زبان نہیں جانتے تو عین ممکن ہے کہ آپ کو وہ زبان مضحکہ خیز معلوم ہو۔ لیکن جو لوگ اس زبان کو بولنے والے ہیں، ان کے لیے شاید یہ دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہو۔ اسی لیے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ زبان اور رنگ و نسل کے یہ اختلاف محض تعارف اور پہچان کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً۔
(سورۃ اسرا (17) آیۃ 70)

"اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔"

یہاں اللہ تعالٰی یہ نہیں فرماتا کہ اللہ تعالٰی نے صرف عربوں کو عزت دی ہے یا صرف امریکیوں کو عزت دی ہے یا کسی خاص قوم کو عزت دی ہے بلکہ اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کو عزت دی ہے۔ رنگ، نسل، قوم، عقیدے اور جنس کے امتیاز کے بغیر ہر انسان کو عزت دی ہے۔ بہت سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نسلِ انسانی کا آغاز ایک ہی جوڑے سے ہوا ہے یعنی آدم و حوا علیہما السلام سے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت حوا علیہاالسلام کی گلطی اور گناہ کی وجہ سے پوری بنی نوع انسان گناہ گار ہو گئی ہے۔ وہ ہیوطِ آدم الیہ السلام کی ذمہ داری ایک عورت پر، یعنی حوا علیہا السلام پر ڈالتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے لیکن بلا استثنٰی ہر جگہ دونوں کو یکساں ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ آدم اور حوا علیہما السلام میں سے محض کسی ایک کو قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ اگر آپ قرآن مجید کی سورۃ اعراف کا مطالعہ کریں تو وہاں ارشاد ہوتا ہے :

وَيَا آدَمُ اسْكُنْ اَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ فَكُلاَ مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ھَ۔ذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔ فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَھُمَا مَا وُورِيَ عَنْھُمَا مِن سَوْءَاتِھِمَا وَقَالَ مَا نَھَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ھَ۔ذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلاَّ اَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ۔ وَقَاسَمَھُمَا اِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ۔ فَدَلاَّھُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْءَاتُھُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْھِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادَاحُمَا رَبُّھُمَا اَلَمْ اَنْھَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَۃِ وَاَقُل لَّكُمَا اِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنفُسَنَا وَاِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔ قَالَ اھْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ اِلَى حِينٍ۔ (سورۃ اعراف (7)، آیات 19 – 24)

" اور اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان کو بہکایا تا کہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا "تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ حاصل ہو جائے۔" اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں۔ اس طرح دھوکہ دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔ تب ان کے رب نے انہیں پکارا " کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟" دونوں بول اٹھے، " اے رب! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔" فرمایا، "اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مندرجہ بالا آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آدم اور حوا علیہما السلام دونوں سے غلطی ہوئی، دونوں معافی کے خواستگار ہوئے اور دونوں کو اللہ تعالٰی نے معاف فرمایا۔ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی اس غلطی کے لیے اکیلی حوا علیہا السلام کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا بلکہ ایک آیت تو ایسی ہے جس میں صرف آدم علیہ السلام کا ذکر ہے۔

۔۔۔۔۔ وَعَصَى آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَى ۔ (سورۃ طہ (20) آیایہ 121)

" اور آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ راست سے بھٹک گیا۔"

لیکن (جیسا کہ عرض کیا گیا) بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت حوا علیہا السلام نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی اور پوری انسانیت ان کی وجہ سے گنہگار ٹھہری۔ اسلام اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ بات کہ اللہ تعالٰی نے عورت سے ناراض ہو کر اس کو اولاد پیدا کرنے کی تکلیف میں مبتلا کیا، اس سے بھی اسلام قطعا اتفاق نہیں کرتا۔ اس طرح تو ماں بننے کا عمل ایک سزا اور عذاب ٹھہرتا ہے۔

سورۃ نساء میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

يَا اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (سورۃ نساء (4)، آیہ 1)

" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔"

اسلام کا موقف تو یہ ہے کہ ماں بننے کا عمل عورت کے مقام اور مرتبے میں اضافہ کرنے والا عمل ہے۔

سورۃ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے :

وَوَصَّيْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَيْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہُ وَھْنًا عَلَى وَاْنٍ وَفِصَالُہُ فِي عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ اِلَيَّ الْمَصِيرُ۔ (سورۃ لقمان (31)، آیہ 14)

" اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اسے نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔"

اسی طرح سورۃ احقاف میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :

وَوَصَّيْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہُ كُرْھًا وَوَضَعَتْہُ كُرْھًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَھْرًا ط (سورۃ احقاف (46)، آیہ 15)۔

"اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔"

حمل، عورت کو مزید محترم اور مکرم کرتا ہے۔ یہ کوئی سزا نہیں۔

اسلام عورت اور مرد کو برابر اور مساوی قرار دیتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب الاداب میں ایک حدیث ہے، جس کا مفہوم ہے :

"ایک شخص جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ وسلم! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تیری ماں کا۔" اس شخص نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیری ماں۔" اس نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیری ماں۔" اس شخص نے چوتھی مرتبہ پوچھا کہ اس کے بعد کون؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا: "تمہارا باپ۔"

گویا مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اولاد پر تین چوتھائی یا پچھتر فی صد حق ماں کا بنتا ہے اور ایک چوتھائی یا پچیس فی صد باپ کا۔ اسے گولڈ میڈل بھی ملتا ہے، سلور میڈل بھی اور برونز میڈل بھی جب کہ باپ کو صرف حوصلہ افزائی کا انعام ملتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات ہیں۔

اسلا م مرد اور عورت کو برابر قرار دیتا ہے لیکن برابری کا مطلب یکسانیت نہیں ہے۔ اسلام میں خواتین کے حقوق اور مقام کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ غیر مسلموں اور خود مسلمانوں میں پائی جانے والی یہ تمام غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں اگر اسلام کو قرآن اور صحیح احادیث کی مدد سے سمجھا جائے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا اسلام میں مجموعی طور پر مرد اور عورت برابر ہیں لیکن اس برابری کا مطلب یکسانیت نہیں ہے۔اس حوالے سے میں ایک مثال پیش کیا کرتا ہوں۔

فرض کیجیے ایک ہی جماعت میں دو طالب علم ہیں "الف" اور "ب"۔ یہ دونوں طالب علم ایک امتحان میں اول آئے ہیں کیونکہ دونوں نے سو میں سے اسی نمبر حاصل کیے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان کے پرچوں کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال یہ کہ پرچے میں دس سوال ہیں اور ہر سوال کے دس نمبر ہیں۔ پہلے سوال میں طالب علم " الف " نے دس میں سے نو نمبر لیے ہیں اور طالب علم "ب" نے دس میں سے سات نمبر لیے ہیں۔ لہٰذا پہلے سوال کی حد تک طالب علم "الف" کو ایک درجہ برتری حاصل ہے۔ دوسرے میں "ب" نے نو اور "الف" نے سات نمبر لیے ہیں لہٰذا دوسرے سوال میں برتری طالب علم "ب" کو حاصل ہے۔ باقی آٹھ سوالوں میں دونوں طالب علموں نے آٹھ آٹھ نمبر حاصل کیے ہیں۔ مجموعی طور پر دونوں طالب علموں کے نمبر 80، 80 ہیں۔

اس تجزیے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر تو دونوں طالب علم برابر ہیں لیکن کسی سوال میں "الف" کو برتری حاصل ہے اور کسی میں "ب" کو۔ اسی طرح اسلام میں عورت اور مرد کو مجموعی طور پر مساوی درجہ دیا گیا ہے لیکن کسی جگہ عورت کا درجہ زیادہ ہے تو کہیں مرد کو فضیلت حاصل ہے۔ اسلام میں بھائی چارے سے مراد یہ نہیں ہے کہ صرف مرد ہی آپس میں برابر ہیں۔ اس بھائی چارے میں خواتین بھی شامل ہیں۔ عالمی بھائی چارے سے یہی مراد ہے کہ رنگ، نسل، زبان اور عقیدے کے علاوہ جنس کی بنیاد پر بھی انسانوں کے درمیان کوئی فرق روا رکھنا جائز نہیں۔ سب برابر ہیں البتہ جزوی فرق ضرور موجود ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے میرے گھر میں ایک ڈاکو آ جاتا ہے۔ اب میں کواتین کے حقوق اور آزادی پر پورا یقین رکھتا ہوں اور دونوں جنسوں کو بالکل برابر سمجھتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں یہ نہیں کہوں گا کہ میری بیوی یا بہن یا ماں جائیں اور ڈاکو کا مقابلہ کریں، کیونکہ اللہ تعالٰی سورۃ نساءِ میں فرماتا ہے :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ط (سورۃ نساء (4) آیہ 34)۔
"مرد عورتوں پر قوام ہیں۔"

چوں کہ مرد کو جسمانی قوت زیادہ عطا کی گئی ہے لہٰذا اس ھوالے سے اسے ایک درجہ برتری حاصل ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ خواتین کی حفاظت کرے۔ گویا قوتِ جسمانی ایک ایسا پہلو ہے جس کے حوالے سے مرد کو برتری حاصل ہے جب کہ اولاد پر حق کے حوالے سے عورت کو برتری حاصل ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اولاد پر ماں کا حق تین گنا زیادہ ہے۔ اگر آپ اس حوالے سے مزیدمعلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میری کتاب "اسلام میں خواتین کے حقوق ۔۔۔۔ جدید یا فرسودہ؟" کا مطالعہ کریں۔

اس کتاب میں، میں نے خواتین کے حقوق کو چھ اقسام یا درجات میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ میری تقریر پر مشتمل ہے جس میں اسلام میں خواتین کے روحانی حقوق، معاشی حقوق، قانونی حقوق، تعلیمی حقوق، سماجی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ سوال و جواب پر مشتمل ہے، جس میں اسلام میں خواتین کے مقام اور ان کے حقوق کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اسلام میں اللہ تعالٰی کا تصور یہ نہیں ہے کہ وہ کسی خاص قوم یا خاص نسل کا خدا ہے۔ قرآن مجید کی پہلی سورۃ میں ارشاد ہوتا ہے :

الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ۔ (سورۃ 1، آیات 1 – 3)

"تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔"

اور آخری سورۃ میں بتایا جاتا ہے :

قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ (سورۃ 114 آیہ 1)

"کہو میں پناہ مانگتا ہوں (تمام) انسانوں کے رب کی۔"

اسی طرح سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے :

يَا اَيُّھَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الاَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ اِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ (سورۃ 2، آیہ 168)

"لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"

اسلام اس دنیا میں حقیقی عالمی بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے ایک مکمل نظامِ اخلاقیات بھی دیتا ہے۔ اسلام ایک ایسا اخلاقی قانون فراہم کرتا ہے، جس کی مدد سے پوری دنیا میں بھائی چارے پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہو جاتا ہے۔

سورۃ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ اَحْيَاھَا فَكَاَنَّمَا اَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ط (سورۃ 5، آیہ 32)

"جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔"

یہاں قرآن کہتا ہے کہ اگر کوئی کسی انسان کو قتل کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ انسان مسلمان تھا یا غیر مسلم، تو یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنا۔ یہاں نہ مذہب اور عقیدے کی تخصیص کی گئی ہے نہ رنگ و نسل اور جنس کی۔ کسی بھی بے قصور انسان کو قتل کرنا ایسا ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنا۔ دوسری طرف اگر کوئی کسی انسان کی جان بچاتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو بچا لیا جائے۔ یہاں بھی کوئی تخصیص نہیں کی گئی کہ بچایا جانے والا انسان کس مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہو؟

اسلام اس مقصد کے لیے متعدد اخلاقی قوانین وضع کرتا ہے تاکہ عالمی بھائی چارہ دنیا کے ہر حصے میں جاری و ساری ہو سکے۔ قرآن مجید ہر صاحب نصاب کو زکوٰاۃ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی ہر قمری سال میں 2٫5 فی صد کے حساب سے مستحقین میں تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے۔

آج اگر پوری دنیا میں ہر شخص زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دے تو دنیا سے غربت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ دنیا میں کوئی شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔ قرآن ہمیں اپنے پڑوسیوں کے کام آنے کا بھی حکم دیتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ۔ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ۔ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ۔ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ يُرَاؤُونَ۔ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ۔ (سورۃ الماعون (107)، آیات ۱ – 7)

"تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔"

اسی طرح ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے :

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص مسلمان نہیں جس کا ہمسایہ بھوکا ہو اور وہ خود پیٹ بھر کر سو جائے۔"

ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل نہیں کر رہا۔ قرآن فضول خرچی سے بھی روکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّہُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ اِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّہِ كَفُورًا۔ (سورۃ اسرا (17)، آیات 26، 27)

"رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔"

اگر آپ اسراف کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یقیناً آپ بھائی چارے کی فضا خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کیوں کہ جب ایک شخص فضول خرچی اور ریاکاری کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ناپسندیدگی اور نفرت کے جذبات کو فروغ ملتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو بھی دوسرے کا حق نہیں مارنا چاہیے بلکہ ایک دوسرے کی امداد کرنی چاہیے۔ اپنے پڑوسیوں کے کام آنا چاہیے۔ یہ تمام اخلاقی اصول ہیں جن کا ذکر قرآن عظیم میں موجود ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسی طرح قرآن رشوت سے بھی سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے :

وَلاَ تَاْكُلُواْ اَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِھَا اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ (سورۃ 2، آیہ 188 )

"اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔"

گویا اس بات سے منع کیا جا رہا ہے کہ رشوت کے ذریعے دوسروں کا مال ہتھیانے کی کوشش کی جائے۔ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی شخص اپنے بھائی کی جائداد یا مال کو ہتھیانے کی کوشش کرے۔

اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (سورۃ المائدہ (5)، آیہ 90)

"اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔"

اس آیت مبارکہ میں قرآن پاک ہمیں تمام نشہ آور اشیا یعنی شراب وغیرہ اور جوئے، قمار بازی سے اور اسی طرح ضعیف الاعتقادی کے مختلف شرکیہ مظاہر سے روک رہا ہے۔ کیوں کہ یہ سب شیطانے افعال ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ معاشرے میں موجود بہت سی برائیوں کا بنیادی سبب منشیات کا استعمال ہے۔ اور نتیجتاً، یہ اُس مثالی بھائی چارے کی فضا کو بھی مکدر کرنے کا سبب بنتا ہے جو ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی معاشرے کا مقصود ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں اوسطاً روزانہ تقریباً ایک ہزار نو سو جنسی زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں اور بیش تر صورتوں میں زیادتی کرنے والے یا زیادتی کا شکار ہونے والے نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔

اسی طرح شماریاتی اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں (Incest) کے واقعات کی شرح آٹھ فیصد ہے یعنی ہر بارھواں یا تیرھواں فرد محرمات کے ساتھ زنا میں ملوث ہے۔

اور محرمات کے ساتھ زنا کے تقریباً تمام واقعات نشے کی حالت میں ہی ہوتے ہیں۔

ایڈز جیسی بیماریوں کے دنیا میں اس قدر تیزی سے پھیلنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ منشیات بھی ہیں۔ اسی لیے قرآن جوئے اور منشیات کی شیطانی اعمال قرار دیتا ہے۔ کامیابی اور فوز و فلاح کے حصول کے لیے ان شیطانی افعال سے اجتناب ضروری ہے۔ اگر آپ واقعی ان اعمال سے منتنب رہتے ہیں تو دنیا بھر میں حقیقی بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہوتا ہے :

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى اِنَّاُ كَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِيلاً۔ (سورۃ اسرا (17)، آیہ 32)

"زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔"

گویا اسلام بدکرداری سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔

سورۃ حجرات میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى اَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى اَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا اَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَاُوْلَئِكَ ھُمُ الظَّالِمُونَ۔ يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَن يَاْكُلَ لَحْمَ اَخِيہِ مَيْتًا فَكَرِھْتُمُوُ وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ۔ (سورۃ 49، آیات 11، 12)

اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔ اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

اس قرآنی ارشاد کے مطابق کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا یا غیبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا اور اس کام کی کراہت اس مثال سے واضح ہو جاتی ہے۔ انسانی گوشت کھانا ہی حرام ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت ۔۔۔۔ گویا حرمت دگنی ہو جاتی ہے۔ آدم خور لوگ جو انسانی گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں وہ بھی اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اگر آپ کسی کی غیبت کرتے ہیں تو یہ دہرا گناہ ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ تو کیا آپ یہ پسند کریں گے؟ قرآن خود جواب دیتا ہے، کہ نہیں تم یہ پسند نہین کرو گے۔ کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے :

وَيْلٌ لِّكُلِّ ھُمَزَہٍ لُّمَزَہٍ۔ (سورۃ ھُمزۃ (104)، آیہ 1)

"تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن کرنے اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خُوگر ہے۔"

قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں دیے گئے یہ تمام اخلاقی اصول، حقیقی بھائی چارے کو فروغ دینے والے اور مستحکم کرنے والے ہیں۔ اسلام کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ محض بھائی چارے کا ذکر نہیں کرتا بلکہ بھائی چارے کے عملی مظاہرے کے لیے بھی مطلوبہ اقدامات پر زور دیتا ہے۔

مسلمان اس بھائی چارے کا ایک عملی مظاہرہ دن میں پانچ مرتبہ نماز با جماعت کی ادائیگی کے دوران کرتے ہیں۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث کا مفہوم ہے :

"حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔"

سنن ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے :

"حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفیں سیدھی کر لیا کرو، کندھے سے کندھا ملا لیا کرو اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑا کرو۔"

مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کے دوران ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہوا کرو اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑا کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں اس شیطان کا ذکر نہیں کر رہے جسے آپ لوگ ٹی وی پر دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ اور ایک دُم ہوتی ہے۔ یہاں شیطان سے مراد اس قسم کی کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ یہاں مراد نسل پرستی کا شیطان ہے، علاقائی تعصب کا شیطان ہے، رنگ و ذات پات اور زبان کے تعصت کا شیطان ہے جسے اپنی صفوں میں جگہ دینے سے یہاں روکا جا رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بین الاقوامی بھائی چارے کی ایک بڑی مثال " حج " ہے۔ دنیا بھر سے تقریباً پچیس لاکھ افراد فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے کونے کونے سے وہاں آتے ہیں، امریکہ سے، کینیڈا سے، برطانیہ سے، سنگاپور، ملیشیا، ہندوستان، پاکستان، انڈونیشیا غرض کہ دنیا بھر سے مسلمان حج کے لیے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں۔

اس موقع پر تمام مرد دو ایک جیسی اَن سلی سفید چادروں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ اس موقع پر آپ اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کے بارے میں یہ فیسلہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی کیا حیثیت ہے۔ وہ بادشاہ ہوں یا فقیر ان کا حلیہ ایک سا ہو گا۔ بین الاقوامی بھائی چارے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟ حج دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع ہے۔ کم از کم پچیس لاکھ افراد وہاں جمع ہوتے ہیں۔ آپ بادشاہ ہوں یا فقیر، غریب ہوں یا امیر، گورے ہوں یا کالے، شرقی ہوں یا غربی، آپ ایک ہی لباس میں ملبوس ہوں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں اعلان فرما دیا کہ تمام انسان ایک ہی رب کی مخلوق ہیں۔ لہٰذا :

"کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ کوئی گورا کالے سے یا کالا گورے سے افضل نہیں ہے۔ برتری کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ ہے۔"

صرف تقویٰ ، پرہیزگاری، نیکی اور خوفِ خدا اللہ تعالٰی کے ہاں فضیلت کا معیار ہیں۔ آپ کی قوم، آپ کا رنگ آپ کو کوئی برتری نہیں دلاتے۔ اللہ تعالٰی کے ہاں سب انسان برابر ہیں۔

ہاں اگر آپ اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہیں، زیادہ پرہیزگار ہیں، زیادہ متقی ہیں تو پھر اللہ تعالٰی کے نظر میں آپ کے افضل ہونے کا امکان ہے۔

حج کے موقع پر تمام حاجی مسلسل یہی الفاظ دہراتے ہیں :

(( لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ۔۔۔۔۔۔))
"ترجمہ : حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضرہوں۔ نہیں کوئی معبود ۔۔۔۔۔۔ "

پورے حج کے دوران وہ مسلسل یہ الفاظ دہراتے رہتے ہیں تا کہ یہ ان کے ذہن میں راسخ ہو جائیں یہاں تک کہ جب وہ واپس آتے ہیں تو پھر بھی یہ الفاظ ان کے ذہن میں رہتے ہیں۔

اسلامی عقیدے کا بنیادی ستون یہی ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی ہی اس کائنات کا واحد بلا شرکت غیرے خالق اور مالک ہے۔ صرف وہی ہے جس کی عبادت کی جانی چاہیے۔ اگر آپ غور کریں تو ایک اور صرف ایک خدا پر ایمان کی صورت میں ہی عالمی بھائی چارے کا قیام ممکن ہے۔

ایک ہی خدا پوری انسانیت کا خالق ہے۔ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ آپ امیر ہوں یا غریب، کالے ہوں یا گورے، مرد ہوں یا عورت، آپ کا تعلق کسی عقیدے سے ہو، کسی ذات سے ہو، کسی ملک یا علاقے سے ہو، آپ سب برابر ہیں کیوں کہ آپ سب ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں۔ آپ سب کو خدائے واھد ہی نے پیدا کیا ہے۔ اگر آپ ایک رب پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کے درمیان حقیقی بھائی چارہ قائم ہونا ممکن ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر بڑے مذاہب میں ایک اعلٰی سطح پر خدائے واحد کا تصور پایا جاتا ہے۔

آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری میں مذہب کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے :

“Belief in a super human controlling power, a God or gods that deserve worship & obedience.”

اس تعریف کی روشنی میں اگر آپ کسی مذہب کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب میں خدا کے تصور کو سمجھا جائے۔ اور کسی مذہب کے تصور خدا کو، اس مذہب کے ماننے والوں کے اعمال و افعال کو سامنے رکھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ کسی مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہوں اور ان پر عمل بھی کر رہے ہوں۔ لہٰذا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس مذہب کے متونِ مقدسہ کا جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ ان میں خدا کا کیا تصور پیش کیا گیا ہے۔

قرآن مجید سورۃ آلِ عمران میں ہمیں بتاتا ہے :

قُلْ يَا اَھْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ اِلَى كَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِكَ بِہِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ فَاِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْھَدُواْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۔ (سورۃ 3، آیہ 64)

" اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، کہو! اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم (خدا کی اطاعت و بندگی کرنے والے) ہیں۔"

جیسا کہ عرض کیا گیا کسی مذہب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب میں خدا کے تصور کو سمجھ لیا جائے۔ اگر کسی مذہب کا تصور خدا آپ کی سمجھ میں آ گیا تو گویا آپ نے اس مذہب کو سمجھ لیا۔

آئیے سب سے پہلے ہندو مت کے تصور خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگرآپ ایک عام ہندو سے، جو عالم نہیں ہے، یہ پوچھیں گے کہ وہ کتنے خداؤں کی عبادت کرتا ہے تو اس کا جواب مختلف ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کہے "تین" یا کہے کہ "ایک سو" یا "ایک ہزار"۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا جواب ہو 33 کروڑ۔ لیکن اگر آپ ایک پڑھے لکھے عالم ہندو سے یہی سوال پوچھیں تو اس کا جواب ہو گا۔ حقیقتا ہندوؤں کو ایک اور صرف ایک خدا ہی کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر ایمان رکھنا چاہیے۔ عام ہندو "حلول" کے عقیدے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہر چیز ہی خدا ہے، درخت خدا ہے، سورج خدا ہے، چاند خدا ہے، بندر خدا ہے، سانپ خدا ہے اور خود انسان بھی خدا ہے۔ "ہر چیز خدا ہے۔"

جب کہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ "ہرچیز خدا کی ہے۔" یعنی ہم اس جملے میں صرف ایک لفظ "کی" کا اضافہ کرتے ہیں۔ "ہر چیز خدا کی ہے۔" سارا فرق اسی ایک لفظ "کی" کا ہے۔ ہندو کہتا ہے "ہر چیز خدا ہے۔" مسلمان کہتا ہے "ہر چیز خدا کی ہے۔" اگر اس ایک لفظ کا مسئلہ حل کر لیا جائے تو ہندو اور مسلمان متفق ہو سکتے ہیں۔ ان کے اختلافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

یہ کس طرح ہو گا؟ قرآن اس کا طریقہ بتاتا ہے کہ جو امور ہمارے درمیان مشترک ہیں ان پر اتفاقِ رائے کر لیا جائے۔ اور ان میں سے پہلا امر کیا ہے؟ یہ کہ ہم خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوؤں کے متون مقدسہ میں سے سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اور سب سے مقبولِ عام "بھگود گیتا" ہے۔ اگر آپ بھگود گیتا کا مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو یہ بیان بھی ملے گا :

"اور وہ لوگ جن کی عقل و فہم مادی خواہشات سلب کر چکی ہیں، وہ جھوٹے خداؤں کی عبادت کرتے ہیں۔ ایک حقیقی خدا کے علاوہ۔" (13/7)

اسی طرح اگر آپ اپنشد کا مطالعہ کریں تو آپ چندوگیہ اپنشد میں لکھا ہوا پائیں گے کہ :

"خدا ایک ہی ہہے۔ دوسرا کوئی نہیں۔" (جلد اول، حصہ دوم، باب 6)

"اس ایک کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور وہ کسی سے پیدا بھی نہیں ہوا۔" (سویتا سوترا اپنشد)

"اس جیسا کوئی بھی نہیں۔" (سویتا سوترا اپنشد)

اسی طرح ہندو مت کے متونِ مقدسہ میں سے مقدس ترین ویدوں کو تصور کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر چار وید ہیں :

(1) رگ وید
(2) یجر وید
(3) سام وید
(4)اتھر وید

اگر آپ ان ویدوں کا مطالعہ کریں تو ان میں آپ کو اس قسم کے بیانات ملیں گے :

"اس کا کوئی عکس نہیں ہے۔" (یجر وید)
"وہ جسمانیت سے پاک اور خالص ہے۔" (یجر وید)

اور یجر وید کی اگلی ہی سطر میں یہ بیان بھی موجود ہے :

"جو لوگ اسمبھوتی کی پوجا کرتے ہیں وہ اندھیرے میں داخل ہو رہے ہیں۔" (یجر وید)

"اسمبھوتی" سے مراد قدرتی مظاہر مثلاً آگ، پانی اور ہوا وغیرہ ہیں۔ آگے مزید یہ کہا جاتا ہے :

"اور جو لوگ اسمبھوتیکی پوجا کرتےہیں وہ اس سے زیادہ اندھیرے میں داخل ہو رہے ہیں۔" (یجر وید)

اسمبھوتی سے مراد ہے انسانی کی بنائی ہوئی چیزیں مثلاً میز، کرسیاں وغیرہ۔ انسان کے بنائے ہوئے بُت بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اگر آپ اتھروید کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی آپ کو اس قسم کے بیانات ملیں گے :

"اور بلا شبہ عظمت خدائے عظیم ہی کے لیے ہے۔" (اتھروید)

ویدوں میں سے مقدس ترین "رگ وید" کو سمجھا جاتا ہے۔

"سادھو اور نیک لوگ خدائے عظیم کو کئی ناموں سے پکارتے ہیں۔" (رگ وید)

رگ وید میں خدائے عظیم کی کئی صفات بیان کی گئی ہیں اور اس کے لیے کئی نام استعمال کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک "برھما" ہے۔

اگر آپ برھما کا انگریزی ترجمہ کریں تو وہ ہو گا، Creator ….

اور اگر آپ برھما کا عربی ترجمہ کریں تو وہ ہو گا، ۔۔۔۔۔ خالق

ہم مسلمانوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ کوئی خدائے عظیم کو خالق کہہ کر پکارتا ہے یا Creator کہہ کر یا برھما کہہ کر۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ برھما وہ خدا ہے جس کے چار سر ہیں اور ہر سر پر ایک تاج ہے، تو ہم مسلمان اس بات پر شدید اعتراض کریں گے۔ مزید برآں یہ بات سویتا سوترا اپنشد کے بھی خلاف جائے گی جس میں کہا گیا ہے :

"کوئی اس سے مشابہ نہیں ہے۔"

لیکن آپ برھما کو ایک معین شبیہ دے رہے ہیں۔

اسی طرح رگ وید میں خدا کو وشنو کہہ کر بھی پکارا گیا ہے۔ یہ بھی ایک خوبصورت نام ہے جس کا انگریزی ترجمہ The Sustainer ہو گا۔ عربی میں اس لفظ کا ترجمہ ہو گا "رب"۔

ہم مسلمانوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ خدائے واحد کو رب یا Sustainer یا وشنو کہہ کر پکارا جائے۔ لیکن اس وقت یقیناً ہمیں شدید اعتراض ہو گا جب کہا جائے کہ وشنو وہ خدا ہے جس کے چار ہاتھ ہیں۔ اس کے ایک ہاتھ میں "چکر" ہے، ایک ہاتھ میں کنول کا پھول ہے۔ اس قسم کے بیانات سے ہم قطعا اتفاق نہیں کریں گے۔

مزید برآں یہ بات کرنے والے ویدوں کے اس ارشاد کی بھی مخالفت کریں گے کہ "اس کا کوئی عکس نہیں ہے۔" کیوں کہ اس طرح وہ خدا کا عکس ایک معین شبیہ کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ رگ وید میں یہ بھی کہا گیا ہے :

"جملے تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہی پوجہ کے لائق ہے۔" (رگ وید)

"بھگوان ایک ہی ہے، دوسرا نہیں ہے، نہیں ہے، نہیں ہے، ذرا بھی نہیں ہے۔" (رگ وید)

گویا خود ہندو مت کے متونِ مقدسہ پڑھ کر ہی ہندو مذہب کے حقیقی عقاید کو سمجھا جا سکتا ہے اور یوں ہندومت کے تصورِ خدا کی تفہیم ممکن ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب ہم آتے ہیں یہودیت کے تصورِ خدا کی جانب۔ اگر آپ عہد نامہ عتیق کا مطالعہ کریں تو اس میں آپ کو مندرجہ ذیل آیات ملیں گی۔

"قدوس، قدوس، قدوس رب الافواج ہے۔ ساری زمین اس کے جلال سے معمور ہے۔" (یسعیاہ: 4/6)

" میں ہی یہوداہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔" (یسعیاہ: 11/43)

"میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں۔ میرے سوا کوئی خدا نہیں۔" (یسعیاہ: 5/45)

"یاد کرو کہ میں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں، میں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔" (یسعیاہ: 9/46)

میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین میں یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تو اس کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عباد کرنا کیوں کہ میں خداوند تیرا خدا، غیور خدا ہوں۔ (خروج: 5-7/20)

یوں عہد نامہ قدیم کا مطالعہ کر کے آپ یہودیت میں خدا کا تصور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

لہٰذا ہم یہ دیکھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہودیت کے تصور خدا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے پرانے عہد نامے سے ہی سمجھا جائے۔ مسیحیت کے تصورِ خدا پر بات کرنے سے قبل میں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ خود عیسائیت کے علاوہ، اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا بنیادی عقاید میں شامل ہے۔ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی تسلیم نہ کرے۔ ہم انہیں مسیح السلام سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی پیدائش معجزاتی طور پر ہوئی تھی۔ وہ بغیر کسی باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ آج کل کے بہت سے عیسائی یہ بات تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں معجزات عطا فرمائے تھے۔ وہ اللہ کے حکم سے کوڑھیوں کو ٹھیک کر دیتے تھے۔ اندھوں کی بینائی لوٹا دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔ یہاں تک تو ہم اور عیسائی مترق ہیں لیکن کچھ عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدائی میں شریک ہونے کا یا الوہیت کا دعویٰ کیا تھا۔

حالانکہ اگر آپ انجیل کا مطالعہ کریں تو پوری انجیل میں کہیں بھی آپ کو کوئی ایسا بیان نہیں ملے گا جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الوہیت کا دعویٰ کیا ہو یا یہ کہا ہو کہ میری عبادت کرو۔

انجیل میں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قسم کے ارشادات ملتے ہیں :

"اگر تم مجھ سے محبت رکھتے تو اس بات سے خوش ہوتے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں کیونکہ باپ مجھ سے بڑا ہے۔" (یوحنا 14:28 )

"میرا باپ سب سے بڑا ہے۔" (یوحنا 10:29)

"میں خدا کی روح کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہوں۔" (متی 28:12)

"میں بد روحوں کو خدا کی قدرت سے نکالتا ہوں۔" (لوقا 11:20)

"میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا، جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیوں کہ میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی سے چاہتا ہوں۔" (یوحنا 5:30)

اگر کوئی یہ کہے کہ میں اپنی مرضی نہیں چاہتا بلکہ خدا کی مرضی چاہتا ہوں تو یہ درحقیقت "اپنی مرضی کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا ہے۔" اور اگر اس کا عربی ترجمہ ایک لفظ میں کیا جائے تو وہ لفظ ہو گا "اسلام"۔ وہ شخص جو اپنی مرضی اور خواہش کو اللہ تبارک و تعالٰی کی رضا کے تابع کر دیتا ہے، مسلمان کہلاتا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے انبیائے کرام کی شریعتیں ختم کرنے کے لیے تشریف نہیں لائے تھے بلکہ درحقیقت وہ ان کی تصدیق کے لیے آئے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود فرماتے ہیں :

"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں، ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے، پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا، وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ کیوں کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راست بازی فقیہوں اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہو گے۔" (متی 20، 5:17)

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خود خدا ہیں بلکہ ہمیشہ یہی فرماتے رہے کہ خدا نے انہیں بھیجا ہے۔ یوحنا کی انجیل میں آتا ہے :

" اور جو کلام تم سنتے ہو وہ میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔" (یوحنا 14:24)

"اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے مانیں۔" (یوحنا 17:3)

" اے اسرائیلیو! یہ باتیں شنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر ان معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت تم میں دکھائے، چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو۔" (اعمال 2:22)

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ پہلا حکم کیا ہے، تو انہوں نے وہی جواب دیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیا تھا :

"اے اسرائیل سن! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔" (مرقس 12:29)

آپ نے دیکھا کہ عیسائیت میں تصورِ خدا کو سمجھنے کے لیے انجیل کا مطالعہ کس قدر ضروری ہے۔ گویا انجیل کا مطالعہ کیے بغیر عیسائیت کے تصورِ خدا کو سمجھنا ممکن نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب ہم اسلام کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسلام میں خدا کا تصور کیا ہے؟ اسلام کے تصورِ خدا کے بارے میں کئی سوالات کا بہترین جواب قرآن مجید کی سورۃ اخلاص میں موجود ہے :

قُلْ ھُوَ اللَّہُ اَحَدٌ۔ اللَّہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔ وَلَمْ يَكُن لَّہُ كُفُوًا اَحَدٌ۔

" کہو وہ اللہ ہے، یکتا۔
اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔

نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہم سر نہیں ہے۔"

یہ سورۃ اسلام میں خدا کا تصور، اللہ تعالٰی کا تصور چار سطروں میں پیش کر دیتی ہے۔ اب جو کوئی بھی خدائی کا دعویٰ کرے اس کو ان چار سطروں میں موجود معیار پر پورا اترنا ہو گا۔ اگر وہ ان شرائط پر پورا اُترتا ہے تو پھر ہم مسلمان اسے خدا تسلیم کر سکتے ہیں۔

پہلی شرط :
قُلْ ھُوَ اللَّہُ اَحَدٌ۔ کہو کہ وہ اللہ ہے، یکتا ہے۔

دوسری شرط :
اللَّہُ الصَّمَدُ۔ وہ بے نیاز ہے۔

تیسری شرط ہے :
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔

چوتھی شرط یہ ہے :
وَلَمْ يَكُن لَّہُ كُفُوًا اَحَدٌ۔ کوئی اس جیسا نہیں، اس کا ہم سر نہیں۔

سورۃ اخلاص الٰہیات کی کسوٹی ہے۔ خدا کے بارے میں یا خدا سے متعلق علم کو الٰہیات (Theology) کہتے ہیں اور سورۃ اخلاص قرآن مجید کی ایک سو بارہویں سورۃ درحقیقت الٰہیات کی کسوٹی ہے کیونکہ خدائی کے کسی بھی دعویدار کا دعویٰ اس سورۃ کی روشنی میں پرکھا جا سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی دعوے کو اس چار سطری تعریف پر پورا اُترنا ہو گا۔ اگر کوکئی اس تعریف پر پورا اُترتا ہے تو ہم اسے خدا تسلیم کر لیں گے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی وضاحت کر چکے ہیں، حقیقی عالمی بھائی چارے کے قیام کے لیے لازم ہے کہ سب ایک ہی خدائے واحد پر ایمان رکھیں۔ لہٰذا اگر خدائی کا کوئی اُمیدوار اس چار سطری تعریف پر پورا اُترتا ہے تو ہمیں اس کا دعویٰ تسلیم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ خدائی کے جھوٹے دعوے کرتے رہے یہں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا ایسے لوگ اس امتحان پر پورے اُتر سکتے ہیں؟

ایسے لوگوں میں سے ایک شخص گرو رجنیش تھا۔ آپ کو علم ہے کہ بعض لوگ رجنیش کو خدا مانتے ہیں۔ میری ایک تقریر کے بعد سوال و جواب کے وقفے کے دوران میں ایک ہندو دوست نے کہا کہ "ہم بھگوان رجنیش کو خدا نہیں مانتے۔" میں نے اسے بتایا کہ مجھے بھی اس بات سے اتفاق ہے۔ میں ہندومت کے متون مقدسہ کا مطالعہ کر چکا ہوں۔ ان میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ بھگوان رجنیش خدا ہے۔ میں نے جو بات کی تھی وہ یہ تھی کہ "بعض لوگ بھگوان رجنیش کو خدا مانتے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمام ہندوؤں کا یہ عقیدہ نہیں۔

بہرحال ہم ان لوگوں کے دعوے کا تجزیہ کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ بھگوان رجنیش خدا ہے۔ پہلی شرط، پہلا امتحان جس پر پورا اُترنا ہو گا وہ ہے :

قُلْ ھُوَ اللَّہُ اَحَدٌ۔ کہو کہ وہ اللہ ہے، یکتا ہے۔

کیا بھگوان رجنیش ایک اور یکتا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ اس جیسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ سو وہ یکتا کیسے ہوا؟

لیکن اس کے پیروکار اصرار کریں گے کہ وہ ایک ہی تھا لہٰذا ہم اگلی شرط کی طرف بڑھتے ہیں۔ دوسری شرط ہے :

اللَّہُ الصَّمَدُ۔ وہ بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔

کیا رجنیش بے نیاز تھا؟ کیا وہ کسی کا محتاج نہیں تھا؟ اس کی سوانح پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ دمے کا مریض تھا۔ شدید کمر درد کا شکار رہتا تھا اور ذیابطیس کا بھی مریض تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جب امریکہ میں اسے گرفتار کیا گیا تھا تو دورانِ گرفتاری اسے زہر بھی دیا گیا۔ ذرا اندازہ لگائیے یہ اچھی بے نیازی ہے کہ خدا کو زہر دیا جا رہا ہے۔

تیسرا امتحان جس پر اسے پورا اُترنا ہو گا، یہ ہے :

تیسری شرط ہے :
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔

لیکن رجنیش کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ مدھیہ پردیش میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بھی تھا۔ اس کی ماں بھی تھی۔ اس کے والدین بعد میں اس کے پیروکار بن گئے تھے۔ 1981ء میں وہ امریکہ گیا اور ہزارہا امریکیوں کو اپنا معتقد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بالآخر اس نے امریکہ میں اپنا ایک پورا گاؤں بسا لیا جس کا نام رجنیش پورم تھا۔ بعد میں امریکہ کی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا اور 1985ء میں اسے امریکہ بدر کر دیا گیا۔

1985ء میں وہ ہندوستان پہنچا۔ یہاں اس نے پونا شہر میں اپنا ایک مرکز قائم کر لیا۔ یہ مرکز "اوشوکمیون" کہلاتا ہے۔ اگر آپ کو وہاں جانے کا اتفاق ہو تو وہاں لکھا ہوا رجنیش کا کتبہ ضرور پڑھیے۔ ایک پتھر پر یہ عبارت تحریر ہے :

"بھگوان رجنیش
اوشورجنیش، نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی مرا
البتہ اس نے 11 دسمبر 1931ء سے 19 جنوری 1995ء تک اس زمین کا ایک دورہ کیا۔"

اس تحریر میں وہ یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ 21 ممالک نے رجنیش کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ذرا اندازہ لگائیے، خود خدا دنیا کا دورہ کر رہا ہے اور اسے پاسپورٹ اور ویزوں کی ضرورت ہے۔

آخری امتحان یہ ہے کہ :

وَلَمْ يَكُن لَّہُ كُفُوًا اَحَدٌ۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔

یہ شرط بھی ایسی مشکل ہے کہ سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کوئی بھی اس پر پورا نہیں اُتر سکتا۔ اگر آپ خدا کا تقابل دنیا کی کسی بھی شے سے کر سکیں تو اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ خدا نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مثال کے طور پر فرض کیجیے کوئی شخص کہتا ہے کہ خدا آرنلڈ شوارزینگر سے ہزار گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ آرنلڈ کو تو آپ جانتے ہوں گے جسے دنیا کا سب سے طاقتور شخص سمجھا جاتا ہے۔ جسے مسٹر یونیورس کا خطاب دیا گیا ہے۔ تو اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ خدا آرنلڈ شوارزینگر سے یا کنگ کانگ سے یا دارا سنگھ سے یا کسی اور سے ایک ہزار گنا طاقت ور ہے یا دس لاکھ گنا طاقت ور ہے، تو وہ خدا کا تقابل مخلوق سے کر رہا ہے اور وہ جس کا تقابل ہو سکے، خدا نہیں ہو سکتا۔ چاہے لاکھوں گنا کا فرق ہو یا کروڑوں گنا کا، لیکن اگر تقابل ممکن ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خدا کا ذکر نہیں کر رہے۔ خدا کا تقابل اس دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں ہو سکتا۔

قرآن مجید جو میزان الٰہیات ہے اس بارے میں ہمیں بتاتا ہے :

قُلِ ادْعُواْ اللّہَ اَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَ۔نَ اَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنَى (سورۃ الاسرا (17)، آیایہ 110)

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔"

آپ اللہ سبحانہ و تعالٰی کو کسی بھی نام سے پکار سکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ یہ نام خوبصورت ہونا چاہیے اور اسے سن کر آپ کے ذہن میں کوئی تصویر نہیں بننی چاہیے۔ یعنی اس نام کے ساتھ کوئی شبیہ وابستہ نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کے لیے 99 اسمائے حسنہ استعمال ہوئے ہیں جیسے الرحمان، الرحیم۔

ہم مسلمان خدا کے لیے لفظ " اللہ " استعمال کرتے ہیں۔ خدا یا انگریزی کے لفظ God کے بجائے ہم کسی بھی زبان میں عربی کے لفظ " اللہ " کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی لفظ God کے ساتھ بہت سے دیگر الفاظ بھی وابستہ ہیں جن کی وجہ سے اس کے معانی میں بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اس لفظ کے آخر میں حرف “S” لگا دیں تو یہ جمع بن جائے گی “Gods” لیکن خدا کے لفظ کی جمع ممکن ہی نہیں اور اللہ لفظ کی کوئی جمع ہے بھی نہیں۔

اسی طرح اگر آپ God کے آخر میں “dess” لگا دیں تو یہ لفظ مؤنث بن جائے گا یعنی Goddessجس کے معنی ہوں گے مؤنث خدا۔ لیکن اللہ تعالٰی کے ساتھ جنس کا کوئی تصور وابستہ نہیں ہے۔ نہ مذکر اور نہ مؤنث۔ اس لحاظ سے بھی عربی لفظ اللہ بہتر ہے کیوں کہ اس لفظ کے ساتھ بھی کوئی تانیث وابستہ نہیں ہے۔ یہ ایک منفرد لفظ ہے۔

اگر آپ لفظ God کے ساتھ Father لگا دیں تو یہ Godfather بن جائے گا۔ آپ کہتے ہیں فلاں جو ہے وہ فلاں کا گاڈ فادر ہے یعنی سرپرست ہے۔ لیکن اللہ کے ساتھ کوئی ایسا لفظ نہیں لگ سکتا۔ Allah-Father یا " اللہ ابا " کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آپ God کے ساتھ Mother لگا دیں تو Godmother بن جائے گا لیکن دوسری طرف Allah-Mother یا " اللہ امی " کوئی لفظ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے بھی لفظ " اللہ " ایک منفرد لفظ ہے۔

یہی نہیں، اگر آپ لفظ God سے پہلے Tin لگا دیں تو یہ لفظ Tin-God بن جائے گا یعنی جھوٹا یا جعلی خدا۔ لیکن اسلام میں آپ کو اس قسم کا کوئی لفظ نہیں ملے گا۔ اللہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے ساتھ اس قسم کے سابقے اور لاحقے لگ ہی نہیں سکتے۔

مذکورہ اسباب کی بنا پر ہم مسلمان انگریزی لفظ God کے بجائے عربی لفظ اللہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ اگر کچھ مسلمان اس لیے اللہ کے بجائے God کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ جو غیر مسلم "اللہ" کے تصور کو نہیں سمجھتے وہ ان کی بات سمجھ سکیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اسلام میں ترجیح، بہتر لفظ یعنی اللہ کو ہی حاصل ہے، انگریزی لفظ God کو نہیں۔

اسلام میں حقیقی بھائی چارے کا تصور محض اُفقی نہیں عمودی بھی ہے۔ یعنی اسلام محض اتنا ہی نہیں کرتا کہ تمام علاقوں کے رہنے والے تمام انسانوں کے مابین بھائی چارے کا تصور دے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتا ہے۔ عمودی تصور سے مراد یہ ہے کہ ہم سے پہلے گزرنے والے لوگ اور بعد میں آنے والے لوگ بھی ہمارے بھائی ہیں۔

ماضی میں اس زمین پر رہنے والے لوگ اور ہم جو آج اس زمین پر زندہ ہیں درحقیقت ایک ہی قوم سے، ایک ہی اُمت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایمان کا تعلق ہے۔ یہ وہ بھائی چارہ ہے جو ایمان باللہ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح بھائی چارے کا ایک عمودی تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ ایمانی بھائی چارہ ہے جو زمانی بھی ہے اور مکانی بھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
دنیا کے تمام مذاہب میں کسی ایک خالق پر ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اگر آپ غور کریں تو حقیقی بھائی چارہ اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے اور دنیا بھر میں قائم رہ سکتا ہے جب تمام لوگ ایک ہی خدا پر ایمان رکھیں، ایک خالق اور ایک مالک پر ایمان رکھیں۔ اسی طرح بھائی چارے کا جو رشتہ وجود میں آئے گا وہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ مضبوط اور زیادہ اہم ہو گا۔

میں نے پہلے عرض کیا کہ اسلام ہمیں والدین کی فرماں برداری کا حکم دیتا ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

وَقَضَى رَبُّكَ اَلاَّ تَعْبُدُواْ اِلاَّ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ اَحَدُھُمَا اَوْ كِلاَھُمَا فَلاَ تَقُل لَّھُمَآ اُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً كَرِيمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔ (سورۃ الاسرہ (17)، آیات 23، 24)

"تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔ نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام سے بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ "پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔"

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں والدین کو عزت، احترام اور محبت دینا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن اس کے باوجود ایک چیز ایسی ہے جس میں والدین کا حکم بھی نہیں مانا جا سکتا۔ سورۃ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے :

وَاِن جَاھَدَاكَ عَلَى اَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيّ َ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (سورۃ 31، آیہ 15)

" اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھے طریقے سے ساتھ دینا، اور (عقیدہ و امورِ آخرت میں) اس شخص کی پیروی کرنا جس نے میری طرف توبہ و طاعت کا سلوک اختیار کیا۔ پھر میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کر دوں گا جو تم کرتے رہے تھے۔"

گویا والدین کی اطاعت جو کہ ایک لازمی امر ہے، ان کی اجازت بھی وہیں تک ہے جہاں تک وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اللہ تعالٰی کے احکامات ہی برتر ہیں اور جہاں دونوں احکام میں ٹکراؤ ہو وہاں آپ اللہ کا حکم ہی مانیں گے۔ اسی طرح ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر بننے والا بھائی چارہ ہی حقیقی بھائی چارہ ہے۔ ایمان کا رشتہ خون کے رشتے سے برتر ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے :

قُلْ اِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَھَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَيْكُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِھَادٍ فِي سَبِيلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَاْتِيَ اللّہُ بِاَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ يَھْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔ (سورۃ توبہ (9)، آیہ 24)۔

"(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔"

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالٰی دریافت کر رہا ہے کہ بتاؤ اور سوچو تمہاری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا تمہیں اپنے بیٹے عزیز ہیں؟ یا تمہیں اپنے والدین عزیز ہیں؟ یا تمہارے زوج؟ (زوج کا لفظ شوہر کے حق میں بیوی کے لیے اور بیوی کے حق میں شوہر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی لفظ Spouse کے معنوں میں) یا دیگر عزیز و اقارب؟

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے کہ کیا تمہاری ترجیح مال و دولت، کاروبار اور جائیداد ہے؟ کیا یہ تمام چیزیں تمہیں زیادہ پسند ہیں، اگر تم ان چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مقابلے میں زیادہ عزیز جانتے ہو تو پھر اللہ کے فیصلے یعنی اپنی سزا کا انتظار کرو۔

پتہ یہ چلا کہ اگر والدین کسی غلط کام کا حکم دیں جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو تو اس کام کا کرنا جائز نہیں۔ والدین یا اولاد یا بیوی یا دیگر کسی رشتہ دار کی مھبت میں چوری کرنا، بے ایمانی کرنا، رشوت لینا، کسی کے ساتھ زیادتی کرنا، کسی کو قتل کرنا اللہ کے عذاب کا باعث ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح مال و دولت، کاروبار، جائیداد بنانے کی خواہش میں جائز و ناجائز سے لاپرواہ ہو جانا بھی عذاب خداوندی کو دعوت دینے والا کام ہے۔

جہاں بات عقیدے اور ایمان کی آئے گی تو خونی رشتے بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ قرآن مجید میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُھَدَاءَ لِلّہِ وَلَوْ عَلَى اَنفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِينَ اِن يَكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيرًا فَاللّہُ اَوْلَى بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْھَوَی اَن تَعْدِلُواْ وَاِن تَلْوُواْ اَوْ تُعْرِضُواْ فَاِنَّ اللّہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا۔ (سورۃ النساء (4)، آیہ 135)

"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور اللہ کے واسطے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلے بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔"

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب معاملہ عدل و انصاط کا ہو، جس وقت آپ گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوں تو صرف سچی گواہی دیں خواہ اس میں آپ کا ذاتی نقصان ہو، خواہ آپ کے والدین یا رشتہ داروں کا نقصان ہو، آپ ہر حال میں سچائی پر قائم رہیں۔

اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صاحب معاملہ غریب ہے یا امیر کیونکہ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔

سو جب بات عدل و انصاف کی آئے گی، جب معاملہ حق اور سچائی کا ہو گا تو خون کے تمام رشتے فراموش کر دیے جائیں گے۔ کیونکہ یہ عقیدہ کا معاملہ ہے اور عقیدے کا رشتہ تمام رشتوں سے برتر ہے۔

عقیدے کے اس رشتے کی اساس اس یقین پر ہے کہ ایک ہی خدائے بزرگ و برتر اس کائنات کا خالق ہے۔ تمام مذاہب فی الاصل اسی عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے آپ کے سامنے قرآن کی آیت پیش کی، اسلام اسی مشترکہ بات کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے :

قُلْ يَا اھْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ اِلَى كَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِكَ بِہِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ فَاِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْھَدُواْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۔ (سورۃ آلِ عمران (3)، آیہ 64)

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو! اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم (صرف اللہ کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔"

اللہ تعالٰی کی ذات پر صرف ایمان رکھنا کافی نہیں بلکہ عبادت بھی صرف خدائے واحد ہی کی ہونی چاہیے۔ حقیقی عالمی بھائی چارے کا قیام صرف اسی صورت ممکن ہے کہ پوری انسانیت ایک ہی خدائے بزرگ و برتر پر ایمان رکھنے اور صرف اسی کی عبادت کرے۔

سورۃ انعام میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَيَسُبُّواْ اللّہَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ط (سورۃ 6 : 108 )

"(اور اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔"

میں اپنی گفتگو کا اختتام قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ پر کرنا چاہوں گا :

يَا اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (سورۃ النساء (4)، آیہ 1)

"اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔"

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ نے اپنی گفتگو کے دوران میں بھائی چارے کی مختلف صورتوں کی وضاحت تو کر دی لیکن اسلام میں "کافر" کے تصور کی وضاحت نہیں کی جو کہ بھائی چارے کو نقصان پہنچانے والی چیز ہے۔

جواب : بھائی کا سوال یہ ہے کہ میں نے متعدد تصورات کے بارے میں گفتگو کی، حقیقی عالمی بھائی چارے کی وضاحت کی اور ساتھ ہی رشتے، ذات اور عقائد وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے بھائی چارے کی بھی وضاحت کی کہ وہ کس طرح مسائل کا سبب بنتا ہے، لیکن میں نے "کافر" کے تصور پر گفتگو نہیں کی۔

میرے بھائی "کافر" عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو لفظ "کفر" سے نکلا ہے۔ اس لفظ کے معنی ہیں چھپانا یا انکار کرنا، رد کرنا۔ اسلامی تناظر میں دیکھا جائےتو اس لفظ کے معانی ہیں "کوئی ایسا شخص جو اسلامی عقاید کا انکار کرے یا انہیں رد کرے۔" گویا جو شخص اسلام کا انکار کر دے اُسے اسلام میں کافر کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو شخص اسلام کے تصورِ خدا کا انکار کر دے وہ کافر کہلائے گا۔

جہاں تک بھائی چارے کے دیگر تصورات کی بات ہے تو واقعی کئی طرح کے بھائی چارے موجود ہیں مثلاً علاقے کی اور وطن کی بنیاد پر، ہندوستان میں، پاکستان میں اور امریکہ میں ہر جگہ ایک وطنی بھائی چارہ موجود ہے۔ یہ تمام بھائی چارے عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بعض دیگر تصورات کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہ حقیقی بھائی چارے کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک کافروں کا بھائی چارہ بھی ہے جو کفر کی بنیاد قائم ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقی عالمی بھائی چارے کے لیے نقصان دہ ہے۔

کافر کا مطلب ہے اسلام کی حقانیت کا انکار کرنے والا۔ میرے ایک خطاب کے بعد سوالات کے دوران میں ایک صاحب نے کہا کہ مسلمان ہمیں کافر کہہ کر گالی کیوں دیتے ہیں؟ اس طرح ہماری انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

میں نے انہیں بھی یہی بتایا تھا کہ جناب کافر عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اسلام کی سچائی کا انکار کرنے والا۔ اگر مجھے اس لفظ کا انگریزی ترجمہ کرنا ہو تو میں کہوں گا Non Muslim یعنی جو شخص اسلام کو قبول نہیں کرتا وہ Non Muslim ہے اور عربی میں کہا جائے گا کہ وہ کافر ہے۔

لہذا اگر آپ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نان مسلم کو کافر نہ کہا جائے تو یہ کس طرح ممکن ہو گا؟ اگر کوئی غیر مسلم یہ مطالبہ کرے کہ مجھے کافر نہ کہا جائے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ جناب! آپ اسلام قبول کر لیں تو میں خود بخود آپ کو غیر مسلم یعنی کافر کہنا چھوڑ دوں گا۔ کیونکہ کافر اور غیر مسلم میں کوئی فرق تو ہے نہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا لفظ Non Muslim کا عربی ترجمہ ہے اور بس۔

اُمید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب! آپ فرماتے ہیں کہ خدا حی و قیوم ہے، تجسیم سے پاک ہے اور اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا ہے تو مسلمان حج کیوں کرتے ہیں اور وہ ہندوؤں کی طرح مقاماتِ مقدسہ کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟

جواب : میرے بھائی نے ایک بہت اچھا سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کی تجسیم یا تصور ممکن نہیں اور خدا ان چیزوں سے پاک ہے تو پھر مسلمان دورانِ حج مقاماتِ مقدسہ کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ مقاماتِ مقدسہ سے ان کی مراد کعبہ ہے۔

بھائی! یہ ایک صریح غلط فہمی ہے۔ کوئی بھی مسلمان کعبہ کی عبادت قطعاً نہیں کرتا۔ غیر مسلموں میں بالعموم یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہم مسلمان کعبہ کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہیں جس کو دیکھنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ کعبہ ہمارے لیے صرف قبلہ ہے۔ جس کا مطلب ہے سمت (Direction) کعبہ ہمارا قبلہ ہے اور قبلے کے تعین کی ضرورت اس لیے ہے کہ ہم مسلمان اتحاد پر یقین رکھتے ہیں، یگانگت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب فرض کیجیے ہم نماز پڑھنے لگے ہیں، ہو سکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی چاہیے، کچھ کہیں کہ نہیں شمال کی طرف منہ ہونا چاہیے، کس طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے گی؟

لہذا چونکہ ہم اتحاد و یگانگت پر یقین رکھتے ہیں، اسی لیے ایک سمت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے معین کر دی گئی ہے کہ ہمیشہ اسی سمت یعنی قبلے کی سمت رُخ کر کے نماز پرھی جائے۔ قبلہ یا کعبہ محض ایک سمت ہے، ہم اس کی عبادت قطعاً نہیں کرتے۔

دنیا کا نقشہ سب سے پہلے مسلمانوں نے بنایا تھا۔ مسلمانوں کے بنائے ہوئے نقسے میں قطب جنوبی کو اوپر اور قطب شمالی کو نیچے رکھا گیا تھا۔ اس نقشے کی رُو سے کعبہ دنیا کے مرکز میں واقع تھا۔ بعد ازاں جب مغربی سائنس دانوں نے دنیا کا نقشہ تیار کیا تو انہوں نے اس کا رُخ اُلٹ دیا یعنی قطب شمالی کو اوپر کر دیا اور قطب جنوبی کو نیچے لیکن الحمد للہ کعبہ پھر بھی اس نقشے کے مرکز میں ہی رہا۔ مکہ پھر بھی دنیا کا مرکز ہی رہا۔

اب چونکہ مکہ مرکز میں ہے لہذا اگر کوئی مسلمان کعبہ کے شمال میں ہے تو اسے جنوب کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرنا ہو گی اور اگر وہ کعبہ کے جنوب میں ہے تو شمال کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھے گا۔ لیکن پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی طرف رُخ کر کے فریضہ نماز ادا کریں گے۔ یعنی کعبے کی طرف رُخ کر کے۔ کعبہ ہمارا قبلہ ہے، ہمارا سمت نما ہے، ہمارا معبود نہیں ہے۔ کوئی بھی مسلمان کعبے کی عبادت ہرگز نہیں کرتا۔

اسی طرح جب ہم حج کے لیے جاتے ہیں تو کعبے کا طواف کرتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ دائرے کا ایک مرکز ہوتا ہے۔ اور اس طرح دائرے میں چکر لگا کر ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کائنات کا مرکز صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات ہے۔ طواف کا مقصد عبادت ہرگز نہیں ہے۔

صحیح مسلم، کتاب الحج کی ایک حدیث کا مفہوم ہے :

"خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حج کے موقع پر حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں کیوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے وگرنہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک سیاہ پتھر ہے جو نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔"

اسی طرح کعبہ کے معبود نہ ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کعبے کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے۔ یعنی مسلمانوں کو نماز کے لیے بلایا کرتے تھے۔ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ بتائیں کیا کوئی بھی شخص اپنے معبود کے اوپر چڑھنا گوارا کر سکتا ہے؟ کیا آج تک کوئی بت پرست اپنے بُت کے اوپر کھڑا ہونا پسند کرتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ مسلمان کعبے کو اپنا معبود نہیں سمجھتے۔ کعبہ ان کے لیے محض قبلہ یعنی سمت نما ہے اور عبادت وہ صرف ایک ہی خدائے واحد و برتر کی کرتے ہیں۔ جسے دیکھنا اس دنیا میں اور ان آنکھوں سے ممکن ہی نہیں ہے۔

اُمید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : ہم یہاں کائناتی بھائی چارے کے بارے میں آپ کی گفتگو سننے آئے تھے، صرف مسلمانوں کے بھائی چارے کے بارے میں نہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا کائنات کے دوسرے حصوں میں بھی ہمارے بھائی موجود ہیں؟

جواب : میرے بھائی نے ایک اچھا سوال کیا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا بھائی چارے کا تصور صرف اس زمین تک ہی محدود ہے یا کائنات میں مزید وسعت بھی دی جا سکتی ہے؟ حقیقی کائناتی بھائی چارے کا مطلب کیا ہے؟ میرے بھائی اگر آپ نے میری گفتگو توجہ سے سنی ہے تو اس گفتگو کے دوران میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اللہ تعالٰی رب العالمین ہے، ہم اس خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو تمام عالمین کا یعنی پوری کائنات کا رب ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

وَمِنْ آيَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيھِمَا مِن دَابَّۃٍ وَھُوَ عَلَى جَمْعِھِمْ اِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ۔ (سورۃ الشعراء (42)، آیہ 29)

"اس کی نشانیوں میں سے ہے زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جان دار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے۔"

گویا اس دنیا کے علاوہ بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں۔ ابھی علوم انسانی نے اتنی ترقی نہیں کی کہ ان کا وجود ثابت کیا جا سکے لیکن بہرحال سائنس دان مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خلائی راکٹ اور مصنوعی سیارے مسلسل خلا میں بھیج رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں لیکن ابھی تک کوئی بات ثابت نہیں ہوئی۔

قرآن یہ کہتا ہے کہ ہاں اس زمین کے علاوہ بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں۔ اس یقین کے نتیجے میں کائناتی بھائی چارے کا ایک تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ بھائی چارہ صرف اس زمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھائی چارہ ہر جگہ درکار ہے۔ ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر پوری دنیا میں بھی۔ یہ بھائی چارہ کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟ میں یہاں اپنی پوری گفتگو دہرانا نہیں چاہتا۔ لیکن مختصراً یہ کہ ایک اخلاقی نظام ہونا چاہیے، ایک ہی نظامِ اخلاقیات لاگو ہونا چاہیے۔ کوئی انسان کسی کو قتل نہیں کرے گا، کوئی چوری نہیں کرے گا، غریبوں کے کام آئے گا، پڑوسیوں کی مدد کرے گا، کسی کی غیبت نہیں کرے گا۔ انسان کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ وہ خود تو پیٹ بھر کر سونے لگا ہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ ہر کوئی شراب سے پرہیز کرے گا کیونکہ نشہ اس دنیا میں بھائی چارے کے قائم ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

مندرجہ بالا تمام اُمور بھائی چارے کو تقویت دینے والے ہیں۔ نہ صرف ہندوستان میں، نہ صرف امریکہ میں، نہ صرف اس دنیا میں بلکہ پوری دنیا میں۔

لیکن یہ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اگر ساری دنیا کے لوگ یہ بات تسلیم کر لیں کہ تمام انسان خواہ وہ بھارت میں ہوں، امریکہ میں ہوں، دنیا کے کسی ملک میں ہوں یا اس زمین سے دور کسی اور سیارے کی مخلوق ہے، ان کا خالق ایک ہی خدائے عظیم ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ فی الاصل تمام مذاہب میں ایک برتر اور عظیم خدا کا تصور موجود ہے۔ اس کی تفصیل میری کتاب "مذاہب عالم میں تصورِ خدا" میں موجود ہے۔ اس میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ دنیا کے تمام اہم مذاہب میں خدا کا کیا تصور ہے۔ سکھ مت، پارسی مذہب وغیرہ تمام مذاہب کے تصور خدا کے بارے میں اگر آپ تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو یہ کتاب پڑھ لیں۔

اُمید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب محض لفظوں سے کھیل رہے ہیں۔ عالمی بھائی چارہ اسلام کے ذریعے ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلام تو دنیا کے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے یعنی کافر اور مسلمان۔ ظاہر ہے کہ ہم اسلام کی بہت سی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اسلام صرف تقسیم کو تقویت دیتا ہے۔ ہم شعیہ سنی اور ستر دیگر فرقے بھی دیکھ رہے ہیں۔ عالمی بھائی چارہ صرف ہندو مذہب قائم کر سکتا ہے۔ اسلام تو گائے کو قتل کرنے، کفار کو قتل کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور آپ بھائی چارے کی بات کرتے ہیں؟

جواب : میرے بھائی نے بہت سی باتیں کر دی ہیں۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ "اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" بھائی چارے کے برقرار رہنے کے لیے صبر کرنا بہت ضروری ہے۔ اب اگر میں صبر نہ کروں تو میرے اور بھائی کے درمیان لڑائی ہو جائے گی۔

سورۃ بقرہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ اِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (سورۃ 2، آیہ 153)

"اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔"

جیسا کہ میں نے کہا، بھائی چارے کے فروغ کے لیے صبر ضروری ہے۔ میں یہاں موجود اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہندومت کا اچھا مطالعہ کر رکھا ہو لیکن مجھے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں ان کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسلام کے بارے میں ان کا علم ہرگز کافی نہیں ہے۔

البتہ ان کی ایک بات سے مجھے ضرور اتفاق ہے اور وہ یہ کہ اسلام لوگوں کو دو گروہوں میں رکھتا ہے۔ ایک وہ جو ایمان لائے یعنی مومن اور دوسرے وہ جو ایمان نہیں لائے یعنی کافر۔ جیسا کہ بھائی نے خود بھی کہا "کافر"۔ لیکن یہ تقسیم تو دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے۔ کود ہندومت میں بھی موجود ہے۔ یعنی لوگ ہندو ہوتے ہیں یا غیر ہندو۔ اسی طرح عیسائیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی شخص یا تو عیسائی ہو گا یا غیر عیسائی۔ یہودیت کے حوالے سے ایک انسان یا تو یہودی ہو گا یا غیر یہودی۔ بالکل اسی طرح اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو ایک شخص یا تو مسلمان ہو گا یا غیر مسلم۔ میں ہندومت پر تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ سوال پوچھنے والے ایک پڑھے لکھے شخص ہیں لہذا میں ہندومت کے بارے میں بھی کچھ گفتگو کرنا چاہوں گا۔

میں تقابل ادیان کا طالب علم ہوں۔ میں نے ویدوں کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ میں نے اپنشد بھی پڑھ رکھے ہیں۔ سو یہاں میں بس ایک چھوٹی سی بات عرض کرنا چاہوں گا۔ ویدوں کی تحریر کے مطابق انسان خدا کے جسم سے پیدا ہوئے ہیں۔ برہمن سر سے پیدا ہوئے، سینے سے کھتری، رانوں سے ویش اور پیروں سے شودر پیدا کیے گئے۔ اور یوں ذات پات کا نظام وجود میں آتا ہے۔

میرے بھائی میں یہاں یہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے ہندو بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس بھی نہیں پہنچانا چاہتا۔ کیونکہ اسلام ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا۔ میں ان باتوں پر تبصرہ نہیں کرتا کیوں کہ میں کسی مذہب پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، میں یہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا کہ فلاں مذہب میں کیا برائیاں ہیں۔

لیکن اگر آپ ویدوں کا اچھی طرح مطالعہ کر چکے ہیں تو آپ کو یہاں آخر سامعین کے سامنے یہ گواہی دینی چاہیے کہ کیا ویدوں میں یہ نہیں لکھا وا کہ برہمن خدا کے سر سے اور شودر پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور کیا ذات پات کا ایک طبقاتی نظام ویدوں میں نہیں بنا دیا گیا جس میں ایک مذہبی علما کا طبقہ ہے، ایک جنگجوؤں کا اور حکمرانوں کا طبقہ ہے۔ ایک کاروباری طبقہ ہے اور ایک شودروں کا مظلوم، استحصال زدہ طبقہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر امبیدکر جیسے لوگوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن میرے بھائی، ہندومت کے بارے میں، میں بہت کچھ پڑھ چکا ہوں۔ اور میں ہندو مذہب کے بعض پہلوؤں کی قدر بھی کرتا ہوں۔ ہندومت کی بعض باتوں سے مجھے اتفاق ہے۔ میں اس موضوع پر بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے مجبور کر دیا گیا لہذا مجھے بولنا پڑا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَيَسُبُّواْ اللّہَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ط (سورۃ الانعام (6) : 108 )

"(اور اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔"

میں نے اپنی گفتگو کے دوران میں ہندومت کا مثبت پہلو دکھانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ ہندو مذہب میں بھی خدائے واحد کا تصور موجود ہے۔ آپ نے اپنے سوال میں کہا کہ مسلمان "لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور گائے کا قتل کرتے ہیں۔"

دیکھیں بات یہ ہہے کہ آپ کے ہر الزام کا جواب دینے کے لیے کافی وقت چاہیے جبکہ ہمارے پاس وقت محدود ہے۔ لہذا میں آپ کے چند سوالات کا جواب دیتا ہوں۔ اس کے بعد اگر آپ چاہیں تو بعد میں دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔ مجھے جواب دے کر اور آپ کی غلط فہمیاں دور کر کے خوشی ہو گی۔ اگر میں یہاں وضاحت کر سکا تو اسی صورت میں اسلام کی درست تفہیم ہو گی۔ اسی لیے ہم اپنی ہر گفتگو کے بعد ایک وقفہ سوالات ضرور رکھتے ہیں اور ہم اس وقفے میں کسی بھی قسم کی تنقید کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بھی یہ پسند ہے کیونکہ جس قدر کوئی شخص تنقید کرے گا اور منطقی طور پر قائل ہو گا، اسی قدر وہ اسلام کی درست تفہیم کر سکے گا اور یہی میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اسلام حکم دیتا ہے کہ پیغام خداوندی کو حکمت کے ساتھ پھیلایا جائے۔ سورۃ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :

ادْعُ اِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِي ھِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِينَ۔ (سورۃ 16، آیہ 125)

"(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔"

سب سے پہلے ہم گوشت خوری کا معاملہ دیکھتے ہیں۔ آپ نے "گائے کو قتل کرنے" کی بات کی۔ بہت سے غیر مسلم یہ کہتے ہیں کہ "تم مسلمان ظالم لوگ ہو کیونکہ تم جانوروں کو قتل کرتے ہو۔" سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک شخص گوشت کھائے بغیر بھی بہت اچھا مسلمان ہو سکتا ہے۔ اچھا مسلمان ہونے کے لیے گوشت کھانا فرض نہیں ہے، یعنی اسلام اور گوشت خوری لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ قرآن ہمیں متعدد مقامات پر گوشت خوری کی اجازت دیتا ہے تو ہم گوشت کیوں نہ کھائیں؟

سورۃ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اَوْفُواْ بِالْعُقُودِ اُحِلَّتْ لَكُم بَھِيمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَاَنتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّہَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ۔ (سورۃ 5، آیہ 1)

" اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے"

اسی طرح سورۃ نحل میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَكُمْ فِيھَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْھَا تَاْكُلُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 5)

"اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔"

سورۃ مومنون میں پھر ارشاد ہوتا ہے :

وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونَِا وَلَكُمْ فِيھَا مَنَافِعُ كَثِيرَۃٌ وَمِنْھَا تَاْكُلُونَ۔ (سورۃ 23، آیہ 21)

"اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اس میں سے (بعض اجزاء کو دودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو۔"

یہاں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں اور میں خود بھی ایک ڈاکٹر ہوں۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ گوشت ایک ایسی غذا ہے جس میں زیادہ مقدار میں فولاد اور پروٹین موجود ہوتی ہے۔ لہذا یہ نہایت غذائیت بخش ہے۔ پروٹین کی اتنی مقدار اپ کو کسی دوسری غذا یعنی سبزیوں وغیرہ میں نہیں مل سکتی۔

سبزیاتی غذا میں پروٹین کی مقدار کے حوالے سے سویابین کو بہترین خیال کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی گوشت کے قریب نہیں پہنچتی۔ باقی جہاں تک گائے کو قتل کرنے کا تعلق ہے تو میں یہاں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن چونکہ بھائی نے ایک سوال کیا ہے تو اس کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ ہندومتونِ مقدسہ کا بغور مطالعہ کریں تو اپ کو پتہ چلے گا کہ خود ان میں بھی گوشت خوری کی اجازت موجود ہے۔ قدیم دور کے سادھو اور سنت خود گوشت کھاتے رہے ہیں اور بڑا گوشت کھاتے رہے ہیں، یہ تو بعد میں دیگر مذاہب مثلاً جین مت وغیرہ کے زیر اثر ہندوؤں میں "اہمسا" یعنی عدم تشدد کے فلسفے کو پذیرائی حاصل ہوئی جس کی رُو سے جانوروں کو مارنا ممنوع قرار پایا اور یہ فلسفہ ہندوؤں کے طرزِ زندگی کا حصہ بن گیا۔

دوسری طرف اسلام جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا مذہب ہے۔ اسلام میں جانوروں سے متعلق جتنی ہدایات دی گئی ہیں ان کے حوالے سے طویل گفتگو ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان کو پوری غذا دینے اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو انہیں غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جو مذاہب گوشت خوری کے خلاف ہیں اور جانوروں کے گوشت کو بطورِ غذا استعمال کرنے سے روکتے ہیں، اگر آپ ان کے فلسفے کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ مذاہب گوشت خوری سے منع اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ اس مقصد کے لیے جانداروں کی جان لینی پڑتی ہے اور یہ ایک گناہ ہے۔ مجھے ان کی بات سے اتفاق ہے، اگر کسی جاندار کی جان لیے بغیر زندہ رہنا اس دنیا میں کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہو تو یقین کیجیے میں وہ پہلا انسان ہوں گا جو اس طرح رہنے کا فیصلہ کرے گا۔

ہندو مت میں بھائی چارے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زندہ مخلوق کے ساتھ بھائی چارہ ہونا چاہیے قطع نظر اس کے کہ وہ مخلوق انسان ہے یا جانور، پرندہ ہے یا کیڑا مکوڑا۔ اب میں آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا کوئی انسان پانچ منٹ بھی بغیر کسی جاندار کو قتل کیے زندہ رہ سکتا ہے؟ علم طب سے آشنائی رکھنے والے میرے اس سوال کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم سانس لیتے ہیں تو سانس کے ساتھ بے شمار جراثیم بھی جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ گویا ہندو مت کی رو سے آپ زندہ رہنے کے لیے خود اپنے بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں۔

اسلام میں حقیقی بھائی چارے کا تصور یہ ہے کہ ہر انسان آپ کا بھائی ہے اور دینی بھائی چارے کے لحاظ سے ہر مسلمان آپ کا بھائی ہے۔ ہر زندہ مخلوق بھائی نہیں ہے۔ ہمیں جانوروں کا تحفظ کرنا ہے، انہیں نقصان نہیں پہنچانا، ان پر غیر ضروری تشدد نہیں کرنا لیکن بہ وقت ضرورت ہم انہیں غذا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ سبزی خوروں کا کہنا ہے کہ گوشت خوری کے لیے آپ جانداروں کو قتل کرتے ہیں لہذا یہ ایک گناہ ہے۔

لیکن جب جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ: "پودے بھی جاندار مخلوق ہیں" تو کیا ہوتا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ سبزی خوروں کی منطق ناکام ہو جاتی ہے۔ اب سبزی خور اپنی منطق تبدیل کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پودے جاندار ہیں لیکن انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہوتا جب کہ جانوروں کو ہوتا ہے۔ لہذا پودوں کو قتل کرنا جرم نہیں ہے جب کہ جانوروں کو مارنا بڑا جرم ہے۔

لیکن بہت ترقی کر چکی ہے اور اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پودے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ پورے روتے بھی ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں لہذا یہ منطق بھی ناکام ہو چکی ہے کہ پودوں کو تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ ھالانکہ پودوں کو بھی تکلیف کا احساس ہوتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ انسانی کان پودوں کی آواز نہیں سن سکتے۔ انسانی کان ایک خاص فریکونسی کی آواز سن سکتے ہیں۔ اس حد سے کم یا زیادہ فریکونسی کی آواز ہمارے کان سننے سے قاصر ہیں۔

مثال کے طور پر ایک چیز ہوتی ہے کتوں کی سیٹی “Dog Whistle” ۔ جب کتے کا مالک یہ سیٹی بجاتا ہے تو انسانوں کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن کتا یہ آواز سن لیتا ہے۔ کیونکہ ایک سیٹی کی آواز کی فریکونسی اس حد سے زیادہ ہوتی ہے جس حد تک انسانی کان آواز سن سکتے ہیں۔ چوں کہ کتے کی سننے کی صلاحیت انسان سے زیادہ ہے لہذا وہ اس آواز کو سن لیتا ہے۔

اسی طرح پودوں کی آواز بھی انسانی کان نہیں سن سکتے کیونکہ ان کی فریکونسی مختلف ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پودے تکلیف محسوس نہیں کرتے یا اس کا اظہار نہیں کرتے۔

میرے ایک بھائی یہ بات سن کر مجھ سے بحث مباحثہ شروع کر دیا۔ وہ کہنے لگے کہ ذاکر بھائی، یہ ٹھیک ہے کہ پودے جاندار ہوتے ہیں لیکن جانورں میں تو پورے پانچ حواس خمسہ ہوتے ہیں جب کہ پودوں میں صرف تین حواس ہوتے ہیں یعنی دو حواس کم ہوتے ہیں۔ لہذا جانوروں کو مارنا بڑا جرم ہے جب کہ پودوں کو مارنا چھوٹا جرم ہے۔

میں نے اس سےکہا کہ اچھا چلو فرض کرو تمہارا ایک چھوٹا بھائی ہے جو پیدایشی گونگا بہرا ہے۔ یعنی اس میں عام انسانوں کے مقابلے میں دو حسیات کم ہیں۔ اب فرض کیجیے کوئی آپ کے بھائی کو مار دیتا ہے۔ کیا اس وقت آپ جج کے سامنے جا کر یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے کہ "مائی لارڈ چوں کہ میرے بھائی میں دو حواس کم تھے، لہذا مجرم کو کم سزا دی جائے۔" بتائیے کیا آپ یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے؟ نہیں بلکہ آپ کہیں گے کہ مجرم کو دگنی سزا دی جائے کیوں کہ اس نے ایک معصوم اور مجبور شخص پر طلم کیا ہے۔ لہذا اسلام میں بھی یہ منطق نہیں چلتی۔ حواس دو ہوں یا تین، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

يَا اَيُّھَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الاَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ اِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ (سورۃ 2، آیہ 168 )

"اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"

گویا جو بھی چیز اچھی ہے اور حلال ہے، اس کے کھانے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں چوپایوں وغیرہ کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کا نظام ہے کہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے مقابلے میں چوپائے بہت تیزی سے اپنی نسل میں اضافہ کرتے ہیں، اگر آپ کی بات مان لی جائے اور گوشت کھانا چھوڑ دیا جائے تو چوپایوں کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔

جہاں تک گائے کی آبادی میں اضافے کا تعلق ہے اس حوالے سے مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "گئو ہتھیا"۔ یعنی گائے کا قتل۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کون کون گائے کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ اس کتاب میں چمڑے کے کاروبار کا تجزیہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اس کاروبار سے کون لوگ وابستہ ہیں۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ اس کاروبار سے مسلمان کم اور غیر مسلم زیادہ وابستہ ہیں۔ اس کاروبار میں بیش تر لوگ "جین مت" کے ہیں۔ یعنی گائے سے صرف مسلمان ہی فائدہ نہیں اٹھا رہے، غیر مسلموں کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔

لہذا اگر آپ سمجھدار ہیں تو آپ کو فیصلے تک پہنچنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے۔ مزید برآں اگر آپ دیکھیں تو انسان کے دانت ہمہ خوری کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یعنی انسانی جبڑے میں نوکدار دانت بھی ہوتے ہیں ہموار بھی تاکہ یہ گوشت خوری بھی کر سکے اور سبزی خوری بھی۔ جو جانور صرف سبزی خور ہیں ان کے تمام دانت ہموار ہوتے ہیں۔ لہذا وہ گوشت کھا ہی نہیں سکتے۔ جبکہ گوشت خور جانوروں کے تمام دانت نوکیلے ہوتے ہیں، یوں وہ تمام سبزی کوری کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا انسانی دانتوں کی ساخت اور بناوٹ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ دانت ہر قسم کی خوراک کے لیے بنائے ہیں، اگر ہمارا خالق چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں ہی کھائیں تو وہ ہمیں نوکیلے دانت کیوں عطا کرتا؟ یہ دانت کیوں عطا کیے گئے ہیں؟ اس لیے تا کہ ہم گوشت خوری کر سکیں۔ اسی طرح اگر آپ سبزی خور جانوروں مثلاً گائے، بکری، بھیڑ وغیرہ کے نظام انہضام کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ صرف سبزیاں ہی ہضم کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر آپ گوشت خور جانوروں مثلاً شیر، بھڑیئے، چیتے وغیرہ کا نظام ہضم کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ صرف گوشت ہی ہضم کر سکتے ہیں، لیکن انسان کا نظام ہضم اللہ تعالٰی نے بنایا ہی اس طرح ہے کہ ہر طرح کی غذا ہضم کر سکتا ہے۔

یوں سائنسی تجزیے کی روشنی میں بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی مرضی یہی ہے کہ انسان ہر طرح کی غذا استعمال کرے۔ نباتاتی بھی اور لحمیاتی بھی۔ اللہ تعالٰی اگر چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں کھائیں تو وہ ہمیں گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت ہی کیوں دیتا۔

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے کہنے کے مطابق تمام مذاہب اور نسلیں وغیرہ اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے ہیں تو پھر یہ لڑائیاں کیوں ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ ہندو مت کا عقیدہ ہے کہ "ہر شے خدا ہے" اور اسلام کا عقیدہ ہے کہ "ہر شے خدا کی ہے" تو ہندوستان میں اور پوری دنیا میں یہ لڑائیاں کیوں ہیں؟ بلکہ خود مسلمان ممالک میں بھی؟

جواب : میرے بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے پوری انسانیت کو ایک جوڑے یعنی آدم و حوا علیہما السلام سے تخلیق فرمایا۔ بھائی کہتے ہیں کہ میں نے یہ کہا کہ "تمام مذاہب اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے ہیں۔" میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کو مختلف مذاہب میں تقسیم کیا ہے۔

میری تقریر ریکارڈ ہو رہی ہے۔ میں نے کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالٰی نے انسانوں کو مذاہب میں تقسیم کیا۔ میں نے یہ کہا تھا کہ انسان کو مختلف قوموں، قبیلوں، نسلوں اور رنگوں میں تقسیم کیا گیا۔

مذہب صرف ایک ہی ہے۔ اللہ تعالٰی انسان کو مذاہب کے لحاظ سے تقسیم نہیں کرتا۔ ہاں، اس نے رنگ و نسل اور قبیلوں کے لحاظ سے ضرور انسان کو بانٹا ہے۔ اسی طرح زبانوں کا اختلاف ہے تا کہ انسانوں کی پہچان ہو سکے۔

اسی طرح جہاں تک ہندو مت کا تعلق ہے تو آکسفورڈ ڈکشنری کی تعریف کے مطابق مذہب نام ہی خدا پر ایمان کا ہے۔ ہندو مت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہندو مت کے تصور خدا کو سمجھا جائے۔ یہودیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہودیت کے تصورِ خدا کو سمجھا جائے۔ عیسائی مذہب کی تفہیم کے لیے لازم ہے کہ عیسائیت کے تصورِ خدا کی تفہیم ہو۔ اسی طرح اسلام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے تصورِ خدا کو درست طور پر سمجھا جائے۔ میں نے اپنی گفتگو کے دوران یہی بات کی تھی۔ جہاں تک اختلافات کا سوال ہے تو یہ اختلافات کس نے پیدا کیے ہیں؟ اللہ تعالٰی نے ان اختلافات کی تعلیم نہیں دی۔ اللہ تعالٰی تو سورۃ الانعام میں صاف فرماتا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ۔ (سورۃ 6، آیہ 159)

"بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔"

مذہب کو تقسیم نہین کیا جانا چاہیے۔ تفرقہ نہیں ہونا چاہیے۔ جو تفرقے میں پڑتا ہے وہ غلط کرتا ہے۔ آپ نے پوچھا ہے کہ لوگ آپ میں لڑ کیوں رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مار کیوں رہے ہیں؟ یہ تو آپ کو ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے۔

فرض کیجیے آپ ایک استاد ہیں۔ آپ اپنے شاگرد کو نقل کرنے سے منع کرتے ہیں لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتا اور نقل کرتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کون قصوروار ہے استاد یا شاگرد؟ ظاہر ہے کہ شاگرد ہی قصوروار ہے۔

اسی طرح اللہ تعالٰی نے انسان کو ہدایت دے دی ہے، اسے راہِ مستقیم دکھا دی ہے۔ انسان کو آخری اور مکمل پیغام ہدایت مل چکا ہے۔ یہ پیغام ہدایت انسان کو قرآنِ مجید کی صورت میں عطا کیا گیا ہے۔ قرانِ مجید میں انسان کے لیے اوامر و نواہی بیان کر دیئے گئے ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا، سورۃ مائدہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

مِنْ اَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي اِسْرَائِيلَ اَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ اَحْيَاھَا فَكَاَنَّمَا اَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْھُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ اِنَّ كَثِيرًا مِّنْھُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔ (سورۃ 5، آیہ 32)

"اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں"

گویا اللہ تعالٰی قتل و غارت کو پسند نہیں فرماتا۔ لیکن اگر انسان احکامات الٰہی پر عمل نہ کرے تو قصور کس کا ہے؟ خود انسان کا۔

سورۃ مُلک میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَھُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ۔ (سورۃ 67، آیہ 2)

"(اللہ تعالٰی) جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔"

زندگی اور موت دونوں کا خالق اللہ تعالٰی ہے۔ انسان کے لیے یہ ایک امتحان ہے جس میں کامیابی کا انحصار اس کے اعمال کی نوعیت پر ہے۔ اللہ تعالٰی انسان کو اچھے یا برے اعمال پر مجبور نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ چاہے تو یقیناً کر سکتا ہے۔ ایک استاد چاہے تو اپنے تمام طالب علموں کو پاس کر سکتا ہے خواہ وہ کامیابی کی اہلیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ استاد چاہے تو بڑی آسانی سے سب کو کامیاب کر سکتا ہے لیکن ایسا کرنا غلط ہو گا، اسی طرح اللہ تعالٰی اگر چاہے تو تمام انسان ایمان لے ائیں۔ ہر کوئی ایمان لے آئے لیکن ایسا نہیں ہو گا۔

اگر استاد ایک ایسے طالب علم کو پاس کر دے جو نالائق ہے، جس نے امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، جس نے درست جوابات نہیں دیے تو محنتی اور قابل طالب علم کہے گا کہ میں نے اتنی محنت کی لیکن دوسرا طالب علم جس نے محنت نہیں کی، جو نقل کرتا رہا، جس نے جوابات ہی نہیں لکھے وہ بھی کامیاب ہو گیا ہے۔ اگر استاد اسی طرح سب کو کامیاب کر دے تو اگلی دفعہ آنے والے طالبعلموں میں سے کوئی ایک بھی محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اگر نظام ہی اس طرح کا بن جائے گا تو میڈیکل کالج کا طالب علم ڈاکٹر تو بن جائے گا۔ اس کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری تو ضرور ہو گی لیکن وہ لوگوں کا علاج نہیں کر سکے گا۔ وہ لوگوں کی جان بچانے کے بجائے لوگوں کی جان لینے کا سبب بنے گا۔

لہذا اللہ سبحانہ و تعالٰی نے قرآنِ مجید میں بنی نوع انسان کو راہِ ہدایت دکھا دی ہے۔ اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ :

کسی کو قتل نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کے کام آؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے پڑوسیوں سے محبت کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر لوگ ایسا نہیں کرتے تو جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران میں عرض کیا، اس کا مطلب ہے کہ لوگ قرآنی احکامات پر عمل نہیں کر رہے۔ جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہا۔ وہ کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، امریکہ میں ہو یا پاکستان میں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں، لوگ کچھ بھی کریں، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ محض مسلمانوں والا نام رکھ لینے سے، عبد اللہ یا ذاکر یا محمد نام رکھ لینے سے کوئی جنت میں داخلے کا حقدار نہیں ہو جاتا۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ میں مسلمان ہوں، کوئی حقیقی معنوں میں مسلمان نہین بن جاتا۔ اسلام کوئی لیبل نہیں ہے جسے جو چاہے چسپاں کر لے۔ اگر کوئی شخص اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے تو وہی مسلمان ہے۔ قرآن کے مطابق کچھ لوگ ایسے ہیں جو مسلمان ہونے کا زبانی دعویٰ کرتے ہیں۔ لہذا اگر کچھ لوگ قتل و غارت گری میں ملوث ہیں تو وہ قرآنی احکامات کی پیروی نہیں کر رہے۔ اگر قرآنی ہدایت کی پیروی کی جائے تو پوری دنیا میں امن و سلامتی کا دور دورہ ہو جائے۔
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : ذاکر بھائی! کیا اگر ایک ہندو قرآنی تعلیمات پر عمل رکھتا ہے جو کہ ہندو مت کی کتب مقدسہ میں بھی موجود ہیں تو کیا وہ مسلمان کہلا سکتا ہے؟ اسی طرح اگر ایک مسلمان ہندو صحائف کی تعلیمات کو درست سمجھتا ہے تو کیا وہ ہندو کہلا سکتا ہے؟ کیوں کہ آپ کی گفتگو کا عنوان ہی "عالمی بھائی چارہ" ہے۔

جواب : بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ یہ سوال بہت اچھا اس لیے ہے کیوں کہ یہ ایک واضح سوال ہے۔ اگر آپ ایک واضح سوال پوچھیں گے تو میں اس کا جواب دے سکوں گا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہندو جو قرآنی تعلیمات اورہندو مذہب پر بیک وقت عمل کرتا ہے کیا وہ مسلمان کہلا سکتا ہے۔ اور یہ کہ کیا اس قسم کا مسلمان ہندو کہلا سکتا ہے؟

اس سلسلے میں پہلے تو ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ "ہندو" اور "مسلمان" کی تعریف کیا ہے؟ یعنی ہندو کسے کہتے ہیں اور مسلمان کسے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں "مسلمان وہ شخص ہے جو اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دے۔" ہندو کی تعریف کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟

"ہندو" کی صرف ایک جغرافیائی تعریف ممکن ہے۔ کوئی بھی شخص جو ہندوستان میں رہتا ہے یا ہندوستانی تہذیب سے ادھر آباد ہے وہ ہندو کہلا سکتا ہے۔ اس تعریف کی رُو سے میں بھی ہندو ہوں۔ یعنی جغرافیائی اعتبار سے آپ مجھے ہندو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ پوچھیں کہ کیا میں "ویدانتی" ہوں یعنی کیا میں ویدوں پر ایمان رکھتا ہوں؟ تو میرا جواب ہو گا کہ جہاں تک ویدوں کے اس حصے کا تعلق ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے، انہیں تسلیم کرنے پر تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مثال کے طور پر یہ بات کہ "صرف ایک ہی خدا ہے۔"

لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ خدا نے برہمنون کو اپنے سر سے اور کھتریوں کو سینے سے پیدا کیا۔ اور یوں برہمن ایک برتر ذات ہے تو میں یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گا۔ یہ بات میں ویدوں ہی سے پیش کر رہا ہوں۔ ویدوں میں ایسا لکھا ہوا ہے اگر آپ ویدوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ لیکن یہ بات ویدوں میں اسی طرح موجود ہے، آپ کسی بھی ویدوں کے عالم سے پوچھ سکتے ہیں۔ وید کے عالم یہاں بھی موجود ہیں۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ یہ میں نیہں کہہ رہا وید کہہ رہے ہیں کہ ویشوں کو رانوں سے اور شودروں کو پاؤں سے پیدا کیا گیا۔ میں اس تصور سے قطعا اتفاق نہیں کرتا اور اگر آپ پوچھیں گے کہ کیا میں ویدوں کے فلسفے پر ایمان رکھتا رکھتا ہوں تو میرا جواب ہو گا کہ نہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جو شخص ہندوستان میں رہتا ہے وہ ہندو ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ اسی طرح جیسے امریکہ میں رہنے والا ہر شخص امریکی ہے۔ اور اسے امریکی ہونا بھی چاہیے۔

لہذا آپ کے سوال کا جواب یہ بنتا ہے کہ ہاں آپ ایک مسلمان کو ہندو کہہ سکتے ہیں اگر وہ ہندوستان میں رہتا ہے تو۔ لیکن اس بات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ویدک مذہب کا ماننے والا اگر امریکہ چلا جاتا ہے تو پھر آپ اسے ہندو نہیں کہہ سکتے اب وہ امریکی ہے۔

ہندو مت ایک عالمی مذہب نہیں ہے۔ ہندو مت صرف ہندوستان میں ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ آپ ہندو ازم کو مذہب نہیں کہہ سکتے۔ یہ محض ایک جغرافیائی تعریف ہے۔ سوامی ویویک آنند کا شمار عظیم علما میں ہوتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ لفظ ہندو مت ایک غلط نام (Misnoma) اصولاً انہیں ویدانتی کہا جانا چاہیے۔

چنانچہ میں اپنی بات پھر دہراتا ہوں کہ اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ :

"کیا آپ ایک ہندو ہیں؟"

تو میرا جواب ہو گا :

"اگر ہندو کا مطلب ہندوستان میں رہنے والا ہے تو پھر میں یقیناً ہندو ہوں۔ لیکن اگر ہندو ہونے سے آپ کا مطلب بہت سے خداؤں پر ایمان رکھنا ہے جن کے اتنے سر ہیں اور اتنے ہاتھ ہیں تو پھر میں ہندو نہیں ہوں۔"

اسی طرح جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا کسی ہندو کو مسلمان کہا جا سکتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ ہاں ایک ہندو یعنی ایک ہندوستانی مسلمان بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ ہندو بتوں کی پوجا کرتا ہے تو پھر وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ایک بت پرست کبھی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشاد ہے :

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا۔ (سورۃالنساٗ (4)، آیہ 48 )

"اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔"

اسی سورۃ مبارکہ میں آگے چل کر دوبارہ ارشاد ہوتا ہے :

إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا۔ (سورۃ 4، آیہ 116)

"اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔"

لہذا بات یہ ہوئی کہ ایک ہندوستانی یعنی جغرافیائی ہندو مسلمان ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ ہندو اسلامی احکامات پر عمل پیرا نہیں ہےہ، اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتا تو پھر اسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 
Top