اسلام آباد میں دھماکہ

زینب

محفلین
کچھ دوستوں کی جانب سے ايک مرتبہ پھر پاکستان ميں ہونے والی دہشت گردی کا الزام غير ملکی ايجينسيوں اور امريکہ پر لگانے پر مجھے کوئ خاص حيرت نہيں ہوئ۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض کر دوں کہ اسلام آباد دھماکے ميں جن امريکيوں پر حملہ کيا گيا ان ميں وہ ايف – بی – آئ کے اہلکاربھی شامل تھے جو حاليہ دھماکوں کے سلسلے ميں حکومت پاکستان کی مختلف ايجينسيوں کی مدد کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ کيا امريکی ايجينسياں اپنے ہی اہلکاروں پر حملے کروانے کی سازش کريں گی؟

کسی دوست نے ايک اخبار کا حوالہ بھی ديا ہے جس ميں بغير کسی ثبوت کے يہ مفروضہ پيش کيا گيا ہے کہ القاعدہ کی کاروائيوں سے سارا فائدہ امريکہ کو ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں ميں يہ دعوی کيا گيا ہے کہ القاعدہ کی کاروائيوں کے پيچھے امريکہ کا ہاتھ ہے۔اگر ان کالم نويس کا يہ مفروضہ درست مان ليا جائے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

11 ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوئے جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا واقعی کوئ وجود ہے۔

1998 ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔

دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو القائدہ کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ القآئدہ کا وجود ايک حقيقت ہے۔

يہ يقينآ انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا ہی جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں قخر محسوس کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


میرے اپ سے دو سوالات ہیں۔۔۔۔

آپ نے کہا امریکہ کیسے اپنے ہی لوگوں کو مروا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جب ہم سب یہ کہتے ہیں کہ۔۔۔پاکستان میں‌خودکش حملوں میں "باہر "والوں کا ہاتھ ہےتو اپ کو اختلاف ہوتا ہے۔۔۔۔۔جب امریکہ امریکیوں کو نہیں مروا سکتا تو ایک پاکستانی بلاوجہ دوسرے پاکستانی کو کیوں مارے گا۔۔۔؟ خود کش حملہ کرنے والے بھی پاکستانی اور مرنے والے بھی۔۔۔۔۔لاہور میں ایف آئی ائے میں‌جو دھماکہ ہوا اس میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔۔۔اگر ایک گرام ایک کمرے میں رکھ دیا جائے تو کمرے کو مکمل طور پے تباہ کرنے کے لیے کافی ہے 65 کلو کا وہ مواد لاکھوں کا تھا اس کے لیے کس نے فینانس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک جگہ اظہرالحق باھئی نے لکھا کہ عام سی کالشنکوف 45 ہزار کی آتی ہے۔ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے شمالی علاقہجات کے لوگ کتنے امیر کبیر ہیں۔۔۔۔وہ لوگ جو پسماندہ ترین ہیں کیسے اتنی بڑی جنگ لڑ سکتے ہیں چندے لے کے کیا۔۔۔؟؟


جہاں‌کہیں‌اسامہ کے ہونے کا شک ہو اس گلی میں سے بھی کوئی گزر جائے تو اس پے دنیا کا انتہائی بھیانک ترین
شدد امریکہ کی خفیہ جیلوں میں‌کیا جاتا ہے اسامہ کا حقیقی بیٹا کینیڈین نیشنلیٹٰ لے رہا ہے سر عام آزاد ہے بیانات جاری کرتا ہے کیا۔۔۔اس سے پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ ایک عام آدمی سے کم جانتا ہو گا اپنے والد کے بارے میں۔۔۔۔۔۔؟امریکہ نے جو نئے مطالبات پاکستان کے سامنے۔۔۔۔وہ کس لیے۔۔۔۔۔؟یہ بات تو بہت صاف ہے کہ امریکہ کے مٍفادات ہیں پاکستان زمینی لوکیشن سے چین اور ایران کو قابوکرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے حلات میں امریکہ اور بھارت کا برابر ہاتھ کسی طرح مسترد نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔کوئی کچھ بھی کہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

صدام کا حلبچہ پر کیمیائی بم گرانا اور امریکہ بہادر کی حکومت کا منافقانہ رویہ

فواد صاحب:
اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

امریکی اور یورپی اقوام کے مثبت رویے اور کردار کی میں نے ہمیشہ دل کھول کر تعریف کی ہے اور انکو اسکا مکمل کریڈٹ دیا ہے۔ واقعی یہاں پر انسان اور انسانیت کا احترام ہے۔

بہرحال امریکی حکومت اور سی آئی اے کے کچھ کردار بہت منافقانہ رہے ہیں۔

ایران دشمنی میں امریکہ نے صدام حسین سے دوستی یاری کی بہت پینگیں بڑھائی تھیں اور میں اس مسئلے کی تفصیل میں نہیں جا رہی۔ میرا پہلا موضوع ہے حلبچہ پر صدام حسین کا کیمیائی حملہ اور امریکی حکومت کا اس ضمن میں کردار۔

///////////////////////////////

حلبچہ پر کیمیائی حملے کی مختصر تفصیل:

۱۔ حلبچہ عراق کا حصہ ہے جہاں کرد آبادی رہتی ہے اور یہ صدام حسین کے مخالف تھے۔

۲۔ صدام حسین کے حکم پر حلبچہ کے پورے شہر پر کیمیائی بم برسائے گئے جس سے ایک رات میں پانچ ہزار سے زیادہ عورتیں، بچے اور عام شہری ہلاک ہو گئے۔


حلبچہ کی اس پانچ ہزار معصوم نہتی آبادی پر ان کیمیائی بموں کا جو رد عمل ہوا، وہ "انسانیت" کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ ذرا حوصلہ کر کے سنیے کہ کیا ہوا:

۱۔ چونکہ اس سے قبل صدام حسین ایرانی فوج کے خلاف کیمیائی بم استعمال کر رہا تھا اس لیے اُسے امریکی حکومت کی مکمل حمایت حاصل رہی [اور یہ حمایت اس صورت میں تھی کہ امریکہ میں ان کیمیائی حملوں کے خلاف میڈیا میں ایک آواز بلند نہ ہوئی]

۲۔ چنانچہ جب حلبچہ کی شہری آبادی پر بم برسائے گئے تو امریکہ کے اخبارات و میڈیا اور حکومت کی طرف سے ایک ذرا سا بھی ردعمل نہ تھا [جبکہ اگر اسرائیل کا ایک فوجی مارا جائے تو پورا امریکہ درد سے چلا اٹھتا ہے]

۳۔ چونکہ پاکستان بھی امریکہ اور سعودیہ کے زیر اثر تھا، اس لیے پاکستان کے اخبارات میں بھی انسانیت پر اس ظلم کے خلاف ایک خبر نہیں چھپی۔ [سعودیہ، کویت، عرب امارات وغیرہ سب اس جنگ میں صدام حسین کے حلیف تھے اور اس لیے انکے اخبارات میں تو ویسے ہی کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی]

میڈلین البرائیٹ اور حلبچہ کے کیمیائی بم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلبچہ میں انسانیت پر ہونے والے اس عظیم ظلم کے بہت سالوں بعد امریکہ نے پہلی خلیجی جنگ لڑی اور صدام حکومت کو شکست دی۔

۔ اس پہلی جنگ ہارنے کے بعد صدام نے وعدہ کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیار تباہ کر دے گا۔

۔ مگر عراق پر دوسرا حملہ کرنے کے لیے امریکی حکومت مسلسل الزام لگاتی رہی کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم ہیں۔

بہت بہت سالوں بعد جب میڈلین البرائیٹ نےپھر ایک کانفرنس میں صدام حسین کے کرتوتوں کا ذکر کرتے ہوئے حلبچہ کا ذکر کیا توایک صحافی نے سوال کیا: "آج جب کم از کم ظاہری طور پر عراق میں تمام کیمیائی مواد تباہ کیا جا چکا ہے اُس کے باوجود آپ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ان کیمیائی ہتھیاروں پر اتنا شور کر رہی ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ جب صدام حسین نے حلبچہ پر کیمیائی بم برسا کر ایک ہی رات میں 5 ہزار سے زائد شہری آبادی کو نیست و نابود کر دیا تھا تو اس پر آپکے اخبارات میں ایک لفظ نہیں چھپا اور نہ ہی آپ نے کوئی شور و واویلا کیا، بلکہ سال ہا سال گذر گئے اور آپ نے ایک لفظ نہیں کہا، مگر آج آپ کو صدام کے تمام گناہ یاد آ رہے ہیں تو اسکی کیا وجہ ہے۔"


اب ذرا دل تھام کر امریکی حکومت کی اس اہم شخصیت میڈلین البرائیٹ کا بہانہ سنیے۔

میڈم میڈلین البرائیٹ اس سوال پر ناخوش ہوتی ہیں اور جواب میں کہتی ہیں: "جب صدام حسین نے حلبچہ پر حملہ کیا تھا اُس وقت سی آئی اے کو یقین نہیں تھا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم موجود ہیں۔"

جی ہاں، یہ میڈم البرائیٹ کے الفاظ تھے سی آئی اے کے متعلق۔۔۔۔ یعنی نہ سی آئی اے کو ان کیمیائی ہتھیاروں کا علم تھا اور نہ ان 5 ہزار کرد شہریوں کے مرنے کا علم۔

////////////////////////////

جس دن میڈلین البرائیٹ نے یہ انٹرویو دیا اس وقت میں ہوسپٹل میں تھی اور وہاں پر ایک جرمن نرس میڈلین البرائیٹ کو برا بھلا کہہ رہی تھی کیونکہ اُس کے مطابق حلبچہ کی جنگ سے قبل صدام حسین نے کئی ہزار ایرانیوں پر کیمیائی بم حملے کیے تھے اور ان میں سے کئی ہزار کو علاج کے لیے ایرانی حکومت نے جرمنی بھیجا تھا اور یہ نرس وہاں پر معمور رہی تھی۔
چنانچہ اُس رات کو اُس جرمن نرس نے میڈلین البرائیٹ اور امریکہ کو برا بھلا کہا کہ سی آئی اے کو کیسے ان تمام سالوں میں صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا علم نہ ہو سکا جبکہ جرمنی میں ہزاروں متاثرہ افراد علاج کروا چکے تھے۔

اسکے بعد اگلے ویک اینڈ تک ہسپتال سے میں فارغ ہو چکی تھی اور جمعے کو ایرانی مسجد میں مجلس جانے کا اتفاق ہوا۔ اس مسجد میں پورے ہفتے کے پرانے اخبارات ذخیرہ رہتے تھے اور تمام ایرانی اخبارات میڈلین البرائیٹ کے اس جھوٹ پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ اتنے ہزاروں لوگوں کو صدام حسین نے پوری جنگ کے دوران کیمیائی بموں سے نیست و نابود کر دیا مگر سی آئ اے اس سے بے خبر رہی، اور خبر ہوئی تو صرف اور صرف اُس وقت ہوئی جب اسرائیل کو اس سے خطرہ محسوس ہوا۔


///////////////////////////

میرا ماننا یہ ہے کہ امریکی حکومت اور سی آئی اے اپنے مفادات کے نام پر کہیں پر بھی کسی بھی وقت "انسانیت" کو نیست و نابود کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں اور جب ایسا معاملہ درپیش ہو تو امریکی میڈیا بھی اپنی حکومت کا مکمل وفادار ہے۔


فواد صاحب نے مزید تحریر فرمایا ہے:

يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔کيا آپ تصور کر سکتے ہيں کہ عراق کی صورت حال کيا ہو گی اگر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ نہ کی جائے جو بس اسٹيسن، بازاروں اور سکولوں پر حملہ کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے۔​

بلا شبہ مجھے صدام حسین کی قتل و غارت یا آج ان دہشت گرد تنظیموں سے انتہائی نفرت ہے۔

مگر کاش کہ فواد صاحب، یا امریکی حکومت مجھے یہ بتا دے کہ آج آپ لکھ رہے ہیں کہ صدام حسین سینکڑوں کی تعداد میں عراقیوں کو قید خانوں میں ڈال کر تشدد کرنا معمول سمجھتا تھا اور اُس کا گناہ حلبچہ کی کرد آبادی پر کیمیائی بم برسانا بھی تھا۔۔۔۔۔ مگر فواد صاحب کاش کہ آپ اور آپ کی امریکی حکومت یہ قبول کر سکے کہ نہ صرف انکی خارجہ پالیسیوں میں غلطی ہوتی رہی ہے بلکہ وہ انتہائی منافقانہ و ظالمانہ بھی رہی ہیں اور صدام کے جو مظالم آج آپ اور آپ کی امریکی حکومت بیان کر رہی ہے، صدام حسین کے انہی جرائم کی وہ اُس وقت مکمل پشت پر تھے جب یہ جرم کیے جا رہے تھے۔


امریکہ کی طرح پاکستانی اخبارات میں بھی حلبچہ اور صدام حسین کے مظالم پر ایک خبر شائع نہیں ہوئی۔ اور پاکستان کے کالم لکھنے والے تمام تر دانشوران اس پر اُس وقت خاموش رہے۔

اور آج جب القاعدہ جیسی دھشت گرد تنظیمیں عراق میں تین چار لاکھ معصوم شہریوں کو بموں کا حملہ بنا چکے ہیں تو پھر ہمارے یہ کالم لکھنے والے دانشوران پھر چپ سادھے ہوئے ہیں اور اپنے گریبان کے گندگی کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور القاعدہ اور ان انتہا پسندوں کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے انکے قلموں کی سیاہی پھر خشک ہو جاتی ہے جبکہ دوسروں کے خلاف لکھ لکھ کر انہوں نے دفتر بھر دیے ہیں۔

انہی دانشوران کے اس ناانصافانہ رویے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں یہ القاعدہ کے خود کش حملہ آور پلتے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور عوام میں ان کو اپنے لیے ہمدردیاں مل رہی ہیں۔

ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ ہمارے یہ انتہا پسند کتنے ہی بے گناہوں کو قتل نہ کر دیں، وہ فورا اس سب کی خرابی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرا دیتے ہیں۔

اور ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ انہیں سات پردوں میں بھی لپٹی ہوئی ہر امریکی سازش کا علم ہوتا ہے اور اس خیالی سازش کے زوروں پر بہت زوردار آرٹیکل لکھ رہے ہوتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے القاعدہ کی تو انکے نزدیک ابھی تک القاعدہ کا کوئی وجود نہیں بلکہ امریکہ نے خود ہوا کھڑا کرنے کے لیے گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کروایا تھا، اور عراق میں جو یہ تین چار لاکھ معصوم شہری خود کش حملوں کی وجہ سے مر چکے ہیں تو یہ تمام خوش کش حملے امریکہ کروا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کا اپنا دامن تو بالکل پاک صاف ہے اور اپنے گریبان کی گندگی دور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اب میں کس کس چیز کا رونا رووں؟

کیا امریکہ بہادر کی حکومت کا رونا رووں، یا عراق میں مارے گئے لاکھوں معصوموں کا یا پھر اپنے ملک عزیز میں ہونے والے خود کش حملوں کا۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کے سب انسانیت کے دشمن ہیں اور میری دعا یہی ہے کہ میڈیا واقعی ایک دن اتنا آزاد ہو جائے کہ حکومتوں کے مفادات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔ امین۔


مہوش،

ميں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مارچ 1988 ميں حلبچہ کے مقام پر ہونےوالے بدترين انسانی سانحے پر ميڈيا اورعالمی برداری نے اس ردعمل کا اظہار نہيں کيا جيسا کہ ہونا چاہيے تھا۔ 1988 ميں صدام حسين کی گرفت عراقی ميڈيا سميت ہر ادارے پر انتہاہی مضبوط تھی۔ 1988 کے آغاز تک ايران اور عراق 8 سال تک جنگ ميں ملوث تھے اور دونوں جانب سے ايک دوسرے کے خلاف کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا الزام معمول تھا۔ ليکن ان عوامل کے باوجود آپ کا الزام برحق ہے۔

ميں آپ کی اس بات کی بھی تائيد کرتا ہوں کہ ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤ عراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گئے اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔ مثال کے طور پر آج امريکہ پر يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ امريکہ کو عراق سے اپنی فوجيں فوری طور پر واپس بلوا لينی چاہيے۔ اگر ايسا ہو جائے تو عراق ميں امن ہو جائے گا اور انتہا پسند دہشت گردوں کی کاروائياں فوری طور پر ختم ہو جائيں گی۔ ليکن جب افغانستان کے مسلئے پر بات ہوتی ہے تو پھر امريکی حکومت پر الزام لگايا جاتا ہے کہ القائدہ، اسامہ بن لادن، طالبان اور ان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کاروائيوں کا ذمہ دار امريکہ ہے کيونکہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے ان "مجاہدين" کو ان کے حال پر چھوڑ ديا اور افغانستان ميں ايک مضبوط حکومت کی تشکيل اور امن و امان قائم کرنے کے ليے اپنا رول ادا نہيں کيا جس کے نتيجے ميں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گيا۔

جب امريکی حکومت نے سعودی عرب، شام اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ مل کر روسی افواج کے خلاف نہتے افغانيوں کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گردوں کی فوج تيار کرنا نہيں تھا۔ آج امريکی حکومت کو عراق ميں اسی صورت حال کا سامنا ہے جيسی کہ افغانستان ميں روسی افواج کے انخلاء کے بعد تھی۔ کيا عراق کو موجودہ صوت حال ميں چھوڑ کر خانہ جنگی کی طرف دھکيل دينا درست خارجہ پاليسی تصور کی جائے گی؟

جہاں تک حلبچہ ميں صدام حسين کی جانب سے کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا سوال ہے تو اس سلسلے ميں تحقيقات سے يہ بات ثابت ہے کہ صدام حسين نے يہ ہتھيار امريکی حکومت سے حاصل نہيں کيے تھے۔

23 دسمبر 2005 کو ہالينڈ کی ايک عدالت نے فرانس وين انرات نامی ايک بزنس مين کو عالمی مارکيٹ سے بڑے پيمانے پر کيميائ ہتھيار خريدنے اور انھيں صدام حکومت کو فروخت کرنے کے الزام ميں 15 سال قيد سنائ۔ ہالينڈ کی اس عدالت نے اپنے تفصيلی فيصلے ميں يہ واضح کيا کہ يہ وہی کيميائ ہتھيار تھے جو عراق ميں حلبچہ کے مقام پر استعمال کيے گئے۔ يہ پہلا موقع تھا کہ دنيا کی کسی عدالت نے حلبچہ کے مقام پر ہونے والی "نسل کشی" اور کيميائ ہتھياروں کے استعمال کی حقيقت کو تسليم کيا۔

صدام حسين نے کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے بہت سی انٹرنيشنل فرموں کی خدمات حاصل کی تھيں۔
يہاں ميں کچھ ميڈيا رپورٹس کا لنک دے رہا ہوں جس ميں اس نيٹ ورک کا تفصيلی ذکر ہے جس کے ذريعے صدام حسين نے يہ کيميائ ہتھيار حاصل کيے۔

http://www.iraqwatch.org/suppliers/nyt-041303.gif

http://www.gfbv.de/pressemit.php?id=1210&PHPSESSID=bf9ba5ba3fad8ca3b89b60627a8f9498

http://www.alertnet.org/thenews/newsdesk/L12870756.htm

يہ بھی بتاتا چلوں کہ حلبچہ سانحے کے مرکزی کردار علی حسن المجيد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ صرف ايک ہفتہ پہلے عراقی کابينہ نے ان تمام کمپنيوں کے خلاف عراقی حکومت کی جانب سے ہرجانے کا دعوی کرنے کا فيصلہ کيا ہے جنھوں نے صدام حکومت کو کيميائ ہتھيار مہيا کرنے ميں اہم کردار ادا کيا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے ایک لطیفہ نما بات یاد آ گئی

میرے والد ڈاکٹر تھے۔ ان کی ایک کولیگ جو گائنا کالوجسٹ ہیں، کو سی سیکشن یعنی سیزیرئن سیکشن آپریشن کا بڑا شوق تھا۔ جلدی جلدی وہ ایبڈامن اوپن کر کے بے بی آؤٹ‌ کر لیتی تھیں۔ اس کے بعد ان سے سلائی نہ ہو پاتی کہ اوپن کرتے ہوئے انہوں‌نے بہت کچھ اور بھی اوپن کر دیا ہوتا تھا۔ پھر تمام آس پاس کے سرجنز کو فون شروع ہو جاتے کہ کون فری ہے جو کلینک کے عقبی دروازے سے آپریشن تھیٹر میں گھسنے کو تیار ہو

یہی کام امریکہ کر رہا ہے۔ جلدی جلدی جنگ شروع کر کے جب پھنس جاتا ہے تو اقوام متحدہ اور فلاں فلاں کو دعوت دی جاتی ہے کبھی تعمیر نو کے نام پر تو کبھی امن کی بحالی کے نام پر
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی جی آپ کچھ بھی کر لیں، کچھ بھی کہہ لیں، امریکہ معصوم ہے، امریکہ ہی سب کا ہمدرد ہے چاہے اس نے ہمدردی میں جاپان پر ایٹمی بم ہی کیوں نہ مارے ہوں۔
 

زینب

محفلین
پہا جی کیا میں سوالات کرنےو الوں کی لسٹ سے باہر ہوں یا فواد نے مجھے جوابات دینے والوں کی لسٹ میں ممنوع کیا ہوا ہے:p:p
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش،

ميں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مارچ 1988 ميں حلبچہ کے مقام پر ہونےوالے بدترين انسانی سانحے پر ميڈيا اورعالمی برداری نے اس ردعمل کا اظہار نہيں کيا جيسا کہ ہونا چاہيے تھا۔ 1988 ميں صدام حسين کی گرفت عراقی ميڈيا سميت ہر ادارے پر انتہاہی مضبوط تھی۔ 1988 کے آغاز تک ايران اور عراق 8 سال تک جنگ ميں ملوث تھے اور دونوں جانب سے ايک دوسرے کے خلاف کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا الزام معمول تھا۔ ليکن ان عوامل کے باوجود آپ کا الزام برحق ہے۔

ميں آپ کی اس بات کی بھی تائيد کرتا ہوں کہ ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤ عراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گئے اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔ مثال کے طور پر آج امريکہ پر يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ امريکہ کو عراق سے اپنی فوجيں فوری طور پر واپس بلوا لينی چاہيے۔ اگر ايسا ہو جائے تو عراق ميں امن ہو جائے گا اور انتہا پسند دہشت گردوں کی کاروائياں فوری طور پر ختم ہو جائيں گی۔ ليکن جب افغانستان کے مسلئے پر بات ہوتی ہے تو پھر امريکی حکومت پر الزام لگايا جاتا ہے کہ القائدہ، اسامہ بن لادن، طالبان اور ان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کاروائيوں کا ذمہ دار امريکہ ہے کيونکہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے ان "مجاہدين" کو ان کے حال پر چھوڑ ديا اور افغانستان ميں ايک مضبوط حکومت کی تشکيل اور امن و امان قائم کرنے کے ليے اپنا رول ادا نہيں کيا جس کے نتيجے ميں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گيا۔

جب امريکی حکومت نے سعودی عرب، شام اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ مل کر روسی افواج کے خلاف نہتے افغانيوں کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گردوں کی فوج تيار کرنا نہيں تھا۔ آج امريکی حکومت کو عراق ميں اسی صورت حال کا سامنا ہے جيسی کہ افغانستان ميں روسی افواج کے انخلاء کے بعد تھی۔ کيا عراق کو موجودہ صوت حال ميں چھوڑ کر خانہ جنگی کی طرف دھکيل دينا درست خارجہ پاليسی تصور کی جائے گی؟

جہاں تک حلبچہ ميں صدام حسين کی جانب سے کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا سوال ہے تو اس سلسلے ميں تحقيقات سے يہ بات ثابت ہے کہ صدام حسين نے يہ ہتھيار امريکی حکومت سے حاصل نہيں کيے تھے۔

23 دسمبر 2005 کو ہالينڈ کی ايک عدالت نے فرانس وين انرات نامی ايک بزنس مين کو عالمی مارکيٹ سے بڑے پيمانے پر کيميائ ہتھيار خريدنے اور انھيں صدام حکومت کو فروخت کرنے کے الزام ميں 15 سال قيد سنائ۔ ہالينڈ کی اس عدالت نے اپنے تفصيلی فيصلے ميں يہ واضح کيا کہ يہ وہی کيميائ ہتھيار تھے جو عراق ميں حلبچہ کے مقام پر استعمال کيے گئے۔ يہ پہلا موقع تھا کہ دنيا کی کسی عدالت نے حلبچہ کے مقام پر ہونے والی "نسل کشی" اور کيميائ ہتھياروں کے استعمال کی حقيقت کو تسليم کيا۔

صدام حسين نے کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے بہت سی انٹرنيشنل فرموں کی خدمات حاصل کی تھيں۔
يہاں ميں کچھ ميڈيا رپورٹس کا لنک دے رہا ہوں جس ميں اس نيٹ ورک کا تفصيلی ذکر ہے جس کے ذريعے صدام حسين نے يہ کيميائ ہتھيار حاصل کيے۔

http://www.iraqwatch.org/suppliers/nyt-041303.gif

http://www.gfbv.de/pressemit.php?id=1210&PHPSESSID=bf9ba5ba3fad8ca3b89b60627a8f9498

http://www.alertnet.org/thenews/newsdesk/L12870756.htm

يہ بھی بتاتا چلوں کہ حلبچہ سانحے کے مرکزی کردار علی حسن المجيد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ صرف ايک ہفتہ پہلے عراقی کابينہ نے ان تمام کمپنيوں کے خلاف عراقی حکومت کی جانب سے ہرجانے کا دعوی کرنے کا فيصلہ کيا ہے جنھوں نے صدام حکومت کو کيميائ ہتھيار مہيا کرنے ميں اہم کردار ادا کيا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov


فواد صاحب،

سب سے پہلے تو آپ کو شاباش کہ آپ نے امریکی حکومت کے رویے کے متعلق میری شکایات و ا؛ازامات کو جوں کا توں بغیر کسی لنگڑے لولے عذر کے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ آپ کا یہ رویہ مجھے ذاتی حیثیت میں بہت پسند آیا ہے اور آپ کی تحریروں میں ویسے بھی مجھے دلائل اور اچھے طریقے سے گفتگو کرنا نظر آتا ہے۔ اختلافی مسائل اپنی جگہ مگر ان مثبت چیزوں کی حوصلہ افزائی اپنی جگہ ضروری ہے۔

بات یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لے تو میری آدھی شکایات تو خود بخود ختم ہو جاتی ہیں [اس معاملے میں میرا دل بہت بڑا ہے] بہرحال یہاں مجھے آپ میں اور امریکی حکمرانوں کے رویوں میں فرق نظر آ رہا ہے کہ آپ نے امریکہ کی ان غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کر لیا ۔۔۔۔ مگر:

۱۔ امریکی حکمرانوں نے ابھی تک ان غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا۔

۲۔ اور امریکی میڈیا بھی ان سوالات کو ازل سے دبائے بیٹھا ہے اور لگتا ہے تا ابد اسے دبائے ہی رکھے گا اور حقیقت حال کو کبھی امریکی عوام تک نہیں پہنچائے گا۔

دیکھئیے انتہا پسند ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ امریکہ میں بھی موجود ہیں۔ جبتک یہ اوپر بیان کردہ دو چیزیں ٹھیک نہیں ہوں گی [یعنی حکومت اور میڈیا] اُسوقت تک امریکہ میں یہ انتہا پسند مضبوط ہوتے رہیں گے اور انہیں یہ سمجھ میں کبھی نہیں آئے گا کہ بیرون امریکہ اگر دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت پائی جا رہی ہے تو وہ کیوں پائی جا رہی ہے۔ بلکہ جبتک غلطیوں کا ادراک مکمل طور پر نہیں ہو گا اُسوقت تک شاید امریکی عوام کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہو کہ امریکہ کے خلاف نفرت کیوں ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ نے عراقی عوام کو صدام حسین سے نجات دلوائی، مگر پھر بھی عراقی عوام کی ایک بڑی اکثریت آپ کو امریکہ سے نالاں نظر آئے گی۔ اب امریکی عوام کی سمجھ سے یہ چیز باہر ہے کہ امریکہ اپنے اتنے فوجی عراق میں قربان کروا رہا ہے مگر پھر بھی عراقی عوام میں اسکے خلاف غم و غصہ کیوں پایا جاتا ہے۔ یہی چیز افغانستان میں افغانی عوام کی ہے اور اس پر میں ذرا بعد میں گفتگو کروں گی۔

//////////////////////////

نیز فواد صاحب، آپ نے لکھا ہے:

مثال کے طور پر آج امريکہ پر يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ امريکہ کو عراق سے اپنی فوجيں فوری طور پر واپس بلوا لينی چاہيے۔ اگر ايسا ہو جائے تو عراق ميں امن ہو جائے گا اور انتہا پسند دہشت گردوں کی کاروائياں فوری طور پر ختم ہو جائيں گی۔ ليکن جب افغانستان کے مسلئے پر بات ہوتی ہے تو پھر امريکی حکومت پر الزام لگايا جاتا ہے کہ القائدہ، اسامہ بن لادن، طالبان اور ان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کاروائيوں کا ذمہ دار امريکہ ہے کيونکہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے ان "مجاہدين" کو ان کے حال پر چھوڑ ديا اور افغانستان ميں ايک مضبوط حکومت کی تشکيل اور امن و امان قائم کرنے کے ليے اپنا رول ادا نہيں کيا جس کے نتيجے ميں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گيا۔​

پہلے تو یہ کہ مجھے اس چیز پر اب تحفظات ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد عراق میں امن قائم ہو گا۔ اور اسکی ذمہ داری امریکی افواج سے زیادہ مسلم گروہوں کی آپس میں نفرت اور انتہا پسندی ہے۔ بہرحال یہ میرا ذاتی نظریہ ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد یہ دونوں طرف کے انتہا پسند ایک دوسرے کا خون چوسنے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔

یہ وہی صورتحال ہے کہ روسی افواج کے شکست کے بعد افغانستان کے مختلف گروہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے کا اتنا قتل و غارت کیا کہ جس سے بہت کم قتل روسی افواج نے کیا تھا۔

مگر امریکہ کا روسی افواج کے جانے کے بعد افغانستان میں کیا کردار رہا؟


اب میں اپنی ذاتی رائے بیان کرنے جا رہی ہوں۔

روسی افواج کے جانے کے بعد یہ کہنا کہ " "افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے ان "مجاہدين" کو ان کے حال پر چھوڑ ديا اور افغانستان ميں ايک مضبوط حکومت کی تشکيل اور امن و امان قائم کرنے کے ليے اپنا رول ادا نہيں کيا ۔۔۔۔"، میرے نزدیک یہ ایک غلط سٹیٹ منٹ ہے۔

کیونکہ روسی افواج کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغانستان میں رول ادا کیا اور بہت بڑا رول ادا کیا۔ اور وہ کردار یہ تھا جو کہ فاروق لغاری اور بے نظیر کے درمیان ہونے والے اس مکالمے میں موجود ہے جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے:

میں [فاروق لغاری] نے بے نظیر بھٹو سے پوچھا کہ آپ طالبان کی کیوں سپورٹ کر رہی ہیں(اصل میں فاروق لغاری ان دنوں صدر تھا اور بے نظیر وزیر اعظم) تو بے نظیر بھٹو نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ ایک شیعہ اسٹیٹ (ایران) کے مقابلے میں [ایک انتہا پسند] سنی اسٹیٹ کو لایا جائے“​

فواد صاحب،

آپ نے اوپر لکھا تھا کہ جب صدام حسین حلبچہ اور ایران پر کیمیائی بم برسا رہا تھا تو امریکی میڈیا میں اسکے خلاف مہم بڑے پیمانے پر اس لیے نہیں چلی کیونکہ ایران نے امریکہ کے سفارتکار اغوا کیے ہوئے تھے اور اپنے "بہترین ملکی مفادات" کا دفاع کرتے وقت امریکی حکومت اور میڈیا نے یہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے غلطی کی۔

میری نظر میں ان "بہترین ملکی مفادات" کی جنگ نے امریکی حکومت اور سی آئی اے سے یہ غلی بھی کروائی ہے کہ انہوں نے خطہ میں ایرانی اثرات کو ختم کرنے کے لیے طالبان کو افغانی عوام پر مسلط کروا دیا [ اور آج اگر افغانستان میں امریکہ اتنے فوجی مروانے کے بعد بھی شمالی اتحاد و کابل و کارزائی حکومت کے وفاداروں سے بھی اگر امریکی حکومت کے خلاف نفرت کی زبان سنے تو اُسے اپنی اس غلطی کا احساس ہونا چاہیے۔ اگرچہ کہ اوپر سے شمالی اتحاد و کارزائی حکومت کی سپورٹ کرنے والے پشتون قبائل امریکہ کی مدد حاصل کیے ہوئے ہیں، مگر اندر سے وہ بھی امریکہ سے شکوے رکھتے ہیں۔]


اور بینظیر کے دور میں آئی ایس آئی پر جنرل حمید گل جیسے لوگوں کا بہت اثر و رسوخ تھا، اور آئی ایس آئی پاکستان کے "مفادات" کے لیے طالبان کا قیام چاہتے تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ یہ طالبان پاکستان کے زیر اثر رہیں گے اور یوں پاکستان افغانستان کو مکمل طور پر اپنے زیر اثر کر لے گا۔

پاکستان اور امریکہ کا افغانستان میں دوسرا بڑا مفاد یہ تھا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کا تیل بجائے ایران سے ہوتے ہوئے سمندر اور پھر دنیا تک پہنچے، بہتر ہے کہ یہ افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستان اور پھر سمندر اور پھر دنیا تک پہنچے [اگرچہ کہ ایرانی سمندر تک پائپ لائن صرف 350 کلو میٹر بنتی ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان سے سمندر تک پائپ لائن 1575 کلومیٹر بنتی ہے]۔ مگر چونکہ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی امریکہ کے زیر اثر تھیں [خاص طور پر تیل کے معاملات میں] اس لیے امریکہ کو یقین تھا کہ وہ ایران کو اس معاملے تنہا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ بعد میں اگرچہ امریکہ طالبان حکومت کو اس لیے تسلیم نہیں کر سکا کیونکہ امریکہ کے اپنے اندر عوام طالبان کی سخت مخالف ہو گئی، مگر طالبان حکومت کو قبول نہ کرتے ہوئے بھی امریکی حکومت نے اپنی تیل کمپنیوں کو مکمل گرین لائٹ دی کہ وہ جا کر طالبان سے تیل پائپ لائن کے معاہدے کریں۔ بہرحال طالبان حکومت میں آنے کے بعد اپنی انتہا پسندی اور عورتوں سے برتاو کی وجہ سے امریکی عوام میں اتنے بُرے ہو چکے تھے کہ امریکی حکومت اپنا یہ مقصد حاصل نہیں کر سکی ۔

امریکہ اور پاکستان کے ان مفادات کی جنگ نے سب سے پہلے افغان عوام کا لہو چوسا کہ جن پر سب سے پہلے طالبان کو اسلحہ و جنگ و قتل و غارت کے زور پر مسلط کیا گیا اور جو کچھ ترقی افغانستان میں ظاہر شاہ کے دور میں ہوئی تھی، وہ سب کچھ ختم ہو گیا اور افغانستان پتھروں کے زمانے میں پھر پہنچ گیا۔ مگر شاید قدرت کو کچھ اور بھی منظور تھا کہ یہ طالبان پلٹ کر اب امریکہ و پاکستان کا لہو چوس رہے ہیں۔

مگر کیا ہے کہ جب طالبان بنائی اور خون خرابے کے ذریعے افغان عوام پر مسلط کروائی جا رہی تھی تو امریکی میڈیا چپ تھا، پاکستانی میڈیا چپ تھا [اور سعودیہ اور عرب امارات وغیرہ کا میڈیا بھی چپ تھا کیونکہ سعودی حکومت نے بھی ایرانی اثرات ختم کرنے کے لیے اپنے ملکی مفاد کی خاطر طالبان کی تشکیل کے لیے پیسے سے مدد کی تھی ]

۔۔۔۔۔۔۔ ان سب ملکی مفادات میں بنائی گئی خارجہ پالیسیوں کا خمیازہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ صرف اور صرف افغان عوام کو بھگتنا پڑا ۔۔۔۔ اور اسی لیے اگر آج یہی طالبان مخالف افغان عوام امریکہ سے پھر بھی نفرت رکھے تو ہمیں اصل عوامل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اگرچہ کہ آج طالبان دشمنی نے اس افغان عوام اور امریکہ کو ایک دوسرے کا دوست اور مددگار بنایا ہوا ہے، مگر انکے دلوں کو جھانک کر دیکھیں تو آپ کو آج بھی یہ نفرت نظر آ جائے گی۔

بہرحال امریکی میڈیا نے پھر یہاں اپنا کردار ادا نہیں کیا [یا پھر منفی کردار ادا کیا ہے] اور اس لیے امریکی عوام یہ سمجھنے سے آج بھی قاصر ہیں کہ امریکہ کے خلاف اسکے اتحادیوں میں ہی کیوں نفرت پائی جاتی ہے۔ فواد صاحب کی "ملکی مفادات" والی بات ہے بالک درست، مگر بذات خود یہ "ملکی مفادات" کی خاطر دوسروں کا قربانی کا بکرا بنانا بہت ظلم و ناانصافی کی بات ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

اس میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔۔۔اگر ایک گرام ایک کمرے میں رکھ دیا جائے تو کمرے کو مکمل طور پے تباہ کرنے کے لیے کافی ہے 65 کلو کا وہ مواد لاکھوں کا تھا اس کے لیے کس نے فینانس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک جگہ اظہرالحق باھئی نے لکھا کہ عام سی کالشنکوف 45 ہزار کی آتی ہے۔ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے شمالی علاقہجات کے لوگ کتنے امیر کبیر ہیں۔۔۔۔وہ لوگ جو پسماندہ ترین ہیں کیسے اتنی بڑی جنگ لڑ سکتے ہیں چندے لے کے کیا۔۔۔؟؟

زينب،

کچھ دن پہلے ايک خبر آپ نے پڑھی ہو گی کہ افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ميں نے اس خبر کا ذکر اس ليے کيا ہے کيونکہ اس کا براہراست تعلق دہشت گردوں کو مالی امداد کی فراہمی کے حوالے سے آپ کے سوال سے ہے۔

اس وقت افغانستان ميں پورا ملک حکومت کے زير اثرنہيں ہے۔کچھ علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور باقی ماندہ علاقوں کا نظام مختلف قبائلی کونسلز کے زير اثر ہے۔ 1996 ميں اس وقت کی طالبان حکومت نے يہ فيصلہ کيا تھا کہ منشيات کا کاروبار خلاف اسلام ہے ليکن 2001 ميں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جن صوبوں میں طالبان کا اثر ورسوخ باقی تھا، وہاں پر منشيات کی کاشت کا کام دوبارہ شروع کر ديا گيا۔

اس وقت دنيا ميں ہيروئين کی پيداوار ميں استعمال ہونے والی اوپيم کی کاشت اور سپلائ کا 90 فيصد کام افغانستان ميں ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ايک حاليہ رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں اوپيم کی مجموعی پيداوار کا 50 فيصد کام صرف ايک صوبے ہلمند میں ہو رہا ہے۔ افغانستان کے اس جنوبی صوبے کی مجموعی آبادی 2.5 ملين ہے اور يہ صوبہ اس وقت دنيا ميں غير قانونی منشيات کی پيداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس صوبے ميں منشيات کی مجموعی پيداوار کولمبيا، مراکو اور برما سے بھی تجاوز کر چکی ہے حالانکہ ان ممالک کی آبادی ہلمند سے 20 گنا زيادہ ہے۔ اس سال ہلمند کے صوبے ميں منشيات کی پيداوار پچھلے سال کے مقابلے ميں 48 فيصد بڑھ گئ جس کے نتيجے ميں اس سال افغانستان ميں منشيات کی مجموعی پيداوار 8200 ٹن ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے ميں 34 فيصد زيادہ ہے۔ اس کے علاوہ فغانستان ميں 477000 ايکڑ رقبے پر منشيات کی کاشت کی گئ جو کہ پچھلے سال کے مقابلے ميں 14 فيصد زيادہ ہے۔ يہ ايک نيا ريکارڈ ہے۔

11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد جب برطانيہ نے افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کا ساتھ دينے کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا مقصد صرف القائدہ سے درپيش خطرات کا سدباب ہی نہيں تھا بلکہ افغانستان ميں منشيات کی روک تھام بھی ايک اہم مقصد تھا۔ ٹونی بلير نے اپنے بيانات ميں اس بات کا ذکر کئ بار کيا تھا کہ برطانيہ ميں درآمد کی جانے والی منشيات کا بڑا حصہ افغانستان کے راستے پہنچتا ہے۔

اقوام متحدہ ميں منشيات کی روک تھام کے ادارے کے سربراہ اينتونيو ماريہ کوستا کے مطابق پچھلے 100 سالوں ميں دنيا کے کسی ملک ميں اتنے بڑے پيمانے پر منشيات کی کاشت نہيں کی گی جتنی کہ افغانستان ميں کی گئ ہے۔ 100 سال پہلے يہ "اعزاز" چين کو حاصل تھا۔ اوپيم کے علاوہ ايک اور قسم کی منشيات کينبيز کی کاشت کا کام بھی بتدريج بڑھ رہا ہے۔ ايک سروے کے مطابق 2008 ميں افغانستان کے 18 فيصد علاقے ميں کينبيز کی کاشت کا کام کيا جائے گا جوکہ 172970 ايکڑ رقبہ بنتا ہے۔ يہ تعداد بھی پچھلے سال کے مقابلے ميں 5 فيصد زيادہ ہے۔ ہلمند کے صوبے ميں منشيات کی پيداوار کا سارا کام طالبان کی زير نگرانی ہو رہا ہے۔ اينتونيو ماريہ کوستا نے اپنی رپورٹ ميں نيٹو پر يہ بھی واضح کيا کہ منشيات کی اس پيداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی براہراست دہشت گردی کے ليے استعمال ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ايک حاليہ تحقيقی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے جنوبی علاقوں اور 72 فيصد مغربی علاقوں سے منشيات کی آمدنی کا سارا حصہ براہراست مقامی کمانڈوز، طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں تک پہنچ رہا ہے۔

افغانستان ميں اقوام متحدہ کی ترجمان کرسٹينا اوگز کے مطابق دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے ليے افغانستان ميں منشيات کی روک تھام اور مقامی کاشت کاروں کو متبادل ذرائع آمدنی مہيا کرنے کے ليے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

امريکہ نے اس سال افغانستان ميں منشيات کی روک تھام کے ليے 449 ملين ڈالرز مختص کيے ہيں۔ جبکہ برطانيہ نے منشيات کے متبادل کے طور پر روئ، چاول اور مرچوں کی کاشت کے ليے 60 ملين ڈالرز کی امداد دی ہے۔ صوبے کے نئے گورنر اسد الللہ وفا نے بھی پچھلے 8 ماہ ميں منشيات کی روک تھام کے حوالے سے بہت سے منصوبوں پر کام شروع کيا ہے۔ ليکن ابھی تک مقامی افغان کاشت کاروں کو منشيات کی پيداوار سے روکنے ميں خاطر خواہ کاميابی حاصل نہيں ہو رہی۔ قريب ايک تہائ کاشتکاروں نے يہ تسليم کيا ہے کہ انھيں ڈرگ مافيا سے منشيات کی کاشت جاری رکھنے کے ليے ايڈوانس رقم ملتی ہے۔ منشيات کے اس گھناؤنے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی ان دہشت گردوں تک پہنچ رہی ہے جو افغانستان اور پاکستان ميں معصوم لوگوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہيں۔

ديگر عوامل کے علاوہ، يہ وہ اعداد وشمار ہيں جن کی بنياد پر شائع ہونی والی رپورٹ اس خبر کی وجہ بنی جس کا ذکر ميں نے شروع ميں کيا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

یہی کام امریکہ کر رہا ہے۔ جلدی جلدی جنگ شروع کر کے جب پھنس جاتا ہے تو اقوام متحدہ اور فلاں فلاں کو دعوت دی جاتی ہے کبھی تعمیر نو کے نام پر تو کبھی امن کی بحالی کے نام پر

محترم،

ميں آپ کی اس بات سے اتفاق نہيں کرتا کہ امريکہ جنگ شروع کرنے ميں جلد بازی کرتا ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امريکی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ اسے انصاف کے کٹہرے ميں لايا جا سکے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دو ماہ ميں 5 وفود بيجھے گئے۔ ليکن تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود طالبان حکومت نے يہ واضح کر ديا کہ وہ دہشت گردوں کی حمايت سے پيچھے نہيں ہٹيں گے۔

11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد يہ واضح نہيں تھا کہ القائدہ کا نيٹ ورک کتنا پھيل چکا ہے اور دنيا ميں کن ممالک ميں ان کے سيل کام کر رہے ہيں۔ القائدہ عالمی برداری کے ليے ايک واضح خطرہ بن کر منظر عام پر آئ تھی اور اس حوالے سے امريکہ اور يورپ سميت تمام مغربی ممالک ميں شديد خدشات تھے۔ طالبان کے صاف انکار کے بعد امريکہ کو کيا کرنا چاہيے تھا؟ کيا القائدہ تنظیم کو طالبان حکومت کے سائے تلے مزيد مضبوط ہونے کے مواقع فراہم کرنا صحيح فيصلہ ہوتا؟

ميں جانتا ہوں کہ پچھلے 7 سالوں ميں دنيا بھر ميں دہشت گردی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہيں۔ ليکن اگر القائدہ کو افغانستان ميں طالبان حکومت کی پشت پناہی حاصل رہتی تو دہشت گردی کی کاروائيوں ميں کئ گنا اضافہ ہوتا۔

2002 ميں جن وفود نے طالبان نے مذاکرات کيے تھے ميں ان ميں سے کچھ افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ طالبان نے ان ملاقاتوں ميں تسليم کيا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشت گردی ميں ملوث ہيں ليکن ان کا موقف يہ تھا کہ "اسامہ بن لادن ہمارے مہمان ہيں اور اپنی قبائلی روايات کے حساب سے اپنے مہمان کی حفاطت ہمارا فرض ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

یہاں مجھے آپ میں اور امریکی حکمرانوں کے رویوں میں فرق نظر آ رہا ہے کہ آپ نے امریکہ کی ان غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کر لیا ۔۔۔۔ مگر:

۱۔ امریکی حکمرانوں نے ابھی تک ان غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا۔

مہوش،

ميں جب کسی موضوع پر کوئ بات کرتا ہوں تو وہ اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر ميرا جواب ہميشہ تاخير سے آتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ ميں متعلقہ افراد سے رابطہ کر کے آپ کو صحيح اعداد وشمار اور اصل موقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ يہی وجہ ہے کہ جب ماضی کے کسی واقعے کے بارے ميں مجھ سے اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا موقف جاننے کے ليے سوال کيے جاتے ہيں تو ميری ليے فوری جواب دينا ممکن نہيں ہوتا کيونکہ اس کے ليے بعض اوقات ان لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو اب اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا حصہ نہيں ہيں۔ ميری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بات جذباتيت کی بجائے اعداد وشمار کی روشنی ميں کروں۔

کچھ لوگوں کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی مگر يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ چاہے وہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو ہو، ايران کے ايٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹ ہو يا افغانستان اور عراق میں درپيش چيلينجز ہوں، امريکی حکومت نے ہميشہ يہی کوشش کی ہے کہ اعداد وشمارکی روشنی ميں حقائق بيان کيے جائيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

۲۔ اور امریکی میڈیا بھی ان سوالات کو ازل سے دبائے بیٹھا ہے اور لگتا ہے تا ابد اسے دبائے ہی رکھے گا اور حقیقت حال کو کبھی امریکی عوام تک نہیں پہنچائے گا۔



جہاں تک ميڈيا سے متعلق آپ کا سوال ہے تو آپ کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی کہ امريکی ميڈيا پر سب سے زيادہ تنقيد تو شايد حکومتی حلقوں پر ہی کی جاتی ہے۔ خود امريکی صدر پر سب سے زيادہ تنقيد امريکی ٹی وی اور ريڈيو پر ہوتی ہے۔ اگر امريکی صدر خود اپنے ملک ميں اپنے اوپر ہونے والی تنقيد پر کنٹرول نہيں کر سکتے تو وہ کسی اور موضوع پر رائے عامہ کو کيسے کنٹرول کر سکتے ہيں۔ ياد رکھيے کے آج کے دور ميں ميڈيا کے بڑے بڑے ادارے بزنس کے اصولوں پر چلتے ہيں۔ ميڈيا وہی کچھ دکھاتا ہے جو لوگ ديکھنا چاہتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
جہاں تک ميڈيا سے متعلق آپ کا سوال ہے تو آپ کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی کہ امريکی ميڈيا پر سب سے زيادہ تنقيد تو شايد حکومتی حلقوں پر ہی کی جاتی ہے۔ خود امريکی صدر پر سب سے زيادہ تنقيد امريکی ٹی وی اور ريڈيو پر ہوتی ہے۔ اگر امريکی صدر خود اپنے ملک ميں اپنے اوپر ہونے والی تنقيد پر کنٹرول نہيں کر سکتے تو وہ کسی اور موضوع پر رائے عامہ کو کيسے کنٹرول کر سکتے ہيں۔ ياد رکھيے کے آج کے دور ميں ميڈيا کے بڑے بڑے ادارے بزنس کے اصولوں پر چلتے ہيں۔ ميڈيا وہی کچھ دکھاتا ہے جو لوگ ديکھنا چاہتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


فواد،

جب میں نے کہا تھا کہ امریکی میڈیا طالبان کے متعلق یہ سوالات دبائے بیٹھا ہے، تو میرا مقصد صدر بش پر تنقید کرنا نہیں تھا۔

اور جو آپ نے لکھا ہے کہ:

ياد رکھيے کے آج کے دور ميں ميڈيا کے بڑے بڑے ادارے بزنس کے اصولوں پر چلتے ہيں۔ ميڈيا وہی کچھ دکھاتا ہے جو لوگ ديکھنا چاہتے ہيں۔​

میں آپکی اس بات سے بہت زیادہ متفق ہوں اور اسکی عملی مثال خود پاکستان میں دیکھ چکی ہوں۔ اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہوں گی٫

ياد رکھيے کے آج کے دور ميں ميڈيا کے بڑے بڑے ادارے بزنس کے اصولوں پر چلتے ہيں۔ ميڈيا وہی کچھ دکھاتا ہے جو لوگ ديکھنا چاہتے ہيں اور وہ کچھ بھی نہیں دکھاتا جو اُس ملک کی عوام نہیں دیکھنا چاہتی۔​

۔ حلبچہ پر صدام کے کیمیائی بم حملے کو کوریج دینا کچھ ملکوں کے ملکی مفادات کے خلاف تھا، اس لیے پاکستان میں ان 5 ہزار معصوموں کے قتل پر ایک خبر بھی شائع نہ ہوئی۔ یہی صورتحال سعودی و دیگر عرب ممالک کے میڈیا کی تھی، اور مغربی ممالک اور امریکی میڈیا کی بھی تھی۔

۔ بینظیر جو کہ بطور Mother of Taliban بھی مشہور ہیں، انہوں نے پائپ لائن کو پاکستان سے گذروانے کے لیے جب افغان عوام کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے طالبان پر ان پر مسلط کروایا تو پاکستانی اخبارات میں کالم لکھنے والے دانشوران کو حقیقت حال لکھتے ہوئے سانپ سونگھ جاتا تھا اور پاکستانی میڈیا نے بزنس کرنے کے لیے صرف وہی کچھ دکھایا اور اخبارات میں لکھا جو پاکستانی عوام اپنے مفادات کی خاطر دیکھنا اور پڑھنا چاہتی تھی۔

اور بالکل یہی چیز یہاں [میری ناقص رائے کے مطابق] امریکی میڈیا پر لاگو آتی ہے کہ بزنس کرنے کے لیے انہوں نے اپنی عوام کو طالبان کے متعلق صرف وہی کچھ دکھایا جو وہ دیکھنا چاہتی تھی اور وہ کچھ نہیں دکھایا جسے وہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

ہو سکتا ہے کہ میں امریکی میڈیا کے متعلق اپنے اس نظریے میں [یعنی بزنس اور ملکی مفادات کی وجہ سے] غلط ہوں، مگر ایک حقیقت پھر بھی میرے سامنے ہے کہ امریکی میڈیا نے پوری سچائی اپنی عوام تک نہیں پہنچائی ہے [وجہ چاہے کچھ بھی ہو] اور ابھی تک امریکی عوام کو امریکی میڈیا نے طالبان کی پیدائش میں امریکہ کا ہاتھ نہیں دکھایا ہے۔
 
Top