اردو کی گنگا جمنی تہذیب کا ایک نمائندہ۔۔ گوتم سروپ

الف عین

لائبریرین
کسی زمانے میں میں نے ایک نام سنا تھا گوتم سروپ کا۔ لیکن اس کے بعد کہیں اس کا ذکر نہیں ہوا۔ شاید اس کو سب بھول گئے تھے۔
لیکن روز نام ’منصف‘ حیدر آباد کے ادبی سپلی مینٹ کے مدیر و مرتب مضطر مجاز اپنے شمشاد سے کم نہیں ہیں۔ (آج کے سپلی مینٹ میں 29 مئی کو سردار جرفری کی برسی کے موقع پر ان کو یاد کیا گیا ہے۔ اور پچھلی جمعرات کے ’آئینۂ ادب‘ سپلی مینٹ میں گوتم پر ایک چوتھائی شمارہ مخصوص تھا۔ مکمل تین مضامین۔ کل ہی اس کی فائل مل گئی ہے کہ مضطر مجاز صاحب مجھے اجازت دے چکے ہیں۔ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ اگر گوتم کی کچھ شاعری بھی کہیں مل گئی تو سمت کے اگلے شمارے میں گوتم کا ایک گوشہ بھی شامل کر دوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
حیدرآباد کا مخلص سیکولر شاعر
ر
مضطر مجاز
زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اہل مذاہب نے اس کا خوب استحصال کیا ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر اہل سیاست نے اس کو مذہب سے خوب بڑھا چڑھا کے جوڑا ہے اور زبانوں کے ساتھ تو نہیں لیکن برصغیر میں اردو کے ساتھ یہی المیہ ہوا ہے۔ بابائے اردو عبدالحق نے کھلم کھلا یہ دعوائے بلا دلیل کردیا کہ پاکستان کا قیام ہی اردو کے لیے ہوا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ اس قسم کی اور بہت سی باتوں نے اردو کو ہندوستان میں اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔ لطف تو یہ ہے کہ خود برصغیر کے اس علاقے میں جو پاکستان کہلاتا ہے اردو کا کچھ خاص بھلا نہیں ہوا۔ بجز اس کے کہ کچھ معیاری ادب پیدا ہوگیا۔ اس خطہ ارض میں سیاسی استحکام بھی نہیں رہا اور جاگیرداری نظام کی اجارہ داری نے بھی انسانی قدروں کو خوب پامال کیا۔ جس کے نتیجہ میں اچھے ادب کی فصل لہلہا اٹھی۔ اس سے ہٹ کر وہاں دیکھیں تو کیفیت کا خانہ خالی نظر آتا ہے۔ آج تک وہاں اردو کو سرکاری زبان نہیں بنایا گیا۔ بات یہاں تک بگڑی کہ عصر حاضر کے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے پنجابی زبان کو پنجاب کی سرکاری زبان بنانے کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں جلسے جلوس سبھی شامل ہیں ۔ جب کہ اردو کے لیے ایسی کوئی تحریک وہاں نہیں چلائی گئی۔
ہندوستان کا معاملہ ذراسا مختلف ہے۔ تقسیم کے مابعداثرات کی وجہ سے دوچار دہوں تک اردو اور اردو والے سہمے سہمائے رہے لیکن آہستہ آہستہ جب تقسیم ہند کے ہنگاموں کی گرد چھٹی تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اردو کو علاقائی زبانوں کے ساتھ دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی ملا۔ اردو اکیڈیمیاں قائم ہوئیں اور ’’اردو‘ ایک شوخ کرن مثالِ نگہ حور رخصتِ تنویر‘‘ لے کر نمودار ہوئی۔ جس نے مشرق اور مغرب میں اجالا کیا۔ وہ اس طرح کہ جو اردو والے عرب ممالک یورپ اور امریکہ ہجرت کر گئے وہاں بھی انہوں نے اردو کی شمع روشن کی۔ اب اردو اچھی خاصی بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔
ہندوستان میں جو دراصل اردو کی جنم بھومی ہے جس نے روز اول ہی سے اپنا سیکولر کردار برقرار رکھا ہے منشی ہرگوپال تفتہؔ، راج نارائن چکبستؔ، سرورؔ جہاں آبادی سے تلوک چند محروم، من چندابانی اور جگن ناتھ آزاد تک (یہ محض چند نام ہیں ) ہزاروں ہزار اردو کے پرستار جنم لیتے رہے۔ اسی نواح میں ہمارا سودا، برہنہ پاگوتم سروپ بھی ہے۔ اردو شعر و ادب کا اس سے بڑا دیوانہ میں نے نہیں دیکھا۔ اردو کے اعلیٰ معیاری ادبی رسائل کو جلدیں بنا کر سینت سینت کر رکھنے والا شعر کے باریک ترین نکات سے آگاہی رکھنے والا، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی پیچیدہ بحثوں سے نبردآزما ہونے والا۔ افسوس کہ پچھلے سال ہمیں ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گیا۔ اور واقعی یہ ہم سب کے لیے سخت شرم ناک بات ہے کہ ہم نے اس کی کوئی قدر نہیں کی۔ وہ P.R.Ship کا آدمی ہی نہیں تھا ؂
بھوکا نہ تھا وہ شہرت نزدیک و دور کا
وہ اپنے فن کی عزت و عظمت پہ مرمٹا
بس چند شعری محفلوں میں شعر سنالیتا، نہ رسالوں وغیرہ میں اپنی شاعری چھپائی نہ کوئی مجموعہ کلام مرتب کیا۔ اب اس کے گھروالوں اور اس کے چند مخلص احباب نے اس کے خود نوشتہ و کرم خوردہ کاغذات کو جمع کرکے یہ مجموعہ ترتیب دیا۔ اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے ہی سے ایک عام قاری بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کو فن و زبان کا کتنا پاس و لحاظ تھا۔ با ایں ہمہ اس کی شاعری محض لفظی گورکھ دھندا نہیں ۔ اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ باتیں تھیں ۔ اس کے دکھی دل سے کچھ آہیں نکلیں اور ان جنات کو اس نے شعر کے شیشے میں بند کردیا۔ ورنہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ فن و زباں پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ اس کے دام فریب میں گرفتار ہو کر رہ جاتے ہیں اور شاعری کی دیوی سے بقول میرؔ ان غریبوں کو خلوتِ صحیحہ ہی نصیب نہیں ہوتی اور محض چوما چاٹی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ بڑے مرد میداں ہیں ۔
گوتم سروپ کی پہلی محبت عام فیشن کے مطابق غزل ہی سے ہے اور غزل ایک ایسی منہ زور گھوڑی ہے جو بڑی مشکل سے قابو میں آتی ہے۔ ورنہ عام طورپر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ساری عمر محض خچر سواری یا گدھا سواری پر گزرجاتی ہے لیکن اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تومانے ہوئے شہ سوار ہیں ۔ گوتم سروپ نے شعر بڑی ذمہ داری سے کہے ہیں ۔ اس لیے کلام بھی ان کامختصر ہے۔ اگر مشاعرہ بازی کے چکر میں پڑتے تو شعری مجموعوں کا ڈھیر ضرور لگا دیتے لیکن شاعری دبے پاؤں رخصت ہوجاتی اور انہیں اس کی کانوں کان خبر بھی نہ ہوپاتی۔ ان کی کیفیت باطنی وہی تھی جسے غالبؔ نے ؂
شعر خودکردہ تقاضائے کہ گردد فن ما
کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
نہ کالج کے پروفیسر رہے نہ تحتانیہ وسطانیہ کے استاد۔ شاعری ان کا اپنا کسبِ فن تھا اور مشغلہ بھی ، غالباً ان کی طبع سلیم اور ان کا کثیر مطالعہ ہی ان کا استادِ فن تھا۔
خاص بات یہ ہے کہ وہ بڑی اچھی نعتیں بھی کہتے تھے اور یہ نعتیں محض برائے بیت نہیں ہوتی تھیں ان سے ان کی پیغمبر اسلامؐ سے والہانہ عقیدت و محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ وہ بنیادی طورپر ایک مخلص انسان تھے اس لیے ان کے مصرع مصرع میں ؂
’’ہے رگِ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو‘‘
والی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کی اتنی پُر اثر نعتیں سن کر ایک ہونق الذّی نے گوتمؔ سے یہ سوال کرڈالا کہ جب آپ پیغمبرؐ اسلام سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے۔ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور جواب میں کہا کہ ’’یہی سوال جگن ناتھ آزاد سے بھی کیا گیا تھا اور انہوں نے جواب میں کسی فارسی شاعر کا یہ مصرعہ پڑھا تھا۔ میں بھی وہی آپ کی خدمت میں پیش کروں گا ؂
کافر عشقم مسلمانی مرادر کار نیست!‘‘
اور وہ صاحب ہونقوں کی طرح کاندھے اچکانے لگے کہ شاید وہ فارسی سے واقف نہ تھے۔ میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا اور اقبالؔ کا یہ شعر سنادیا کہ ؂
مجھ کو تو سکھادی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملاّ ہیں کیوں ننگ مسلمانی
خیر! بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔
گوتم سروپ نے میدان شعر و ادب کے کارزار میں لفظوں پر فتح پالی تھی۔ وہ لفظوں کا مرکب نہیں راکب بنارہا چنانچہ کہتا ہے ؂
مانا کہ بام و در تھے معانی کے خوش نما
ایوان و قصرِ لفظ مگر بے اساس تھے
دکن کی کاسموپالٹن تہذیب پر کس ناز سے کہا ہے ؂
ہے فخر کہ جامیؔ و ولیؔ کا ہوں پرستار
ہے ناز کہ پروردئہ تہذیب دکن ہوں
پھر دوسری ہی سانس میں ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی تعریف میں کہتے ہیں ؂
خورشید درخشاں مجھے ہر ذرہ وطن کا
میں مظہرِ پاکیزگی گنگ و جمن ہوں
یہ سلسلہ چل پڑے تو صفحے کے صفحے سیاہ ہوجائیں گے۔ بقول میرؔ ؂
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے!
لیکن ہم اس گفتگو کو یہیں ختم کرتے ہیں کہ قارئین کا بھی آخر کچھ حق ہے۔ ہم بیچ میں بولنے والے کون؟ ہم یہی سوچ کر دکھی ہوتے ہیں کہ ؂
گیا وہ موسم گل جس کی یاد گار تھا’’وہ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
گوتم سروپ : کچھ یادیں​
یٰسین احمد

18نومبر 2003 ء کی صبح کی اولین ساعتوں میں جب مجھے اطلاع ملی کہ گوتم سروپ کا انتقال ہوگیا تو مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یقین نہیں آیا کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔ گوتم سروپ یاروں کا یار تھا۔ محبت، خلوص مروت اور دوستی کا ایک پُل تھا جو بچھڑے دلو ں کو جوڑتا تھا۔ ہماری دوستی کئی دہوں پر محیط تھی۔ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب ، تاش کی بازی سینما بینی، ادبی محفلیں اور مشاعرے ہر جگہ ہم ساتھ ہوتے۔ گوتم سروپ کی موت کے بعد یہ ساری رونقیں ویران ہوگئیں ۔ میں نے تو وہ راستہ بھی چلنا چھوڑدیا ہے جو اس کے گھر کو جاتا تھا۔ موت نے نہ صرف ہم سے ایک اچھا دوست بلکہ اردو زبان کا ایک سچا عاشق بھی چھین لیا۔ اردو سے گوتم سروپ کو بے پناہ لگاؤ تھا۔ معیاری جریدے اور کتابیں جہاں کہیں سے مل جاتیں حاصل کرنا اور ڈوب کر مطالعہ کرنا اس کی دیوانگی تھی۔ اچھی چیزیں پڑھنے کو مل جاتیں تو لہک لہک کر اس کا ذکر کرتا اور دوسروں کو بھی مطالعہ کی ترغیب دیتا۔ اردو کی ہر صنف سے اُس کو لگاؤ تھا۔
اس نے انشائیے بھی لکھے تھے اور تنقیدی مضامین بھی اور شاعری بھی کی تھی۔ زبان پر اُس کو قدرت حاصل تھی وہ میری کہانیوں کا اولین قاری تھا۔ جب کبھی کوئی کہانی تیار ہوتی تو میں گوتم سروپ سے اس کا ذکر کرتا۔ وہ کہانی ڈوب کر پڑھتا۔ اچھی ہوتی تو فراخ دلی سے داد دیتا اور کہیں خامی نظر آجاتی تو بلا جھجک نشاندہی کرتا۔ یہی ایک سچے دوست کی پہچان ہے۔ موت نے اُس مثلت کو توڑ دیا ہے جس کے تین زاویوں کے نام تھے، رشید درانی، گوتم سروپ اور یسین احمد۔ اُس کی نثری تخلیقات جو بہت کم تھیں اب محفوظ نہیں رہیں ۔ شعری تحلیقات بھی ادھر اُدھر چیدہ چیدہ بکھری ہوئی تھیں اُس کو سمیٹ کر ’’موجِ رنگ‘‘ کا پیراہن دیا گیا جو رشید درانی اور علیم پرواز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ورنہ نثری تخلیقات کی طرح یہ شعری سرمایہ بھی وقت کے گردو غبار میں کھوجاتا۔
 

الف عین

لائبریرین
گوتم سروپ کی یاد میں
ٹھاکر لچھمن سنگھ (ایم ۔ اے عثمانیہ)، (گوتم کے برادر نسبتی)


’’دنیا بھر میں سب سے نچلا طبقہ ناخواندہ ہے جو تقریباً نوے فیصد ہے۔ اسی کے درمیان تجارتی اور سیاسی طبقات ہیں جو اپنے اپنے مفادات میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔سب سے آخری طبقہ قلم کار کا ہے جو تقریباً دس فیصد ہے، اس کا مذہب انسانیت ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ ناخواندہ طبقہ کی رہنمائی کرے۔ بکاؤ نہ ہو اور غیر انسانی فسادات اور فرقہ واریت کے خلاف اپنے قلم کا بھرپور استعمال کرے جو ایک طرح کی پیمبری ہے۔‘‘
ان خیالات کا اظہار جناب گوتمؔ سروپ نے ’’ادارہ ادب صادق‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار ’’فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف شعراء اور ادیبوں کا رول‘‘ کے عنوان پر کیا تھا۔
جناب گوتم سروپ گوتمؔ کا اصل نام ٹھاکر سروپ سنگھ تھا۔ گوتم سروپ ادبی نام انہوں نے اپنے لیے منتخب کرلیا تھا ۔ ان کے دادا کا نام کشن سنگھ تھا۔ اترپردیش کے بندیل کھنڈ کے رہنے والے تھے۔ ریاست حیدرآباد میں نواب محبوب علی خاں بہادر آصف جاہ سادس کے دور حکومت میں حیدرآباد آئے تھے۔ کشن سنگھ صاحب کے جملہ چودہ لڑکے لڑکیاں تھے۔ داروغہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سلطان شاہی میں قیام پذیر تھے اور اطراف و اکناف میں داروغہ کشن سنگھ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کس محکمہ میں انہوں نے داروغہ کی حیثیت سے ملازمت کی۔
1904ء میں موسیٰ ندی کی طغیانی نے جو تباہی مچائی تھی وہ حیدرآباد کی تاریخ کاعظیم سانحہ تھا۔ کشن سنگھ صاحب کی 12 اولادیں اس عظیم سانحہ کی نذر ہوگئیں اور صرف 2 لڑکے رہ گئے۔ ٹھاکر بلدیوسنگھ اور ٹھاکر درگا سنگھ۔ ٹھاکر بلدیو سنگھ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ٹھاکر درگا سنگھ کے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں ۔ انہیں درگا سنگھ کی چوتھی اولاد جناب گوتم سروپ گوتمؔ ہیں ۔ مذکورہ طغیانی سے اپنے خاندان کی وابستگی کا گوتمؔ نے ایک نظم میں اشارہ بھی کیا ہے۔
آکے ندی کی باڑھ گئی جب سارے درودیوار لیے
بوڑھا برگد ڈول رہا تھا جسموں کا انبار لیے
جیون میرا گہرا اس میں ہیں طوفان کئی
تن کی نیا کھیتا ہوں میں سانسوں کی پتوار لیے
ٹھاکر درگاسنگھ نے مختلف شعبوں میں جدوجہد ملازمت کی بالآخر ٹرانسپورٹ کے محکمہ میں نوکر ہوئے جو اُس وقت نظام اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ NSRT کہلاتا تھا۔ درگا سنگھ کو ملازمت کے سلسلہ میں کریم نگر آنا پڑا۔ وہ یہیں مقیم ہوگئے۔ 18/ مئی 1941ھ کو جناب گوتم سروپ کریم نگر میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن کریم نگر میں گزرا۔ ہائی اسکول تک تعلیم یہیں سے مکمل کی۔ کریم نگر میں اردو ادب کا اچھا ماحول تھا۔ آپ پر بھی مقامی ادبی حلقہ کا اثر پڑا۔ طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ موصوف نے بتایا کہ 1962ء کا سال ان کی زندگی کا اہم سال گزرا ہے۔ اسی سال سروے اینڈ لینڈ کار Survey and Land Record کے محکمہ میں سرویر Surveyer کے عہدہ پر نوکری ملی۔ ادبی دُھن سرپر سوار تھی اس لیے نوکری میں دلچسپی نہیں لی اور ملازمت چھوڑدی۔ اسی سال کئی صنفوں کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا۔ ان کے جوہر کھلنے لگے کھل کر اسٹیج پر آئے۔ بحیثیت شاعر کریم نگر کے بڑے بڑے جلسوں میں اپنی پہچان بنائی۔ 1963ء میں اقتصادی پریشانیوں اور غم روزگار نے ان کو کریم نگر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ سلطان شاہی میں اُن کا ابائی مکان تھا۔ یہیں آکر بس گئے۔ کریم نگر گاہے بہ گاہے جایا کرتے تھے۔ گوتمؔ زندگی بھر کریم نگر کو بھول نہیں پائے۔ وہ لکھتے ہیں ۔
’’کریم نگر کے حلقہ احباب کی ادبی محفلیں یاد آتی ہیں ۔ ہائے کیا دن تھے، کیا زمانہ تھا‘‘ حیدرآباد آنے کے بعد روڈ ٹرانسپورٹ میں نوکری مل گئی۔ انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور ترقی بھی ملی۔ لیکن نوکر ی ان کے ادبی مزاج کے مغائر تھی۔
20/21 جون 1963ء کے ادبی اجلاس میں گوتم سروپ نے اپنے دو دوستوں کمال کریم نگری اور رشید درانی کے ہمراہ شرکت کی تھی۔ اسی اجلاس میں ہنس راج رہبر نے اردو کے رسم الخط کو دیونا گری میں بدلنے کی تجویز رکھی تھی۔ جس کی مخالفت گوتم سروپ نے فوراً کردی تھی اور کہا تھا’’اردو کا رسم الخط تبدیل کرنا اردو کو مٹادینے کے مترادف ہوگا‘‘
جناب گوتمؔ سروپ خدا پرست تھے لیکن مذہب کے نام پردقیانوسی خیالات اور بے بنیاد رواجوں کے وہ قائل نہیں تھے۔ چنانچہ اپنے ہی خاندان کی بابت اپنی ڈائری میں لکھا ہے۔
’’میرے خاندان کے تمام افراد بہت قدامت پسند ہیں ۔ اس ایٹمی دور میں ان لوگوں کے خیالات پر ہنسی آتی ہے۔ ؂
’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہوں ‘‘
گوتمؔ مخلص انسان اور مہمان نواز شخص تھا۔ کسی رسالے سے ماخوذ دوستی کے متعلق مجھے اُس نے یہ سطور لکھوائی تھیں ’’ انسانیت نے ہزاروں برس پہلے پہاڑوں کی بلندی، جھرنوں کے ترنم، کلیوں کی معصومیت اور فرشتوں کے نور کو یکجا کرکے جس مقدس رشتے کو جنم دیا اسی کا نام دوستی ہے۔‘‘
یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ گوتمؔ نے دوستی کے مقدس رشتے کو بخوبی نبھایا۔ وہ دوستوں میں ہر دلعزیز تھا۔ اس کی ڈائری کے اوراق میں کچھ دوستوں سے ناچاقی کا تذکرہ بھی موجود ہے لیکن ان دوستوں کا ذکر بھی بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے ۔ اس سے گوتمؔ کی دیانتداری اور کردار کی بلندی کا اظہار ہوتا ہے ۔
گوتم نے جس گھرانہ میں شادی کی اس کے سارے افراد نہ صرف یہ کہ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ شعر و ادب کا اچھا ذوق بھی رکھتے ہیں چنانچہ گوتم کا رویہ ان کے ساتھ کافی پر خلوص اور ہم آہنگ تھا۔ ان کے مزاج اور ذوق کے لحاظ سے باتیں ہوتیں ۔ وہ انہیں اپنے ساتھ شعری نشستوں اور ادبی محفلوں میں لے جاتے۔
گوتم ؔاپنے دوستوں میں اور رشتہ داروں میں بے حد ہر دلعزیز رہا۔ جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تب بھی مہمانوں میں گھرا ہوا تھا۔
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
گوتمؔ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ 18!نومبر 2003ء کو گھر پر چھوٹی سی تقریب منعقد کی اور مہمانوں کو وداع کرنے کے کچھ دیر بعد ہی وہ دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ آبگینہ کوٹھیس لگ گئی۔
گوتمؔ نے زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور پرکھا ہے۔ ہر قسم کے حالات کو خندہ پیشانی سے جھیلا ہے۔اپنے کلام میں ایک جگہ لکھتا ہے۔
سیلِ غم، موجِ تبسم، بوئے گل یاخون دل
ہیں تیرے عنوان کتنے اے کتابِ زندگی
مرتبہ تیرا کہاں اور گوتمؔ خستہ کہاں
تو سراپا زندگی ہے وہ خرابِ زندگی
سرویس کے بعد گوتمؔ کا بیشتر وقت ادبی محفلوں میں گزرتا تھا۔ غزل، رباعی، قطعات اور نظم پر اُنہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ اردو رسائل اور دیگر کتابوں کا انہوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا شاعری کی ہر صنف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے ۔ کلام میں بے پناہ پختگی تھی۔ جس محفل میں اپنا کلام سناتے غیرمعمولی داد و تحسین ملتی حمد اور نعت بھی نہایت عقیدت سے سناتے۔ انسان دنیا میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے اُسے کتنی ہی دولت اور شہرت حاصل کیوں نہ ہو روحانی تسکین کے بغیر یہ سب بیکار ہیں ۔ روحانی تسکین پانے کے لیے انسان ممکنہ کوشش کرتا ہے اور پھر اُسے یہ تسکین رام میں ملے یا رحیم میں وہ یہ نہیں دیکھتا۔ اس مقام پر آکر مذہب کی تنگ خیالی کی دیواریں گرجاتی ہیں ۔ اس کی نظم میں رام کرشن اور پیغمبر محمدؐ محدود دائرہ میں نہ رہ کر عظیم انسانیت کے لامحدود دائرہ کے علمبردار بن جاتے ہیں جہاں ہر انسان اپنی روحانی تسکین حاصل کرتا ہے ۔ گوتمؔ اسی روحانی تسکین کا متلاشی تھا۔ وہ حمد و نعت تعریف و تحسین کے لیے نہیں پڑھتا تھا بلکہ اپنی روحانی تسکین کے لیے پڑھتا تھا اور نہایت ادب سے پڑھتا تھا۔ چند شعر ملاحظہ ہوں ۔
عرش بریں پہ پاس بلایا، تاجِ فضیلت سرپر رکھا
میرے خدا نے میرے نبی کو مقبول و محبوب کیا

مجھے یہ آتشِ نمرودِ دوراں کیا جلائے گی
نبی کے عشق کا دریا میرے سینے کے اندر ہے
L
شہنشاہ دو عالم کی قناعت دیکھنا گوتمؔ
چٹائی ایک سادہ سی، نہ تکیہ ہے نہ بستر ہے
گوتمؔ سروپ ’’ بزم یارانِ ادب‘‘ کے قیام کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ ادیبوں اور شعراء کو گروہ بندی سے اونچا اُٹھ کر اپنے فن کا مثبت استعمال کرنے کی ترغیب ملے۔ گوتمؔ کے چاہنے والوں کا فرض ہے کہ اس بزم کے قیام کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں ۔
////
 

سجادعلی

محفلین
واہ جی واہ لطف آگیا
ایسے لوگوں کے حوالے سے جان کر خوشی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
الف عین صاحب کا شکریہ
 
Top