اردو نثر میں ادبی تراکیب

نعیم ملک

محفلین
اُردو نثر اظہار خیالات و تاثرات قلبی کا ایک موزوں آلہ ہے۔اردو مصنفین نثر میں خوبصورتی پیدا کرنے کیلئے نئے نئے الفاظ اور تراکیب تخلیق کرتے رہے۔ اردو نثر میں بولتے کنائے، چمکتے استعارے، گوجتے اشارے، غراتی تشبیہیں اس قدر استعمال ہوئیں کہ نثر کو شعری موسیقیت عطا کر دی۔ اس دھاگہ کا مقصد ایسی ہی اقتباسات کو ایک جگہ جمع کرنا ہے۔ جہاں کہیں اسی اقتباس دیکھیں یہاں پوسٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ۔
 

نعیم ملک

محفلین
ابوالکلام آزاد کی معجزنگاریوں کا ایک پرتو دیکھیے:
"پھولوں نے زبان کھولی، پتھروں نے اٹھ اٹھ کر اشارے کیے، خاک پامال نے اڑ اڑ کر گہر افشانیاں کیں، آسمانوں کو بارہا اترنا پڑا کہ سوالوں کا جواب دیں، زمین کو کتنی ہی مرتبہ اچھلنا پڑا تاکہ فضائے آسمانی کے تارے توڑ لائے۔ فرشتوں نے بازو تھامےکہ لغزش نہ ہوجائے، سورج چراغاں لے کر آیا کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے، سب نے نقاب اتار دیئے، سارے پردے چھلنی ہو گئے۔ سب کی آبرؤوں میں اشارے تھے۔ سب آنکھوں میں حکایتیں بھری تھیں۔ سب کے ہاتھ بخشش و قبولیت کے لئے دراز تھے۔ بادل کو پکڑا تو ساز ہستی کا طنبورہ نکلا، بجلی کو پاس بلایا تو لب ہائے تبسم آشکار نکلا، ہوا کے جھونکے مٹھی میں آگئے تو بھر بھی خالی رہیں، سمندر نے اپنی ساری موجیں خرچ کر دیں مگر ہمارے ہاتھ کا پیالہ نہ بھرا۔"
کتاب: قلم کے چراغ
صفحہ نمبر 42
 

نعیم ملک

محفلین
"حکومت ایک ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔ ایشیائی معشوق کے روایتی وعدے کی طرح اسے کبھی قرار وقیام نہیں ہوا۔ فرمانروا تاریخ کے اوراق عبرت سے شاذ ہی سبق لیتے ہیں۔ سلطنت آنی جانی ہے۔ صبح زید کی۔ شام بکر کی، مسلمانوں سے اس ہزار شیوہ نازنین نے بے وفائی کی، لیکن ان کے دست شوق سے اپنا آنچل چھڑانے میں اسے کئی کئی سو برس لگ کئے۔"
مولانا ظفر علی خان
 

نعیم ملک

محفلین
"الہی تو نے محض اپنی رحمت سے مجھ ناچیز خدمت گزار کو استحکام بخشا، نہایت نازک مرحلوں میں مجھے دولت_ استقامت سے سرفراز رکھا، میں بے سروسامان تھا تو نے اپنے فضل_ لایزال سے میرے لیے ضروری سروسامان عطا کیا، میں بے یارومددگار تھا تو نے اپنی یگانہ نوازش سے اس کے لیے رفاقت کا وسیع حلقہ پیدا کر دیا. تیری رحمت ہی کی بدولت اندھیرے اجالے بنتے ہیں، ظلمتیں نور کے لباس پہنتی ہیں، تیری رحمت ہی کی بدولت مشکلات کے عقدے کھلتے ہیں، پسماندے آگے بڑھتے ہیں اور درماندوں کو دستگیری کاسہارا ملتا ہے."
آغا شورش کاشمیری
کتاب: قلم کے چراغ
صفحہ نمبر 65
 

نعیم ملک

محفلین
'' یہ غلط ہے کہ محبت کی جاتی ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔ اس کا وار اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس کی جھونک شاذ ہی کوئی سنبھال سکتا ہے۔ نگاہیں اتنی ظالم ہیں کہ زاہد خشک بھی آناً فاناً چوکڑی بھول جاتے ہیں۔ عابد دل ٹٹولنے لگتے ہیں۔ دانشوروں کی عقل شکست کھا جاتی ہے۔ فلاسفروں کا تخیل سِپر انداز ہو جاتا ہے۔ رہ گئے شاعر تو وہ گویا ان کے خانہ زاد ہیں اور ادیب حلقہ بگوش۔ بڑے بڑے سپہ سالار بھی ان کے اڑنگے پہ آکے پٹخنی کھا
جاتے ہیں۔
اپنی صفوں میں خالد بن ولید (رض) ہوں، پرائی صفوں میں نپولین بونا پارٹ..!
حسن دونوں کو ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ غالب سا شاعر، اقبال سا مفکر، شبلی سا سیرت نگار اور ابوالکلام سا عبقری یہ سب اپنی رفعتوں کے با وصف عشق کے کوچہ میں تلوے سہلاتے نظر آتے ہیں۔''
آغا شورش کاشمیری
کتاب: پس دیوار زنداں
صفحہ:114
مطبوعہ: مکتبہ چٹان، لاھور
 

نعیم ملک

محفلین
"چوالیس برس لوگوں کو قرآن سنایا،پہاڑوں کو سناتا تو عجب نہ تھا کہ ان کے سنگینوں کے دل چھوٹ جاتے،غاروں سے ہم کلام ہوتا تو جھوم اٹھتے،چٹانوں کو جھنجھوڑتا تو چلنے لگتیں،سمندروں سے مخاطب ہوتا تو ہمیشہ کے لئے طوفان بلند ہوجاتے،درختوں کو پکارتا تو وہ رونے لگتے،کنکریوں سے کہتا تو وہ لبیک کہہ اٹھتیں،صرصر سے گویا ہوتا تو وہ صبا بن جاتی،دھرتی کو سناتا تو اس میں بڑے بڑے شگاف پڑجاتے،جنگل لہرانے لگتے،صحرا سر سبز ہوجاتے،میں نے ان لوگوں کو خطاب کیا جن کی زمینیں بنجر ہوچکی ہیں، جن کے ہاں دل و دماغ کا قحط ہے،جن کے ضمیر عاجز آچکے ہیں، جو برف کی طرح ٹھنڈے ہیں، جن سے گزرجانا طرب ناک ہے،جن کے سب سے بڑے معبود کا نام طاقت ہے۔"
سید عطاء اللہ شاہ بخاری رح
کتاب: بخاری کی باتیں
صفحہ:128
 

نعیم ملک

محفلین
"کیسی قیامت کی رات، شمع کی بتی جل چکی، گلدستوں کے پتے خشک ہوئے، سیج کے پھول مرجھا کئے مگر رات کی تاریکی بدستور، دنیا تھک گئی، جہاں ساکت،گھنٹا خاموش،بلبل چپ، مگر نہ تھکی تو یہ کم بخت رات۔۔"
علامہ راشدالخیری
 

نعیم ملک

محفلین
"مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں :
یہ غریب الدیارِ عہد ، ناآشنائے عصر ، بیگانۂ خویش ، نمک پروردۂ ریش ، خرابۂ حسرت کہ موسوم بہ احمد ، مدعو بابی الکلام 1888ء مطابق ذو الحجہ 1305ھ میں ہستیِ عدم سے اس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے متہم۔

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت ، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین
پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح نوطرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے :

جب ماہتابِ عمر میرے کا بدرجہ چہاردہ سالگی کے پہنچا ، روزِ روشنِ ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شبِ یلدہ سے ہوا ، یعنی پیمانۂ عمر و زندگانی مادر و پدرِ بزرگوار حظوظِ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دستِ قضا سے دہلا۔،

کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ : جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا۔"

اقتباس : آبِ گم
مشتاق احمد یوسفی
نوٹ: یہ اقتباس فیس بک پیج مولانا ابوالکلام آزاد سے کاپی کی گئی ہے۔
 
یقینا" نعیم ملک بالکل درست فرمایا۔ اور بسا اوقات شعراء و ادباء حضرات لفظوں کی ہیرا پھیری سے بے جان اشیاء کو اس طرح حرکت میں لے آتے ہیں کہ وہ چیزیں جاندار معلوم ہونے لگتی ہیں۔
سعادت حسن منٹو کی کتاب آتش پارے کے افسانے خونی تھوک سے اقتباس ملاحظہ ہو:
خونی تھوک

گاڑی آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔
مسافروں کے گروہ کے گروہ پلیٹ فارم کے سنگین سینے کو روندتے ہوئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ پھل بیچنے والی گاڑیاں ربڑ ٹائر پہیوں پر خاموشی سے تَیر رہی تھیں۔ بجلی کے سینکڑوں قمقمے اپنی نہ جھپکنے والی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ برقی پنکھے سرد آہوں کی صورت میں اپنی ہوا پلیٹ فارم کی گدلی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ دور ریل کی پٹری کے پہلو میں ایک لیمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم کی فضا سگریٹ کے تند دھوئیں اور مسافروں کے شور میں لپٹی ہوئی تھی۔
پلیٹ فارم پر ہر ایک شخص اپنی اپنی دھن میں مست تھا۔ تین چار بنچ پر بیٹھے اپنی ہونے والی سیر کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک گھڑی کے نیچے خدا معلوم کن خیالات میں غرق زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ دور کونے میں نیا بیاہا ہوا جوڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ خاوند اپنی بیوی کو کچھ کھانے کے لیے کہہ رہا تھا۔ وہ شرما کر مسکرا دیتی تھی، پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر ایک نوجوان قلیوں کے ساتھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا، جو اسکی بہن کا تابوت اٹھائے ہوئے تھے۔ پانچ چھ فوجی گورے ہاتھ میں چھڑیاں لئے اور سیٹی بجاتے ہوئے ریفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل رہے تھے۔ بک سٹال پر چند مسافر اپنا وقت ٹالنے کی خاطر یونہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے میں مشغول تھے۔ بہت سے قلی سرخ وردیاں پہنے گاڑی کی روشنی کا امید بھری نگاہوں سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ روم کے اندر ایک صاحب انگریزی لباس زیب تن کئے سگار کا دھواں اڑا کر وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
 
Top