ارشد خان خٹک کی شاعری برائے اصلاح

گزرا تیری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تیری گلی سے تو بہار کی طرح

لوٹا نہ پهر کبھی میں آشیانے پر اپنے
لگی تیری صدا مجھے آزار کی طرح

اسے بھی پیار ہے جس سے انمول تو ہوگا
دکھتا نہیں مگر کوئی اپنے یار کی طرح

میں بھولتا نہیں کبھی روزگار کو اپنے
تمہاری یاد کو اپنایا ہے روزگار کی طرح

مجھے تو شوق تھا وہ جن کے وصل کا خٹک
کیوں گر گیا ہے ہم پہ وہ دیوار کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اصلاح سخن کے دوسرے دھاگوں کا مطالعہ کریں۔
یہ مجروح کی زمین ہے: ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
لتا منگیشکر کی طرز میں گنگنا کر دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ صرف کچھ مصرعے بحر میں ہیں۔ مثلاً ’بہار‘ تو اس بحر میں آ ہی نہیں سکتا۔
بلکہ ٹھیک سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ صرف پہلا اور آخری مصرع وزن میں درست ہے
 
نہایت شکر گزار ہوں ابن رضا صاحب یعنی یہ شاعری بحر میں ہے. ...بہت خوشی ہوئی آپ سے ارض ہے کہ میرے اور مراسلات پر بھی نظر فرمائے. ..شکریہ
 
جناب میں آپ کے آخری مصرعے کو سمجھنے میں ناکام رہا. ...رہنمائی فرمائیں
اس کی بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ہے
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
http://www.aruuz.com/Create/Output/38336#

بہتر ہوگا کہ پہلے عروض سے متعلق کسی کتاب کا مطالعہ کریں ایک ربط حاضر ہے
http://aruuz.com/Resources/Article/14
 

ابن رضا

لائبریرین
نہایت شکر گزار ہوں ابن رضا صاحب یعنی یہ شاعری بحر میں ہے. ...بہت خوشی ہوئی آپ سے ارض ہے کہ میرے اور مراسلات پر بھی نظر فرمائے. ..شکریہ
جیسا کے اوپر استادِ محترم الف عین صاحب نے فرمایا ہے ، آپ کے دیگر مراسلے بھی نظر سے گزرے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ ہے کہ آپ کو ابھی مطالعہ کی ضرورت ہے اور مشاہدہ بھی کریں اصلاحِ سخن کے زمرے کا۔ فوری درپیش مسائل میں تجاویز یہ ہیں کہ الفاظ کا مربوط استعمال یقینی بنائیں ، تذکیرو تانیث کا خیال رکھیں بحروں کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کریں، اور بتائی گئی کتب سے مستفید ہونے کے بعد کچھ مزید لکھیں
 
آخری تدوین:
جیسا کے اوپر استادِ محترم الف عین صاحب نے فرمایا ہے ، آپ کے دیگر مراسلے بھی نظر سے گزرے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ ہے کہ آپ کو ابھی مطالعہ کی ضرورت ہے اور مشاہدہ بھی کریں اصلاحِ سخن کے زمرے کا۔ فوری درپیش مسائل میں تجاویز یہ ہیں کہ الفاظ کا مربوط استعمال یقینی بنائیں ، تذکیرو تانیث کا خیال رکھیں بحروں کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کریں، اور بتائی گئی کتب سے مستفید ہونے کے بعد کچھ مزید لکھیں

بہت شکریہ جناب ویسے میں نے خود اس کی تقطیع کی ہے آپ کی اجازت ہو تو عرض کروں اس کے مطابق یہ خفیف مسدس میں آتے ہیں

تفصیل یہ ہے
میں نے گرائے ہوئے الفاظ کی نشاندہی نہیں کی

اور صرف پہلے دو اشعار میں نے کئے ہیں
لوٹا نہ پهر کبھی میں آشیانے پر
لگی تیری صدا مجھے آزار کی طرح

بحر کا نام ہے خفیف مسدس
بحر کے ارکان
فاعلاتن مفاعلن فعلن/ فعلان
شعر کی تقطیع
لو ٹ نہ پر= فاعلاتن
ک بی م آش= مفاعلن
نے پر=فعلن
لگ ت ری صد= فاعلاتن
م جے آ زا= مفاعلن
ر ک طر ح= فعلان

گزرا تیری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تیری گلی سے تو بہار کی طرح

بحر کا نام ہے خفیف مسدس
بحر کے ارکان
فاعلاتن مفاعلن فعلان
شعر کی تقطیع

گز ر تر گل=فاعلاتن
س تو ب ما=مفاعلن
ر ک طر ح=فعلان

پل ٹ تر گل=فاعلاتن
س تو ب ہا=مفاعلن
ر ک طر ح=فعلان

اپنی رائے سے آگاہ کریں
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت شکریہ جناب ویسے میں نے خود اس کی تقطیع کی ہے آپ کی اجازت ہو تو عرض کروں اس کے مطابق یہ خفیف مسدس میں آتے ہیں

تفصیل یہ ہے
میں نے گرائے ہوئے الفاظ کی نشاندہی نہیں کی

اور صرف پہلے دو اشعار میں نے کئے ہیں
لوٹا نہ پهر کبھی میں آشیانے پر
لگی تیری صدا مجھے آزار کی طرح

بحر کا نام ہے خفیف مسدس
بحر کے ارکان
فاعلاتن مفاعلن فعلن/ فعلان
شعر کی تقطیع
لو ٹ نہ پر= فاعلاتن
ک بی م آش= مفاعلن
نے پر=فعلن
لگ ت ری صد= فاعلاتن
م جے آ زا= مفاعلن
ر ک طر ح= فعلان

گزرا تیری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تیری گلی سے تو بہار کی طرح

بحر کا نام ہے خفیف مسدس
بحر کے ارکان
فاعلاتن مفاعلن فعلان
شعر کی تقطیع

گز ر تر گل=فاعلاتن
س تو ب ما=مفاعلن
ر ک طر ح=فعلان

پل ٹ تر گل=فاعلاتن
س تو ب ہا=مفاعلن
ر ک طر ح=فعلان

اپنی رائے سے آگاہ کریں

تقطیع درست نہیں

گز رَ تے ری : فاعلاتن ہے نہ کہ گز ر تر گل=فاعلاتن
2 1 2 2 : فاعلاتن ۔۔۔۔۔۔۔۔2 1 1 1 1 1
اگر اعشاری نظام میں دیکھیں تو ہجائے کوتاہ کے لیے 1 اور ہجائے بلند کے لیے 2 کی علامت لگا کر بھی اوپر واضح کر دیا ہے

گلی میں پہلا حرف متحرک ہے اس کو گل نہیں باندھ جا سکتا پہلا 1 ہی شمار ہوگا۔ تاہم گلی کے لی کو لِ 1 یا لی 2 بھی باندھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی دیگر اغلاط ہیں۔
 
گزرا تری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تری گلی سے تو گل زار کی طرح

لوٹا نہ پهر کبھی میں ترے آشیانے پر
تیری صدا لگی مجھے آزار کی طرح

انہیں بھی جس سے عشق ہے انمول تو ہوگا
دکھتا نہیں مگر ہمیں اس یار کی طرح

میں بھولتا نہیں ترے افکار کو کبھی
فوزی ترے خیال ہے روزگار کی طرح

میرے تو جو دماغ پہ چهایا ہے اے خٹک
کیوں گر گیا ہے ہم پہ وہ دیوار کی طرح
 

الف عین

لائبریرین
اب کئی مصارع بحر میں درست ہیں۔ جو نہیں ہیں، ان کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
انہیں بھی جس سے عشق ہے انمول تو ہوگا
اور

فوزی ترے خیال ہے روزگار کی طرح
معنی و مفہوم اور روانی کی بات تو بعد میں کی جائے گی۔
 
گزرا تری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تری گلی سے تو گل زار کی طرح

لوٹا نہ جو کبھی میں ترے آشیانے پر
تیری صدا لگی مجھے آزار کی طرح

دل میں مرے بسا ہے جو وہ ایک گل بدن
ہم پہ سدا گرا ہے وہ کہسار کی طرح

میں بھولتا نہیں ترے افکار کو کبھی
صاحب ترے خیال بهی رخسار کی طرح

میرے تو جو دماغ پہ چهایا ہے ہر گھڑی
کیوں گر گیا ہے ہم پہ وہ دیوار کی طرح
 
Top