جاسم محمد
محفلین
اسرائیل میں دوبارہ انتخابات کیوں ہو رہے ہیں؟
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا ستمبر 16, 2019
بنجمن نیتن یاہو اور بینی گانتز — فائل فوٹو
اسرائیل میں منگل کو ایک بار پھر سے عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ جس میں پانچ بار وزیراعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو اور سابق آرمی چیف بینی گانتز مدّ مقابل ہوں گے۔
روّاں سال کے دوران اسرائیل میں دوسری بار انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے نو اپریل کو ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی اور بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی 35, 35 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھیں۔
انتخابات کے بعد نیتن یاہو اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے لیکن وہ اپنے سابق وزیر دفاع ایودگور لیبرمین کی حمایت کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ جس کے بعد پارلیمنٹ تحلیل اور دوبارہ انتخابات کا اعلان سامنے آیا۔
نیتن یاہو کی قدامت پسند اور ایودگور لیبرمین کی سیکولر جماعت کے درمیان اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ لیبرمین چاہتے تھے کہ جب تک نیتن یاہو دینی درس گاہوں کے طلبا کے فوج میں خدمات انجام دینے پر راضی نہیں ہو جاتے وہ حکومتی اتحاد کا حصّہ نہیں بنیں گے۔
اس بار بھی نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
تاہم فرق صرف یہ ہے کہ لیبر مین اپنے پیش کردہ مطالبے کی وجہ سے پچھلے انتخابات کی نسبت اس بار سیکولر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لیبرمین پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جس کے بعد اگلے اسرائیلی وزیراعظم کے چناؤ میں ان کا قلیدی کردار ہو سکتا ہے۔
ایک ہی سال میں دو بار انتخابات کے انعقاد سے امید کی جا رہی ہے کہ اس بار ووٹر ٹرن آؤٹ پچھلے الیکشن کی نسبت قدرے کم ہوگا۔
اسرائیلی انتخابات کا اصل مرحلہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے ہونے والے جوڑ توڑ کا ہوتا ہے۔
ان انتخابات کے بعد ممکنہ منظر ناموں میں نیتن یاہو اور بینی گانتز دونوں مل کر بھی مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی معاہدے پر نہ پہنچنے کی صورت میں جنوری میں ایک بار پھر انتخابات ہو جائیں۔
ان انتخابات میں وزیر اعظم نیتن یاہو کا مستقبل داؤ پر ہے۔ جنہیں کرپشن کے تین بڑے اسکینڈلز کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیلی انتخابات میں قدامت پسند رجحانات غالب ہیں اور اسرائیلی فوج کے زیر کنٹرول لاکھوں فلسطینیوں کا مستقبل انتخابی وعدوں میں شامل نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ امن منصوبہ
منگل کو ہونے والے اسرائیلی انتخابات اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازع کے حل کے لیے 'منصوبے' کا اعلان اسرائیلی انتخابات کے بعد کریں گے۔
یہ منصوبہ 50 ارب ڈالرز کا اقتصادی پروگرام ہے جو مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک فلسطین، اردن، مصر اور لبنان کے لیے ہے۔
وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا وعدہ
نیتن یاہو انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مغربی کنارے سے منسلک وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے اعلان کرچکے ہیں۔
پچھلے ہفتے اپنے خطاب میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد وہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیں گے۔
انہوں نے اپنے اس منصوبے کو 'اسرائیلی مشرقی سرحد' کا نام دیا ہے۔
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا ستمبر 16, 2019

بنجمن نیتن یاہو اور بینی گانتز — فائل فوٹو
اسرائیل میں منگل کو ایک بار پھر سے عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ جس میں پانچ بار وزیراعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو اور سابق آرمی چیف بینی گانتز مدّ مقابل ہوں گے۔
روّاں سال کے دوران اسرائیل میں دوسری بار انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے نو اپریل کو ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی اور بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی 35, 35 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھیں۔
انتخابات کے بعد نیتن یاہو اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے لیکن وہ اپنے سابق وزیر دفاع ایودگور لیبرمین کی حمایت کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ جس کے بعد پارلیمنٹ تحلیل اور دوبارہ انتخابات کا اعلان سامنے آیا۔
نیتن یاہو کی قدامت پسند اور ایودگور لیبرمین کی سیکولر جماعت کے درمیان اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ لیبرمین چاہتے تھے کہ جب تک نیتن یاہو دینی درس گاہوں کے طلبا کے فوج میں خدمات انجام دینے پر راضی نہیں ہو جاتے وہ حکومتی اتحاد کا حصّہ نہیں بنیں گے۔

اس بار بھی نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بینی گانتز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
تاہم فرق صرف یہ ہے کہ لیبر مین اپنے پیش کردہ مطالبے کی وجہ سے پچھلے انتخابات کی نسبت اس بار سیکولر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لیبرمین پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جس کے بعد اگلے اسرائیلی وزیراعظم کے چناؤ میں ان کا قلیدی کردار ہو سکتا ہے۔
ایک ہی سال میں دو بار انتخابات کے انعقاد سے امید کی جا رہی ہے کہ اس بار ووٹر ٹرن آؤٹ پچھلے الیکشن کی نسبت قدرے کم ہوگا۔
اسرائیلی انتخابات کا اصل مرحلہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے ہونے والے جوڑ توڑ کا ہوتا ہے۔

ان انتخابات کے بعد ممکنہ منظر ناموں میں نیتن یاہو اور بینی گانتز دونوں مل کر بھی مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی معاہدے پر نہ پہنچنے کی صورت میں جنوری میں ایک بار پھر انتخابات ہو جائیں۔
ان انتخابات میں وزیر اعظم نیتن یاہو کا مستقبل داؤ پر ہے۔ جنہیں کرپشن کے تین بڑے اسکینڈلز کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیلی انتخابات میں قدامت پسند رجحانات غالب ہیں اور اسرائیلی فوج کے زیر کنٹرول لاکھوں فلسطینیوں کا مستقبل انتخابی وعدوں میں شامل نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ امن منصوبہ
منگل کو ہونے والے اسرائیلی انتخابات اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دہائیوں سے جاری تنازع کے حل کے لیے 'منصوبے' کا اعلان اسرائیلی انتخابات کے بعد کریں گے۔

یہ منصوبہ 50 ارب ڈالرز کا اقتصادی پروگرام ہے جو مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک فلسطین، اردن، مصر اور لبنان کے لیے ہے۔
وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا وعدہ
نیتن یاہو انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مغربی کنارے سے منسلک وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے اعلان کرچکے ہیں۔
پچھلے ہفتے اپنے خطاب میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد وہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیں گے۔
انہوں نے اپنے اس منصوبے کو 'اسرائیلی مشرقی سرحد' کا نام دیا ہے۔