اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

زیرک

محفلین
چلیں میں تو ایک عام پاکستانی ہوں، میرے دلائل بغض سہی، پرویز مشرف کے بارے میں جنرل حمید گل کے خیالات تو آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے اب ان کے بارے میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے خیالات سنیں اور سر دھنیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر بنانے والا کون ہے؟ پاکستان کی ریاست کے اندر باغیانہ خیالات کی ماورائے ریاست تنظیم بنانے والا تو خود مشرف نکلا اور اس بار تو آپ کی فوج کے سابق سربراہ نے سلطانی گواہ بن کر ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں میں تو ایک عام پاکستانی ہوں، میرے دلائل بغض سہی، پرویز مشرف کے بارے میں جنرل حمید گل کے خیالات تو آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے اب ان کے بارے میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے خیالات سنیں اور سر دھنیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر بنانے والا کون ہے؟ پاکستان کی ریاست کے اندر باغیانہ خیالات کی ماورائے ریاست تنظیم بنانے والا تو خود مشرف نکلا اور اس بار تو آپ کی فوج کے سابق سربراہ نے سلطانی گواہ بن کر ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔
آمنہ مفتی کا کالم: مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا!
آمنہ مفتی مصنفہ و کالم نگار
  • 22 دسمبر 2019

سردی، دھند، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے درمیان، ٹھنڈ سے تھر تھر کانپتے خصوصی عدالت کا فیصلہ سنا ۔ ایک لمحے کو لگا کہ زمین اپنے محور پہ الٹی گھوم گئی ہو۔

بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کا وہ دن آنکھوں کے آگے آ گیا جب بوٹوں کی دھڑدھڑاہٹ سے سول اداروں کے برآمدے اور راہداریاں گونج اٹھی تھیں۔ پرویز مشرف کی مطلق العنان آواز اور وہ جملے جو میں سے شروع ہو کر میں پہ ختم ہو تے تھے، رہ رہ کر سنائی دینے لگے، جیسے بیس برس نہ گزرے ہوں ابھی کل کی بات ہو۔

ضیاء الحق کا مارشل لا ہمارا بچپن کھا گیا تھا اور پرویز مشرف کا مارشل لا ہماری جوانی نگل گیا۔ شائد ہماری نسل پیدا ہوتے ہی بوڑھی ہو گئی تھی ورنہ کس میں مجال تھی کہ یوں بندوق تانے ریڈیو، ٹی وی کی عمارتوں پہ قبضہ کرتا؟ ہم فتح ہوئے، بار بار فتح ہوئے ۔ معاشی ترقی کا لالی پاپ دے کر بہلائے گئے۔

مجھے اسکندر مرزا، ایوب خان اور یحیی خان کے مارشل لا دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر ایک سے دوسرے مارشل لا میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ انگریزی محاورے کے مصداق اگر پوچھا جائے کہ ایک مارشل لا سے برا کیا ہو سکتا ہے تو جواب یہ ہی ہو گا ’دو مارشل لا‘ ۔

ریاست پاکستان بے چاری تو پانچ مارشل لا بھگت چکی ہے۔ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ یہ بات کسی نعرے سے نہیں دبائی جا سکتی۔ اقتدار اعلی خدا کو خاص ہے اور پاکستانی عوام اس اختیار کو بطور امانت اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعےاستعمال کریں گے۔ قرار داد مقاصد میں یہ بات وضاحت کے ساتھ لکھی گئی۔ کسی جگہ اس بات کا ذکر نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کوئی ’مقدس ادارہ‘ ہے۔ یہ بات ہمیں بدنام زمانہ ’مطالعہ پاکستان ‘ ہی میں پڑھائی گئی تھی۔ تب بھی یہ ہی سوال ذہن میں آتا تھا کہ ’منتخب نمائندے‘ کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے تب تک منتخب نمائندے نہیں دیکھے تھے۔

ٹیلی ویژن پہ سفاک لہجے اور سرد آنکھوں والا ایک باوردی شخص کبھی کبھار آ کے عجیب دھمکی آمیز لہجے میں کچھ کہہ جاتا تھا۔ مطلب تو سمجھ نہیں آتا تھا مگر اس شخص کی بدن بولی عجیب طرح سے ڈراتی تھی ۔

اس وقت تک غاصب کا لفظ میری چند لفظوں کی ڈکشن میں نہ تھا مگر بعد میں جب یہ لفظ پڑھا تو ذہن میں سوائے ضیاء الحق کے کسی کا چہرہ نہ آیا۔

مجھے مشرف اور ضیا کا چہرہ کبھی ایک دوسرے سے فرق نہیں لگا۔ وہی سفاک آنکھیں، وہی سرد لہجہ، لہجے میں وہی دھمکی ،انداز میں وہی اکڑ فوں اور چال میں وہی اچکا پن۔

میرے گاؤں میں کتنے ہی ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی رہتے ہیں میرا آدھا خاندان فوج میں ہے، کتنے ہی اچھے دوست فوجی ہیں مگر یقین جانیے ان کے چہرے، ان کی چال اور ان کا انداز، ان آمروں سے بالکل فرق ہوتا ہے۔ آپ کے میرے جیسے، سیدھے سادھے شریف انسان، اپنے ملک کے لیے جان دینے کو تیار۔ ہماری طرح ان کی مجبوریاں اور ان کا ڈسپلن انہیں ان آمروں کے آگے خاموش رکھتا ہے لیکن اس کا بالکل بھی یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی آمر اپنے انجام کو پہنچنے لگے تو ان سب میں ’غم وغصہ‘ پیدا ہو جائے۔

یہ بات میں پوری ذمہ داری سے بطور ادیب اپنے مشاہدے کے تحت کہہ رہی ہوں اور ادیب کسی ایک ادارے کا نہیں پورے معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، مقننہ اور دیگر تمام ادارے، عوام کی طاقت کے تابع ہیں۔ جدید ریاستوں میں ادارے اس لیے وجود میں آئے کہ عوام کے ازلی اور ابدی حق کی حفاظت کر سکیں۔ بد قسمتی سے ہمیں جو ادارے ملے وہ نو آبادیات کو چلانے کے لیے بنائے گئے تھے۔

پاکستان کسی ادارے کی نو آبادی نہیں ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے، جہاں آئین ایک مقدس دستاویز ہے اور وہ تمام لوگ جو اس دستاویز سے منحرف ہوئے، غداری کے مرتکب ہوئے اور قانون کی رو سے مقرر کردہ سزا کے حقدار ہیں۔

یہ ایک واضح اور دو ٹوک بات ہے اور اس پہ ناراض ہونے کی بجائے آئندہ آئین کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے۔ عوامی نمائندے برے ہیں یا بھلے، انہیں سدھارنا، ان سے جواب لینا عوام کی ذمہ داری ہے۔

خدارا یہ بوجھ ان کے کندھوں پہ ڈال دیجیے۔ عوام اتنے ناتواں نہیں، بائیس کروڑ ہیں اور مزید یہ کہ جب انھوں نے ریاستی اداروں کی صورت میں کئی سفید ہاتھی پالے ہوئے ہیں تو ان ہاتھیوں کو سدھانا بھی ان ہی کا کام ہے۔

مختصرا یہ کہ اپنے کام سے کام رکھیں اور تسلی رکھیں، کوئی انہونی نہیں ہونے جا رہی ،ہمارے آپ کے، سب کے پسندیدہ ناصر ادیب فرما گئے ہیں، ’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘ ، چنانچہ بے فکر ہو جائیں۔ عوام کی طاقت پہ نہ سہی مولا کے انصاف پہ تو یقین رکھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس وقار کا دماغی معائنہ واقعی کروا ہی لیں!
انصار عباسی
23 دسمبر ، 2019

جنرل مشرف کی سزائے موت کے فیصلے پر اٹھنے والا طوفان تھمتا نظر آ رہا ہے جو اچھی بات ہے کیونکہ عدالتی فیصلے کی بنیاد پر اداروں کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال کا پیدا ہونا کسی طور پاکستان کے لیے اچھا نہیں اور وہ بھی ایک ایسے فرد کی وجہ سے جس نے ایک نہیں دو بار آئین شکنی کی اور اپنے آمرانہ دور میں وہ کچھ کیا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور جس کا ملک اور قوم کو شدید نقصان پہنچا۔ بغیر سوچے سمجھے اور تفصیلی فیصلے کے آنے سے بھی پہلے فوری طور ایسا ردعمل دینا جس میں غصہ جھلک رہا ہو، نہ حکومت اور نہ ہی ریاست کے کسی ادارے کے لیے مناسب تھا۔ چلیں! جو ہوا سو ہوا، کم از کم اب احساس ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب نے مجھ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئی ایس پی آر کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ خود اس معاملے میں کچھ نہ بولتے۔ سابق جنرل حضرات یا حکومت کی طرف سے ہی فیصلے پر ردعمل آتا تو کافی تھا۔ لیکن کیا کریں، یہاں تو حکومت کا حال یہ ہے کہ اس کو معاملات سلجھانے کا سلیقہ تو نہیں آتا لیکن بگاڑنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔ حکومتی ذمہ داروں نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بارہا ثابت کیا ہے کہ غیر سنجیدگی کی اِن کے لیے کوئی حد نہیں اور کسی معاملے کو سمجھداری اور حکمت کے ساتھ سلجھانے کی ان سے توقع رکھنا ہی بیکار ہے۔ ورنہ مشرف کے خلاف اسپیشل کورٹ کے فیصلے کے بعد‘ کیا حکومت کے لیے مناسب نہ تھا کہ فوجی قیادت سے کہتی کہ آئی ایس پی آر کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، حکومت خود اس معاملے کو ہینڈل کر لے گی۔ لیکن حکومت نے ہینڈل کرنے کا جو طریقہ اپنایا وہ انتہائی بھونڈا تھا۔ اپنے وزیروں، اٹارنی جنرل وغیرہ سے پریس کانفرنس کروا کر پہلے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے جنرل مشرف تحریک انصاف اور حکومت کا کوئی بڑا ہیرو ہے جس سے بڑی زیادتی ہو گئی ہے۔ ماضی میں اپنے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے مشرف سے متعلق بیانات کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ان وزیروں، مشیروں نے تو جیسے عدلیہ پر حملہ کر دیا ہو اور اس حد تک چلے گئے کہ خصوصی عدالت کے سربراہ اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محترم جسٹس وقار سیٹھ کے دماغ کے معائنہ کروانے تک کی بات کر دی۔ ان حکومتی وزیروں مشیروں جن کی اکثریت ماضی میں مشرف کی ساتھی رہی، کا مقصد جسٹس وقار کی تضحیک کرنا تھا تاہم میں نے سوشل میڈیا پہ اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ حکومت کو جسٹس صاحب کے دماغ کا ضرور معائنہ کروانا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ کیسا جج پیدا ہو گیا جس نے ایک آمر کو آئین شکنی پر سزائے موت سنا دی۔ ورنہ ہمیں تو جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار جیسوں کو دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کر کے اُنہیں عدلیہ سے ہی فارغ کروایا جائے گا، لیکن شکر ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے حکومت کو بھی کچھ احساس ہو رہا ہے کہ جلدی میں جو ہوا وہ شاید اچھا نہ تھا۔ اب میڈیا کے ذریعے حکومت کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ جسٹس وقار کے متعلق ریفرنس میں کوئی جلدی نہیں بلکہ اس بارے میں سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

جنرل مشرف کے پاس اپیل کا موقع موجود ہے اور اُن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سزائے موت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں لیکن عمران خان حکومت کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کہیں وہ مشرف کی حمایت کر کے پاکستان کے ساتھ دشمنی تو نہیں کر رہی۔ بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے قانونی مشیروں فروغ نسیم، انور منصور اور شہزاد اکبر نے تحریک انصاف اور عمران خان کی اپنی سوچ (جس کا ماضی میں بارہا اُنہوں نے اظہار کیا) پر اُس سوچ کو مسلط کر دیا جو جنرل مشرف کی تھی۔ یاد رہے کہ فروغ نسیم، انور منصور اور شہزاد اکبر تینوں کا جنرل مشرف سے تعلق رہا جو وہ بڑی خوش اسلوبی سے اب بھی نبھا رہے ہیں۔ جہاں تک فوج کے ترجمان کے ردعمل کا تعلق ہے تو میں اُن حضرات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مشرف کی سزا پر فوج کی طرف سے ایسے ردعمل کی ضرورت نہ تھی۔ جنرل مشرف اب ایک سیاستدان ہیں، اُنہوں نے فوج کے حلف کے برعکس اور آئین و قانون کی منشا کے خلاف دوبار مارشل لا لگایا جس سے فوج کی بدنامی ہوئی۔ اس کے علاوہ مشرف نے اپنی آمریت کے دوران جو جو فیصلے کیے، جس قسم کے اقدامات کیے اور جس طرح پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اُس پر مشرف کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مشرف نے تو اپنے دور میں اپنے ذاتی مفادات اور اپنے آمرانہ فیصلوں کی وجہ سے فوج کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا تھا۔

مشرف بیمار ہیں، اُن کی صحت کے لیے بحیثیت مسلمان ہمیں دعا ضرور کرنی چاہیے، اگر مشرف سے کسی کو ہمدردی ہے تو اس کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں مشورہ دیں کہ اپنے رب کے حضور دن رات توبہ کریں۔ لیکن جہاں تک عدالتی معاملات کا تعلق ہے تو اُنہیں آئین و قانون کے مطابق ہی چلنے دیں، اسی میں سب کی بہتری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
BDE3C363-EEF5-47D3-88BC-19C7AEBEEA94.jpeg

نامعلوم افراد مشرف کو کھمبوں سے ”لٹکانے“ لگے
پاکستان میں عدالت کی جانب سے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ملک کے کئی بڑے شہروں کی اہم شاہراؤں پر ان کے حق بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔

مجرم قرار دیے گئے پرویز مشرف کو ہیرو قرار دینے کے بینرز سیالکوٹ کی شاہراہ پر لگے کھمبوں سے لٹکانے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک رکشے میں سوار دو نوجوان عدلیہ کے خلاف نعروں پر مبنی بینرز بھی لٹکا رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے ترجمان نے مشرف کے خلاف فیصلے کو آئین و قانون کے خلاف قرار دیا تھا جبکہ اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تھا کہ عدلیہ کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور فوج کے صدر دفتر والے شہر راولپنڈی کی سڑکوں پر بھی عدلیہ مخالف اور پرویز مشرف کی حمایت میں بینرز لٹکائے گئے ہیں۔

بدتمیز نامی ٹوئٹر ہینڈل سے پوسٹ کی گئی ویڈیو کے مطابق سیالکوٹ میں ایسے بینرز آویزاں کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کن کے کہنے پر یہ کام کر رہے ہیں۔

‏ویڈیو ٹویٹ کرنے والے نے لکھا ہے کہ ”عدلیہ کیخلاف محاذِ جنگ کھُل گیا۔ سیالکوٹ خواجہ صفدر روڈ پر ماسک پہنے لوگ بلا نمبر پلیٹ گاڑیوں پر عدلیہ کے خلاف اور غدار مشرف کے حق میں فلیکس آویزاں کر رھے ہیں۔ سوال کرنے پر کہتے ہیں:

"ہمیں آرڈر کسی اور نے دیا ہے، یہ نہیں پتہ لگوا کون رہا ہے۔"

اس ویڈیو کو ہزاروں افراد نے دیکھا اور لائک کیا ہے جبکہ بعض صارفین نے حکومت اور عدلیہ سے نوٹس لینے کی بھی اپیل کی ہے۔
 

زیرک

محفلین
ان ماوراء آئین و قانون فاتحینِ قوم کے کو مزاج دیکھیں تو نعوذباللہ خدائی سے کم کے دعوے ان کی للکاروں میں کم ہی نظر آتے ہیں، لیکن جب دشمن سے نبرد آزما ہونے کا وقت آئے تو انہیں علاقائی سلامتی کے نام پر امن یاد آ جاتا ہے، الغرض یہ وہ پہلوان ہے جو شیشے کے سامنے تو بلوان ہے لیکن مقابل کے سامنے ٹھس ہے۔
 

زیرک

محفلین
یہ وقت بھی آنا تھا کہ پرویز الہی جیسے ابن الوقت بھی پرویز مشرف کے متعلق باتیں کرنے لگے
چودھری ہوں یا دیگر سیاسی کردار سبھی ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، ان کی ابن الوقتی پر کوئی شک نہیں لیکن یہی موقع دیکھ کر کبھی کبھی سلطانی گواہ کا کام بھی دیتے ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین

زیرک

محفلین
شیخ سعدی سے منسوب فرمان ہے کہ؛ "میں پوری زندگی دو بندوں کو تلاش کرنے کے باوجود بھی انہیں ڈھونڈ نہ پایا، ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر کچھ دیا ہو اور وہ غریب ہو گیا ہو اور دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور وہ اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو"۔
 
Top