اردو یونی کوڈ سیٹ کے سلسلے میں کچھ سوالات

الف عین

لائبریرین
1۔ کچھ احباب یہ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمزہ استعمال کرنے کی بجائے ہمزہ ی (ئ) کیوں استعمال کی جائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیوں نہ یونی کوڈ کنزورٹیم میں اردو کے ذمہدار حضرات سے کہا جائے کہ ایسا یونی کوڈ قانون بنایا جائے کہ محض ہمزہ (0621) ٹائپ کرنے کے بعد جو کیریکٹر ٹائپ کیا جائے، ہمزہ کی وہی شکل رہے۔ کیا یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا؟
2۔ اعداد بھی یوں ہی دو جگہ ہیں۔ اربک انڈک اعداد 0660 سے 0669 اور ایکسٹینڈیڈ اربک اعداد 06 ایف 0 سے 06ایف9 تک۔ ان دونوں سیٹس کا علیحدہ سے ویسے بھی جواز سمجھ میں نہیں آتا، اگرچہ ان میں کچھ اعداد کی شکلیں بے شک مختلف ہیں لیکن کیا یہ مختلف شکلیں مختلف فانٹس سے پیدا نہیں کی جا سکتی تھیں۔ اور اگر کسی وجہ سے الگ بھی رکھے گئے ہیہں یہ دونوں سیٹس، تو پھر ان میں اردو کے اعداد کی تو صحیح شکلیں موجود نہیں۔ پھر اردو کے لئے کیوں نہ ایک تیسرا سیٹ تجویز کیا جائے۔
3۔ اور اتنے کیریکٹرس کی کیا واقعی کچھ زبانوں میں ضرورت پڑتی ہے یا محض مستقبل میں کبھی استعمال کے لئے بنا دئے گئے ہیں۔ کاف کی ہی چھہ شکلیں ہیں۔ اور میری عقلِ ناقص میں یہ نہیں گھستا کہ اوپر یا نیچے تین نقطوں والے کاف کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟ اگر یہ واقعی پشتو یا سندھی قسم کی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کے نام میں ہی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ عربی نہیں سندھی یا پشتو کا کاف ہے۔ جو حروف ہر زبان میں مشترک ہیں انھیں بے شک عربی کا نام دیا جائے لیکن دوسری زبانوں کے مخصوص حروف کو ان زبانوں کے وسیلے سے ہی نام دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہاں تک کہ پ اور ٹ کو بھی ہندی حروف کہا جا سکتا ہے۔
4۔ چلئے ان سب کو بھی قبول کر لیا جائے تو پھر عربک پریزینٹیشن فارمس۔اے اور بی کی کیا ضرورت تھی؟؟؟ ابتدائی، درمیانی شکلیں وغیرہ تو محض یونی کوڈ قوانین سے کنٹرول کی جاتی ہی ہیں، ہھر ان کے الگ سے کیریکٹرس ڈیفائن کیوں کئے گئے؟۔ بلکہ ان میں تو مرکب دو حرفی شکلیں بھی ہیں جیسے ’غم‘۔ اور تین حرفی جیسے ’غمی‘۔ یہ سب چہ معنی دارد؟
یہ سوالات تو اصل میں یونی کوڈ کے کرتا دھرتاؤں سےہیں لیکن کیا ہما شما بھی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں یا یہ باتیں ان حضرات تک پہنچا سکتے ہیں؟
 
Top