اسلام آباد کے دھرنے نے ہمیں پیر بنادیا

تاریخ: یکم مئی 2013
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: دہشت گردی بھی ہورہی ہے، جلسے اور جلوس بھی نکل رہے ہیں۔ 11 مئی کو ہم اپنے اگلے حکمرانوں کا انتخاب بھی کرلینگے۔ اس وقت آوئے ہی آوئے میں مصروف ہیں۔ مگرامید ہے دسمبر اور جنوری میں پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کرنے والے علامہ طاہرالقادری کو آپ ابھی بھولے نہیں ہونگے۔ اب علامہ نے الیکشن کو حرام قرار دے دیا ہے کیونکہ بقول علامہ کے پہلے اصلاحات بعد میں انتخابات اور اس سلسلے میں انکا پروگرام الیکشن کے دن دھرنے دینے کا ہے۔ اس سے پہلے علامہ اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہیں۔ علامہ کے دھرنے کے بعد میں نے ایک مضمون "اسلام آباد کے دھرنے نے ہمیں پیر بنادیا" لکھا تھا۔ آپ بھی پڑھ لیں اور ہمیں اپنا پیر بنالیں۔

اسلام آباد کے دھرنے نے ہمیں پیر بنادیا
کچھ سال پہلےکراچی کے علاقے لانڈھی کا رہنے والا نوجوان جاوید اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرنے جب سعودی عرب پہنچا تو جدہ میں میری اس سے ملاقات ہوئی، مجھے جاوید سیدھا سادھا نوجوان لگا، اس نے بتایا کہ وہ کپڑے سینے جانتا ہے لہذا اپنی والدہ کو واپس بھیج کر یہاں غیرقانونی رکرکام کرے گا کیونکہ میرے پیر صاحب کا مشورہ تھا کہ سمندرپار جاوں لہذامیں نے اپنی امی کو بتایا تو امی نے بہنوں کےلیے رکھا ہوا زیور بیچ کر انتظام کیا۔ پھر جاوید کی والدہ واپس آگیں اور جاوید سے کبھی کبھی راستے میں ملاقات ہوجاتی۔ایک دن جب جاوید سے ملاقات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ بارہ ربیع الاول کی وجہ سے وہ رات کو مدینہ منورہ جارہا۔ میں نے کہا تم یہاں غیرقانونی ہو راستے کی چیک پوسٹ پر پکڑئے جاوگے۔ جاوید نے بتایا کہ اس نے اپنے پیرصاحب سے بات کرلی ہے اور انہوں نے اجازت دے دی ہے اور اب کوئی مجھے نہیں پکڑئے گا۔ ایک ہفتہ بعد وہ صاحب جن کے ساتھ جاوید رہتا تھا میرے پاس آئے اور بتایا کہ مدینہ منورہ جاتے ہوئے جاوید چیک پوسٹ پر پکڑا گیا اور چاردن جدہ کی جیل میں رہنے کے بعد کل ہی پاکستان پہنچاہے۔ ان صاحب نے کہا کہ جاوید نے بتایا کہ آپ پاکستان جانے والے ہیں اسلیے آپ سے درخواست کی ہے کہ اسکا سامان جو ایک بیگ میں اپنے ساتھ لیتے آیں۔ کچھ دن بعد میں کراچی پہنچا تو جاوید کا بیگ بھی میرے ہمراہ تھا۔ دو دن بعد جب جاوید اپنا بیگ لینے میرے پاس آیا تو میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنی بہنوں کا زیور بیچ کر سعودی عرب گے تھےاب کیسے پورا کروگے ۔ اُس نے کہا جب سے میں واپس آیا ہوں میری والدہ اور بہنیں مستقل رورہی ہیں اور مجھے ابھی تک کوئی کام بھی نہیں ملا ہے۔ میں نے غصے میں پوچھا اور وہ تماراپیر اب کیا کہتا ہے ، وہ بولا میرے پیر صاحب کا کہنا ہے کہ فکر مت کرو میں تمارے لیے دعا کرونگا۔ اور جاتے جاتے بولا میں اپنے پیر صاحب پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں مگر لگتا ہے آپکا ایمان کمزور ہے جب ہی میرئے پیر صاحب پر غصہ کررہے ہیں۔

اسلم ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے ، وہ متحدہ قومی موومنٹ کا ایک بے لوث کارکن ہے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان الطاف حسین کی ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار رہتا ہے اور الطاف حسین کے ہونے والے ہر جلسے میں شرکت کرتا ہے، چاہے وہ رات کو ہو یا دن میں اس وجہ سے وہ اکثر وبیشتربے روزگار بھی رہتا ہے ۔ کل اسلم سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کیا تم اس جلسے میں موجود تھے جس میں الطاف حسین نےقائد اعظم کی دہری شہریت کا ذکر کیا تھا تم تو تاریخ میں ایم اے کرچکے ہوکیا تم بھی الطاف حسین کی بات سے اتفاق کرتے ہو، اس نے جواب دیا جی میں اتفاق کرتا ہوں اور وہاں مجھ سے بھی زیادہ پٹرھے لکھے موجود تھے اور سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قائداعظم کی دہری شہریت تھی۔مھجے غصہ آگیا میں نے کہا اور ابھی جو لانگ مارچ میں ہوا ایک دن پہلے تک آپ سب الطاف حسین کے کہنے پر لانگ مارچ کرنے کےلیے بیتاب مگر دوسرئے دن لانگ مارچ سے انکاریہ کیا ہے۔ اسلم غصے میں کھڑا ہوگیا اور بولا ہماری پارٹی نظم و ضبط کی مثال ہے،جب ہم سے کہا گیا کہ زرداری زندہ باد تو ہم سب زرداری کی تعریفیں کرنے لگے ۔گذشتہ دنوں ہم سےکہا گیا کہ سپریم کورٹ کے خلاف بولو ہم خوب بولے، اور جب معافی مانگنے کو کہا تو ہمارے رہنماوں نے معافی مانگ لی۔ پیرصاحب نے کہا لانگ مارچ کرو ہم لانگ مارچ کے حق میں دلائل دیتے رہے اور جب لانگ مارچ میں عدم شرکت کا فیصلہ ہوا تب بھی ہم لوگوں کو دلائل دیکر ہی سمجھا رہے تھے۔ اورپھر جاتے جاتے بولا آپ ذرا تمیز سے بولا کریں ہم کارکن ان کو پیر صاحب کہتے ہیں ۔

بڑی آپا جو میری چچا کی بیٹی ہیں دو مرتبہ فون کرکے بلاچکی تھیں مگر میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکا تھا، آج وہ خود ہی چلی آیئں اور بولیں کیا تم نے تیاری کرلی۔ میں نے پوچھا کس بات کی؟ بولیں کیا تم کو پتہ نہیں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا ہے لہذا ہمیں وہاں جانا چاہیے ۔مگر بڑی آپا آپکو پتہ ہے میں بے روز گار ہوں میں کیسے جاسکتا ہوں، بولی کیوں بہانے کررہے ہواچھا یہ بتاو اس دھرنے کےلیے کیا دے رہے ہو کیونکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد مارچ فنڈ قائم کیا ہے اورکہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب مارچ کیلئے زیور، گھر ،پلاٹ جو کچھ بھی بیچنا پڑے فروخت کردیں ۔ گھر کے برتن یا تن کے کپڑے بیچ کر اسلام آباد آنا پڑے تو ضرور آئیں۔ شیخ الاسلام نےسب سے پہلے اپنی اہلیہ اور بہوؤں کا زیور مارچ فنڈ میں دیا ہے، اس کے بعد خواتین نے زیورات کا ڈھیر لگا دیا۔ نقد رقوم کا بھی انبار لگ گیا۔ میں بھی اپنا سارا زیور اس مارچ فنڈ میں دونگی اور دھرنے میں شرکت بھی کرونگی، اگر تم نہیں بھی جارہے تو ایسا کرو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جو زیور بنایا ہے وہ دے دو میں تمارے نام سے دے دونگی، میں نے معذرت کی تو بڑی آپا غصے سے یہ کہتی ہوئی چلی گیں کہ تم میں تو ذرا بھی جذبہ حب الوطنی نہیں۔

چار دن کے دھرنے کے بعد رات ساڑھے دس بجے علامہ طاہر القادری حکومت سے کیے ہوئے مذاکرات کے نتایج دھرنے کے شرکا کو بتارہے تھے اور شرکا جوش وجذبات سے لبریز ہورہے تھے۔ ٹی وی پرایک جھلک بڑی آپا اور انکے شوہر کی بھی نظر آئی دونوں تھکے تھکے لگ رہے تھے ۔ کل بڑی آپا واپس آگیں آج وہ ملنے آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں ۔ مگر جب میں نے ان سے پوچھا کہ عام لوگوں کو اس دھرنے سے کیا فائدہ ہوا تو انہوں نے کہا جناب طاہر القادری شیخ الاسلام ہی نہیں،علامہ، ڈاکٹر،پروفیسر،مدبر،مفکر،فقیہ اورصاحبِ کشف و کرامات بزرگ بھی ہیں، لہٰذا یقینا انہیں علم ہوگا کہ قومی اصلاح کا عمل کب پورا ہوگا، اسکے بعد وہ غصے میں یہ کہتی ہوئی چلی گیں کہ مھجے تو لگتا ہے کہ تم بہت ہی بے عقیدہ ہو۔

عارف صاحب میرے بڑے پرانے اور اچھے دوست ہیں ان سے کہہ رکھا تھا کہیں نوکری دلادیں ، آج بھی ان سے معلوم کرنے گیا تھامگر وہ پہلے دھرنے کا ذکر لے بیٹھے ہم تو ڈرے ہوئے تھے لہذا ان سے پوچھا کہ اس عظیم اور پرامن دھرنے اور اس کے نتایج پر آپکا کیا خیال ہے۔ وہ بولے ایک قصہ سناتا ہوں ۔ایک اسکول کے پی ٹی ماسٹر اپنے اسکول کے بچوں کو لیکر دوسرے شہر کے ایک اسکول میں بچوں کے کھیلوں کے مقابلے میں گے، واپسی میں انہوں نے ہیڈماسٹر کو رپورٹ دی کہ فٹبال وہ جیت گے ، ہاکی ہم ہار گے اور میرا ٹی اے ڈی اے حکومت پر واجب ہوگیا۔ اب دھرنے کے ٹی اے ڈی اے کے حقدار تو علامہ طاہر القادری ہی ہوے نہ۔ ہم نے بھی پھر اپنی بڑی آپا کا بتایا کہ وہ بھی دھرنے میں شریک ہویں اور ہمیں جو القابات "جذبہ حب الوطنی نہ ہونے" اور"بے عقیدہ" ہونے کے دیے تھے ان کا ذکر کیا اور ساتھ ساتھ جاوید اور اسلم کے القابات " آپکا ایمان کمزور ہے" اور "بدتمیز" کا ذکر بھی کرڈالا۔ عارف صاحب مسکراکر بولے یہ تو آپکا مسلہ ہی حل ہوگیا اب آپکو نوکری کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کیسے ہم نے حیرانگی سے سوال کیا۔ عارف صاحب بولے اب آپ میری بات غور سےسنیں آپ ایسا کریں کہ آج سے پیر بن جایں۔آپ کو معلوم ہے کہ صدر آصف زرداری گذشتہ ایک ماہ سے اپنے پیر صاحب کے کہنے پر کراچی میں ہیں، پیرصاحب پگارا پہلے حکومت میں تھے اب نہیں ہیں ، کیا انکے کسی مرید نے سوال کیا۔ مخدوم امین فہیم گدی نشین ہیں، وزیر بھی ہیں اور ٹیکس دینا تو دور کی بات وہ تو بجلی کا بل تک نہیں دیتے، کیا انکا کوئی مرید کم ہوا۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گے انکے مرید بھی انکے ساتھ تحریک انصاف میں چلے گے اور تو اور سابق بدترین کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جن کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا کیا انکے کسی مرید نے اس بات کو مانا۔ یہ سب کچھ سنتے ہی ہم نے اپنے پیر ہونے کا اعلان کردیا۔ اب تک بڑی آپا، جاویداور اسلم ہمیں اپنا پیر مان چکے ہیں۔ آپ بھی جب چاہیں ہمیں اپنا پیر بنالیں بس اس بھروسے کے ساتھ ہم کچھ بھی کریں وہ درست ہوگا چاہےآپکا کا کوئی بھی نقصان ہو۔ علامہ طاہر القادری نےکیوں دھرنا دیا یہ تو نہیں معلوم مگر اسلام آباد کے دھرنے نے ہمیں پیر بنادیا ہے ۔
 
Top