اسامہ بن لادن سے اوباما کی عجب ملاقات؟

بارک حسین اوباما شام کے وقت اوول آفس (واشنگٹن) میں سی آئی اے کی طرف سے پاکستان، یمن، صومالیہ، افغانستان اور فلپائن میں کئے جانے والے مختلف ڈرون حملوں کی درخواستوں کی منظوری دینے میں مگن تھے کہ اچانک اسامہ بن لادن کا ہیولا کمرے میں آدھمکا اور آتے ہی گویا ہوا ’’اوباما ! تم نے میرا جسم ایک سال پہلے بحیرہ عرب کی مچھلیوں کے حوالے کر دیا تھا مگر میں آج تم سے کھری کھری باتیں کرنے آ گیاہوں‘‘۔ اوباما نے خوف اور حیرت سے دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھا اور خوش آمدید کہنے میں تامل کیا تو ہیولا بولا: ’’تم نے اپنے کینیائی نژاد باپ حسین اوباما کے مسلمان ہونے کی لاج بھی نہ رکھی اور افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، پھر یہ کون سی بہادری تھی کہ تمہارے سیلز (Seals) فوجی کمانڈوز نے مجھے گرفتار کرنے کے بجائے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جبکہ میں نہتا تھا اور تم نے اپنی بے مغز قوم کے سامنے ڈینگ ماری کہ اسامہ جو دو دہائیوں سے امریکہ کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا وہ خطرہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے‘‘۔ اوباما نے گھگھیا کر کہا: ’’تو اب تم ہیولا بن کر مجھے ڈرانے آ گئے ہو، یسوع کی قسم! میں ڈرتا ورتا نہیں‘‘۔
ہیولا بولا: ’’اوہو، تم تو بددماغ بش کے بوٹ چاٹنے والے بدخصلت آمر پرویز مشرف کے لہجے میں بولنے لگے۔ دیکھو، میرا کام 11 ستمبر 2001ء کی شام ختم ہو گیا تھا، میں امریکیوں کے دل و دماغ میں جو دہشت بٹھانا چاہتا تھا، اسے جارج واکر بش، ڈک چینی اور تم نے میرے خلاف چیخ چیخ کر اس قدر بڑھا چڑھا دیا کہ میری چھوٹی سی تنظیم القاعدہ اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی، صدر بش نے صلیب کا نام لے کر ایشیا اور افریقہ میں لاحاصل جنگی مہمات کا آغاز کر دیا، جنہیں تم اب تک جاری رکھے ہوئے ہو، تم لوگوں نے اپنی قوم کی آزادیاں چھین کر انہیں خوف اورتفکرات کے جہنم میں دھکیل دیا، تم سمجھتے ہو کہ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر امریکہ کو ’’سپر سپر پاور‘‘ بنا دو گے… این خیال است و محال است و جنون است‘‘…
ہیولا کہہ رہا تھا: ’’مسلم ممالک پر تمہارے جارحانہ اور خونریز حملوں، ہزاروں مسلم نوجوانوں کی قید و بند اور اذیت رسانی (ٹارچر)، دنیا بھر میں تمہارے خفیہ بندی خانوں اور تمہاری عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں نے تمہیں زمانے بھر میں ان کو اور ذلیل بنا دیا ہے۔ تمہارے پیشرو صدر کے بارے میں بولیویا (جنوبی امریکہ) کے پہلے ریڈ انڈین صدر مملکت ایوومورالس نے برملا کہا: ’’میں دنیا میں ایک ہی دہشت گرد سے واقف ہوں اور اس کا نام جارج بش ہے‘‘۔ اور وینزویلا کے صدر شاویز نے تمہارے نیو یارک شہر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہہ دیا: ’’بش تقریر کر کے چلا گیا ہے مگر اپنی بدبو یہاں چھوڑ گیا ہے‘‘۔
’’مجھے بش سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘ اوباما نے بیزاری سے کہا۔ہیولا بولا: ’’اچھا تو سنو اوباما! تم لوگوں نے افریشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہمیشہ جابر اور مطلق العنان آمروں کی حمایت کی ہے جو امریکی اسلحے سے اپنے ہی عوام کو قتل کرتے اور لوٹتے ہیں۔ تمہاری قوم انسانیت کے دشمن صہیونی یہودیوں کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور غاصب اور خونخوار اسرائیل کے تحفظ کے لئے تم نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے ٹکر لے رکھی ہے جبکہ تمہارے فوجی ریکارڈ تعداد میں خود کشیاں کر رہے ہیں‘‘۔
’’تم بتا سکتے ہو، وہ خود کشیاں کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ اوبامہ نے شرمندگی سے پوچھا۔
’’ہاں سنو…جب تم انہیں عراق، افغانستان اور دیگر مقامات پر جارحانہ حملوں کے لئے بھیجتے ہو اور وہ وہاں بڑی تعداد میں عورتوں، بچوں اور مردوں کو قتل کرتے ہیں تو ان کے ضمیر شدید صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ تمہارے مخالفوں کے پاس توپخانہ، بمبار اور میزائل نہیں ہوتے جبکہ تمہارے فوجی ان نہتوں پر اپنے مہلک ترین ہتھیار داغتے ہیں اور ان کے سامنے ان کے ننھے بچوں اور ان کی مائوں، باپوں اور بوڑھوں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں، گھروں، مسجدوں اور بازاروں میں انسانی لاشے تڑپتے اور جلتے ہیں۔ افغانستان میں لوگ کہیں ایندھن اکٹھا کرنے یا شادی کی تقریب منانے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو امریکی بم اور میزائل ان کی بوٹیاں اڑا دیتے ہیں، تمہارے فوجی روزانہ ان گنت لوگوں کے چیتھڑے اڑتے یا انہیں بے گھر ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کے ضمیر پر جو گزرتی ہے، اوباما، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، پھر وہ خود کشیاں نہ کریں تو اور کیا کریں؟‘‘
’’لیکن تم نائن الیون کی خونیں وارداتوں کی بھی تو بات کرو!‘‘ اوباما نے کھسیانا ہو کر کہا، ’’ہاں، وہ حملے تو بے حس امریکیوں کو احساس دلانے کیلئے کئے تھے… یہ کہ تم لوگ جو کئی عشروں سے کروڑوں انسانوں کو مصائب سے دوچار کئے ہوئے ہو، کچھ تمہیں بھی ٹیس پہنچے، شاید تم لوگ اوروں پر ظلم کرنے سے باز آ جائو، ظالم یہودیوں کو لگام دے کر مظلوم فلسطینیوں سے انصاف کی روش اختیار کرو‘‘۔ تم جو افریقہ کی ایک غریب قوم کے بیٹے ہو اور عیسائی ہو جانے کے باعث صدر امریکہ بن بیٹھے ہو، تمہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ تم نے نصف کروڑ فلسطینیوں کو بے گھر اور بھکاری بنا دینے والے اسرائیل کی سلامتی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، گویا اسرائیل ایک ایسا طوطا ہے جس میں امریکہ کی جان ہے۔ تم اسرائیلیوں کو تباہ کن ہتھیار دیتے ہو تاکہ وہ مظلوم فلسطینیوں کو مسلسل کچلتے اور ان کی بچی کھچی زمینیں ہتھیاتے رہیں، اگر تم عالم عرب کی گردنوں پر سوار نہ ہوتے اور خونخوار اسرائیلیوں کے پشت پناہ بن کر فلسطینیوں کی تباہی کا باعث نہ بنتے تو ہمارے 19 شہداء کو نیو یارک اور واشنگٹن آ کر نائن الیون کے دھماکے کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی‘‘۔
ان کھری کھری باتوں پر اوباما چٹخ اٹھا: ’’مجھے تم بش اور ڈک چینی کے ساتھ نہ ملائو، بش تو نراکودن تھا جو اپنے برطانوی پوڈل (کتورے) ٹونی بلیئر کے بھرے میں آ گیا۔ بلیئر نے جھوٹ بول کر اسے عراق پرحملے کی راہ دکھائی۔ اس طرح وہ لوگ تمہارے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ بطور سینیٹر میں نے جنگ عراق کی مخالفت کی تھی، تاہم برسر اقتدار آ کر میں نے عراق سے اپنے فوجی افغانستان بھیج دیئے تاکہ ادھر القاعدہ کا صفایا کیا جا سکے۔ تم جانتے ہو وہاں تمہارے اور القاعدہ کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ ہیولے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا: ’’ہاں، امریکی اب تک وہاں پھنسے ہوئے ہیں، القاعدہ اب افغانستان میں نہیں، اس کی سرگرمیاں دیگر ملکوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ وہ اب یمن، صومالیہ اور شمالی افریقہ میں متحرک ہیں اور وہاں تمہارے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ تمہارے جارحانہ حملوں سے ہمارے مشن کو بڑھاوا ملا ہے، امت مسلمہ کی اسلامی شناخت اور جہادی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ وال سٹریٹ کے یہودی اور دیگر سرمایہ داروں کے خلاف نفرت بڑھی ہے جواب ایک تحریک بن گئی ہے۔ امریکیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، امریکہ میں بھوک اور غربت میں اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ کئی امریکی شہروں میں بھوکوں کو اجتماعی کھانا کھلانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ امریکہ بہادر کا پیٹ ننگا نہ ہو! مسٹر اوباما، تمہارے عوام بہت بڑی تعداد میں کہہ رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نکل آئے مگر اس معاملے میں تمہاری جمہوریت گونگی بہری بن گئی ہے حالانکہ اس جنگ سے امریکہ دیوالیہ ہو رہا ہے اور تمہارے صدارتی امیدوار رون پال کے بقول امریکہ کا ’’ستیا ناس ہو رہا ہے‘‘۔
اس پر اوباما نے گفتگو کا رخ موڑا! ’’تم وہاں ایبٹ آباد میں چھپے کیا کرتے رہے!‘‘ ہیولے نے کہا: ’’کرنا کیا تھا افغانستان میں صلیبیوں کی رسوائی کا تماشا دیکھتا تھا۔ میرا کام ختم ہو گیا تھا لیکن تمہاری سازش سے مسلمان ایک دوسرے کو جو قتل کرنے لگے تھے، میں اس پر کڑھتا تھا، معاملات میرے ہاتھ سے نکل گئے تھے، میں نے پاکستانی طالبان کو بہت سمجھایا مگر بے سود، پھر تمہارے گرگے وہاں آدھمکے‘‘۔ اوباما بات کاٹ کر بولا: ’’میں تمہاری باتیں اور تفصیل سے سنتا مگر مجھے تین ملکوں میں بعض ہائی ویلیو ٹارگٹس کا فیصلہ کرنا ہے ۔امریکہ کے دشمنوں کو شکار کرنے کا سلسلہ کبھی رک نہیں سکتا‘‘۔ ہیولا بولا: ‘‘واہ اوباما جی! سب سے بڑا ٹارگٹ تمہارے ہاتھ لگا تھا مگر تم نے واٹر بورڈنگ کے ذریعے اس سے تفتیش کا موقع کھو دیا۔ ذرا سوچو، میں تمہارے خفیہ اداروں کو پچھلے تیس سال کے متعلق کیا کچھ بتا سکتا تھا۔ اچھا، اب میں چلتا ہوں، تمہارے ایک غوطہ خور بل وارن نے میرا باڈی بیگ بھارت کے شہر سورت سے 200 میل مغرب کی طرف سمندر میں ڈھونڈ نکالا ہے۔ میں وہیں جا رہا ہوں، اللہ تمہیں غارت کرے!‘‘یہ کہہ کر ہیولا آناً فاناً غائب ہو گیا اور اوباما سر پکڑے اگلے ڈرون حملوں کی فائلیں دیکھنے لگا۔ (ملاقات کی یہ تفصیل فرضی ہے، اسے حقیقت پر محمول نہ کیا جائے۔)

بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top