اسلامی خّطاطی کے نئے زاویے

الف نظامی

لائبریرین
اسلامی خّطاطی کے نئے زاویے

عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


دنیا کے مختلف ممالک میں جاری اسلامی فنِ تعمیر اور دیگر فنونِ اسلامی کی نمائش کا ایک باب لاہور میں بھی وا ہوا ہے اور نیشنل کالج آف آرٹس میں اسلامی خطاطی پر ایک جامع نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں خطِ کوفی سے لیکر جدید مصورانہ خطاطّی تک تمام مراحل کو ایک تدریجی ارتقاء کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

نمائش کی نمایاں ترین اشیاء میں سترھویں صدی کا تحریر کردہ قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی ہے جو انتہائی باریک لکھائی میں جہازی سائز کے ایک ہی صفحے پر مکمل کر لیا گیا ہے۔

آج کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں کسی بھی سائز کی لکھائی کو رِیڈیوس کر کے مرضی کے مطابق چھوٹا کیا جاسکتا ہے لیکن ساڑھے تین سو سال پہلے، باریک قلم سے لکھا ہوا یہ یک صفحی نسخہ کسی معجزے سے کم معلوم نہیں ہوتا۔

نمائش کے کیوریٹر عرفان احمد قریشی خود بھی ایک خطاط ہیں اور نسخ اور نستعلیق، دونوں انداز کی کتابت میں مہارت رکھتے ہیں۔ جاندار اشیاء کی تصویر کشی سے گریز نے اسلامی فنون میں خطاطی کی ایک نئی طرز کو پروان چڑھایا اور عرفان قریشی اس طرزِ خطاطی میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔

نمائش میں اگرچہ عرب اور ایران میں پنپنے والے بیشتر مدرسہ ہائے خطاطی کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن نمائش کاروں کا واضح جھکاؤ خطِ نستعلیق کی جانب ہے اور اس فن کے انتہائی نادر نمونے اہلِ ذوق کے لیے جمع کیے گئے ہیں۔


خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم نے علامہ اقبال کے کلام کی کتابت بھی کی

نستعلیق کے خطاطوں میں خطاطِ مشرق عبدالمجید پروین رقم کا نام آج بھی عزت و احترام کی علامت سمجھا جا تا ہے۔ اگرچہ وہ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946 میں رحلت کر گئے تھے لیکن اُن کا کام گذشتہ 62 برس سے ہر خطاط کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے رہا ہے۔

عبدالمجید پروین رقم نے صرف 45 برس کی عمر پائی لیکن اُن کے دستِ ہنر نے اس مختصر سی عمر میں ایسے ایسے کارنامے کر دکھائے کہ کتابت اور خطاطی کی تاریخ میں اُن کا نام ہمیشہ جلی حروف میں جگمگاتا رہے گا۔

اُن کا سب سے بڑا کارنامہ فارسی رسم الخط میں الف سے لیکر ی تک تمام حروف میں خوبصورت ترامیم کرنا تھا۔ انھوں نے دائروں کے نظام کو بدل کر ایک بیضوی انداز رائج کیا جس کی بنیاد پر کشش والے حروف بھی گولائی کی صدیوں پرانی قید سے نکل کر بیضوی آزادی میں ڈھل گئے۔

عبدالمجید پروین رقم نے نہ صرف انفرادی حروف کے حُسن کو دوبالا کیا بلکہ حروف کے پیوند اور جوڑ بھی اُن کی مشّاق انگلیوں سے مستفید ہوئے اور انھوں نے اردو لفظوں کے ایک ایک شوشے کو نزاکتوں اور لطافتوں سے مزین کیا۔
اپنی نوجوانی میں انھیں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے کلام کی کتابت کا شرف حاصل ہوا اور کلامِ اقبال کی طرح اس کے کاتب کی شہرت بھی ہندوستان میں پھیل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ برِ صغیر پاک و ہند میں کاتبوں کی اکثریت نے عبدالمجید پروین رقم کے انداز کی پیروی کی اور آج کمپیوٹر کے لیے بھی انھی کے طرزِ نستعلیق کو معیاری گردانا جاتا ہے۔

لاہور کی موجودہ نمائش میں خطاطِ مشرق کے معروف فن پارے موجود ہیں جنھیں دیکھنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

نستعلیق خطاطی کا فن اگرچہ ایران میں شروع ہوا لیکن ہندوستان میں اس کا تعارف مغلیہ دور ہی میں ہو گیا تھاا اور یہاں کے خطاطوں نے اس میں نئی جہتیں پیدا کی تھیں، چنانچہ دہلی اور لکھنؤ میں نستعلیق کی الگ الگ صورتیں نکھر کر سامنے آئیں اور پنجاب میں اس طرزِ کتابت نے ایک منفرد صورت اختیار کی جو بعد میں باقاعدہ لاہوری نستعلیق کے نام سے معروف ہوئی اور جس کے نادر نمونے نیشنل کالج آف آرٹس کی موجودہ نمائش میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
 
Top