اسرائیل کیلئے ایک اور امریکی جن

کعنان

محفلین
اسرائیل کیلئے ایک اور امریکی جن

کالم نگار | بیرسٹیر ظہور بٹ (لندن)

کیا یہودی واقعی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ نسل ہیں یا یہ اپنی عقل دولت اورطاقت کے ذریعے اپنا لوہا منوا رہے ہیں؟ میرے خیال میں دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اسرائیل کی ریاست کا بانی چیم وائیزمین (Chaim Weizmann) روس میں پیدا ہوا تھا اور برطانیہ میں رہتا تھا پیشے کے لحاظ سے یہ ایک سائنس دان تھا مگر سیاسی طور پر وہ ایک یہودی ریاست کے قیام میں کا بھی زبردست حامی تھا برطانوی حکومت نے پہلی جنگ عظیم کے دوران جب اپنے بحری بیڑوں ہوائی جہازوں، ٹینکوں اور فوجی ٹرکوں کے استعمال کیلئے تیل کی کمی محسوس کی تو وائیزمین نے تیل کے متبادل کے طور پر ایکٹون (Acetone) ایجاد کی اور اس شرط پر اسے برطانوی حکومت کے حوالے کیا کہ وہ اسرائیل کی ریاست کے قیام کیلئے یہودیوں کی مدد کریں گے چنانچہ برطانوی حکومت کے سیکریٹر ی خارجہ آرتھر بالفور (Arthur Balfour) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا جسے بالفور ڈیکلریشن آف 1917 کہا جاتا ہے 1949 میں اسرائیل کے قیام کے بعد وایئزمین 16 مئی 1948 کو اسرائیل کا پہلا صدر بن گیا اور 9 نومبر 1952 کو اپنی وفات تک وہ اسرائیل کا صدر رہا جبکہ ڈیوڈ بن گورین ان کا وزیر اعظم تھا۔


وہ دن اور آج کا دن اسرائیل اب اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ اپنے علاقے کے تمام مسلم ممالک کو کسی بھی خاطر میں نہیں لاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ ان تمام ممالک سے بہت آگے ہے اس کے پاس 100 سے زائد چھوٹے موٹے ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور مڈل ایسٹ کے تمام مسلم ممالک اس کے نشانے پہ ہیں امریکہ مڈل ایسٹ کے تیل کے چشموں پر بدستور اپنا قبضہ جمائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مڈل ایسٹ کے ممالک کو خوف زدہ رکھنے کیلئے بھی وہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اس علاقے میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک میں عراق لیبیا شام حالیہ انتخابات کے بعد مصر اورایران شامل ہیں نہ جانے کیوں پچھلے دنوں سابق امریکی سیکٹری خارجہ ہنری کیسنجر نے ایک بیان میں کہہ دیا تھا کہ اسرائیل کی ریاست دس سالوں کے بعد ختم ہوجائے گی جبکہ امریکہ ایک ایک کر کے اس کے مخالف تمام مسلم ریاستوں کو ختم کئے جا رہا ہے

2002 میں عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کی حکومت ختم کی گئی اس کیلئے ایک انتہائی بیہودہ بہانہ بنایا گیا کہ اس نے انتہائی مہلک ہتھیاروں کا ذخیرہ اکٹھا کر رکھا ہے جس کے ساتھ وہ چند ہی گھنٹوں میں یورپ میں تباہی مچا سکتا ہے صدام حسین کو تو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا مگر لاکھ ڈھونڈنے کے باوجود وہاں سے کوئی مہلک ہتھیار ابھی تک نہیں مل سکے

اسی طرح 2011 میں
لیبیا میں ایک شورش برپا کر کے صدر کرنل معمر قدافی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور 20 اکتوبر انہیں گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور ان دونوں ملکوں کے تیل پر قبضہ کر کے برطانیہ اور امریکہ نے ایک تیر میں دو شکار کر لئے اسرائیل کے دشمن بھی ختم اور ان کے تیل کے خزانے بھی ہڑپ! اس کے ساتھ ہی ان دونوں ممالک کے شہریوں کو آپس ہی میں لڑوا دیا اور یہ خانہ جنگی وہاں ابھی تک جاری ہے

اس کے بعد مصر کے صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے گرایا گیا کیونکہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر دیا تھا محمد مرسی ابھی تک مصری فوج کی قید میں ہیں اور ان کی جماعت اخوان المسلمین کے کارکن ان کی رہائی اور بحالی کیلئے کئے جانے والے مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں صدر سادات
(جنہوں نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرلیا تھا) ان کے زمانے سے امریکہ دوسری مالی امداد کے علاوہ مصر کی فوج کی تنخواہوں سے لیکر ان کی ضرورت کے تمام اسلحے کے اخراجات ادا کر رہا ہے اس لئے مصر کی فوج اس کی جیب میں ہے

ایک مدت سے امریکہ ایران پر بھی بری نظریں لگائے بیٹھا ہے کہ یہ ابھی تک اپنے تیل کے وسائل اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے اور اس نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔

امریکی جارحیت کا تازہ شکار شام (Syria) ہے جس نے آج تک اپنے ملک سے باہر کسی پر حملہ نہیں کیا یہاں بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ شام کے صدر بشرالاسد نے دمشق کے ایک علاقے میں اپنے ہی سینکڑوں شہریوں کو زہریلے کیمیکل ہتھیار استعمال کر کے ہلاک کیا ہے اس کی تصدیق کیلئے اقوام متحدہ کی ایک ٹیم بھی وہاں بھیجی گئی جو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے والی ہے لیکن امریکی صدر بارک اوباما مُصر تھے کہ وہ اس رپوٹ کا انتظار کئے بغیر ہی شام کے کچھ ٹھکانوں پر چند ہی گھنٹوں میں اپنے سمندری جہازوں کے میزائیلوں سے ایک مختصر حملہ کرنے والے ہیں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی حسب معمول دم ہلاتے ہوئے بارک اوباما کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے لیکن دنیا کے لوگ اب ان چند بڑے ملکوں اور انکی تیل کی کمپنیوں کے مفاد کیلئے لڑی جانے والی جنگوں سے تنگ آ چکے ہیں جن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد لقمہء اجل ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تیل گیس اور اشیائے خوردنی سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں چنانچہ امریکہ اور یورپ بھر میں شام پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اس سلسلے میں جب برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ممبران کی رائے لی گئی تو انہوں نے بھی کثرت رائے سے شام پر حملے کی مخالفت کر دی روس کے صدر پیوٹن نے اس امریکی دعوے کو Utter Nonsense قرار دیا اور کہا کہ کسی قسم کے ثبوت سے پہلے ایسی باتیں کرنا ایک حماقت ہے کہ شام کے صدر نے اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے کوئی زہریلے کیمیکل ہتھیار استعمال کئے ہیں ایک کردش لیڈر نے تو یہ بھی کہا کہ کیا شام کا صدر بشرالاسد اتنا بیوقوف ہے کہ وہ موجودہ مشکل حالات میں اپنے ہی لوگوں پر کیمیکل ہتھیار استعمال کر کے امریکہ کو شام پر حملہ کرنے کی دعوت دے گا؟

جرمنی نے بھی شام پر کسی حملے میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے فرانس نے بھی اپنا پہلا رویہّ تبدیل کر لیا ہے ایران نے بھی کھل کر امریکہ کی مخالفت کی ہے اور دنیا بھر کے ممالک کے اس روّیے نے صدر اوباما کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے ہاکش موقف پر نظر ثانی کرکے اس بارے میں اپنی کانگرس کی بھی رائے لیں اس سب دباؤ کا اثر یہ ہوا ہے کہ وقتی طور پر انہوں نے شام پر فوری حملے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے مگر امریکی کانگرس کے اجلاس کے بعد دوتین ہفتوں میں یہ صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ یو این او کے انسپکٹر جو دمشق کے اس علاقے میں تفتیش کیلئے گئے تھے کہ کیا یہاں مرنے والے کسی زہریلی گیس کے استعمال سے مرے ہیں تو انہیں یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ یہ زہریلی گیس شام کی حکومت نے استعمال کی ہے کیونکہ اب انٹرنیٹ پر ایسی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں کہ شام میں زہریلی گیس کے حملے کا پلان واشنگٹن کی رضامندی کے ساتھ قطر میں تیار ہوا تھا اور ایک خطیر رقم کے عوض ایک امریکی ایجنسی کو یہ ذ مہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ دمشق میں ایسی قسم کے زہریلے کیمیکل ہتھیار استعمال کرے جو شام کی حکومت کے بھی پاس ہیں تاکہ اس کا الزام شام کے صدر بشرالاسد پر لگا کر امریکی اور نیٹو کی فوجوں کیلئے شام پر حملہ کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

ح

=====
تحریر تھوڑی پرانی ہے مگر ہے معلوماتی۔
 
Top