اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست اور احباب سے خیال آرائی کی اپیل!

محبت ہوگئی عُنقا کہیں پائی نہیں جاتی
یہ دل کی چوٹ ایسی ہے کہ بتلائی نہیں جاتی۔۔۔یا۔۔شکایت بھی توخاطر میں یہ اب لائی نہیں جاتی

طوافِ خانۂ ہستی سے تم نکلو تو میں پوچھوں
وفا کی رِیت کیوں باہر یہ دہرائی نہیں جاتی

عمارت بیٹھ جائے گی مسلسل اشک باری سے
تمھیں تو ہے خبر پھر سے یہ بنوائی نہیں جاتی

کہیں جامِ شہادت نوشِ جاں کرتے ہی پروانے
یہ پیاس اِک ساغرِ ہستی سے بہلائی نہیں جاتی

ہیں بھرتے اور اُبھرتے زخم کیا باغ و بہاراں ہے
مرے دل سے تری یادوں کی رعنائی نہیں جاتی

ذرا دیکھو طبیبو تم ذرا بتلاؤ یہ صورت
کہیں بیماریٔ دل سے تو مرجھائی نہیں جاتی
 
آخری تدوین:
بہت خوب خان صاحب، مزا آ گیا پڑھ کر۔
آپ کی محبت کا دل سے ممنون ہوں۔عروض ڈاٹ کام کو مگربعض مصارع پر تحفظات
ہیں ۔ مثلاً ۔۔۔۔۔۔۔یہ پیاس اِک ساغرِ ہستی سے تو بہلائی نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں بھرتے اور اُبھرتے زخم کیا باغ و بہاراں ہے!
۔۔۔ اور میں نے باغ وبہار نامی داستان تو پڑھ رکھی ہے اور کہیں کہیں باغ و بہاراں کی
بندش بھی اشعار میں نظرسے گزری ہے مگر یہاں یہ ترکیب صحیح ہے یا نادُرست ،اساتذہ
کی رائے کا انتظار ہے۔۔۔۔اور پیاس کے بہلانے یا بہلائے جانے پر خود مجھے جو تشکیک
سی ہے ۔اساتذہ کرام سے اس کی بھی تردید یا تصدیق چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میں اِس محبت بھری رائےکے لیے ایک بار پھر آپ کا شکریہ اد ا
کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
محبت ہوگئی عنقا کہیں پائی نہیں جاتی
خلش بھی دل کی یہ خاطر میں اب لائی نہیں جاتی
طوافِ خانۂ ہستی تھمے تو آپ سے پوچھوں۔۔۔۔۔۔۔۔(آپ سے =اپنے آپ سے )
وفا کی رِیت کیوں باہر یہ دہرائی نہیں جاتی
 
آخری تدوین:
شکیلؔ بھائی آداب!

مطلع کی ساری صورتیں مجھے تو دولخت معلوم ہوتی ہیں، دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔ دوبارہ فکر کر کے دیکھیں۔

طوافِ خانۂ ہستی سے تم نکلو تو میں پوچھوں
وفا کی رِیت کیوں باہر یہ دہرائی نہیں جاتی
طوافِ خانۂ ہستی تھمے تو آپ سے پوچھوں۔۔۔۔۔۔۔۔(آپ سے =اپنے آپ سے )
وفا کی رِیت کیوں باہر یہ دہرائی نہیں جات
آپ اس اسلوب میں اب اتنا مستعمل نہیں، اس لئے شعر میں ابہام پیدا کرے گا۔ پہلی صورت ہی بہتر ہے ۔۔۔ تاہم دوسرے مصرعے میں ’’تم سے‘‘ کے بغیر بات پوری نہیں ہوتی۔

عمارت بیٹھ جائے گی مسلسل اشک باری سے
تمھیں تو ہے خبر پھر سے یہ بنوائی نہیں جاتی
کون سی عمارت؟؟؟ دوسرے مصرعے میں مفہوم کی ادائیگی درست نہیں ہو پا رہی ۔۔۔ یہاں پر ’’بنوائی نہیں جاسکتی‘‘ کہا جائے تو مفہوم درست ادا ہوگا۔

کہیں جامِ شہادت نوشِ جاں کرتے ہی پروانے
یہ پیاس اِک ساغرِ ہستی سے بہلائی نہیں جاتی
پہلے مصرعے میں کتابت کی غلطی ہے کیا؟
نوش کرتے ’’ہی‘‘ یا ’’ہیں‘‘؟؟؟
شعر پھر بھی دولخت ہی لگتا ہے۔

ذرا دیکھو طبیبو تم ذرا بتلاؤ یہ صورت
کہیں بیماریٔ دل سے تو مرجھائی نہیں جاتی
ٹھیک ہے، تاہم پہلے مصرعے کی بندش مزید چست کی جاسکتی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
محترم راحیل بھائی!
میں تو مایوس ہوچلا تھا کہ شایدلڑی کے عنوان میں اصلاح کے ساتھ احباب کے اظہارِ رائے کے تقاضے نے
آپ حضرات کو ملتفت ہونے سے روک دیا ہے۔۔۔۔۔مگر اب آپ کے اِس جواب سے اور بیش قدر آراء
سے دل کو تسلی ہوئی ہے۔محترم بھائی ! میں اِس غزل پر آپ کی رائے کی روشنی میں پھر غور کرتا ہوں اور جلد
دوبارہ حاضر ہوتا ہوں ۔آپ کے اُٹھائے ہوئے نکات حق اعتراضات بر حق ہیں۔۔شکرگزار شکیل احمد خان
 
Top