سوال : میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب محض لفظوں سے کھیل رہے ہیں۔ عالمی بھائی چارہ اسلام کے ذریعے ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلام تو دنیا کے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے یعنی کافر اور مسلمان۔ ظاہر ہے کہ ہم اسلام کی بہت سی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اسلام صرف تقسیم کو تقویت دیتا ہے۔ ہم شعیہ سنی اور ستر دیگر فرقے بھی دیکھ رہے ہیں۔ عالمی بھائی چارہ صرف ہندو مذہب قائم کر سکتا ہے۔ اسلام تو گائے کو قتل کرنے، کفار کو قتل کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور آپ بھائی چارے کی بات کرتے ہیں؟
جواب : میرے بھائی نے بہت سی باتیں کر دی ہیں۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ "اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" بھائی چارے کے برقرار رہنے کے لیے صبر کرنا بہت ضروری ہے۔ اب اگر میں صبر نہ کروں تو میرے اور بھائی کے درمیان لڑائی ہو جائے گی۔
سورۃ بقرہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ اِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (سورۃ 2، آیہ 153)
"اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔"
جیسا کہ میں نے کہا، بھائی چارے کے فروغ کے لیے صبر ضروری ہے۔ میں یہاں موجود اپنے بڑے بھائی کا احترام کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہندومت کا اچھا مطالعہ کر رکھا ہو لیکن مجھے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں ان کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسلام کے بارے میں ان کا علم ہرگز کافی نہیں ہے۔
البتہ ان کی ایک بات سے مجھے ضرور اتفاق ہے اور وہ یہ کہ اسلام لوگوں کو دو گروہوں میں رکھتا ہے۔ ایک وہ جو ایمان لائے یعنی مومن اور دوسرے وہ جو ایمان نہیں لائے یعنی کافر۔ جیسا کہ بھائی نے خود بھی کہا "کافر"۔ لیکن یہ تقسیم تو دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے۔ کود ہندومت میں بھی موجود ہے۔ یعنی لوگ ہندو ہوتے ہیں یا غیر ہندو۔ اسی طرح عیسائیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی شخص یا تو عیسائی ہو گا یا غیر عیسائی۔ یہودیت کے حوالے سے ایک انسان یا تو یہودی ہو گا یا غیر یہودی۔ بالکل اسی طرح اسلامی تناظر میں دیکھا جائے تو ایک شخص یا تو مسلمان ہو گا یا غیر مسلم۔ میں ہندومت پر تنقید نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ سوال پوچھنے والے ایک پڑھے لکھے شخص ہیں لہذا میں ہندومت کے بارے میں بھی کچھ گفتگو کرنا چاہوں گا۔
میں تقابل ادیان کا طالب علم ہوں۔ میں نے ویدوں کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ میں نے اپنشد بھی پڑھ رکھے ہیں۔ سو یہاں میں بس ایک چھوٹی سی بات عرض کرنا چاہوں گا۔ ویدوں کی تحریر کے مطابق انسان خدا کے جسم سے پیدا ہوئے ہیں۔ برہمن سر سے پیدا ہوئے، سینے سے کھتری، رانوں سے ویش اور پیروں سے شودر پیدا کیے گئے۔ اور یوں ذات پات کا نظام وجود میں آتا ہے۔
میرے بھائی میں یہاں یہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے ہندو بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس بھی نہیں پہنچانا چاہتا۔ کیونکہ اسلام ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا۔ میں ان باتوں پر تبصرہ نہیں کرتا کیوں کہ میں کسی مذہب پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، میں یہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا کہ فلاں مذہب میں کیا برائیاں ہیں۔
لیکن اگر آپ ویدوں کا اچھی طرح مطالعہ کر چکے ہیں تو آپ کو یہاں آخر سامعین کے سامنے یہ گواہی دینی چاہیے کہ کیا ویدوں میں یہ نہیں لکھا وا کہ برہمن خدا کے سر سے اور شودر پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور کیا ذات پات کا ایک طبقاتی نظام ویدوں میں نہیں بنا دیا گیا جس میں ایک مذہبی علما کا طبقہ ہے، ایک جنگجوؤں کا اور حکمرانوں کا طبقہ ہے۔ ایک کاروباری طبقہ ہے اور ایک شودروں کا مظلوم، استحصال زدہ طبقہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر امبیدکر جیسے لوگوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن میرے بھائی، ہندومت کے بارے میں، میں بہت کچھ پڑھ چکا ہوں۔ اور میں ہندو مذہب کے بعض پہلوؤں کی قدر بھی کرتا ہوں۔ ہندومت کی بعض باتوں سے مجھے اتفاق ہے۔ میں اس موضوع پر بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے مجبور کر دیا گیا لہذا مجھے بولنا پڑا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَيَسُبُّواْ اللّہَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ط (سورۃ الانعام (6) : 108 )
"(اور اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔"
میں نے اپنی گفتگو کے دوران میں ہندومت کا مثبت پہلو دکھانے کی کوشش کی اور یہ دکھایا کہ ہندو مذہب میں بھی خدائے واحد کا تصور موجود ہے۔ آپ نے اپنے سوال میں کہا کہ مسلمان "لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور گائے کا قتل کرتے ہیں۔"
دیکھیں بات یہ ہہے کہ آپ کے ہر الزام کا جواب دینے کے لیے کافی وقت چاہیے جبکہ ہمارے پاس وقت محدود ہے۔ لہذا میں آپ کے چند سوالات کا جواب دیتا ہوں۔ اس کے بعد اگر آپ چاہیں تو بعد میں دوبارہ پوچھ سکتے ہیں۔ مجھے جواب دے کر اور آپ کی غلط فہمیاں دور کر کے خوشی ہو گی۔ اگر میں یہاں وضاحت کر سکا تو اسی صورت میں اسلام کی درست تفہیم ہو گی۔ اسی لیے ہم اپنی ہر گفتگو کے بعد ایک وقفہ سوالات ضرور رکھتے ہیں اور ہم اس وقفے میں کسی بھی قسم کی تنقید کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بھی یہ پسند ہے کیونکہ جس قدر کوئی شخص تنقید کرے گا اور منطقی طور پر قائل ہو گا، اسی قدر وہ اسلام کی درست تفہیم کر سکے گا اور یہی میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اسلام حکم دیتا ہے کہ پیغام خداوندی کو حکمت کے ساتھ پھیلایا جائے۔ سورۃ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :
ادْعُ اِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِي ھِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِينَ۔ (سورۃ 16، آیہ 125)
"(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔"
سب سے پہلے ہم گوشت خوری کا معاملہ دیکھتے ہیں۔ آپ نے "گائے کو قتل کرنے" کی بات کی۔ بہت سے غیر مسلم یہ کہتے ہیں کہ "تم مسلمان ظالم لوگ ہو کیونکہ تم جانوروں کو قتل کرتے ہو۔" سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک شخص گوشت کھائے بغیر بھی بہت اچھا مسلمان ہو سکتا ہے۔ اچھا مسلمان ہونے کے لیے گوشت کھانا فرض نہیں ہے، یعنی اسلام اور گوشت خوری لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ قرآن ہمیں متعدد مقامات پر گوشت خوری کی اجازت دیتا ہے تو ہم گوشت کیوں نہ کھائیں؟
سورۃ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :
يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اَوْفُواْ بِالْعُقُودِ اُحِلَّتْ لَكُم بَھِيمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَاَنتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّہَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ۔ (سورۃ 5، آیہ 1)
" اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے"
اسی طرح سورۃ نحل میں ارشاد باری تعالٰی ہے :
وَالْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَكُمْ فِيھَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْھَا تَاْكُلُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 5)
"اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔"
سورۃ مومنون میں پھر ارشاد ہوتا ہے :
وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونَِا وَلَكُمْ فِيھَا مَنَافِعُ كَثِيرَۃٌ وَمِنْھَا تَاْكُلُونَ۔ (سورۃ 23، آیہ 21)
"اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اس میں سے (بعض اجزاء کو دودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو۔"
یہاں ڈاکٹر حضرات موجود ہیں اور میں خود بھی ایک ڈاکٹر ہوں۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ گوشت ایک ایسی غذا ہے جس میں زیادہ مقدار میں فولاد اور پروٹین موجود ہوتی ہے۔ لہذا یہ نہایت غذائیت بخش ہے۔ پروٹین کی اتنی مقدار اپ کو کسی دوسری غذا یعنی سبزیوں وغیرہ میں نہیں مل سکتی۔
سبزیاتی غذا میں پروٹین کی مقدار کے حوالے سے سویابین کو بہترین خیال کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی گوشت کے قریب نہیں پہنچتی۔ باقی جہاں تک گائے کو قتل کرنے کا تعلق ہے تو میں یہاں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن چونکہ بھائی نے ایک سوال کیا ہے تو اس کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ ہندومتونِ مقدسہ کا بغور مطالعہ کریں تو اپ کو پتہ چلے گا کہ خود ان میں بھی گوشت خوری کی اجازت موجود ہے۔ قدیم دور کے سادھو اور سنت خود گوشت کھاتے رہے ہیں اور بڑا گوشت کھاتے رہے ہیں، یہ تو بعد میں دیگر مذاہب مثلاً جین مت وغیرہ کے زیر اثر ہندوؤں میں "اہمسا" یعنی عدم تشدد کے فلسفے کو پذیرائی حاصل ہوئی جس کی رُو سے جانوروں کو مارنا ممنوع قرار پایا اور یہ فلسفہ ہندوؤں کے طرزِ زندگی کا حصہ بن گیا۔
دوسری طرف اسلام جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا مذہب ہے۔ اسلام میں جانوروں سے متعلق جتنی ہدایات دی گئی ہیں ان کے حوالے سے طویل گفتگو ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ لادنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان کو پوری غذا دینے اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو انہیں غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جو مذاہب گوشت خوری کے خلاف ہیں اور جانوروں کے گوشت کو بطورِ غذا استعمال کرنے سے روکتے ہیں، اگر آپ ان کے فلسفے کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ مذاہب گوشت خوری سے منع اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ اس مقصد کے لیے جانداروں کی جان لینی پڑتی ہے اور یہ ایک گناہ ہے۔ مجھے ان کی بات سے اتفاق ہے، اگر کسی جاندار کی جان لیے بغیر زندہ رہنا اس دنیا میں کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہو تو یقین کیجیے میں وہ پہلا انسان ہوں گا جو اس طرح رہنے کا فیصلہ کرے گا۔
ہندو مت میں بھائی چارے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زندہ مخلوق کے ساتھ بھائی چارہ ہونا چاہیے قطع نظر اس کے کہ وہ مخلوق انسان ہے یا جانور، پرندہ ہے یا کیڑا مکوڑا۔ اب میں آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا کوئی انسان پانچ منٹ بھی بغیر کسی جاندار کو قتل کیے زندہ رہ سکتا ہے؟ علم طب سے آشنائی رکھنے والے میرے اس سوال کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم سانس لیتے ہیں تو سانس کے ساتھ بے شمار جراثیم بھی جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ گویا ہندو مت کی رو سے آپ زندہ رہنے کے لیے خود اپنے بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں۔
اسلام میں حقیقی بھائی چارے کا تصور یہ ہے کہ ہر انسان آپ کا بھائی ہے اور دینی بھائی چارے کے لحاظ سے ہر مسلمان آپ کا بھائی ہے۔ ہر زندہ مخلوق بھائی نہیں ہے۔ ہمیں جانوروں کا تحفظ کرنا ہے، انہیں نقصان نہیں پہنچانا، ان پر غیر ضروری تشدد نہیں کرنا لیکن بہ وقت ضرورت ہم انہیں غذا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ سبزی خوروں کا کہنا ہے کہ گوشت خوری کے لیے آپ جانداروں کو قتل کرتے ہیں لہذا یہ ایک گناہ ہے۔
لیکن جب جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ: "پودے بھی جاندار مخلوق ہیں" تو کیا ہوتا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ سبزی خوروں کی منطق ناکام ہو جاتی ہے۔ اب سبزی خور اپنی منطق تبدیل کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پودے جاندار ہیں لیکن انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہوتا جب کہ جانوروں کو ہوتا ہے۔ لہذا پودوں کو قتل کرنا جرم نہیں ہے جب کہ جانوروں کو مارنا بڑا جرم ہے۔
لیکن بہت ترقی کر چکی ہے اور اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پودے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ پورے روتے بھی ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں لہذا یہ منطق بھی ناکام ہو چکی ہے کہ پودوں کو تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ ھالانکہ پودوں کو بھی تکلیف کا احساس ہوتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ انسانی کان پودوں کی آواز نہیں سن سکتے۔ انسانی کان ایک خاص فریکونسی کی آواز سن سکتے ہیں۔ اس حد سے کم یا زیادہ فریکونسی کی آواز ہمارے کان سننے سے قاصر ہیں۔
مثال کے طور پر ایک چیز ہوتی ہے کتوں کی سیٹی “Dog Whistle” ۔ جب کتے کا مالک یہ سیٹی بجاتا ہے تو انسانوں کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن کتا یہ آواز سن لیتا ہے۔ کیونکہ ایک سیٹی کی آواز کی فریکونسی اس حد سے زیادہ ہوتی ہے جس حد تک انسانی کان آواز سن سکتے ہیں۔ چوں کہ کتے کی سننے کی صلاحیت انسان سے زیادہ ہے لہذا وہ اس آواز کو سن لیتا ہے۔
اسی طرح پودوں کی آواز بھی انسانی کان نہیں سن سکتے کیونکہ ان کی فریکونسی مختلف ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پودے تکلیف محسوس نہیں کرتے یا اس کا اظہار نہیں کرتے۔
میرے ایک بھائی یہ بات سن کر مجھ سے بحث مباحثہ شروع کر دیا۔ وہ کہنے لگے کہ ذاکر بھائی، یہ ٹھیک ہے کہ پودے جاندار ہوتے ہیں لیکن جانورں میں تو پورے پانچ حواس خمسہ ہوتے ہیں جب کہ پودوں میں صرف تین حواس ہوتے ہیں یعنی دو حواس کم ہوتے ہیں۔ لہذا جانوروں کو مارنا بڑا جرم ہے جب کہ پودوں کو مارنا چھوٹا جرم ہے۔
میں نے اس سےکہا کہ اچھا چلو فرض کرو تمہارا ایک چھوٹا بھائی ہے جو پیدایشی گونگا بہرا ہے۔ یعنی اس میں عام انسانوں کے مقابلے میں دو حسیات کم ہیں۔ اب فرض کیجیے کوئی آپ کے بھائی کو مار دیتا ہے۔ کیا اس وقت آپ جج کے سامنے جا کر یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے کہ "مائی لارڈ چوں کہ میرے بھائی میں دو حواس کم تھے، لہذا مجرم کو کم سزا دی جائے۔" بتائیے کیا آپ یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے؟ نہیں بلکہ آپ کہیں گے کہ مجرم کو دگنی سزا دی جائے کیوں کہ اس نے ایک معصوم اور مجبور شخص پر طلم کیا ہے۔ لہذا اسلام میں بھی یہ منطق نہیں چلتی۔ حواس دو ہوں یا تین، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :
يَا اَيُّھَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الاَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ اِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ (سورۃ 2، آیہ 168 )
"اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
گویا جو بھی چیز اچھی ہے اور حلال ہے، اس کے کھانے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں چوپایوں وغیرہ کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کا نظام ہے کہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے مقابلے میں چوپائے بہت تیزی سے اپنی نسل میں اضافہ کرتے ہیں، اگر آپ کی بات مان لی جائے اور گوشت کھانا چھوڑ دیا جائے تو چوپایوں کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
جہاں تک گائے کی آبادی میں اضافے کا تعلق ہے اس حوالے سے مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "گئو ہتھیا"۔ یعنی گائے کا قتل۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کون کون گائے کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ اس کتاب میں چمڑے کے کاروبار کا تجزیہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اس کاروبار سے کون لوگ وابستہ ہیں۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ اس کاروبار سے مسلمان کم اور غیر مسلم زیادہ وابستہ ہیں۔ اس کاروبار میں بیش تر لوگ "جین مت" کے ہیں۔ یعنی گائے سے صرف مسلمان ہی فائدہ نہیں اٹھا رہے، غیر مسلموں کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔
لہذا اگر آپ سمجھدار ہیں تو آپ کو فیصلے تک پہنچنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے۔ مزید برآں اگر آپ دیکھیں تو انسان کے دانت ہمہ خوری کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یعنی انسانی جبڑے میں نوکدار دانت بھی ہوتے ہیں ہموار بھی تاکہ یہ گوشت خوری بھی کر سکے اور سبزی خوری بھی۔ جو جانور صرف سبزی خور ہیں ان کے تمام دانت ہموار ہوتے ہیں۔ لہذا وہ گوشت کھا ہی نہیں سکتے۔ جبکہ گوشت خور جانوروں کے تمام دانت نوکیلے ہوتے ہیں، یوں وہ تمام سبزی کوری کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا انسانی دانتوں کی ساخت اور بناوٹ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ دانت ہر قسم کی خوراک کے لیے بنائے ہیں، اگر ہمارا خالق چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں ہی کھائیں تو وہ ہمیں نوکیلے دانت کیوں عطا کرتا؟ یہ دانت کیوں عطا کیے گئے ہیں؟ اس لیے تا کہ ہم گوشت خوری کر سکیں۔ اسی طرح اگر آپ سبزی خور جانوروں مثلاً گائے، بکری، بھیڑ وغیرہ کے نظام انہضام کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ صرف سبزیاں ہی ہضم کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر آپ گوشت خور جانوروں مثلاً شیر، بھڑیئے، چیتے وغیرہ کا نظام ہضم کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ صرف گوشت ہی ہضم کر سکتے ہیں، لیکن انسان کا نظام ہضم اللہ تعالٰی نے بنایا ہی اس طرح ہے کہ ہر طرح کی غذا ہضم کر سکتا ہے۔
یوں سائنسی تجزیے کی روشنی میں بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی مرضی یہی ہے کہ انسان ہر طرح کی غذا استعمال کرے۔ نباتاتی بھی اور لحمیاتی بھی۔ اللہ تعالٰی اگر چاہتا کہ ہم صرف سبزیاں کھائیں تو وہ ہمیں گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت ہی کیوں دیتا۔
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*