اسلامی معاشرے میں صحابیات کا کردار

سین خے

محفلین
خواتین کا عشقِ رسول ﷺ

مولانا سیف الله سومرو


ویسے بھی عورت سراپا محبت ہے اور عورت جب بھی کسی سے محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر محبت کرتی ہے او رایسی محبت خواتین کے عشقِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی، جو دل کی گہرائیوں سے تھی اور ٹوٹ کر محبت تھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جومحورِ عشق ان سے صحابیات رضی الله تعالیٰ عنہن کی الفت وپیار کا رنگ تھا جس میں وہ منفرد ویگانہ تھیں، یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جو اپنے محبوب آقا ئے نام دار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے آرام کا بھی بے حد خیال رکھتی تھیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے آرام کے ساتھ دفاع کی خاطر اپنی ذات کی پروا نہیں کرتی تھیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسلک چیزوں کو بطور یاد گار محفوظ کر لیتی تھیں اور ان اشیا کے استعمال میں جس رنگ عشق ومحبت کا اظہار انہوں نے کیا وہ قابل ذکر ہے، ان مضامین سے پتا چلتا ہے کہ خواتین نے کیسے اپنے آقا نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی ہے اور اپنے او راپنے بچوں کی جان پیغمبر پاک صلی الله علیہ وسلم کے اوپر جان نثار کی ہے۔

حضرت سیدہ اُم سلیم کا عشق رسول
رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم اپنے مبارک قدم جس گھر میں لے کر جاتے اس گھر کی قسمت پر عرش وفرش رشک کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی صحابیات رضی الله عنہن کے گھروں میں بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ وہ جب اپنے پیارے محبوب ،سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں دیکھتی تھیں تو ان کا دل موج بہاراں کی طرح سے کھل اٹھتا تھا اور ان کی خوشی کی انتہا نہ ہوتی تھی۔

حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتی تھیں، ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور دوپہر کو آرام فرمایا کرتے تھے تو حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا آپ کے مشک وعنبر جیسے پسینے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کو ایک شیشی میں جمع کرکے رکھ لیتی تھیں اور اس کو دل وجان سے عزیز رکھتی تھیں۔

”اُم سلیم پانی لاؤ“ سامنے مشکیزہ لٹک رہا تھا ،وہ اس میں سے پانی انڈیلنے لگیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اسے ہی لے آؤ“

آپ مشکیزہ لے آئیں تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کا دہانہ اپنے منھ مبارک سے لگایا اور پانی پیا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا نے مشکیزے کے اس دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس بطور یادگار محفوظ کر لیا، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹوں نے اس حصے کو چھوا تھا، یہ تھا عشق رسول۔

حضرت اُم سلیم کا بچوں کو حُبّ رسول کی تعلیم دینا
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا کے لخت جگر تھے، ان کے بال بڑے رہتے تھے، ایک روز انہوں نے ارادہ کیا کہ ان کو کاٹ دیں۔ جب آپ کی والدہ ماجدہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ تڑپ اٹھیں، اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا: ”انس ان بالوں کو مت کاٹنا، کیوں کہ ان بالوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پکڑا تھا۔“

انہی خاتون کا یہ بھی دلچسپ واقعہ ہے، حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ غزوہ حنین میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ہنستے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ آپ کو معلوم ہے اُم سیلم رضی الله عنہا نے خنجر لگا رکھا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تم اس کا کیا کرو گی؟ تو کہنے لگیں جب بھی کوئی مشرک میرے سامنے آیا اس کے پیٹ میں گھونپ دوں گی، یہ تھا اُم سلیم کا عشق۔

حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق  کا عشق رسول
اسماء  بنت ابی بکر صدیق رضی الله عنہ بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے بہت محبت اور عقیدت رکھتی تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے سفر کی تیاری کی تو انہوں نے اپنے آقا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک اپنی ہم شیرہ حضرت اسماء رضی الله تعالیٰ عنہا کو دیا، جو انہوں نے بڑی محبت وادب سے سنبھال کر رکھا۔ اس جبے سے حسنِ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب گھر میں کوئی فرد بیمار ہوتا تو آپ اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک نکال کر دھوکر ،اس کا پانی مریض کو پلا دیتی تھیں جس سے وہ صحت یاب ہو جاتا تھا۔ حضرت اسماء رضی الله عنہا کا آپ صلی الله علیہ وسلم سے عشق ومحبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک دیکھتیں، آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے، نظروں کے سامنے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عہد مسعود اور حسین وجمیل چہرہ مبارک گھوم جاتا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے فراق میں غمگین ہو جاتی تھیں۔

حضرت سیدہ اُم عمارہ کا میدانِ جہاد میں عشق رسول
حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا غزوہ احد میں زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں، جب فتح شکست میں تبدیل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت اُم عمارہ نے دیکھا تو آپ نے مشکیزے کو ایک طرف رکھ دیا اور قریب ہی پڑے ہوئے شہید کی تلوار اٹھائی اور اپنے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاکر کھڑی ہو گئیں، تاکہ دشمن کا کوئی تیر یا کوئی ہتھیار آپ صلی الله علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے، جب کوئی قریب آتا اس سے بڑی بہادری وجرات کے ساتھ مقابلہ کرتی تھیں۔

ابن قمیہٴ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا موذی دشمن تھا وہ جب سامنے آیا تو اس کے سامنے بہادری سے سامنے آئیں اور اس کو میدان جنگ سے مار بھگایا، لیکن اس معرکہ میں خود کو بھی جسم پر بہت بڑے بڑے زخم لگے ،مگر اس کے باوجود سینہ سپر ہوکر جنگ کرتی رہیں، اس پر حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عمارہ رضی الله عنہا نے مردوں سے بڑھ کر بہادری دکھائی ہے، اتنی بہادری کسی اور میں کہاں۔“

پھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے خود ان کے زخموں پر پٹی بندھوائی اور دریافت فرمایا” تم کیا چاہتی ہو؟“ عرض کیا ” الله کے رسول! میرے لیے دعا فرمائیں کہ آخرت میں بھی آپ کے قدموں میں جگہ نصیب ہو۔“

جب حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو کہنے لگیں ، اب دنیا میں کسی مصیبت کی مجھے پروا نہیں، پھر اپنے زخمی بیٹے عبدالله رضی الله عنہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور اسے کہا ” بیٹا! آخری دم تک دشمنوں سے لڑتے رہنا۔“

الله کی راہ میں شہید ہونے والی دلہن اور اس کے دولہا کا جذبہ شہادت
اُم حکیم بنت حارث رضی الله عنہا کی سیرت میں آیا ہے کہ وہ عکرمہ رضی الله عنہ کی بیوی تھیں، وہ اپنے شوہر کے ساتھ لڑنے کے لیے گئیں، عکرمہ رضی الله عنہ شہید ہو گئے تو ان سے خالد بن سعید بن عاص رضی الله عنہ نے شادی کر لی، جب مرج الصفر میں جنگ ہوئی خالد رضی الله عنہ نے ان کے ساتھ شب عروسی کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک دن انتظار کرتے، تاکہ الله کفار کو شکست دے دیتا تو بہتر ہوتا، خالد رضی الله عنہ نے کہا میرے دل میں آتا ہے کہ شاید میں شہید ہو جاؤں گا ۔انہوں نے کہا کہ آپ کی مرضی۔ صبح ہوئی تو خالد رضی الله عنہ نے ولیمہ کیا، کھانے سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے اتنے میں رومی آگئے، خالد رضی الله عنہ شہید ہو گئے، ان کے کپڑوں پر شادی کے رنگ کے نشانات باقی تھے۔ اسی لڑائی میں ام حکیم رضی الله عنہا بھی اسی دن شہید ہوئیں ،جس خیمہ میں ان کی شادی ہوئی تھی انہوں نے اس جنگ میں اس خیمے کے بانس سے سات رومی قتل کیے او رپھر خود بھی شہید ہو گئیں۔

ام حرام رضی الله عنہا پہلی مسلمان عورت جو سوار ہو کر سمندر پار لڑنے کی غرض سے گئیں
حضو راکرم صلی االله علیہ وسلم نے اُم حرام بنت ملحان رضی الله عنہا کے گھر میں آرام فرمایا، جب آپ جاگے تو فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو دریا پر سوار ہو کر بادشاہوں کی طرح لڑنے کے لیے جائیں گے، جہازوں کشیتوں پر۔ اُم حرام رضی الله عنہا کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول الله! دعا کریں کہ میں ان میں سے ہو جاؤں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں میں سے ہو ۔ فرماتے ہیں کہ اس خاتون سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی، یہ بھی ان کے ساتھ نکلیں، جب دریا عبور کیا تو سواری پر سوار ہو کر جارہی تھیں اور گرپڑیں، پھر شہید ہو گئیں، یہ غزوہ قبرص تھا، وہیں دفن کی گئیں اور اس لشکر کے امیر حضرت معاویہ رضی الله عنہ تھے، حضرت عثمان رضی الله عنہ کے عہد خلافت سنہ27ھ میں یہ لڑائی ہوئی اور شہادت کی طلب گار خاتون کی آرزوئیں پوری ہوئیں۔

ام عمارہ کا مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جذبہ حُبّ رسول
اُم عمارہ رضی الله عنہا، جن کانام نسیبہ بنت کعب انصاریہ ہے یہ بہت عظیم خاتون تھیں، آپ غزوہ خیبر، حنین اور احد میں شریک ہوئیں ،فاروق اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں احد کے دن میں جس طرف دیکھتا تھا یہ عورت اسی طرف سے میرا دفاع کر رہی ہوتی تھیں۔ اُم عمارہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں احد کے دن لڑی، مجھے اس میں بارہ زخم آئے، ایک زخم گہرا گردن میں تھا ،اسی پر مرہم لگایا، اتنے میں منادی نے کہا کہ حمرا ء لاسد میں جمع ہو جائیں۔ میں نے پٹی باندھ کر خون بند کر دیا اور وہاں چلی گئی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے دور حکومت میں مرتدین سے جہاد میں اُم عمارہ رضی الله عنہا شریک ہوئی تھیں، جب مسیلمہ کذاب کو الله نے قتل کرا دیا، تب واپس لوٹیں، انہیں بارہ زخم لگے تھے، یہ زخم صرف اسی ایک جہاد کے تھے، نسیبہبنت کعب کو جب اپنے بیٹے حبیب بن زید کے قتل کی اطلاع ملی، جو مسیلمہ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے تو انہوں نے قسم کھائی کہ یا مسیلمہ کو ماروں گی یا شہید ہو جاؤں گی تو وہ خالد بن ولید کے ساتھ یمامہ گئیں، مسیلمہ مارا گیا اور اس جہاد میں ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔

حضرت خنساء رضی الله عنہا کا عشق رسول اور اپنے بیٹوں کو شہادت کی وصیت کرنا
قادسیہ میں لوگ جمع ہونے لگے تو حضرت خنساء بنت عمرو نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا، ان کو وصیت کی اور کہا اے میرے بیٹو! تم اسلام کے فرماں بردار بن گئے اور ہجرت کرکے پسندیدہ بن گئے۔ الله کی قسم! تمہارے گھر سے باہر نہیں گئی اور نہ میں تم پر جبر کرتی ہوں اور نہ تمہارے ہلاک ہونے کی طمع کرتی ہوں، الله کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تم ایک ہی باپ کے بیٹے ہو، جس طرح ایک ماں کے ہو، میں نے تمہارے باپ کی خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا او رنہ تمہارے نسب کو تبدیل کیا اورنہ تمہاری عزت کو خراب کیا اور نہ ہی تمہاری عزت کو بے آبرو کیا ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ الله نے کافروں کے ساتھ لڑنے میں کتنا بڑا اجر لکھا ہے اور یاد رکھو! آخرت کا گھر دنیا کے گھر سے بہتر ہے۔ جب صبح ہو جائے تو اپنے دشمنوں سے لڑائی کے لیے جاؤ ،الله سے اپنے دشمنوں پر مدد مانگو اور جب تم دیکھو کہ جنگ بھڑک چکی ہے اور جنگ کی آگ اپنے اندر داخل ہونے والوں پر لپکے تو اس کے شعلوں میں گھس جاؤ اور ان کے آگے اگلے محاذ پر جاکر لڑو، غنیمت اور سلامتی کے ساتھ کام یاب ہو جاؤ، کام یابی اور عزت کے ساتھ جنت میں ہمیشہ والا گھر بنالو۔

تو ان کے بیٹے ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نکلے او رجب صبح ہوئی تو وہ میدان جنگ میں کود پڑے اور ایک ایک کرکے شہید ہوتے گئے، جب ان کے قتل کی خبر حضرت خنساء رضی الله عنہا کو ملی تو انہوں نے کہا الحمدلله! تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں جس نے ان کی شہادت کے ذریعے ہمیں عزت دی اورمیں امید کرتی ہوں کہ الله مجھے اپنی رحمت میں ان کے ساتھ اکھٹا کر دیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ ان کے چاروں بیٹوں کا وظیفہ ان کی والدہ کو دیتے تھے، ہر ایک کا وظیفہ دو سو درہم تھا۔(خواتین اسلام کا مثالی کردار، ص:175)
 

سین خے

محفلین
راہ اسلام میں پہلی شہید خاتون

حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شمار ان بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی راہ میں سخت ترین اذیتوں کا سامنا کیا۔ حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باوجود اس کے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کمزور اور ضعیف تھیں سخت تکالیف برداشت کیں لیکن کلمہ حق کہنے سے کبھی باز نہ آئیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شمار مکے کے ان سات افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔

(یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (حضرت سُمَیَّہ کے بیٹے) حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف سچے دل سے داعیٔ اسلام حضرت محمدﷺ کی آوازِ حق پر لبیک کہا بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ ان کا جذبہ اور ایمان واقعی صادق ہے۔
اس وقت جب قبائل عرب جہالت اور بے راہ روی کی اندھا دھند تقلید میں حق اور باطل کے فرق کو فراموش کرچکے تھے اور اپنے عقائد و رسوم سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے ان افراد کا اسلام کو قبول کرنا کفار مکہ کو کھلی مخالفت کی دعوت دینا تھا لیکن اس چھوٹے سے خاندان (شوہر حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرزند حضرت عمار رضی اللہ عنہٗ اور حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے نتائج و مصائب سے بے پروا ہوکر پرچم توحید کو مضبوطی سے تھام لیا۔
مشرکین نے اہل حق کے ان پروانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عالم پیری تھا اور پھر بہ حیثیت عورت بھی وہ ایک صنف نازک تھیں لیکن کفار نے ان کے شوہر اور فرزند کے ہمراہ انہیں بھی سخت سزائیں دیں‘ ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لوہے کی زرہ پہنا کر تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا کیا تآنکہ مکہ کے چمکتے ہوئے سورج کی تپش سے یہ لوہا گرم ہوکر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نازک جسم کو اذیت ناک جلن دے اور نتیجتاً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کلمہ حق سے باز آجائیں‘ مگر عشق رسول ﷺ ان مقدس ہستیوں کے رگ و پے میں اس درجہ سرایت کرچکا تھا کہ کسی صورت بھی یہ واپس شرک کی طرف لوٹنے والوں میں نہ ہوئے۔
رسول کریم ﷺ جب ان کو بنومغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن محزوم کی طرف سے دی گئی اذیتوں میں مبتلا مکہ کی گرم دوپہروں میں جلتا دیکھتے تو فرماتے: ’’اے آل یاسر‘ ہمت نہ ہارنا‘ اللہ نے تم سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

غرض اسلام کی محبت میں سارا دن یہ عذاب جھیلتے گزر جاتا۔ ایک دن‘ رات کو ابوجہل حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور ان پر سخت غصہ ہوا‘ کہنے لگا: ’’اے بڑھیا! تو سٹھیا گئی ہے کہ اپنے ساتھ اپنے خاوند اور بیٹے کو بھی بددین کرڈالا‘‘

یہ کہتے کہتے اتنا غضب ناک ہوا کہ بے چاری بزرگ عورت حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس زور سے کھینچ کر برچھی ماری کہ اس صدمے اور تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اسی وقت شہید ہوگئیں۔

اسلام کی پہلی شہید خاتون حضرت سُمَیَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پورا نام سُمَیَّہ بنت خباط تھا۔ قیاس یہ ہے کہ حضور ﷺ کی حیات اقدس کا یہ سارا دور (حضرت یاسرؓ‘ حضرت سُمَیَّہؓ) حضرت عبداللہؓ اور حضرت عمارؓ کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضور ﷺ کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعثت کے بعد حضور ﷺ نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو اس سارے خاندان نے کسی قسم کا ردوکد یا تامل نہیں کیا بلکہ دعوت حق پر لبیک کہا۔ یہ اہل حق کیلئے بڑا پرآشوب زمانہ تھا۔ مکہ کا جو شخص بھی اسلام قبول کرتا مشرکین قریش کے غیظ غضب اور لرزہ خیز جور و تشدد کا نشانہ بن جاتا‘ مشرکین اس معاملے میں اپنےعزیزوں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے۔

حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور ان کے لڑکے غریب الوطن تھے اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ابھی بنومخزوم نے آزاد نہیں کیا تھا۔ ان بے چاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں مشرکین نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی۔

حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت سمیہ دونوں بے حد ضعیف تھے مگر ان کی قوت ایمانی انتہائی مستحکم تھی۔ استحکام کی یہی خوبی ان کے بیٹوں میں موجود تھی۔ ان مظلوموں کو لوہے کی زرہیں پہنا کر مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لٹانا ان کی پشت کو آگ کے انگاروں سے داغنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روزانہ کا معمول تھا۔

جب حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسلام کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی عورت کا اعزاز پایا تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اپنی والدہ کی مرگ بے کسی کا سخت صدمہ ہوا۔ وہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ! اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے۔‘‘

حضور ﷺ نے صبر کی تلقین کی اور دعا فرمائی کہ : ’’اے اللہ! آل یاسر کو دوزخ سےبچا!‘‘

حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تو بیٹا ہونے کی حیثیت سے اپنی ماں کی درد ناک شہادت کو کبھی بھول نہیں سکتے تھے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بے کسی اور تکلیف‘ جب بھی اسلام کی تاریخ رقم ہوگی پورے دکھ اور کرب کے ساتھ محسوس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خود سرور کونین حضرت محمدﷺ کو بھی ابوجہل کا یہ ظلم اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تکلیف یاد رہی چنانچہ رمضان۲ہجری میں جب معرکہ بدر پیش آیا اور اس میں ابوجہل واصل جہنم ہوا تو آنحضور ﷺ نے حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلا کر ارشاد فرمایا: ’’اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا‘‘حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شہادت‘ ہجرت نبوی سے کئی سال قبل ہوئی‘ اس لیے تمام اہل سیر نے انہیں اسلام کی شہیداول قرار دیا ہے۔
 

سین خے

محفلین
صحابیات کی جہاد فی سبیل اللہ میں جنگی خدمات __________اللہ اکبر کبیرہ

شریعت نے ریاست کے دفاع اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، لیکن اس کے باوجوداللہ کے دین کو سر بلند دیکھنے کی تمنا اس کو دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر لے آتی اور مردوں کے ساتھ وہ بھی کفر کا علم سر نگوں کرنے میں حصہ لیتی رہی:

1.ایک انصاری صحابیہ اُمّ عمارہ ؓ نے جنگ ِاُحد میں مردوں کی سی ثابت قدمی اور دلیری کا مظاہرکیا۔سعد بن ربیع کی صاحبزادی اُمّ سعدؓنے اس کارنامہ کے متعلق دریافت کیا توتفصیل سے بتایا کہ میں صبح سویرے ہی مجاہدین کی خدمت کے لیے میدانِ کارزار میں پہنچ گئی تھی۔
ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن بعد میں جب فتح و نصرت نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیاتواُن میں افراتفری اورانتشار پھیل گیا۔اِس وقت حضور اکرمﷺ کے قریب پہنچ کر آپﷺکی مدافعت میں تیر اور تلوار چلانے لگی۔یہاں تک کہ دشمن کی ضر ب مجھ پر آن پڑی۔ اُمّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت ہی گہرے زخم کا نشان دیکھا اور پوچھا، کس نے آپ پر اتنا سخت حملہ کیا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا،ابن قمہ نے! اللہ اسے غارت کرے! جب مسلمان شکست کھا کر حضورﷺکے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ چلاتا ہوا آیا: بتاؤ محمد(ﷺ) کہاں ہے؟ اگر وہ اس جنگ میں بچ گیا تو میری نجات نہیں۔یہ میری ہلاکت اور موت ہے۔ یہ سن کر میں اور مصعب بن عمیر ؓ اور چند دوسرے اَصحاب نے جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے، اس کا سامنا کیا۔اس مقابلہ میں اُس نے مجھ پر یہ وار کیا جس کا نشان تم دیکھ رہی ہو۔ میں نے بھی تلوار سے کئی ایک حملے کیے، لیکن دشمنِ خدا دو دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔نبیﷺ کی مدافعت میں اُنہوں نے جس ہمت اور پامردی کا ثبوت دیا اس کی شہادت خود آپﷺنے ان الفاظ میں دی ہے:
«ما التفتُ یمینًا ولا شمالاً إلا وأنا أراہا تُقابل دوني» سيرة ابن هشام:3/ 29, 30
''دائیں بائیں جس طرف بھی میں نے رُخ کیا اُمّ عمارہ ؓ کو اپنی مدافعت میں لڑتے دیکھا۔''
اس دن ان کے جمائواور ثابت قدمی کو دیکھ کر حضورﷺنے فرمایا:
«لمقام نسیبة بنت کعب الیوم خیر من مقام فلان وفلان»
''آج نسیبہ بنت کعب (اُمّ عمارہ) کی ثابت قدمی اور استقلال فلاں اور فلاں سے بہتر ہے۔''
اُحد کے علاوہ اُنہوں نے خیبر، حنین اور یمامہ کی جنگ میں بھی شرکت کی تھی۔یمامہ کے دن لڑتے لڑتے ان کا ہاتھ شہید ہو گیا اور اس کے علاوہ تلوار اور نیزوں کے بارہ زخم ان پر دیکھے گئے۔(طبقات ابن سعد:8/ 301تا304)

2.رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ میں عکرمہ ؓ بن ابو جہل کی بیوی اُمّ حکیمؓ شریک تھیں۔ اجنادین کی لڑائی میں عکرمہؓ شہید ہو گئے،چار ماہ دس دن کی عدت کے بعد مرجِ صفر نامی ایک مقام پر ان کا نکاح خالد بن سعید ؓ سے ہو گیا۔ نکاح کے دوسرے دن خالد بن سعید ؓ نے دعوتِ ولیمہ کی، ابھی لوگ دعوت سے فارغ ہونے بھی نہ پائے تھے کہ رومیوں نے صف بندی شروع کر دی ۔جب گھمسان کا رن پڑا تو اُمّ حکیمؓ ، جن پر اب تک شب ِعروسی کے آثار نمایاں تھے اپنے خیمے کا ایک ڈنڈا لے کر میدان میں کود پڑیں اور دشمن کے سات افراد کو اس دن موت کے گھاٹ اتار دیا۔(الاستيعاب فى اسماء الاصحاب تذكره ام حكيم)

3.اَسماء بنت یزید کے ہاتھ سے جنگِ یرموک میں نو رومیوںکو موت کاپیالہ پینا پڑا۔(الاصابه فى تمييز الصحابه:4/ 335)

4.ایک اور انصاری خاتون اُمّ حارث ؓکی ثابت قدمی اور شجاعت دیکھئے کہ جنگِ حنین میں اسلامی فوج کے قدم میدان سے اُکھڑ چکے ہیں، لیکن یہ چند باہمت نفوس کے ساتھ پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔(الاستيعاب فى الاسماء الاصحاب تذكره ام حارث)

5.حضرت انس کی والدہ اُمّ سلیم ؓ خنجر لئے ہوئے اُحد میں آئی تھیں۔ حنین میں بھی ان کے پاس خنجر تھا، اس طرح مسلح ہو کر آنے کا مقصد حضورﷺنے دریافت فرمایا تو جواب دیا:
«اتخَذْتُه إن دنا مني أحد من المشرکین بقرتُ به بطنه» صحيح مسلم:1809
''میں نے اس کو اس لیے ساتھ رکھا ہے تا کہ اگر کوئی مشرک قریب ہو تو اس سے اس کا پیٹ چاک کر دوں۔''

6.رومیوں میں جہاد میں شہرت رکھنے والی نامور شخصیت حبیب بن مسلمہ ؓ سے ان کی بیوی نے ایک جنگ کے موقع پر دریافت کیا۔ بتائیے! کل آپ کہاں ہوں گے؟ جواب دیا: یا تو دشمنوں کی صفوں کے اند ریا جنت میں۔اِن شاء اللہ،جواب سن کر بیوی نے بھی پورے عزم کے ساتھ کہا، ان دونوں جگہوں میں سے جہاں بھی آپ ہوں گے مجھے توقع ہے کہ میرا مقام بھی وہی ہو گا۔(البيان و التبيين :2/ 170)

7.ربیع بنت معوذ ؓکا بیان ہے:
«کنا لنغزو مع النبي ﷺ فنسقی القوم نخدمهم ونرد القتلی والجرحی إلی المدینة» صحيح بخارى:2883
''ہم نبیﷺکے ہمراہ جہاد پر جاتی تھیں اورہماری خدمات یہ ہوتی تھیں کہ مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ ان کی خدمت کرتیں اور جنگ میں کام آنے والوں اور زخمی ہونے والوں کو مدینہ لوٹاتیں۔''

8.ایک اور صحابیہؓ جو حضورﷺکے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی تھیں، بیان کرتی ہیں:
« کنا نداوي الکلمی ونقوم علی المرضی» مسند احمد:5/ 84
''ہم زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کا علاج معالجہ اور ان کی تیمار داری کرتی تھیں۔''

9.اُمّ ؓ عطیہ اپنے متعلق فرماتی ہیں:
''میں نبی کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی تو میں لوگوں کے لیے کھانا بناتی،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی۔'' مسند احمد:5/ 84

10.اُحد کے زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی اور خدمت کے لئے بہت سی صحابیات جنگ کے بعد مدینہ سے گئی تھیں، طبرانی کی روایت ہے :
«لمّا کان یوم أحد وانصرف إلی الصحابة یعینونهم وکانت فاطمة في من خرج» فتح البارى:7/ 287
''جس دن اُحد کی جنگ ہوئی اور جنگ کے بعد مشرکین واپس ہو گئے تو خواتین صحابہ کی معاونت کے لیے روانہ ہوئیں۔ حضرت فاطمہ ؓ بھی ان ہی میں تھیں۔''
چنانچہ حضورﷺ اس د ن زخمی ہوئے تو حضرت فاطمہ ؓ ہی نے اسے چٹائی کی راکھ سے بھرا تھا۔

11.حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جنگ اُحد میں حضرت عائشہ ؓ اور اُمّ سلیمؓ نے بھی مجاہدین کی خدمت کی تھی :
« لقد رأیت عائشة بنت أبي بکر وأم سلیم وإنهما المشمّرتان أری خدم سوقهما تنقزان القرب علی متونهما ثم تفرغانه في أفواہ القوم ثم ترجعان فتملانهما ثم تجیئان فتفرغانه في أفواه القوم»صحيح بخارى:4064
''میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور اُمّ سلیم کو کمر بستہ (لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے) دیکھا۔ وہ اس قدر تیزی سے دوڑ دھو پ کر رہی تھیں کہ میں نے ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھے، وہ اپنی پشت پر پانی سے بھرے ہوئے مشک لاد لاد کر لاتی تھیں اور مجاہدین کو پلاتیں پھر واپس جاتیں اور بھر کر لاتیں اور مجاہدین کی تشنگی دور کرتیں۔''

12.ایک انصاری خاتون اُمّ سلیطؓ کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں:
«إنها کانت تزمز لنا القرب یوم أحد» صحيح بخارى:2881
'' اُحد کے دن وہ ہمارے لیے مشکیزے بھرتی تھیں۔''

13.حمنہ بنت حَجشؓ نے بھی اس دن یہ خدمات انجام دی ہیں۔ ابن سعد نے لکھا ہے:
«وقد کانت حضرت أحدًا تسقی العطش وتداوي الجرحٰی» طبقات ابن سعد:8/ 185
''وہ اُحد میں موجود تھیں۔ پیاسوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتیں۔''

14.اُمّ ایمن کے حالات میں بھی ابن سعدؓ نے اسی قسم کی روایت نقل کی
ہے:
«وقد حضرتْ أمّ أیمن أحدًا وکانت تسقي الماء وتداوي الجرحٰی وشهدت خیبر مع رسول اﷲ ﷺ» طبقات ابن سعد:ص163

15.جنگ خیبر کے سلسلے میں مورخ ابن اسحق نے صراحت کی ہے:
«وقد شهد خیبر مع رسول اﷲ لنساء المسلمین» سيرة ابن هشام:3/ 334
''خیبر میں حضورﷺکے ساتھ مسلمان خواتین میں سے بہت سی خواتین نے شرکت کی۔''

16.حشربن زیاد کی دادی اور پانچ عورتیں بھی اس جنگ میں گئی تھیں۔ اُنہوں نے حضورﷺسے آنے کا مقصد ان الفاظ میں ظاہر کیا:
«یا رسول اﷲ! خرجنا نغزل شعر ونعین به في سبیل اﷲ ومعنا دواء للجرحی ونناول السهام ونسقی السویق»سنن ابو داؤد:2729
'' اللہ کے رسول! ہم بالوں کو بٹتی ہیں اور ا س کے ذریعے اللہ کے رستے میں تعاون کرتی ہیں۔ ہمارے ہمراہ زخمیوں کے لیے دوا ہوتی ہے، ہم تیر پکڑاتی اور ستو پلاتی ہیں۔''

17.خیبر ہی میں ابو رافع ؓکی بیوی، سلمہ ؓ قبیلہ اَشہل کی ایک خاتون اُمّ عامر، ایک انصاری عورت اُمّ خَلا(طبقات ابن سعد:8/ 336) اور کعیبہ بنت ِسعد کی شرکت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔(طبقات ابن سعد:ص213)

18.اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت یہ خدمات انجام نہیں دیتی تھیں بلکہ محافظین دین کی رفاقت اور تعاون کو اپنے لیے باعث ِ عزت سمجھ کر خود ہی پیش کش کرتی تھیں۔ اسی جنگ ِ خیبر کا واقعہ ہے کہ رسولﷺروانہ ہونے لگے تو قبیلہ غفار کی چند عورتوں نے آکر عرض کیا:
« إنا نرید یا رسول اﷲ أن نخرج معک إلیٰ وجهک هذا فنداوی لجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا»
''اے اللہ کے رسولﷺ! اس مبارک سفرمیں جس پر آپ جا رہے ہیں ہم بھی آپﷺکے ساتھ چلنا چاہتی ہیں تاکہ زخمیوں کا علاج کریں اور اپنے بس بھر مسلمانوں کی مدد کریں۔''

19.بعض خواتین میدان جنگ سے باہر بھی یہ خدمات انجام دیتی تھیں۔ مثلاً رفیدہ نامی قبیلہ اسلم کی عورت کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے :
''وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی اور اُنہوں نے مسلمانوں کے زخمیوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔''
چنانچہ مسجد ِ نبویؐ میں ان کا خیمہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ جنگ خندق میں زخمی ہوئے تو حضور1 نے ان کو رفیدہ ہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا تا کہ آپ بآ سانی ان کی عیادت کر سکیں۔(طبقات ابن سعد:8/ 213)
 

سین خے

محفلین
صحابیات (رض) کی معاشی سرگرمیاں (قسط اول)
فرزانہ یامین

اسلام ایک فطری دین ہے اور معاشرے میں اس کی فطری تنظیم (Natural Structure) کے دو شعبے ہیں ایک خانگی شعبہ اور دوسرا تمدنی شعبہ۔ بیرون خانہ کے تمام امور اور حصول معاش کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہے اور جہاں تک اندرون خانہ کا تعلق ہے تو عورت کو گھر کی مالکہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کے ذمہ مرد کے کمائے ہوئے مال سے اس کے گھر کا انتظام کرنا، اس کے لئے سکون مہیاکرنا، اس کی خدمت کرنا، اس کے بچوں کی صحیح پرورش کرنا اور امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ عورت پر ان تمام امور کی ذمہ داری کے بارے میں واضح ہدایت ہمیں اس حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

المراة راعية علی بيت زوج ها وولده و هی مسؤلة عن هم.

(صحيح بخاری)

’’عورت اپنے شوہر کے گھر اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس دائرہ عمل میں جواب دہ ہے‘‘

ثریا بتول علوی اپنی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ صفحہ 126 میں اس پر یوں تبصرہ کرتی ہیں:

’’عورت کی یہ ذمہ داریاں بڑی اہم ہیں اس محاذ پر ڈٹے رہنا اس کے لئے بڑا ضروری ہے بلکہ اس سے تھوڑی دیر کے لئے بھی ہٹنا اس کے لئے بڑا مضر ہے یہی وجہ ہے عورت کو اجتماعی عبادات مثلاً نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جانے، نماز جمعہ یا نماز جنازہ پڑھنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے‘‘۔

اسلام میں بنیادی طور پر کسب معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے لیکن اس کے باوجود حالات و واقعات کی مناسبت سے اگر یہ ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے تو اسلام نے اس کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ اس کی اجازت دی ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کرے۔ ارشاد خداوندی ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ

(النسآء 4 : 32)

’’مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو اس کے فطری دائرہ میں رکھتے ہوئے اسے عزت و عظمت کا ایسا مقام دیا ہے کہ جس کی بنا پر وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے معاشرہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حتی المقدور جدوجہد کرسکتی ہے۔

سید جلال الدین عمری اپنی کتاب عورت اسلامی معاشرہ میں لکھتے ہیں:

’’اسلام نے عورت کی جدوجہد کو صرف علم و فکر کے میدان تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی پرواز عمل کے لئے وسیع تر فضا مہیا کی ہے وہ جس طرح علم و ادب کی راہ میں پیش قدمی کرسکتی ہے اس طرح اس کو مختلف پیشوں کو اپنانے اور بہت سی ملی و اجتماعی خدمات کے انجام دینے کی بھی اجازت دی ہے‘‘۔

اسلامی تاریخ کے آئینہ میں
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ قرن اول کی مسلمان عورتیں بالخصوص صحابیات رضی اللہ عنہن امور خانہ داری کے علاوہ دیگر معاملات مثلاً معیشت، تبلیغ و جہاد میں پیش پیش ہوتیں تھیں مگر اسلامی معاشرہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ اسلامی تاریخ پر نظر غائر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خواہ عرب کا علاقہ ہو یا اندلس کا، ترکی کا ہو یا ایران کا، برصغیر کا ہو یا افریقہ کا، غرضیکہ ہر جگہ اور ہر دور میں کبھی بھی مسلمان عورتوں کو غیر ضروری و غیر شرعی قید و بند میں نہیں رکھا گیا بلکہ اس نے حتی المقدور ہر شعبہ زندگی میں اپنی حدود و دائرہ کار میں رہتے ہوئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔

صحابیات رضی اللہ عنہن کی معاشی جدوجہد
اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک دور کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ صحابیات رضی اللہ عنہن نے امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر کے کاموں (Out Door Works) کو بھی سرانجام دیا ہے اور ان کے اس عمل پر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اپنے گھر کی دیکھ بھال پر انہیں دوہرے اجر کی بشارت دی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی امِ حرام رضی اللہ عنہا کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ امِ حرام رضی اللہ عنہا نے وجہ مسرت دریافت کی تو فرمایا کہ خواب میں مجھے میری امت کے وہ بلند مرتبہ افراد دکھائے گئے جو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے سمندر کا سفر کریں گے، جس کا اجر اتنا بڑا ہے کہ وہ جنت میں بادشاہوں کی طرح تخت پر متمکن ہوں گے۔ امِ حرام رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں میں داخل فرمادے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سعادت مند گروہ میں ان کی شمولیت کی دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ لیٹے اور اس وقت بھی مسرت و شادمانی کے وہی آثار نمایاں تھے۔ امِ حِرام رضی اللہ عنہا نے سبب معلوم کیا تو وہی پہلا سبب بتایا۔ امِ حِرام رضی اللہ عنہا نے اس مرتبہ پھر دعا کی درخواست کی تو فرمایا : ’’پریشان کیوں ہوتی ہو تمہارا شمار سابقین میں سے ہے‘‘۔

عورت کی معاشی سرگرمیوں کے بارے میں احادیث مبارکہ بکثرت و بصراحت ملتی ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ

’’میری خالہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی (طلاق کے بعد ان کو عدت کے دن گھر میں گزارنے چاہئے تھے لیکن انہوں نے عدت کے دوران ہی میں) اپنے کھجور کے چند پیڑ کاٹنے کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے سختی سے منع کیا (کہ اس مدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے) یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں استفسار کے لئے گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھیت جاؤ اور اپنے کھجور کے درخت کا ٹو۔ اس رقم سے بہت ممکن ہے تو صدقہ و خیرات یا کوئی بھلائی کا کام کرسکو‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق۔ رواہ مسلم)

ان الفاظ کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہبود کا درس دیا جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کرسکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں نہ کہ وہ اپنی معاشی حاجات کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کی مرہون منت ہو۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو باہر دیکھ کر تنقید کی تو وہ (خاموشی سے) گھر واپس چلی آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اس کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کی سی کیفیت ہوگئی جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے تمہیں گھر سے باہر اپنی ضروریات کے لئے نکلنے کی اجازت دے دی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ سورۃ احزاب، باب قولہ لا تدخلوا بیوت النبی الخ)

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ نے تو اس امر کے قطعی یقینی شواہد فراہم کردیئے ہیں کہ عورت عدت کے علاوہ اندرون و بیرون خانہ دوسری بہت سی مصروفیات جاری رکھ سکتی ہے۔ اسلام کی اس حقیقت پسندی کی بنا پر اسلامی تاریخ ایسی مسلمان عورتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اپنی عزت اور وقار کا پاس رکھتے ہوئے معاشی جدوجہد کی۔

صحابیات (رض) کی معاشی سرگرمیاں

صحابیات رضی اللہ عنہن کی سیرت کا بغور مطالعہ کرنے سے درج ذیل شعبہ ہائے معاش سامنے آتے ہیں جن میں کام کرتے ہوئے نہ صرف وہ سلیقہ شعار گھریلو خواتین (Home Ladies) ثابت ہوئیں بلکہ باکردار و باصفا پروفیشنل خواتین (Professional Ladies) کی حیثیت سے معاشرہ کی کامیاب رکن رہیں۔

1۔ کاشتکاری
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں خواتین کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں مگر یہ تمام صحابیات رضی اللہ عنہن کا مشغلہ نہ تھا بلکہ بعض سر سبز مقامات کی باشندات کا پیشہ تھا۔ مدینہ منورہ میں انصار کی تمام عورتیں کاشتکاری کرتی تھیں اور خاص طور پر سبزیاں بوتی تھیں۔

مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب ’’خاتون اسلام‘‘ میں صحابیات رضی اللہ عنہن کی مدینہ منورہ میں معاشی سرگرمیوں کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’مدینہ کی زندگی میں عورتوں کے اس طرح کثرت سے واقعات ہیں اس وقت عورتیں نہ صرف گھر کا بلکہ باہر کا بھی اکثر کام کرتی تھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مرد زیادہ تر جہاد اور تبلیغ دین وغیرہ میں مشغول رہتے تھے ان کو موقع نہیں ملتا تھا کہ گھر کی ذمہ داریوں کو ادا کریں چنانچہ ان عورتوں نے گھر کی دیکھ بھال اور زراعت اور باغبانی بھی کی اور جانوروں کی دیکھ بھال بھی کی‘‘۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خالہ کا واقعہ کھیتی باڑی کے کاموں سے ان کے تعلق کا پتہ دیتا ہے جس کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے۔

حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہیں جن کی اپنی کھیتی تھی اور وہ پانی کی نالیوں کے اطراف چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں جمعہ کے دن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کے لئے جاتے تو وہ چقندر اور آٹے سے تیار کردہ حلوہ ان کو کھلاتیں۔ (بخاری، کتاب الجمعہ، باب قول اللہ تعالیٰ فاذا قضیت الصلوۃ الخ)

2۔ تجارت
صحابیات رضی اللہ عنہن میں سے بعض تجارت بھی کیا کرتی تھیں اور اپنے اس پروفیشن میں معاشرے میں شہرت رکھتی تھیں جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت نہایت وسیع پیمانے پر تھی۔ طبقات ابن سعد میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے۔

’’خدیجۃ الکبریٰ ایک معزز، شریف، بڑی دولت مند اور تاجر خاتون تھیں۔ آپ ملک شام، مال تجارت بھیجا کرتی تھیں۔ قریش کے اونٹوں پر جس قدر مال ہوتا تھا اس قدر ان کے تنہا اونٹوں پر ہوتا تھا۔ آپ مردوں سے تجارت کرایا کرتی تھیں۔ سرمایہ آپ کا ہوتا تھا اور نفع میں آپ اور آپ کا شریک مرد دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے تھے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 31)

حضرت قیلہ ام بنی انمار رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتی ہیں :

’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ مروہ پر آئے میں لکڑی پر سہارا دے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گئی اور میں نے کہا : ’’یارسول اللہ! میں خرید و فروخت کرنے والی عورت ہوں۔ کبھی میں ایک چیز خریدنا چاہتی ہوں اور میں نے اس کی قیمت اپنے ذہن میں مقرر کر لی ہے۔ اس سے کم قیمت دیتی ہوں پھر بڑھاتے بڑھاتے اسے اس قیمت پر لیتی ہوں جو قیمت میں نے اپنے ذہن میں مقرر کی تھی۔ اسی طرح کبھی میں ایک چیز بیچنا چاہتی ہوں اور اسے اپنے ذہن میں مقرر کردہ قیمت سے زیادہ بتاتی ہوں پھر گھٹاتے گھٹاتے اس قیمت پر بیچ ڈالتی ہوں جو قیمت میں نے اپنے ذہن میں مقرر کی تھی‘‘۔ فرمایا : ’’قیلہ ایسا نہ کیا کرو جب تم کسی چیز کو خریدنا چاہو تو وہی قیمت دو جس قیمت پر تم اسے خریدنا چاہتی ہو خواہ وہ چیز تمہیں ملے یا نہ ملے اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو جس قیمت پر اسے بیچنا چاہتی ہو وہی قیمت بتاؤ خواہ تم کو وہ قیمت ملے یا نہ ملے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 363)

حضرت عمرہ بنت طبیخ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ اپنی لونڈی کے ساتھ بازار جا کر میں نے مچھلی خریدی اور اس کو جھولے میں رکھا (لیکن چونکہ جھولا چھوٹا تھا) اس لئے مچھلی کا سر اور دم باہر نکلی ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر پوچھا : ’’کتنے میں خریدی ہے؟ یہ تو بہت بڑی بھی ہے اور نفیس بھی۔ اس سے گھر کے سب لوگ سیر ہوکر کھاسکتے ہیں‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 212)

اس روایت سے بھی خواتین کے خرید و فروخت کرنے کے بارے سند ملتی ہے۔

3۔ خیاطت (سلائی کڑھائی) اور صنعت و حرفت
حضرت فاطمہ بنت ثبیہ رضی اللہ عنہا کے تذکرے سے پتہ چلتا ہے کہ انصار کی عام عورتیں سلائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی صنعت و حرفت سے واقف تھیں اس کے ذریعے اپنے اور اپنے خاوند اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتی تھیں۔ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :

انی امراة ذات صنعة ربيع منها وليس لی ولا لزوجی ولا لولدی شئی.

’’میں ایک کاریگر عورت ہوں چیزیں تیار کر کے فروخت کرتی ہوں (اسی طرح میں کماتی ہوں) لیکن میرے شوہر اور بچوں (کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے اس لئے) ان کے پاس کچھ نہیں‘‘۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ خرچ کرسکتی ہیں آپ نے جواب دیا :

’’ہاں تم کو اس کا اجر ملے گا‘‘۔ (طبقات ابن سعد، 8 : 212)

حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا سے ان کے شوہر نے ایک مرتبہ غیر ارادی طور پر کہہ دیا کہ آج سے تمہاری حیثیت میری ماں کی سی ہے بعد میں دونوں مسئلہ دریافت کرنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے چونکہ اس وقت تک اس مسئلہ میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوہر کو حکم دیا کہ اجازت ملنے تک تم اپنی بیوی سے الگ رہو یہ سن کر بیوی نے کہا :

يارسول الله ماله من شئی وما ينفق عليه. (طبقات ابن سعد، 8 : 276)

’’اللہ کے رسول! ان کے پاس تو خرچ کے لئے کچھ بھی نہیں ہے (میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں)‘‘۔

حضرت ام صبیہ حولہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

’’ہم عہد رسالت اور شروع عہد فاروقی میں مسجد میں آپس میں دوستی کیا کرتی تھیں اور کبھی چرخہ کات لیا کرتی تھیں اور کبھی بعض عورتیں کھجور کے پتوں سے کوئی چیز بنا لیا کرتی تھیں‘‘۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، 18 : 255)

4۔ طبابت و جراحت
طب اور جراحت میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام اطاع رضی اللہ عنہا، حضرت اسلمیہ رضی اللہ عنہا، حضرت بنت حجش رضی اللہ عنہا، حضرت معاذ لیلی رضی اللہ عنہا، حضرت امیمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام زیادت ربیع رضی اللہ عنہا، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو زیادہ مہارت حاصل تھی۔ یہ جنگ و امن میں مریضوں کا علاج اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔

ایسے واقعات کثرت سے دور اول کی مسلم خواتین کے حالات میں ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے معیاری دور میں عورتیں گھر کے اندر بند ہوکر پڑی نہیں رہتی تھیں بلکہ وہ گھر کے باہر کے ضروری کام بھی انجام دیتی تھیں۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ دین اسلام میں عورت وہ تمام معاشی خدمات سرانجام دے سکتی ہے، جن کی شریعت نے اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اجازت دی ہے تاکہ وہ سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور محنت شاقہ سے اس کو پوار کرے۔

شریعت اسلامیہ کا خواتین کے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے جو عمومی رویہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دین اسلام نے عورت کو معاشرت اور ماحول نیز وقت اور ضرورت کے پیش نظر معروف معاشی سرگرمیاں اپنانے کی اجازت دی ہے، اس کا حکم نہیں دیا۔ اجازت دینے اور حکم دینے میں فرق ہے۔ کسی کام کے کرنے کی اجازت دینے سے قابل اعراض امور ختم نہیں ہوجاتے مگر صرف اس وقت تک کے لئے ایک استثنائی صورت موجود رہتی ہے جب تک کہ وہ ضرورت موجود ہو۔ جبکہ حکم کا فلسفہ اس کے بالکل مختلف ہے۔ مثال کے طور پر شریعت اسلامیہ نے وضو کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور تیمم کے ساتھ استثنائی صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اب کوئی شخص تیمم کی رخصت والی صورت کو حکم سمجھ کر عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔

صحابیات رضی اللہ عنہن نے اپنی حیات میں مستحسن معاشی سرگرمیاں نبھائیں جو کہ خواتین کے Economic Field میں آنے کے لئے ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر وہ پس منظر اور دائرہ کار آج ان کی نظروں سے اوجھل ہے کہ جس پس منظر اور دائرہ کار میں رہ کر انہوں نے کام کیا۔ خواتین کی ذمہ داریوں اور فرائض کی نوعیت کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود ان کی اپنی آسانی کے لئے ’’وَقَرْنَ فِیْ بُيُوتِکُنَّ‘‘ کا حکم دیا اور اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ فرما کر مرد پر اس کڑے اور کٹھن کام (Task) کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن اگر خواتین، صحابیات رضی اللہ عنہن کی سیرت مطہرہ کو سامنے رکھتے ہوئے مرد کے لئے (Helping Hand) بننا چاہتی ہیں تو انہیں جاننا چاہئے کہ وہ پہلے ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوں جو شریعت نے ان پر عائد کی ہیں تب وہ ساتھ ساتھ Economic and professional matters انجام دے سکتی ہیں۔

 

سید عمران

محفلین
صرف مرد کے لیے ہیلپنگ ہینڈ بننے کی شرط ضروری نہیں۔۔۔
خواتین باضرورت یا بلا ضرورت ہر جائز ذریعے و طریقے سے مال کما سکتی ہیں۔۔۔
ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا دستکاری کرکے رقم حاصل کرتیں اور ساری رقم مختلف ضرورت مندوں اور مستحقین پر صدقہ کردیا کرتی تھیں۔۔۔
اسی سخاوت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے وصال کے بعد میری ازواج میں مجھ سے سب سے پہلے وہ ملے گی جس کا ہاتھ سب سے دراز ہے!!!
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
اِسلامی معاشرہ کی تعمیر میں مسلمان عورت کا کردار

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلما ن خواتین نے اپنے دین کے لیے بڑ ی قربانیاں دیں۔ اس کے لیے اُنھوں نے قریب ترین تعلقات اور رشتوں کی بھی پروا نہ کی۔خاندان اور قبیلہ سے جنگ مول لی۔مصیبتیں سہیں، گھر با ر چھوڑا ۔غرض یہ کہ مفادِدین سے اُن کا جو بھی مفاد ٹکرا یا، اُسے ٹھکرانے میں اُنہوں نے کوئی تامل اور پس و پیش نہیں کیا اور آخری وقت تک اپنے ربّ سے وفاداری کا جو عہد کیا تھا،اس کی مکمل پاسداری کی۔

مسلمان خواتین کی قربانیا ں
مکہ کے ابتدائی دور میں جن سعادت مند اور باہمت نفوس نے ایمان قبول کیا تھا ان میں عماربن یاسرؓ کا خاندان بھی تھا۔ان کی والدہ ابو حذیفہ بن مغیرہؓ کی باندی تھیں ،اُن کو دین سے پھیرنے کے لیے ہر طرح کی اَذیت دی جاتی رہی یہاں تک کہ ابو جہل نے جرمِ حق کی پاداش میں نیزہ مار کر ان کو شہید کر دیا، لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔یہ پہلی شہادت تھی جو حضورﷺکے پیغام پر لبیک کہنے کے نتیجہ میں کسی کو نصیب ہوئی۔(طبقات ابن سعد 8/ 193)
حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہؓ بنت ِخطاب ایمان لے آئیں تو حضرت عمر ؓ نے ان کو اس قدر زدوکوب کیا کہ لہو لہان ہوگئیں۔ حضرت عمر ؓ کی سختی کے جواب میں کہتی ہیں:
«یا ابن خطاب ما کنتَ صانعًا فَاصْنَعْه فإني قد أسلمتُ» مستدرك حاكم:4/59
''ابن خطاب !میں تو ایمان قبول کر چکی اب جو چاہو کرگزرو (میں اس سے پھر نہیں سکتی )''
ابو سفیا ن کے ایمان لانے سے قبل کا واقعہ ہے کہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے تو اپنی بیٹی اُمّ المومنین اُمِ حبیبہ ؓ سے بھی ملنے گئے۔گھر میں نبی کا بستربچھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھنے لگے تو بیٹی نے فوراً اس کو تہہ کر دیا ۔باپ کے لیے یہ حرکت سخت تعجب خیز تھی۔پوچھا ،کیا تم نے اس کو میرے شایانِ شان نہ سمجھ کر اُٹھا دیا یا مجھے اس قابل نہ سمجھا کہ اس پر بیٹھوں۔بیٹی نے جواب دیا۔یہ رسولِ خدا کا بستر ہے اور آپ مشرک اور نجس ہیں۔ میں اس مقدس بستر پر آپ کو بٹھا کر اس کو پلید کرنا نہیں چاہتی۔(طبقات ابن سعد:8/ 70)
قرآنِ مجید کا حکم ہے کہ خدا کے دشمنوں اور محاربین سے اہلِ ایمان کو کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ایک مرتبہ حضرت اسماؓکی مشرک والدہ بنت عبدالعزّٰی،تحفے تحائف لیے ہوئے مکہ سے مدینہ ان کے گھر آئیں ،حضرت اسما ؓنے ماں کے تحفوں کو قبول کرنے بلکہ ان کو اندر آنے کی اجازت دینے سے قبل رسول اللہﷺسے اجازت لی کہ کیا میں ان کو اپنے گھر ٹھہرا سکتی ہوں ؟اور یہ کہ وہ مجھ سے مدد اور ہمدردی کی توقع رکھتی ہیں کیا ان کے ساتھ تعاون اور حسن ِسلوک میرے لیے جائز ہے ؟حضور ؐنے جواب دیا:ہاں،تمہارے لیے یہ دونوں باتیں جائز ہیں۔
جن لوگوں نے حضرت عائشہؓ پر اِفتراپردازی میں حصہ لیا،ان میں مسطح ؓ بن اَثاثہ بھی تھے، ان کی ماں کے ایمانی تقاضوں نے اس کی اجازت نہ دی کہ بیٹے کی غلط حرکت کو گوارا کر لیں یاکم از کم تاویل وتوجیہ کے پردوں میں اس کو چھپا دیں۔ابن سعد نے لکھا ہے :
«کانت من أشد الناس علیٰ مسطح حین تکلم مع أهل الإفك في عائشة»صحيح بخارى:5978
''مسطح نے جب حضرت عائشہؓ پر افترا پردازی کرنے والوں کے ساتھ تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو یہ ان پر اور تمام لوگوں سے زیادہ سخت تھیں ۔''
روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ہر وقت ان کے اس غیر شرعی اور نارواعمل پر پیچ وتاب کھاتی اور غم وغصہ کا اظہار کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ باہر سے گھر آرہی تھیں کہ پیر میں چادر اُلجھ گئی تو ایک دم وہی اندرونی جذبات اُبھرآئے اور بیٹے کو بددعا دینے لگیں۔حضرت عائشہ ؓ کواس وقت تک مسطح کی اس حرکت کا علم نہیں تھا اس لیے وہ مدافعت کرنے لگیں تو اُنھوں نے ان افواہوں کاذکر کیا جو مدینہ کی فضا میں گشت کر رہی تھیں۔ (طبقات ابن سعد:8/ 166)
 

سین خے

محفلین
دین کی مدافعت اور اس کی ترغیب
دین کی مدافعت، خواتین جس طرح شمشیر و سنان کے ذریعہ کرتی رہی ہیں، اسی طرح زبان وبیان سے بھی اُنہوں نے فریضہ انجام دیا ہے۔ حق کی نصرت و حمایت میں نیزہ اور تلوار بھی بلند کیا ہے اور زبان کی قوت بھی صرف کی ہے۔ ان کی پرجوش خطابت و تقریر نے بہت سوں کے لیے اللہ کی راہ میں مرنا اور جینا اور اپنی متاعِ حیات کا لٹانا آسان بنا دیا۔
1.رسولِ اکرمﷺ کی پھوپھی اَرویٰ بنت عبدالمطلب کے متعلق ابن عبد البر نے لکھا ہے:
''وہ اپنی زبان سے نبی کا دفاع کرتیں اور اپنے بیٹے کو نبی کی مدد اور حکم پر اُبھارا کرتی تھیں۔''(الاستيعاب فى الاسماء الاصحاب تذكره اروىٰ بنت عبدالمطلب)
ان کے لڑکے طلیب ؓ مکہ کے ابتدائی دَور ہی میں ایمان لاچکے تھے۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺچند صحابہ کے ساتھ جن میں طلیب ؓ بھی شامل تھے ،نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل،ابو لہب، عقبہ اور بعض دوسرے سردار اچانک ہلّہ بول بیٹھے اور زبان درازی شروع کر دی ۔صحابہؓ بھی پورے زور سے اظہارِ ایمان اور اپنی مدافعت کرنے لگے ۔طلیب ؓ نے تو آگے بڑ ھ کر ابو جہل کو بری طرح زخمی کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین نے اُن کو پکڑ کر باندھ دیا ۔بعض لوگ یہ خبر لے کر اَرویؓبنت عبدالمطلب کے پاس پہنچے اور کہا: ذرا اپنے بیٹے کی 'حماقت 'تو دیکھو کہ محمد(ﷺ)کے پھیر میں آکر لوگوں کے جو روستم کا نشانہ بن گیا ہے ۔ اُنہوں نے جواب دیا :
«خیر أیام طلیب یوم یدب عن ابن خاله وقد جاء بالحق من عند اﷲ»مستدرك حاكم:4/ 52
''وہ دن کہ جن میں طلیب نے اپنے ماموں زاد کی حمایت کی تھی بہترین دن ہیں،یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر آیا۔''
عبداللہ بن زید ؓ اُحد کے دن زخمی ہو گئے تو ان کی والدہ اُمّ عمارہؓنے مرہم پٹی کی اور بجائے اسکے کہ اپنے لختِ جگر کو تکلیف میں دیکھ کر آرام لینے اور سستانے کا مشورہ دیتیں حکم دیا :
«انهض بني فضارب القوم» ''میرے بیٹے اُٹھو اور دشمن کو مارو۔''(طبقات ابن سعد:8/ 302)
ابو سفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ نے شہدائے اُحد کے خلاف اشعار کہے تو ہندبنت اَثاثہؓ نے ان کا شعر ہی میں ترکی بہ تر کی جواب دیا۔ سيرة ابن هشام:3/ 41 ,42
4.جس زمانے میںحجا ج نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا محاصرہ کر رکھا تھا،ان کے تقریباًدس ہزار ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج کے ساتھ جاملے یہاں تک کہ ان کے دو لڑکے حمزہ اور خبیب بھی پناہ کے طالب ہو کر حجاج کے پاس چلے گئے۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے جاکر اپنی والدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے اپنی بے بسی کا تذکرہ کیا کہ اور تو اور میری اولاد تک نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔اب میرے ساتھ گنے چنے افراد رہ گئے ہیں جو حجاج کے مقابلہ میں دیر تک ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر میں اب بھی حجاج کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو دنیا کی جو نعمت چاہوں مل سکتی ہے بتائیے آپ کی کیا رائے ہے؟ ماں نے جواب دیا:
''اے میرے بیٹے!تو اپنی نیت خوب جانتاہے، اگر تو سمجھتا ہے کہ تو حق پر ہے اور حق کی طرف بلانے والا ہے تو اس پر صبر کر،تمہارے اَصحاب کو قتل کر دیا گیااور تمہاری گردن بھی نہ بچ سکے گی۔بنی اُمیہ کے لڑکے اس سے کھیلیں گے اور اگر توجانتا ہے کہ توحق پر نہیں ہے صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے توتوبہت برا بندہ ہے تو نے اپنے آپ کو ہلاک کر دیااور اپنے اصحاب کو بھی جو تیرے ساتھ قتل ہوں گے اور اگر تو حق پر ہے تو دین کو ہلکا نہ جان تو دنیا میں کتنی دیر زندہ رہے گا؟''
سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے ماں کے جذبات کی تائید کی اور حجاج کی مخالفت میں شہید ہو گئے۔(البدايه والنهايه:8/ 330)
 

سین خے

محفلین
اظہارِ حق
خواتین نے اپنوں ہی کو حق پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ معاشرہ میں جہاں کہیں ان کو بگاڑ نظر آیا، اس کو بدلنے اور اس کی جگہ خیر و صلاح کو قائم کرنے کی جدو جہد کرتی رہی ہیں۔
1.سیدناعبداللہ بن زبیر ؓ کو سولی دینے کے بعد حجاج ان کی والد ہ اسماء کے پاس گیا اور کہا: آپ کے صاحبزادے نے خدا کے گھرمیں بے دینی اور الحاد پھیلایا جس کی سزا خدا نے اس کو درد ناک عذاب کی شکل میں چکھائی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا :
'' تو جھوٹ بولتا ہے وہ تو اپنے والدین کا فرمانبردار تھا ،روزے رکھنے والا اور قیام کرنے والا تھا میں نے نبیؐ سے سنا کہ ثقیف قبیلے سے دو جھوٹے نکلیں گے دوسرا پہلے سے زیادہ شروالا ہو گا۔''مسند احمد:6/ 351
2.سُمَیہ نامی ایک کنیز تھی جس سے دورِ جاہلیت میں اس کے آقا بیسوائی کراتے تھے۔ سیدنا معاویہؓ کا ظالم گورنر زیاد اس کا لڑکا تھا۔ عموماً جیسے بیسوائوں کی اولاد کے حسب و نسب کا کوئی علم نہیں ہوتا اسی طرح زیاد کے سلسلۂ پدری کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا اور وہ نامعلوم النسب ہی مشہور تھا۔ حضرت معاویہ ؓ کے سامنے ایک شخص نے شہادت دی کہ ایک مرتبہ جاہلیت میں ابو سفیان ؓ کی سُمیّہ کے ساتھ خلوت ہو گئی تو اس کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوا۔ اس شہادت کی بنا پر حضرت معاویہ ؓ نے اس کو ابو سفیان ؓ کی اولاد اور اپنا بھائی قرار دے لیا۔
زیاد اس سے بہت خوش ہوا وہ چاہ رہا تھا کہ اکابر اُمت سے بھی اس کی تصدیق ہو جائے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کو اس نے ایک خط لکھا جس کا سرنامہ یہ تھا۔:''۔ابوسفیان کے لڑکے زیاد کی جانب سے اُمّ المومنین عائشہؓ کے نام'حضرت عائشہ ؓ اس غیر اسلامی فعل کی کیسے تائید کر سکتی تھیں۔ انہوں نے نہ تو حضرت معاویہ ؓ کے فیصلہ کا کوئی احترام کیا اور نہ زیاد جیسے سخت گیر اور جور پیشہ گورنر کی کوئی پرواہ کی اور جواب کا آغاز ان کلمات سے کیا ''امّ المومنین عائشہؓ کی طرف سے نا معلوم باپ کے لڑکے زیاد کے نام''(طبقاب ابن سعد:1/ 71)
 

سین خے

محفلین
اَعیانِ حکومت کو نصیحت اور اس کے نتائج
تنقید یاتائید اسی وقت سود مند ہوتی ہے جب کہ اس کے پیچھے خلوص اور خیر خواہی کے جذبات کار فرما ہوں، ورنہ نہ تو تائید کا کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ تردید کا۔ مسلمان خواتین نے جو کچھ کہا اور کیا، ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر خالص دین اور ملت کے مفاد کی لئے کہا اور کیا۔
دین کے نفع و ضرر کا پاس و لحاظ، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی اور شدید ترین و جاں گسل مواقع پر استقامت؛ خاتونِ مسلم کی یہ ایسی صفات تھیں جنھوں نے اس کے خلوص اور وفاداری کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کر دیا اور کوئی بھی شخص اس کو دین اور اَربابِ دین کی بدخواہ اور غدار نہیں ثابت کرسکا۔اُس نے فرد اور جماعت کے مفاد کے لئے جو بھی اقدام کیا اس کو ذاتی غرض اور نفسانی خواہش پر محمول نہیں کیا گیا بلکہ مخلصانہ جدوجہد سمجھ کر اس کاخیر مقدم کیا گیا۔عام اَفراد تو کیا،ذمہ دارانِ ریاست تک نے اس کی تنقید اور نصیحت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اس سے استفادہ کیا ہے۔
1.سیدنا معاویہ ؓ نے سیدہ عائشہ ؓ کولکھا کہ مجھے ایک مختصر سی نصیحت کیجئے(جسے میں ہمیشہ کے لئے اپنے سامنے رکھ سکوں) تو امّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ نے انتہائی مؤثر اور ایک حاکم وقت کو رہنمائی کا کام دینے والا حضورﷺکا یہ ارشاد لکھ کر بھیجا:
«من التمس رضی اﷲِ بسخط الناس کفاه اﷲ مؤنة الناس ومن التمس رضا الناس بسخط اﷲِ وکله اﷲ إلی الناس»سنن ترمذى:2414
''جس شخص نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی ناراضی سے کافی ہوجائے گا۔ اور جس نے اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنا چاہا، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے ہی سپرد کردے گا۔''
2.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کہیں جارہے تھے۔راستہ میں خولہ بنت ثعلبہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔وہ وہیں حضرت عمرؓ کو نصیحت کرنے لگیں۔ رعایاکے معاملہ میں خدا سے ڈرتے رہو ۔یہ بات ذہن نشین کرلو کہ جس شخص کو خدا کے عذاب کا خوف ہوگا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا لگا ہو گا(وہ لا ابالی زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ )اس کو نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ہر وقت خدشہ رہے گا۔''(الاستيعاب , تذكره خوله بنت ثعلبه)
3.ایک مرتبہ عمر ؓ نے فرمایا :مہر کی مقدار کم رکھو تو ایک عورت نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ''اگر تم اپنی عورتوں کو مہر میں ایک ڈھیر مال بھی دے دو تو اس سے ایک حبہّ بھی نہ لو۔'' اس سے معلوم ہوا کہ مہر کی کوئی حد نہیں ہے حضرت عمر ؓ نے اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ''ایک عورت نے عمرؓ سے بحث کی اور غالب رہی۔'' فتح البارى:9/ 161
4.سودہ بنت عمارہ نے جنگ ِ صفین میں حضرت معاویہؓ کے خلاف حضرت علی ؓ کا ساتھ دیا تھا۔ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد کا واقعہ ہے کہ یہ حضرت معاویہ ؓ کے پاس گئیں۔ پہلے تو ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر معافی چاہی پھر کہا :'' امیر المومنین! آپ لوگوں کے سردار اور ان کے معاملات کے ذمہ دار و نگہبان ہیں، اس لئے ان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیے ہیں ان کے متعلق وہ آپ سے ضرور پوچھے گا۔ ہم پر ایسے گورنر متعین ہو کر آتے ہیں جو آپ کے غلبہ و اقتدار کو مستقل اور وسیع کرنے کے ساتھ ہم کو کھیتی کی طرح کاٹ پھینکتے اور گائیوں کی طرح روند ڈالتے ہیں۔یہ ہمارے حقوق کو ٹھیک سے اَدا نہیں کرتے۔ہم کو خراب سے خراب ترچیز چکھاتے ہیں اور بڑی سے بڑی اور نفیس سے نفیس شے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھیے، ابن اَرطاۃ حاکم بن کر آیا تو اس نے ہمارے قبیلہ کے افراد کا خون بہانا شروع کر دیا اور میرا مال چھین لیا۔ آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے ورنہ ہمارے اندراتنا کس بل اور بچائو کی قوت ہے کہ ہر ظلم کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اس کو معزول کر دیں تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے ورنہ ہم آپ کو بھی دیکھیں گے۔'' حضرت معاویہ ؓ نے کہا: کیا تو مجھے اپنی قوم کے ذریعہ دھمکی دے رہی ہے؟ ''قسم خدا کی میں نے تو ارادہ کیا ہے کہ تجھ کو کانٹوں بھری سواری پر بٹھا کر اسی کے پاس لوٹائوں تاکہ وہ اپنا فیصلہ تجھ پر نافذ کرے۔ '' اس پر سودہ خاموش ہو گئیں۔ پھر کچھ دیر بعد دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:
''اللہ تعالیٰ اس روح پر رحمت نازل فرمائے جس کو ایک قبر نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور جس کے ساتھ عدل و انصاف بھی دفن ہو چکا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ اس کے عو ض دولت دنیا میں حاصل کرے گا، اس طرح حق اور ایمان اس میں جمع ہو گئے۔''
حضرت معاویہ ؓ نے پوچھا: وہ کون؟ علی ؓ بن ابی طالب۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا: تجھ پر اس عدل و انصاف کا کوئی نشان نظر نہیں آتا؟ اس نے جواب دیا: میں یہ بلا دلیل نہیں کہہ رہی ہوں۔ میرے پاس ان کے انصاف کا ثبوت موجود ہے۔ ایک دن میں نے ان کی خدمت میں ان کے ایک محصل صدقات کی شکایت لے کر پہنچی۔ وہ اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو محبت بھرے انداز میں پو چھا: کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ میں نے محصل کی زیادتی بیان کی تو رونے لگے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ''اے میرے اللہ!تو جانتا ہے، میں نے اپنے گورنروںکو تیری مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے اور تیرے حقوق کو چھوڑ بیٹھنے کا حکم نہیں دیا۔'' اس کے بعد فوراً جیب سے چمڑے کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس پر اس کی معزولی کا حکم لکھ بھیجا۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر روانہ رکھی (لہٰذا آپ کی حکومت کو بھی ایسے ہی عدل پر ور ہونا چاہیے کہ کسی بھی شخص پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے۔ حضرت معاویہ ؓ نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔ اس نے پوچھا: کیا انصاف میرے ہی ساتھ مخصوص ہے یا میری قوم بھی اس میں شریک ہے ؟ حضرت معاویہ ؓ نے کہا: تمہیں اپنے علاوہ دوسروں سے کیا مطلب ؟ اس نے کہا: ''انصاف ہو تو سب کے ساتھ ہو ورنہ یہ بہت ہی مذموم بات ہو گی کہ ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے اور دوسروں پر ظلم روا رکھا جائے۔ اگر آپ میرے کل قبیلہ کے ساتھ عدل نہیں کر سکتے تو مجھے بھی انصاف کی کوئی ضرورت نہیں ، میری قوم جس خستہ حالت میںپڑی ہوئی ہے میں بھی پڑی رہوں گی۔''
حضر ت معاویہ ؓ نے کہا: ابن ابی طالب نے تم کو جری بنا دیا ہے۔ پھر ماتحتوں کو حکم دیا کہ گورنر کو لکھ دو کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں۔(العقد الفريد:1/ 211-212)
5.اسی طرح عکرشہ بنت اَطرش بھی حضرت معاویہ ؓ کے دربار میں ان کے گورنروں کی شکایت لے کر پہنچی اوربے باکانہ کہا کہ '' اس سے پہلے ہمارے اغنیا سے زکوۃ لی جاتی اور ہمارے غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی، لیکن اب نہ تو شکستہ حال کی شکستگی دور ہوتی ہے اور نہ محتاج کی محتاجی رفع کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ کی ایماء اور مشورے سے ہو رہا ہے تو آپ جیسے شخص سے ( توقع یہ کی جاتی ہے کہ ) تنبیہ ہوتے ہی فوراً چونک اُٹھیں گے اور توبہ کرینگے اور اگر اس میں آپ کی رائے اور مشورہ کو دخل نہیں ہے بلکہ گورنروں کی اپنی طرف سے ظلم و زیادتی ہے ( تو یہ بھی آپ جیسی ذمہ دار شخصیت کے منافی ہے کہ ) وہ امانت داروں کوچھوڑ کر خائنوں سے تعاون حاصل کرے اور ظالموں کو خدمات پر مامور کر دے۔'' حضرت معاویہ ؓ نے معذرت کی کہ کبھی کبھی ایسے خراب حالات سے ہم کو سابقہ پڑتا ہے کہ قانون پر عمل کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ اس دانائے غیب نے ہم پر کوئی ایسا فرض متعین ہی نہیں کیا ہے جس پر عمل سے دوسروں کو نقصان ہو۔ بالآ خر حضرت معاویہ ؓ نے اس قبیلہ کی زکوۃ کو اسی کے افراد کے اندر تقسیم کرنے اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔'' ايضاً ص:216
اس جرأت و ہمت کو دیکھئے کہ کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بے خوف ہو کر حق کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ ایمان رکھتی ہے،نا ممکن ہے کہ وہ باطل کی تاریک شب کو اس پر قبضہ جمانے کی اجازت دے۔ اگر وہ اس کی اجازت دیتی ہے تو اپنے دین و ایمان کی موت کا اعلان کرتی ہے۔ اس لئے وہ مجبور ہے کہ سو سائٹی میں باطل کے جراثیم کو پنپنے اور دین و ایمان کی غارت گر قوتوں کو قدم جمانے کا موقع نہ دے۔
 

سین خے

محفلین
سیدہ عائشہ کی تنقید و احتساب
بنو اُمیہ کے آغازِ خلافت کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے گورنر اپنے خطبوں میں حضرت علی ؓ اور ان کے حامیوں پر لعن طعن کرتے تھے۔ان کی اس روش پر کوفہ کے ایک صحابی حجر بن عدی ؓ برملا تنقید فرماتے اور ساتھ ہی حضرت علی ؓ اور ان کے اعوان و اَنصار کی مدح و توصیف کرتے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کے گورنروں نے ان کی زبان بندی کی ہر چند کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے برعکس حجر بن عدی ؓ کے ہم خیال اور مؤیدین میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حجر ؓ اور ان کے بعض ساتھیوں کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔اور جب یہ گرفتار کر کے ان کے پاس لائے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ کر دیا۔ حضرت عائشہؓ کو اس کا علم ہوا تو فوراً عبدالرحمن بن حارث کو حضرت معاویہ ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ اس اقدام سے باز آجائیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی حجر ؓ اور ان کے سات ساتھی شہید کیے جا چکے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ بے حد خفا ہوئیں اور حضرت معاویہ ؓ سے سختی سے بازپرس کی عبدالملک بن نوفل روایت کرتے ہیں کہ وہ یہاں تک کہتی تھیں:
« لو لا یغلبنا سفهاء نا لکان لي ولمعاویة في قتل حجر شأن»البداية والنهاية:8/ 55
''اگر سفہا کے غلبہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو حجر کے قتل کے سلسلہ میں میرا اور معاویہ کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اکابر صحابہ، فتنہ و فساد کے خدشہ سے بعض غیر شرعی اُمور انجام پاتے ہوئے دیکھنے کے باوجود خاموش رہے، اسی طرح حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس معاملہ میں بر بنائے مصلحت سکوت اختیار کیا۔ ورنہ وہ کوئی سخت قدم اُٹھانا چاہتی تھیں۔
حج کے زمانے میں حضرت معاویہ ؓ کی حضرت عائشہ ؓ سے ملاقات ہوئی تو حضرت عائشہ نے تہدید آمیز انداز میں پوچھا:
''اے معاویہ! تو نے حجر اور اس کے ساتھیوں سے جو کیا وہ کیا۔ تو نہیں ڈرتا کہ میں کسی آدمی کو چھپا کے بٹھاؤں تاکہ وہ تجھے قتل کر دے۔''
روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے معذرت کرتے کرتے بڑی مشکلوں سے ان کی خفگی کو ختم کیا۔ٌ(البدايه والنهايه:8/ 55)
 

سین خے

محفلین
رائے اور مشوروں کا حق اور اس سے استفادہ
یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے سود و زیاں اور نفع وضرر سے مسلمان عورت کسی تماشائی کی طرح غیر متعلق نہیں رہ سکتی،کیونکہ معاشرہ کے بنائو اور بگاڑ اور اصلاح و فساد سے اس کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ معاشرہ کا نقصان اس کا اپنا نقصان اور معاشرہ کا فائدہ اس کا اپنا فائدہ ہے۔ وہ معاشرہ کو خیر کی بنیادوں پر قائم رکھنے میں مدد دے گی تو لازماً شر کی راہ پر لے جانے کی مخالفت اور مزاحمت بھی کرے گی۔ بھلائیوں کا خیر مقدم کرے گی تو برائیوں پر احتجاج بھی کرے گی۔ یہ اس کا فطری حق ہے جو اجتماعی زندگی نے اس کو عطا کیا ہے۔
جہاں تک اس کے ذاتی مسائل کا تعلق ہے مثلاً نکاح، خلع وغیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا جو بھی اقدام کیا جائے گا، اس کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔نبی 1کا ارشاد ہے:
« لا تنکح الأیم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن»صحيح بخارى:5136
''شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اِجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔''
ایک دوسری روایت ہے : «لا تنکحوا الیتامی حتی تستأمروهن» ابن قتيبه , عيون الاخبار:1/ 27
''یتیم لڑکیوں کا نکاح ان سے رائے اور مشورہ کرنے سے پہلے نہ کر دو۔''
'یتامی' کا لفظ یہاں بہت ہی قابلِ توجہ ہے۔ شفیق و مہربان اور خیر خواہ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں بہت ممکن ہے کوئی ظالم سرپرست بے آسرا لڑکی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا لے اور شریعت نے اس کو اپنے متعلق فیصلہ میں رضامندی کا جو حق دیا ہے، اس سے محروم کر دے۔ اس لیے خصوصی طورپر اس سے رائے اور مشورے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ عورت پر کسی حال میں بھی جبر نہ ہو۔ ان معاملات کا تعلق تو اس کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اس سے بھی آگے حضور اکرمﷺ کی ہدایت ہے:«آمروا النساء في بناتهن»سنن ابوداؤد:2095
'' عورتوں سے ان کی لڑکیوں کے معاملہ میں مشورہ لو۔''
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جن شعبوں سے متعلق وہ تجربات رکھتی ہے اور ان کے نفع و نقصان سے بہتر طور پر واقف ہے، ان کے سلسلہ میں اس کے افکار و خیالات خصوصی توجہ اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا بلکہ ان معاملات میں اس کی رائے اور مشورہ سے فائدہ اٹھانے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔
یہ اُسوہ زندگی کے کسی ایک یاچندپہلوئوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔بلکہ اس کا تعلق ہر نوعیت کے مسائل اور تمام پہلوئوں سے ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ کے صفحات میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔
حدیبیہ کی مشہور صلح، قریش اور مسلمانوں کے درمیان جن شرائط پر ہوئی تھی ۔ ابتدا میں ان سے مسلمانوں کی اکثریت ناخوش تھی۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے۔ اس شرط کی وجہ سے آپﷺنے صحابہ کو حدیبیہ ہی کے مقام پر احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، لیکن صحابہ کے جذبات اس وقت اتنے بدلے ہوئے تھے کہ اس حکم کی تعمیل ہوتی نظر نہ آئی۔ آپﷺنے افسوس کے ساتھ ام سلمہؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے صحابہؓ کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے انتہائی دانش مندانہ مشورہ دیا کہ آپ کسی سے مزید گفتگو نہ فرمائیے بلکہ جو مناسک ادا کرنے ہیں ان کو آگے بڑھ کر ادا کیجیے۔ پھر دیکھیے، کس طرح لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔چنانچہ آپﷺنے ان کے مشورہ پر عمل کیا تو صحابہ کرامؓ نے بھی آپ کو دیکھ کر فوراً پیروی شروع کر دی۔ صحيح بخارى:2733
اس طرح اُم سلمہؓ کی درست اور صائب رائے نے آن کی آن میں یہ نازک صورتِ حال ختم کر کے رکھ دی۔حضرت عمر کے بارے میں ہے کہ
«إن کان عمر لیستشیر في الأمر حتی إن کان لیستشیر المرأة فربما أبصر في قولها أو یستحسنه فیأخذ به»بيهقى10/ 113
''عمرؓ پیش آمدہ مسائل میں (اصحاب الرائے لوگوں سے) مشورہ کرتے حتیٰ کہ (ان مسائل میں سمجھ بوجھ رکھنے والی) کوئی عورت ہوتی تو اس سے بھی اور بسا اوقات ان کی رائے میں خیرو خوبی کا کوئی پہلو دیکھتے یا کوئی مستحسن چیز پاتے تو اس کو اختیار کرتے۔''
شفاء بنت عبداللہؓ کے تذکرہ میں علامہ ابن عبدالبر ؒ لکھتے ہیں:
''شفاء ہجرت سے قبل اسلام لائیں، وہ مہاجرات میں سے ہیں اور نبی کی بیعت ہوئیں۔ آپ کا شمارفاضل اور زیرک عورتوں میں ہوتا تھا۔حضرت عمرؓ ان کی رائے کو مقدم رکھتے اور اسے ترجیح دیتے تھے۔''(الاستيعاب في الأسماء الأصحاب تذكرة شفابنت عبدالله)
جس زمانہ میں حضرت عائشہ ؓ حضرت عثمانؓ کے قاتلین سے قصاص لینے کی تیاری کررہی تھیں، اپنی ایک تقریر میں فرماتی ہیں:
''لوگ عثمان کے خلاف ہو رہے تھے اور ان کے عمال پر الزامات لگا رہے تھے۔ وہ ہم سے ان کی خبروں کے بارے مشورہ کرتے تھے تو ہم نے ان سب حالات میں عثمانؓ کو بے گناہ، متقی، اور وفادار پایا جب کہ اودھم مچانے والوں کو فاجر دھوکے بازاور حیلے باز پایا۔''(تاريخ كامل:2/ 90)
اِن الفاظ سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہؓ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے اعمال کا دقت ِنظر سے مطالعہ کرتی رہتی تھیں کہ کون سے اُمور حدودِ عدل و انصاف کے اندر انجام پا رہے ہیں اور کہاں ان حدود سے تجاوز ہو رہا ہے، دوسرے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل و معاملات سے حضرت عائشہؓ کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور لوگ اہم سیاسی مسائل تک میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ اُن کو سلجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔
حضرت عثمانؓ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے؟اس بنیادی سوال کو لے کر بصرہ کی مشہور شخصیت اور اپنے قبیلہ کے سردار احنف، حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھی جاتے ہیں۔ جب تینوں کی رائے حضرت علیؓ کے حق میں پاتے ہیں تو مدینہ جا کر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ طبري:5/ 197
 

سین خے

محفلین
عملی تعاون
مختلف سیاسی و غیر سیاسی مسائل میں عورت کی رائے اور فہم سے اسلامی معاشرہ نے جس طرح فائدہ اُٹھایا ہے، اس طرح اپنی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے وہ مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ضرورت پر خلافت نے بھی اس سے یہ خدمات حاصل کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے خوارج نے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہﷺعورتوں کو جہاد پر لے جاتے تھے؟اُنہوں نے جواب دیا:«وقدکان یغزوبهن فیداوین الجرحی» صحيح مسلم:1812
''ہاں آپ ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں اور مریضوں کے علاج معالجہ کا کام انجام دیتی تھیں۔''
«کان رسول اﷲﷺ یغزو بأم سلیم ونسوة من الأنصار فیسقین الماء ویداوین الجرحی»صحيح مسلم:1812
''رسولﷺاُم سلیم اور انصار کی بعض خواتین کو لے کر جنگ پر روانہ ہوتے تھے تاکہ وہ پیاسوں کو پانی پلائیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کریں۔
اسکے علاوہ بعض سماجی اور مذہبی کام بھی ان سے لیے گئے ہیں مثلاً امّ ورقہ بنت عبداللہ کہتی ہیں:
«کان رسول اﷲ یزورها في بیتها وجعل لها مؤذنا یؤذن لها وأمرها أن تؤمن أهل دارها» سنن ابوداؤد:591
'' رسول اللہ ان کے گھر آتے تھے انہوں نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا جو اذان کہتا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائیں۔''
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ رمضان کی راتوں کی نماز (تراویح) میں ان کی گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔(المحلى:3/ 118)
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشرہ نے عورت پر بہت سی مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں عائد کیں اور مسلمان عورت نے اپنی خانگی فرائض کے ساتھ اپنی اِن ذمہ داریوں کو بطریق اَحسن پورا کیا ہے ۔
 
Top