اسلام اور غلامی

ظفری

لائبریرین
تمہید

کچھ عرصہ قبل غلامی کے موضوع پر کافی بحث و مباحثہ ہوا تھا ۔ اور کچھ لوگوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام نے غلامی کے سدباب کے لیئے کوئی اقدام نہیں کیا ۔ بلکہ غلامی کے ظلم کو روا رکھا ۔ اس سلسلے میں کافی مباحث ہوئیں ۔ مجھ سمیت کچھ دوستوں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اس بارے میں معلومات جمع کرکے اسلام کے دفاع میں کچھ لکھیں گے ۔ میں نے آج اپنی کوشش کا پہلا حصہ مکمل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ میری فتویٰ صادر کرنے والوں سے بس اتنی گذارش ہے کہ وہ اپنے اعتراضات اور فتوے اس مضمون کے اختیام تک محفوظ رکھیں ۔ ( یا اس کا کوئی الگ دھاگہ بنالیں ) ۔ تاکہ میں اس مضمون کو یکسوئی سے مکمل کرسکوں ۔ اور یہ کسی تعطل کا شکار نہ ہو ۔ شکریہ
 

ظفری

لائبریرین
قرآن مجید جب نازل ہوا تو اس زمانے میں معاشرت کا ایک ناگزیر عنصر غلامی تھی ۔ جو صورت اس وقت سود کی ہوگئی ہے ۔ یہی اس وقت غلامی کی تھی ۔ جیسے اب کہا جاتا ہے کہ سود ممنوع ہے ۔ یا سود ہمیشہ سے ایک اخلاقی برائی رہی ہے ۔ یا یہ کہا جائے کہ سود تو تورات میں بھی ممنوع تھا ۔ انجیل میں بھی ممنوع رہا ہے ۔ سود تمام حکماء کے نزدیک ایک قابلِ مذمت چیز رہی ہے ۔ قران مجید نے بھی اس کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ تو سب یہ بات مان لیتے ہیں ۔ مگر عملاً اس سے پیچھا چھڑانے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ معیشت کی بنیاد اس وقت سُود پر قائم ہے ۔ جتنے انٹیٹیوشن اس وقت سُود کا کاروبار کر رہے ہیں ۔ انہی پر ساری معشیت کا نظام چل رہا ہے ۔ بینک محض‌ایک ادراہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس وقت پوری کی پوری معشیت کو خواہ وہ عالمی معشیت ہو یا قومی معیشت ہو ۔ اس کو کنٹرول کررہے ہیں ۔ یہ صورتحال جو اس وقت سُود کو حاصل ہوگئی ہے ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلامی کو حاصل تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ ایک یا دو آدمی کہیں سے لونڈی ، غلام خرید لاتے تھے ۔ بلکہ لونڈی ، غلام معاشرے کا ناگزیر حصہ تھے ۔ ایک دو ، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں غلام اور لونڈیاں موجود تھیں ۔ اور انہی کے ذریعے سے سارا کاروبارِ زندگی چل رہا تھا ۔ گھروں میں کھانا لونڈیاں پکاتیں تھیں ۔ گھر و در کے معاملات وہی انجام دیتیں تھیں ۔ کھیتوں میں وہی غلام کام کرتے تھے ۔ بھیڑ بکریاں وہی چرانے جاتے تھے ۔ تجارتی قافلے وہی لے کر جاتے تھے ۔ یعنی جتنے بھی اس نوعیت کے کام تھے ۔ انہی کے ذریعے انجام پا رہے تھے ۔ اور یہ بھی نہیں ہے صرف نوجوان لونڈیاں اور مرد ہی غلام بنے ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے جن کو غلام بنا لیا گیا تھا ان میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں بھی تھیں ، بلکہ بہت چھوٹی عمر کے بچے بھی بعض اوقات غلام بنا لیئے جاتے تھے ۔ اس طرح کی صورتحال اس دور میں تھی ۔ اب اس صورتحال میں کیا کیا جاتا ۔ ؟ یعنی کہ کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا کہ یہ لعنت معاشرے سے ختم ہوجاتی ۔ ایک طریقہ تو ایک جذباتی آدمی یہ تجویز کر سکتا ہے جیسے اب بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سُود ممنوع ہے لہذا چشم زدن میں‌تمام بینکوں ‌پر تالے لگا دیئے جائیں ۔ لیکن اس کا جواب ہر عاقل آدمی یہی دیتا ہے کہ معشیت کا سارا نظام ایک دم سے نیچے آگرے گا ۔ جب تک کوئی متبادل صورت نہیں پید ا کر لی جاتی ۔ اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے کہ ایسا کیا جا سکے ۔

یہی صورتحال اس وقت بھی تھی یعنی اگر فوری طور پر یہ کہا جاتا کہ آج سے لونڈیاں اور غلام آزاد کردیئے گئے ہیں ۔ تو اس وقت کا پورا نظام معاشرت ایک دم سے قدم بوس ہوجاتا ۔ یہ تو ایک پہلو تھا ۔ دوسرے پہلو سے اس کے ساتھ دوسری بہت سی اخلاقی برائیاں بھی پیدا ہوجاتیں ۔ یعنی کسی آدمی کے لیئے 24 گھنٹوں میں کوئی معاش کا ذریعہ تلاش کر لینا آسان نہیں ہوتا ۔ آپ یہ دیکھیں کہ آج کے جدید دور میں بڑی سی بڑی حکومتیں بھی بیروزگاری پر قابو نہیں پاسکیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے یارو مددگار ہوجاتے ۔ اگلے ہی دن ان کے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں‌ ہوتی ۔ عورتیں قحبہ خانے کھولنے پر مجبور ہوجاتیں ۔ یعنی ان کے پاس جسم فروشی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا ۔ کتنی عورتیں ہوتیں ، جن کو معاشرے میں کھپایا جا سکتا تھا ۔ کتنے مرد تھے جو ان عورتوں سے شادی کرنے کے لیئے تیار ہوتے ۔ بعض جذباتی لوگ یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ ان کی شادیاں کروا دی جاتیں ۔ مگر کسی معاشرے میں جب کسی عورت کا اسٹیٹس گر جاتا ہے ۔ یا اس کی شہرت اچھی نہیں رہتی تو کوئی بھی ان کو آسانی کے ساتھ اپنے گھر لانے کو تیار نہیں ہوتا ۔ اور شادی وہ چیز نہیں ہے جو بالجبر کروائی جاسکے ۔ اس کے لیئے معاشرتی تبدیلیاں‌لانی پڑتیں ہیں ۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں قرآنِ مجید نے ایک نہایت ہی غیر معمولی طریقہ اختیار کیا ۔ اور بڑی تجرید کیساتھ غلامی کے خاتمے کی راہ ہموار کردی ۔ قرآن مجید کی وہ باتیں جن کو لوگوں نے نہیں مانا ، جیسے مثال کے طور پر قرآن مجید نے اعلان کیا کہ اَمرَھُم شُورٰی بَینَھُم ( مسلمانوں‌کا باہمی نظام ان کے مشورے پر مبنی ہوگا ) اس کو مسلمانوں نے کچھ دیر کے لیئے مانا لیکن جلد واپس کردیا ۔ غلامی کے بارے میں بھی یہ بلکل درست ہے کہ اس کی بات نہ پُوری طرح سمجھی گئی اور نہ ہی مانی گئی ۔ تاہم جو کچھ قرآن مجید نے کہا ہے اور جیسے اس لعنت کو ختم کرنے کی جہدوجہد کی ہے ۔ اس کی ایک جھلک اس میں صاف نظر آتی ہے ۔ غلامی کے موضوع پر جو آیت عنوان بنی ہے ۔ وہ سورہ نور کی آیت 33 ہے ۔ ۔ ترجمہ : ( تمہارے غلاموں میں سے جو مقابقت چاہیں ان سے مطابقت کرلو ۔اگر بھلائی دیکھتے ہو ۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تم کو عطا فرمایا ہے ۔ ) اس میں مطابقت کا کیا مطلب ہے ۔ اللہ کے اُس مال سے کیا مراد ہے اور اسمیں کیا بات ہے جو کہی گئی ہے ۔ سورہ نور کی اس آیت کا مطالعہ کجیئے ۔ سورہ نُور کی اس آیت میں غلاموں سے مقابقت کا حکم بیان ہوا ہے ۔ قرآن کے زمانہِ نزول میں یہ مطابقت کیا چیز ہے ۔ ؟ اسے آپ آگے دیکھیئے کہ قرآن مجید نے کس طرح غلامی کے خاتمے کی یہ دستاویز لوگوں کے ہاتھ میں‌ پکڑوائی ہے ۔ قرآن کے نزول کے وقت غلامی کومعیشت اور معاشرت کے لیئے اسی طرح ناگزیر سمجھا جاتا تھا ۔ جس طرح آج سُود کو سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اس وقت کی معیشیت غلامی کی انسٹیٹوشن پر کھڑی تھی ۔ ہر طرف غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت عام تھی جیسے اب ہم کبھی باہر نکلیں تو کسی بھی بازار میں تین ، تین بینک نظر آجاتے ہیں ۔ جہاں‌ لوگ سود کا کاروبار کر رہے ہوتے ہیں مگر کسی کی پیشانی پہ بل نہیں آتا ، کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی ۔ اسی طرح اس دور میں بھی آپ جائیں اور بازار سے کوئی بھی غلام یا لونڈی خرید لائیں ۔ اور کھاتے پیتے گھروں میں ہر سن و سال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے ۔ اس طرح کے حالات میں اگر یہ حکم دیدیا جاتا کہ تمام غلام اور لونڈیاں آزاد ہیں ۔ تو ان کی ایک بڑی تعداد کی جینے کے لیئے اس کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہتی کہ مرد بھیک مانگیں اور عورتیں جسم فروشی کے ذریعے اپنا پیٹ بھریں ۔ یہ ایک مصلحت تھی جس کی وجہ سے قرآن نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا ۔ یعنی ‌gradually ختم کرنے کا طریقہ اختیار کیا ۔ جیسے آج سود کے بارے میں یہ آراء ہیں کہ اس کو آہستہ آہستہ ختم کیا جائے ۔ پہلے مرحلے میں آپ کچھ نئے انسٹیٹوشن بنائیں ۔ کچھ متبادل راستے تجویز کریں ۔ آہستہ آہستہ فرد کو سُود کے کاروبار کی ممانعیت کریں ۔ یہ کوئی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ یہ ماہرین کا اپنا تجزیہ ہے ۔ پھر اس کے بعد آپ اندورنی طور پر سود ختم کریں پھر کچھ وقت لیکر اگر ممکن ہوسکے تو بیرونی طور پر اس کے خاتمے کی کوشش کریں ۔ یعنی یہ ایک تدریج کا ایک پورا نظام ہوا ۔ اور اس سلسلے کے کئی اقدامات کے بعد ( یعنی جس آیت کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ) وہ کئی اقدامات کے بعد آئی ہے ۔ بلآخر پھر یہ قانون نازل فرمایا ۔ یہ آخری قانون ہے جس نے معاملے کو انتہا پر پہنچا دیا ۔ اس آیت میں مطابقت کا جو لفظ استعمال ہوا ہے ۔ دراصل یہ ایک اصطلاح ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لے کہ وہ فلاں ‌مدت میں اس کو یہ رقم ادا کرے گا ۔ یا اس کی کوئی متعین خدمت انجام دیگا اور اس کے بعد آزاد ہوجائے گا ۔ یعنی اس وقت جو غلامی موجود تھی اس میں غلام کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا ۔ مگر قرآن مجید نے اس قانون کی شکل میں یہ دستاویز ہاتھ میں پکڑاوادی کہ تم میں سے جو شخص‌ بھی آزادی چاہتا ہے ۔ وہ مالک کے پاس آئے کہ میں اتنی رقم یا فلاں خدمت کرسکتا ہوں اس کے بعد مجھے آزاد کر دیا جائے ۔ جیسے ہی یہ بات طے ہوجاتی تھی ۔ غلام یا لونڈی آزاد ہوجاتے تھے ۔ یعنی اب صرف معاہدے کی پابندی کرنا ہوتی تھی ۔ وہ معاہدہ کیونکہ لکھا جاتا تھا ۔ اس لیئے اس کو مطابقت کہا گیا ۔ یعنی انہوں نے ملکر طے کر لیا ۔ لہذا قرآن مجید نے کہا کہ " تمہارے غلاموں میں‌ سے کوئی یہ کہے کہ میں آزادی چاہتا ہوں ۔ ان سے مطابقت کرو " یعنی اس کا حکم دیدیا گیا ۔ اسی حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ایک شخص ‌نے یہ کہا کہ " میں یہ نہیں‌ کرتا " ۔ تو انہوں نے دُرہ ہاتھ میں پکڑ لیا اور کہا کہ " کرو ، قرآن کہتا ہے کہ کرو ، تم کیسے نہیں کرتے ۔ تمہیں کرنا ہی پڑے گا " ۔ یعنی یہ لازم تھا کہ آدمی اس کو مان لے ۔ ہاں البتہ کوئی یہ کہہ سکتا تھاکہ یہ آدمی کوئی چوری ، بدمعاشی یا اس طرح کا کام کرنا چاہتا ہے ۔ اگر ایسی کوئی چیز کسی شخص میں‌موجود ہوتی تو وہ معاشرے میں زیرِ بحث آجاتی تھی ۔ یہ اس لیئے شرط عائد کردی گئی کہ جیسا کہ ہزاروں کی تعداد میں غلام تھے ۔ اور سوسائٹی کے اندر کسی قسم کی چوری چکاری ، اوباشی ، فحاشی کی صورتحال ہونے سے روکنا بھی مقصود تھا ۔ یعنی " اگر تم بھلائی دیکھتے ہو " ۔ تو مطابقت کرنا ضروری ہے ۔
( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
اگر کوئی یہ کہتا کہ اس کو مطابقت کرنی ہے اور میں دوسو درہم دیدوں گا ۔ ظاہر ہے اس کے لیئے اس کو مزدوری کرنی پڑتی اور اس کو مزدوری کے لیئے آزادی بھی دینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوجاتا تھا کہ اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ واقعی مزدوری کر رہا ہے یا بھیک مانگ رہا ہے ۔ وہ کہیں سوسائٹی میں کسی قسم کا مسئلہ تو پیدا نہیں‌کررہا ہے کیا وہ معاشرے میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی پوزیشن میں آگیا ہے ۔ ؟ اب دیکھیئے کہ ایک غلام اس طرح آزادی کے لیئے جہدوجہد کر رہا ہے ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ مالک نے آزادی کے لیئے جو رقم مقرر کی ہے ۔ وہ اس کا انتظام بھی کر لے ۔ اس لیئے اگلی بات کہی گئی کہ جو رقم بیت المال میں‌موجود ہے اگر وہ مقررہ مدت میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ تو اس میں سے ادا کردو ۔ گویا حکومت کو یہ حکم دیدیا گیا کہ جب کوئی غلام مقابقت کر لے ۔ ( اگر اس میں بھلائی ہے ) اور اس نے اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ مقررہ رقم ادا کردے اور اس میں کامیاب نہیں‌ ہوا ۔ یا تم محسوس کرتے ہو کہ وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوگا تو پھر وہ رقم بیت المال میں سے ادا کردی جائے ۔ یعنی ایک طرف مالک کا پابند کردیا گیا کہ وہ مطابقت کرے اور دوسری طرف حکومت کو پابند کردیا گیا کہ بیت المال میں سے وہ اس رقم کا بندوبست کرے ۔ چنانچہ جو غلام موجود تھے ان کو آزادی دینے کے لیئے قرآن نے یہ طریقہ اختیار کیا ۔ یعنی وہ غلام جو بن گئے جن کے پاس کوئی راستہ نہیں‌ ہے ان کے لیئے یہ قانون بنا دیا گیا کہ وہ مطابقت کرلیں اور جیسے ہی وہ مطابقت کی درخواست کریں گے ۔ اس کے بعد مالک کے لیئے اسے ماننا ضروری ہوگا ۔ اگر مال دینے میں‌یا وہ رقم جو مقرر کی گئی ہے اس کو ادا کرنے میں کوئی دقت پیش آتی ہے تو حکومت اپنی طرف سے مدد کرے ۔
مطابقت کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے مالک سے یہ معاہدہ کر لے کہ وہ فلاں مدت میں اس کو یہ رقم ادا کرے گا ۔ یا اس کی کوئی متعین خدمت انجام دیگا اور پھر اس کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا ۔ سورہ نور کی اس آیت میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ " اگر وہ یہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے ۔ کسی گھر میں کوئی غلام بوڑھے ہیں یا کسی گھر میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک اچھا ہو رہا ہے اور ان کو آزادی کی ضرورت نہیں ہے تو ان پر جبر کرکے گھر سے تو نکالا نہیں جاسکتا ۔ تو یہ ان کی مرضی پر منحصر ہوگا کہ وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اور نیکی اور خیر کیساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت تو ٹھیک ہے ۔ اس پر قرآن نے ہدایت جاری کردی کہ پھر اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔
آیت کے الفاظ سے یہ بات واضع ہے کہ مطابقت کا یہ حق جس طرح غلاموں کو دیا گیا ہے ۔ اسی طرح لونڈیوں کو بھی دیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ لوحِ تقدیر اب غلاموں کے ہاتھ میں ہے ۔ اور وہ اپنی آزادی کی تحریر اس پر جب چاہیں لکھ سکتے ہیں ۔ غلامی سے متعلق یہ آخری حکم ہے ۔
( جاری ہے )
 
Top