اردو ۔۔۔کل اور آج (ایک اقتباس از ابونثر)

فلک شیر

محفلین
مولانا کی زبان توکچھ زیادہ ہی معرب اور مفرس تھی۔کون سمجھتا؟ مگرآج تو ’’معرب‘‘ اور’’مفرس‘‘ جیسے الفاظ سمجھنے والا بھی اگرکوئی ملے گا تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے ملے گا۔مولانا الطاف حسین حالیؔ کے زمانے کی عربی وفارسی توکیا آج اس ملک میں اس ملک کی مروجہ زبان لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے والے بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں ایک خاص اہتمام ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ جب تک آپ اپنی ’زخمی زبان‘ کی ’’ڈریسنگ‘‘(انگریزی الفاظ سے) نہ کرلیں لوگ ہونقوں کی طرح (اپنا) مُنھ کھولے کھڑے حیرت سے (آپ کا) مُنھ تکتے رہتے ہیں کہ یہ شخص:
بک رہا ’ہے‘ جنوں میں کیا کیا کچھ
مثلاً ذرا آپ صرف چند برس پہلے تک استعمال ہونے والے الفاظ کسی سے (بغیر کسی ’’ڈریسنگ‘‘ کے) بول کر دیکھ لیجیے کہ:
’’اُس کی بیوی تپ دق کا شکار ہوگئی ہے ۔۔۔ ہمیں جوہری توانائی کی مدد سے اپنی برقی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے ۔۔۔ یا ۔۔۔ بلدیہ عظمیٰ نے نظامتِ تعلیمات پر عائد محصول معاف کردیا۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
تو آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ سمجھے کچھ بھی نہیں۔شایدایسی ہی صورتِ حال دیکھ کر مرزاغالبؔ بھی خالقِ لفظ وبیان سے فقط یہ طعن آمیز دُعامانگ کرایک کنارے ہوگئے تھے:
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
مگرہمارے ایک شاعر کے لیے تو یہ صورتِ حال دردِ شکم کاسبب بھی بن گئی۔سو اُنہیں جب کہیں سے کچھ اِفاقہ نہ ہوا تو قبرستان جاکر اپنا کلام پڑھ آئے:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہلِ قبور! ایک غزل لکھی ہے
 
Top