اروند کیجری وال کی زندگی کے خاص پہلو

اروند کیجری وال کی زندگی کے خاص پہلو
وقت اشاعت: Tuesday 10 February 2015 03:58 pm IST
1423587173.jpg

تحریرا شرف علی بستوی کی ہے

ہندوستان میں رائج الوقت سیاست سےالگ ہٹ کر ایک نئی سیاسی راہ اختیار کرنے والے عام آد می پارٹی کے نیشنل کنوینر اروند کیجری وال ٹھیک ایک سال کی تکمیل پر اب دوسری بار 14 فروری کو رام لیلا میدان میں وزیر اعلیٰ کا حلف لیں گے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں زبر دست جیت درج کرنے کے بعد پارٹی دفتر میں انہوں نے کہا کہ ' مجھے تواب اس بے پناہ اکثریت سے ڈر لگ رہا ہے " سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا ہمیں ہمیشہ غرور سے بچنا ہے ۔ ورنہ بی جے پی کانگریس کا آج جو حال ہوا ہے وہی پانچ برس بعد ہمارا بھی ہو گا اگر ہم کسی طرح کے غرور اور گھمنڈ میں پڑ گئے "

آئیے کیجری وال کی زندگی کے اہم گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں 46برس کی عمرمیں دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے والے کیجری وال دہلی کےسب سے کم عمر کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ کیجری وال کا یہ سفر کافی دلچسپ اور چیلنجوں سے بھرا رہا ہے۔

انتہائی مضبوط عزائم اور جہد مسلسل نے ان کی زندگی میں اب تک کے سفر میں انہیں ہر قدم پر کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے، پہلے انجینئر،پھر بیو رو کریٹ اور سماجی کارکن اور اب وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نبھانے کی تیاری ہے۔ کیجری وال کی پیدائش 16؍اگست 1968 کو ہر یانہ کے حصار میں گو بندرام کیجری وال اور گیتا دیوی کے یہاں ہوئی ۔ آئی آئی ٹی کھڑگ پور سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد1989میں ٹا ٹا اسٹیل سے کیریر کی شروعات کی لیکن یہ نوکری راس نہ آئی اور بہت جلد ہی1992 میں ٹا ٹا اسٹیل کو الوداع کہہ دیا۔

اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے کولکاتہ کے رام کرشنا آشرم اور نہرو یوا کیندر کا رخ کیا یہاں کچھ وقت گزارنےکے بعد انہوں نےانڈین سول سروسیز میں آنےکی ٹھانی اور 1995میں سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد انڈین ریونیو سروسیز IRS سے منسلک ہوگئے لیکن بہت جلد ہی یہاں بھی کوفت محسوس کرنے لگے اور ایک بار پھر ارادہ بدلا اوراعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سن2000میں دو سال کی بلا اجرت تعطیل لے کر اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھایا مطلوبہ تعلیم کی تکمیل کے بعد2003 ءمیں دوبارہ سروس سے وابستہ ہوگئے۔

ابھی تین برس ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے جوائنٹ انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے پر پہنچ کر2006میں سروس کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔ استعفے کے بعد انہیں کافی مشکلات پیش آئیں، ان پر جرمانہ بھی عاید کیا گیا، جو انہوں نے اپنے ایک دوست سے قرض لے کر ادا کیا۔ سروس کی ٹریننگ کے دوران ہی ازدواجی زندگی میں قدم رکھ دیااور ان اپنی ہی ہم سبق ساتھی مس سنیتا سےان کی شادی ہو گئی، فیملی میں ایک بیٹااور ایک بیٹی ہے۔ ہمیشہ عام آدمی کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدو جہد کر نے والے کیجری وال نے ملک میں اطلاعات کا حق RTI قانون نافذ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نومبر 2011میں انا ہزارے کی تحریک سے وابستہ ہوکر جن لوک پال کا مسودہ تیار کرنے میں بھی ان کا اہم رول رہا ہے۔ لیکن لوک پال بل لانے کے تعلق سے مرکزی سرکارکے ڈھل مل رویےاور طفل تسلیوں سے تنگ آکر کیجری وال نے آخر کار سرگرم سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا، یہیں سے انا ہزارے اور کیجری وال کی راہیں جدا ہو گئیں لیکن منزل دونوں کی ایک ہی رہی بدعنوانی کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکنا۔ فرق صرف یہ رہا کہ انا ہزارے کا خیال تھا کہ صرف عوامی تحریک ہی سرکار پر دباو بنانے کا واحد طریقہ ہے، لہذا ہمیں سیاست کی کالی کوٹھری میں نہیں داخل ہو نا چاہیے۔ جبکہ کیجری وال اب اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک ہم قانون سازی کی طاقت حاصل نہیں کرتے ہمیں مطلوبہ تبدیلی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی۔

اس اختلاف کے بعد کیجری وال نے انا تحریک سے نومبر 2012 میں الگ ہو کر عام آدمی پارٹی تشکیل دی، اس طرح دہلی میں 26؍نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کے قیام کا ا علان ہوا اور اپنے ساتھیوں منیش سسودیا، سنجے سنگھ، گوپال رائے کماروشواس، ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے ساتھ مل کر تحریک کو نئی شکل دی۔ کیجری وال نے دہلی کو اپنی سیاسی تحریک کا مرکزاور محور بنایا اورپوری توانائی کے ساتھ میدان میں اتر گئے۔ بنیادی عوامی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے کیجری وال نے سب سے پہلے بجلی کمپنیوں کی من مانی کے خلاف مورچہ کھولا، اس تحریک میں انہیں بڑے پیمانے پرعوامی حمایت حاصل ہوئی اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

زندگی کے سفر میں چیلنجوں کو دعوت دینا ان کی کا میابی کا زینہ رہا ہے اس لیے اس سیاسی کیریر میں بھی انہوں نے چیلنجوں کو قبول کیا۔ ان کے ایک دلچسپ مگر انتہائی حیران کن فیصلے نے ہر خاص و عام کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا تھاجب2013چ میں دہلی اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی کیجری وال نے دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، بعض سیاسی مبصرین نے اسے کیجری وال کی سیاسی خود کشی والا فیصلہ قرار دیا تو بعض نے اروند کو انتہائی مغرورشخص تک کہہ دیا تھا۔ لیکن8؍دسمبر کو الیکشن نتا ئج دیکھ کر سبھی ششدررہ گئے جب، انہوں نے پندرہ برس تک دہلی کی وزیر اعلیٰ رہنے والی سینئر لیڈرشیلا د یکشت کو 25ہزار سے بھی زائدووٹوں سے شکست دے دی۔ ان کی پارٹی کو 70میں سے 28سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اور 22 سیٹوں پر ان کے امیدوار دوسری پو زیشن پر رہے۔

اور اس بار ہندوستان کی الیکشنی سیاست میں انتہائی حیرت انگیز کار نامہ انجام دیا ہے تادم تحریر دہلی کی 70 میں 51 سیٹیں اپنے نام کر چکے ہیں بقیہ 16 سیٹوں پر ان کے امیدوار آگے ہیں بی جے پی کے حسے میں صرف دو سیٹیں ملنے کا امکان ہے اور کانگریس کا مکمل صفایا ہو گیا ہے ۔

انہیں سال 2006میں ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں ریمن میگسیس ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے، انہوں نے '’سوراج‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو 2012 میں شائع ہو ئی تھی۔ کیجری وال نے بالاخر تمام تر تردد و پس وپیش کے باوجود کانگریس کی حمایت سے 2013 میں حکومت سازی کا اعلان کیا اور 28 دسمبر 2013 کو وزیر اعلیٰ بن کر کیجری وال نے دہلی کی نئی سیاسی تاریخ رقم کر دی ۔ ان کی آمد نے دہلی میں جہاں ایک طرف کانگریس کی سیاسی زمین پر جھاڑو پھیرنے کا کام کیا وہیں دوسری جانب بی جے پی کے لئے بھی اقتدار تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ پیدا کر دی۔ چنانچہ 32 سیٹوں والی بی جے پی کو 3 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے اور کانگریس کے حصے میں کچھ نہیں آسکا جسے 2008 میں 42 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ۔

کیجری وال کے سیاسی سفرکی پہلی اننگ محض 49 دن کی کامیاب عوام دوست حکمرانی کے بعد ایک عوام دوست بل لوک پال کو قانونی شکل دینے کو لیکر حزب اختلاف کی سیاسی سازش کا شکار ہوگئی اور انہوں نے دل برداشتہ ہو کر عہدے سے استعفیٰ دے دیا ، جس کا نہیں آج بھی ملال ہے اور اپنی گفتگو میں متعدد بار دہلی کی عوام سے معافی مانگ چکے ہیں ۔ اس سے قطع نظر کیجری وال کی زندگی کے سفر نامے کا اگر تجزیہ کریں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ کیجری وال کے لیے اپنی منزل تک پہنچنا ہمیشہ مشن رہا، وہ ہمیشہ اسی جذبے سے کام کرتے ہیں۔ انہیں اس کی بھی پروا نہیں کہ آج وہ جو کچھ ہیں اگر کل نہیں رہے تو کیا ہو گا۔

اب تک انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گزشتہ الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت سازی کے بعد کیجری وال نے کام کی کچھ ترجیحات طے کیے تھے جسے تین ماہ میں مکمل کرنے کی کوشش کی ۔ کیجری وال نےسرکار کے سہ ماہی ایجنڈے پر: ہرخاندان کو سات سو لیٹر مفت پانی کی فراہمی مکمل سوراج ، اہم فیصلوں کے لیے عوام کی رائے لیا جانا ، بجلی کے میٹروں کی درستی کے لیے فوری طور پر کارروائی، بجلی صارفین پر درج مقدمات واپس لینے، جل بورڈ کی از سر نو تشکیل، پینے کے پانی کی نجکاری پر روک ، گھریلو زمرے کے ناجائز بل کی معافی ، غیر مستقل ملازمین کو مستقل کیا جانا ، پبلک اسکولوں کی من مانی پر روک ، خواتین کے تحفظ کے لیے اسپیشل سکیریٹی فورس کا نظم، غیرمنظور شدہ کالونیوں کی منظوری کا عمل شروع کرنا، جھگیوں کو توڑنے پر پابندی ۔ ویٹ ضابطوں میں ترمیم ، ایک ماہ میں جن لوک پال بل کا مسودہ پاس کرنا شامل تھا ۔ جس میں کچھ پر تو فوری طور پر عمل شروع کر دیا تھا اور بقیہ پر کام جاری تھا سستی بجلی ،مفت پانی اور کرپشن میں گراوٹ کے اثرات دلی والوں کے دلوں میں آج بھی اسی طرح تازہ ہیں ۔ کیا کیجری وال اپنے اسی ایجینڈے پر اس بار بھی کام کریں گے اب یہ دیکھنا کافی دل چسپ ہو گا ،اب انہیں بے پناہ اکثریت حاصل ہے ، اب دیکھنا دل چسپ ہے کہ دہلی کی امیدوں پر وہ کس طرح کھرے اتریں گے ،وزیر اعظم نے نریندر مودی نے بھی انہیں فون پر آشرواد دیا ہے اور ان کی جیت پر نیک خواہشات کا اطہار کیا ہے ۔

رابطہ

ashrafbastavi@gmail.com

- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2015/02/4875_#sthash.J7f3jpAd.dpuf
 
اروند کیجری وال کی زندگی کے خاص پہلو
وقت اشاعت: Tuesday 10 February 2015 03:58 pm IST
1423587173.jpg

تحریرا شرف علی بستوی کی ہے

ہندوستان میں رائج الوقت سیاست سےالگ ہٹ کر ایک نئی سیاسی راہ اختیار کرنے والے عام آد می پارٹی کے نیشنل کنوینر اروند کیجری وال ٹھیک ایک سال کی تکمیل پر اب دوسری بار 14 فروری کو رام لیلا میدان میں وزیر اعلیٰ کا حلف لیں گے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں زبر دست جیت درج کرنے کے بعد پارٹی دفتر میں انہوں نے کہا کہ ' مجھے تواب اس بے پناہ اکثریت سے ڈر لگ رہا ہے " سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا ہمیں ہمیشہ غرور سے بچنا ہے ۔ ورنہ بی جے پی کانگریس کا آج جو حال ہوا ہے وہی پانچ برس بعد ہمارا بھی ہو گا اگر ہم کسی طرح کے غرور اور گھمنڈ میں پڑ گئے "

آئیے کیجری وال کی زندگی کے اہم گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں 46برس کی عمرمیں دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے والے کیجری وال دہلی کےسب سے کم عمر کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ کیجری وال کا یہ سفر کافی دلچسپ اور چیلنجوں سے بھرا رہا ہے۔

انتہائی مضبوط عزائم اور جہد مسلسل نے ان کی زندگی میں اب تک کے سفر میں انہیں ہر قدم پر کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے، پہلے انجینئر،پھر بیو رو کریٹ اور سماجی کارکن اور اب وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نبھانے کی تیاری ہے۔ کیجری وال کی پیدائش 16؍اگست 1968 کو ہر یانہ کے حصار میں گو بندرام کیجری وال اور گیتا دیوی کے یہاں ہوئی ۔ آئی آئی ٹی کھڑگ پور سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد1989میں ٹا ٹا اسٹیل سے کیریر کی شروعات کی لیکن یہ نوکری راس نہ آئی اور بہت جلد ہی1992 میں ٹا ٹا اسٹیل کو الوداع کہہ دیا۔

اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے کولکاتہ کے رام کرشنا آشرم اور نہرو یوا کیندر کا رخ کیا یہاں کچھ وقت گزارنےکے بعد انہوں نےانڈین سول سروسیز میں آنےکی ٹھانی اور 1995میں سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد انڈین ریونیو سروسیز IRS سے منسلک ہوگئے لیکن بہت جلد ہی یہاں بھی کوفت محسوس کرنے لگے اور ایک بار پھر ارادہ بدلا اوراعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سن2000میں دو سال کی بلا اجرت تعطیل لے کر اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھایا مطلوبہ تعلیم کی تکمیل کے بعد2003 ءمیں دوبارہ سروس سے وابستہ ہوگئے۔

ابھی تین برس ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے جوائنٹ انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے پر پہنچ کر2006میں سروس کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔ استعفے کے بعد انہیں کافی مشکلات پیش آئیں، ان پر جرمانہ بھی عاید کیا گیا، جو انہوں نے اپنے ایک دوست سے قرض لے کر ادا کیا۔ سروس کی ٹریننگ کے دوران ہی ازدواجی زندگی میں قدم رکھ دیااور ان اپنی ہی ہم سبق ساتھی مس سنیتا سےان کی شادی ہو گئی، فیملی میں ایک بیٹااور ایک بیٹی ہے۔ ہمیشہ عام آدمی کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدو جہد کر نے والے کیجری وال نے ملک میں اطلاعات کا حق RTI قانون نافذ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نومبر 2011میں انا ہزارے کی تحریک سے وابستہ ہوکر جن لوک پال کا مسودہ تیار کرنے میں بھی ان کا اہم رول رہا ہے۔ لیکن لوک پال بل لانے کے تعلق سے مرکزی سرکارکے ڈھل مل رویےاور طفل تسلیوں سے تنگ آکر کیجری وال نے آخر کار سرگرم سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا، یہیں سے انا ہزارے اور کیجری وال کی راہیں جدا ہو گئیں لیکن منزل دونوں کی ایک ہی رہی بدعنوانی کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکنا۔ فرق صرف یہ رہا کہ انا ہزارے کا خیال تھا کہ صرف عوامی تحریک ہی سرکار پر دباو بنانے کا واحد طریقہ ہے، لہذا ہمیں سیاست کی کالی کوٹھری میں نہیں داخل ہو نا چاہیے۔ جبکہ کیجری وال اب اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک ہم قانون سازی کی طاقت حاصل نہیں کرتے ہمیں مطلوبہ تبدیلی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی۔

اس اختلاف کے بعد کیجری وال نے انا تحریک سے نومبر 2012 میں الگ ہو کر عام آدمی پارٹی تشکیل دی، اس طرح دہلی میں 26؍نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کے قیام کا ا علان ہوا اور اپنے ساتھیوں منیش سسودیا، سنجے سنگھ، گوپال رائے کماروشواس، ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے ساتھ مل کر تحریک کو نئی شکل دی۔ کیجری وال نے دہلی کو اپنی سیاسی تحریک کا مرکزاور محور بنایا اورپوری توانائی کے ساتھ میدان میں اتر گئے۔ بنیادی عوامی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے کیجری وال نے سب سے پہلے بجلی کمپنیوں کی من مانی کے خلاف مورچہ کھولا، اس تحریک میں انہیں بڑے پیمانے پرعوامی حمایت حاصل ہوئی اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

زندگی کے سفر میں چیلنجوں کو دعوت دینا ان کی کا میابی کا زینہ رہا ہے اس لیے اس سیاسی کیریر میں بھی انہوں نے چیلنجوں کو قبول کیا۔ ان کے ایک دلچسپ مگر انتہائی حیران کن فیصلے نے ہر خاص و عام کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا تھاجب2013چ میں دہلی اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی کیجری وال نے دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، بعض سیاسی مبصرین نے اسے کیجری وال کی سیاسی خود کشی والا فیصلہ قرار دیا تو بعض نے اروند کو انتہائی مغرورشخص تک کہہ دیا تھا۔ لیکن8؍دسمبر کو الیکشن نتا ئج دیکھ کر سبھی ششدررہ گئے جب، انہوں نے پندرہ برس تک دہلی کی وزیر اعلیٰ رہنے والی سینئر لیڈرشیلا د یکشت کو 25ہزار سے بھی زائدووٹوں سے شکست دے دی۔ ان کی پارٹی کو 70میں سے 28سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اور 22 سیٹوں پر ان کے امیدوار دوسری پو زیشن پر رہے۔

اور اس بار ہندوستان کی الیکشنی سیاست میں انتہائی حیرت انگیز کار نامہ انجام دیا ہے تادم تحریر دہلی کی 70 میں 51 سیٹیں اپنے نام کر چکے ہیں بقیہ 16 سیٹوں پر ان کے امیدوار آگے ہیں بی جے پی کے حسے میں صرف دو سیٹیں ملنے کا امکان ہے اور کانگریس کا مکمل صفایا ہو گیا ہے ۔

انہیں سال 2006میں ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں ریمن میگسیس ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے، انہوں نے '’سوراج‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو 2012 میں شائع ہو ئی تھی۔ کیجری وال نے بالاخر تمام تر تردد و پس وپیش کے باوجود کانگریس کی حمایت سے 2013 میں حکومت سازی کا اعلان کیا اور 28 دسمبر 2013 کو وزیر اعلیٰ بن کر کیجری وال نے دہلی کی نئی سیاسی تاریخ رقم کر دی ۔ ان کی آمد نے دہلی میں جہاں ایک طرف کانگریس کی سیاسی زمین پر جھاڑو پھیرنے کا کام کیا وہیں دوسری جانب بی جے پی کے لئے بھی اقتدار تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ پیدا کر دی۔ چنانچہ 32 سیٹوں والی بی جے پی کو 3 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے اور کانگریس کے حصے میں کچھ نہیں آسکا جسے 2008 میں 42 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ۔

کیجری وال کے سیاسی سفرکی پہلی اننگ محض 49 دن کی کامیاب عوام دوست حکمرانی کے بعد ایک عوام دوست بل لوک پال کو قانونی شکل دینے کو لیکر حزب اختلاف کی سیاسی سازش کا شکار ہوگئی اور انہوں نے دل برداشتہ ہو کر عہدے سے استعفیٰ دے دیا ، جس کا نہیں آج بھی ملال ہے اور اپنی گفتگو میں متعدد بار دہلی کی عوام سے معافی مانگ چکے ہیں ۔ اس سے قطع نظر کیجری وال کی زندگی کے سفر نامے کا اگر تجزیہ کریں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ کیجری وال کے لیے اپنی منزل تک پہنچنا ہمیشہ مشن رہا، وہ ہمیشہ اسی جذبے سے کام کرتے ہیں۔ انہیں اس کی بھی پروا نہیں کہ آج وہ جو کچھ ہیں اگر کل نہیں رہے تو کیا ہو گا۔

اب تک انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گزشتہ الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت سازی کے بعد کیجری وال نے کام کی کچھ ترجیحات طے کیے تھے جسے تین ماہ میں مکمل کرنے کی کوشش کی ۔ کیجری وال نےسرکار کے سہ ماہی ایجنڈے پر: ہرخاندان کو سات سو لیٹر مفت پانی کی فراہمی مکمل سوراج ، اہم فیصلوں کے لیے عوام کی رائے لیا جانا ، بجلی کے میٹروں کی درستی کے لیے فوری طور پر کارروائی، بجلی صارفین پر درج مقدمات واپس لینے، جل بورڈ کی از سر نو تشکیل، پینے کے پانی کی نجکاری پر روک ، گھریلو زمرے کے ناجائز بل کی معافی ، غیر مستقل ملازمین کو مستقل کیا جانا ، پبلک اسکولوں کی من مانی پر روک ، خواتین کے تحفظ کے لیے اسپیشل سکیریٹی فورس کا نظم، غیرمنظور شدہ کالونیوں کی منظوری کا عمل شروع کرنا، جھگیوں کو توڑنے پر پابندی ۔ ویٹ ضابطوں میں ترمیم ، ایک ماہ میں جن لوک پال بل کا مسودہ پاس کرنا شامل تھا ۔ جس میں کچھ پر تو فوری طور پر عمل شروع کر دیا تھا اور بقیہ پر کام جاری تھا سستی بجلی ،مفت پانی اور کرپشن میں گراوٹ کے اثرات دلی والوں کے دلوں میں آج بھی اسی طرح تازہ ہیں ۔ کیا کیجری وال اپنے اسی ایجینڈے پر اس بار بھی کام کریں گے اب یہ دیکھنا کافی دل چسپ ہو گا ،اب انہیں بے پناہ اکثریت حاصل ہے ، اب دیکھنا دل چسپ ہے کہ دہلی کی امیدوں پر وہ کس طرح کھرے اتریں گے ،وزیر اعظم نے نریندر مودی نے بھی انہیں فون پر آشرواد دیا ہے اور ان کی جیت پر نیک خواہشات کا اطہار کیا ہے ۔

رابطہ

ashrafbastavi@gmail.com
 

bilal260

محفلین
میں نے آپ کی تمام تحریر لفظ بلفظ پڑھی ہے ان کی لکھی گئی کتاب "سوراج " کیا اردو یا انگلش میں مل سکتی ہے؟
بہت شکریہ اس مضمون کے لئے مبا رک ہو۔
 
Top