اردو محفل ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ایک سال کی سرگذشت

میرا ارادہ تھا کہ مختصرا اردو محفل کی ایک سالہ تاریخ لکھوں اور اس میں اہم سنگ میل اور ممبران کا تذکرہ کروں مگر لکھنے بیٹھا تو کچھ ممبران کی تفصیل میں چلا گیا اور پھر کچھ دیر ہوگئی ، پھر تاریخیں جمع کرنے میں میری ازلی سستی آڑے آگئی اور چند دن اور بیت گئے مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مضمون اور لمبا ہوگیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس جم کر لکھوں اور قسط وار لکھوں تاکہ جن ممبران نے اردو محفل میں حصہ لیا ہے ان کے بارے میں میری زبانی کچھ پتہ چل سکے سب کو۔ پرانے ممبران کے بارے میں جو اب نہیں آتے میں زیادہ نہیں لکھ سکا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں مگر اس کی بنیادی وجہ میری عدم واقفیت ہے نہ کہ ان ممبران کی خدمات میں کمی۔ اس تاریخ کو میں نے اپنی سہولت کے پیش نظر لکھا ہے ، آپ کئی جگہوں پر بیان اور واقعات میں جھول پائیں گے ، کئی جگہوں پر میں آداب کو بالائے طاق رکھ کر حد سے زیادہ بے تکلف نظر آؤں گا ، ان سب چیزوں سے صرفِ نظر کرکے اسے ہلکے پھلکے انداز میں اور مزاح سمجھ کے لیجیے گا۔ اگر کسی کی دل شکنی ہو تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں مگر اگر میں سب کا خیال رکھتا تو پھر شاید مضمون معذرت خواہانہ اور خشک ہوجاتا۔ اس مضمون کو لکھنے میں نبیل ، ماورا اور ظفری کا میں خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن سے مجھے اہم معلومات ملیں۔

تبصروں کے لیے میں نے ایک اور دھاگہ کھولا ہےیہاں پر
 
محفل کا آغاز
آج سے ایک سال پہلے چند سر پھروں کے سر میں یہ سودا سمایا کہ رومن اردو میں تو بہت سے فورمز ہیں کیوں نہ ایک تحریری اردو پر مشتمل فورم بھی بنا لیا جائے۔ بات اردو بلاگ سے شروع ہوئی اور بڑھتے بڑھتے اردو محفل پر ختم ہوئی۔ قدیر رانا نے پہلا قطرہ بنتے ہوئے phbb فائلز کا اردو ترجمہ شروع کرد یا ، زکریا نے اردو ویب کی ڈومین رجسٹر کردی جسے لے کر نبیل نے ایک یونیکوڈ فورم سیٹ کر دیا۔ محفل کا قیام تو عمل میں آگیا مگر اس پر بانیوں کے سوا اور کون کیسے لکھے گا اردو ، یہ مسئلہ دامن گیر ہوا جس کا حل اردو پیڈ کی شکل میں نبیل نے لکھ کر یونیکوڈ محفل میں شامل کردیا اور اب اس پر اردو لکھنا اتنا ہی سہل ہو گیا جتنا باتیں بنانا ( میری طرح )۔ شروع شروع میں نبیل کا خیال تھا کہ فورم سیٹ ہوگیا ہے اب اسے دوستوں کے حوالے کرکے وہ اپنے کام دھندے سے لگ جائے گا مگر کیا معلوم تھا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔ ابھی تو عشاقِ اردو کی آمد شروع ہونی ہے اور پھر جو محفل سجنی ہے وہ کسی کے چھڑائے نہیں چھٹتی۔
(زکریا ، نبیل ، آصف (زکریا اور نبیل سے کم مگر جانتے ہیں ) سے ہم اتنے واقف ہیں کہ ان کا ذکر ایک علیحدہ پوسٹ کا متقاضی ہے فی الحال مختصرا لکھوں گا )
 
نبیل
نبیل فورم سیٹ کرکے شاید تھکن سے اتنا چور چور ہوگیا تھا کہ ایک دن آرام کرکے پہلی جولائی کو فورم میں شمولیت اختیار کی ( نبیل ذرا بتائیں کہ ٣٠ جون کو ہی کیوں نہ شمولیت اختیار کر لی بھلا ، فورم اور نبیل کی سالگرہ اکھٹے منا لیتے ؛)۔ فورم سیٹ کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی دوستوں کو تھما کر مگر دوست بھی یوسف کے بھائی تھے وہ نبیل سے بھی پہلے کھسک لیے اور جو رہ گئے انہوں نے نبیل کے گلے میں ہار ڈال کر اسے مسند صدارت پر فائز کردیا ، ظل الہی ، عالم پناہ اردو محفل کے القاب سے ایسا بہلایا کہ نبیل نے تا حیات محفل کی صدارت اور نظامت کا فیصلہ کرلیا جسے بخوشی سب نے قبول کرکے نبیل کی عمر بھر کی ریاضت پر مہر لگادی۔ نبیل کا دل ظل الہی اردو ویب ، عالم پناہ اردو محفل کے القاب سے ایسا خوش ہوا کہ انہیں سننے کے لیے روز ہی دربار (محفل جما) سجا کر بیٹھ جاتا اور رعایا کا انتظار کرتا کہ وہ آئے تو اسے اپنے کارہائے نمایاں بتائے اور ان کے مسائل حل کرے ، وزیر خاص کے طور پر زکریا کو بھی رکھ لیا تاکہ مملکت اردو محفل کے کام بخوبی چلتے رہیں۔ منہاجین ، سیفی ، قدیر ، آصف کو اعلی عہدیں دے کر اپنی تاحیات بادشاہت کے خواب بھی سجا لیے۔ اب کیا تھا لگی محفل سجنے اور نبیل کا اقبال بلند ہونے لگا ، ہر آنے والا اردو کی اس محفل کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا اور اسے نبیل کا اردو کے لیے ایک تحفہ قرار دیتا ، ساتھ میں نبیل کو مبارکبادیں اور زیادہ جوش میں ہوتا تو القاب سے نواز جاتا۔ نبیل یہ سن سن کر اور کام کرنے کی طرف راغب ہوتا اور اپنے مشیروں اور اعلی عہدیداروں سے مشاورت کرتا اور سب کو کام پر لگا کر خود بھی کام پر لگ جاتا۔ شروع شروع میں اس طرح گھل مل جاتا کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ نبیل رعایا( ممبران ) میں سے ہے یا شاہوں میں سے ۔ سب کے مسائل توجہ سے سنتا اور ان کو حل کبھی خود اور کبھی وزیر خاص زکریا سے کرنے کے لیے کہہ دیتا۔ ہنسی مذاق اور گپ شپ بھی برابر کرتا اور تو اور مل کر کہانیاں بھی لکھتا اور فرضی کردار بنا کر خوب داستانیں گھڑتا۔ ہر نئے آنے والے کو شرفِ ملاقات اور اذنِ سخن بخشتا اور اپنے پاس بٹھاتا مگر جیسے جیسے اردو محفل کی رعایا میں اضافہ اور منصوبوں کو قبولیت ملتی گئی ، نبیل دور ہوتا گیا اور مصروف ہوتا گیا۔ اب نئے آنے والا کام کا بندہ ہوتا تو خود استقبال کرتا نہیں تو(بیچارے ) محب کو آگے کردیتا ( بدنام ہوتا تو محب نیک نامی آتی تو نبیل کے حصہ میں )۔اب بندہ کام کا ہو تو اس پر نظر کرم نہیں تو تغافل کو شعار کرتا ہے ۔ ایک منفرد ممبر کے بقول جب سے نبیل کو احساس ہوا ہے کہ اس کی شہنشاہیت اب ہزار سالہ جشن منائے گی تب سے اس نے رعایا پر شفقت و کرم کی روش ترک کردی ہے ( گھل مل کر باتیں کرنا تو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے اور اب دور دور رہنے لگا ہے)۔ نبیل کے برخلاف وزیر خاص زکریا نے نبیل کی عادت کو اپنا لیا ہے اور سب کے مسائل حل کرنا اور گھل مل کر باتیں کرنا سیکھ لیا ہے اور انداز و اطوار ہی بدل لیے ہیں شاید اس لیے بھی نبیل مطمئن ہے ( بہرحال کچھ لوگ اس سے سخت ناراض ہیں )۔ ایک منفرد ممبر کے بقول اب بندوں کو ڈرانے لگا ہے اور ایسی باتیں کرتاہے کہ بندہ خود دور بھاگ جاتا ہے اور بس کام کا بندہ مل جائے تو اس کی مدد کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ، اسی منفرد ممبر کا کہنا ہے کہ مجھ سے ڈرنا کا لکھا ہوتا ہے جبکہ وہ خود اتنا ڈرتی ہے کہ بھولے سے بھی اس کا نام نہیں لیتی ویسے اچھا بھی ہے جن کی مدد کرتا ہے وہ سب اس کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ( یہی تو نبیل چاہتا بھی ہے ؛) ) ، الغرض منفرد ممبر کا تو بس نہیں چل رہا ورنہ نبیل کو بے نقط سنائے ( نبیل آپ پلیز ذرا اس طرف دھیان دیں آپ کی شہنشاہیت کو سخت خطرہ لاحق ہوسکتا ہے )۔ بحثیں بالخصوص سیاسی اور مذہنی بحثیں نبیل کو بہت مرغوب ہیں اور ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے بقول منفرد ممبر ان میں بہت تیز ہے سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے جب کوئی آگے نکلنے کی کوشش کرے تو اس کو محفل کے اصولوں کے خلاف قرار دے دیتا ہے ( واہ رے نبیل سب ڈھنگ حکومت کے آتے ہیں تمہیں ) اور بحث کو ہی مقفل کردیتا ہے۔ دو دفعہ نقص امن کا بہانہ بنا کر الیکشن کالعدم کروانے کا سہرا بھی نبیل ہی کے سر ہے امیدوار یقین دہانیاں کرواتے رہ گئے مگر جابر شہنشاہ کا سنگ دل موم نہ ہوا ، تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جمہوریت سے شہنشاہیت کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے ( نبیل بہترین جگہ ہے گلے شکوؤں کی ، گن گن کر بدلے لوں گا ) ۔ اکثر مقامیانے اور اردو پراجیکٹس کے زمروں میں پائے جاتے ہیں پہلے کبھی کبھی گپ شپ کے زمرے میں بھی آنا جانا تھا اب عرصہ سے بند ہے۔ اگر کہیں نہ ملیں تو شکایات کے زمرے یا کام کے بندوں سے تکنیکی گفتگو کرتے ڈھونڈ سکتے ہیں آپ۔
نبیل کے کارہائے نمایاں پر ایک مفصل مضمون درکار ہے جس کی ابھی مجھ میں ہمت نہیں ہے اس لیے فی الحال اسی سے گزارہ کریں آئیندہ کبھی لکھوں گا اس پر۔
 
قدیر

رانا قدیر نے ٣ جولائی کو شمولیت اختیار کی ، انہیں شاید نبیل نے روکا ہوا تھا کہ میں نے ایک دن آرام کیا ہے تم تین دن آرام کرنا ۔
اہم ترین کارہائے نمایاں phpbb کی فائلوں کا ترجمہ ہے اور محفل کو آغاز میں رونق بخشنا
 
زکریا

زکریا یقینا ویب ہوسٹنگ اور ڈومین نیم رجسٹر کرانے میں زندگی بھر کے مزے چکھ رہے تھے جو ١٠ دن بعد ١٠ جولائی کو شمولیت اختیار کی۔ مسائل حل کرنے میں زکریا کو ید طولی حاصل ہے شروع میں بغیر ٹکٹوں کے مسائل حل کردیتے تھے پھر کسی خیر خواہ نے ٹکٹ کھولنے کا مشورہ دیا وہ دن اور آج کا دن ،لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ٹکٹیں کھول کر کاروبار محفل چلاتے ہیں اور لطف یہ کہ مسائل حل بھی کر دیتے ہیں اب پتہ نہیں جادو زکریا کے ہاتھ میں ہے یا ٹکٹ چیکر کے پاس ۔ ٹکٹیں کھول کر مسائل حل کرنا اتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اپنی کاؤ بوائے ہیٹ اور پستول صندوق میں رکھ کر اب نرم انداز میں “بیبے“ بچے بن کر رہ گئے ہیں ، ثبوت کے طور پر تازہ لشکتی ہوئی تصویر ملاحظہ فرمائیں۔ ( جانے اتنی ٹکٹوں کا کرتے کیا ہیں ، کہیں اندر کھاتے کوئی کاروبار تو نہیں شروع کررکھا ٹکٹوں کا ) ۔ بندے کی غلطی اس انداز میں پکڑتے ہیں کہ بندہ شرمندہ اور غلطی پکڑی جاتی ہے ، بندے کو شرمندہ پاکر ٹکٹ لگا کر غلطی سمیت بندہ اندر کردیتے ہیں۔ اردو بولتے ہیں مگر بیچ بیچ میں انگریزی کا تڑکا لگا کر اور پاکستانیوں سے ذرا دور دور رہنے کی کوشش میں ہوتے ہیں ( امریکی جو ہوئے )۔ بندے مارنے کے شوق کے علاوہ کھانے بنانے کا بھی شوق ہے اور گاہے بگاہے کچن میں خواتین کو بھی مات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لڑائی لڑنے کا شوق تو ہے مگر کوئی لڑنے کو تیار نہیں ہوتا ( باقی بندوں کو اپنی جان پیاری ہے کہ کاؤ بوائے کے سامنے کون کھڑا ہو لڑنے کے لیے، ایک فائر اور بندہ ختم )، غصہ میں بہت اچھے لگتے ہیں پیار میں کبھی دیکھا نہیں۔ مباحثوں میں اگر کوئی شخص ڈھیر ساری کتابوں اور لنکس کا حوال دے اور ساتھ ساتھ مقابل کے خیالات کے حساب سے اپنا حساب لگا کر اس کا فرقہ ، گروہ بھی بتاتا جارہا ہو تو سمجھ لیجیے کہ زکریا ہی ہے۔ نبیل کی طرح سیاسی اور مذہبی بحثوں سے خاص شغف ہے اور اپنے جارہانہ انداز سے جانے پہچانے جاتے ہیں، پوسٹس ڈیلیٹ کرنے میں مہارتِ تامہ حاصل ہے مگر کام کرکے بتانا نہیں بھولتے ( یعنی دل جلا کر بتا دیتے ہیں کہ میں ہی ہوں وہ آگ جس سے جل کر دل راکھ ہوگیا تمہارا )۔ کافی عرصہ (جب سے تصویر بدلی ہے ) سے نرم مزاجی اور حلیم کو اختیار کیا ہوا ہے اور سب سے مل جل کر ، گھل مل کر رہتے ہیں ( نبیل کی مصروفیت کا فائدہ اٹھایا ہے یا انتظامیہ کی طرف سے کسی ایک کا ممبران سے گھلے ملے رہنے کے گر کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے ) ۔ موڈ میں ہوں تو خود کو محفل کا جادوگر بھی کہتے ہیں (خدا جانے کس پر جادو منتر پڑھ کر سحر کرتے رہتے ہیں ) اگر اور کہیں نہ ملیں تو ٹکٹ گھر میں ڈھونڈیں۔ بقول منفرد ممبر زکریا بہت اچھے ہیں ( ویسے زکریا کے اپنے الفاظ میں منفرد ممبر بہت جلدی مکر جاتی ہیں ، اس لیے اس بیان کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا جائے )۔
 
شعیب صفدر

١١ جولائی کو شعیب صفدر بھی آگئے ۔ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں مگر وکالت سے ہٹ کر شگوفے بکھیرنے لگے ، کافی دیر تک محفل میں شرکت جاری رکھی اب کچھ عرصہ سے لاپتہ ہیں ، امید ہے جلدی ہی واپسی ہوگی۔ شعیب صفدر کی باتیں بقول ان کے بے طقی باتیں ہیں اور بے طقے کام ، وضاحت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بے تکی نہیں مگر اب یہ کون مانے گا کہ بے تکی نہیں بے طقی ہیں مولانا محمد حسین آزاد ہوتے تو سمجھ بھی لیتے ہم کور علم تو بے تکی ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ منفرد رکن کے بقول کرتا تو بے تکے کام ہی ہے مگر کہتا ہے کہ بے تکے نہیں اب شعیب کے کہے پر ایمان کون لائے۔ کبھی کبھی آنے والے کون والے دھاگے پر پائے جاتے ہیں تو کبھی تہنیتی پیغام پر بھی دکھائی دیں گے۔ کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کو محبت پر اشعار بھی لکھتے ہیں اب جانے یہ ذاتی تجربہ ہیں کہ مشاہدے ۔ باتیں بہت کرتے ہیں شاید پیشہ کا تقاضہ بھی ہے اور بچپن کی بگڑی عادت بھی۔ منفرد رکن کا کہنا ہے کہ ہیں سیانے دماغ ہی نہیں دل سے بھی سوچ کا کام لیتے ہیں ( شاید وکالت نے عادت بگاڑ دی ہے ) ۔ خدا کا بہت خوف کرتے ہیں اس لیے محفل پر کم کم آتے ہیں ۔ بچپن میں ایک دفعہ ویڈیو گیم کی دوکان پر سیگریٹ پینے پر جو پکڑے گئے تو اب تک ڈرے ہوئے ہیں اور سیگریٹ دیکھتے ہیں تو ماضی عذاب لگنے لگتا ہے ، والد صاحب سے ملاقات بعد از سیگریٹ نوشی میں راویوں کے درمیان شدید اختلاف ہے اور اس پر ستم یہ کہ کوئی بھی راوی ثقہ نہیں اس لیے کوئی واضح حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ نتیجہ کیا نکلا تھا۔ کاش حقائق کے مستند ہونے کی سند ہاتھ آ جاتی تو سیگریٹ نوشی چھڑوانے کا مجرب نسخہ ہاتھ لگ جاتا۔
جملی معترضہ ؛ بندہ ایک وقت میں ایک تفریح کرتا ہے یہ دو دو کے چکر میں تھے ، پکڑے تو جانا ہی تھا۔

آجکل غمِ روزگار میں زیادہ مصروف ہیں غم جاناں ترک کیے ایک عمر ہوئی ، قیاس غالب ہے کہ عدالت کے کٹہروں کے آس پاس پائے جاتے ہوں گے۔وکیلوں سے مجھے یاد آیا کہ سنا ہے شیطان اور وکیل کا سچ سے چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں سچ ہو وہاں پہنچ کر جھوٹ ثابت کردیتے ہیں جہاں جھوٹ ہو اسے سچ بنا دیتے ہیں اس طرح جھوٹی سچی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ شیطان دیر تک اس ظالم دنیا میں تنہا اداس گھومتا رہا مگر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جس دن پہلا وکیل پیدا ہوا ، شاعرانہ رگ پھڑکی اور فی البدیہہ یہ شعر موزوں کردیا ۔

پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہوگئے

میں اب کھسک لوں ورنہ شعیب مجھے ساری عمر پیشیاں بھگتنے میں ہی گھسا دے گا۔
 
عبدالستار منہاجین

14 جولائی کو عبدالستار منہاجین کی آمد ہوئی اور فورم میں اردو لکھنے پڑھنے کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک ایسا شاہکار ٹیوٹوریل لکھا ہے جو معیار بن گیا ، اردو کی لاتعداد ویب سائٹس پر وہی ٹیوٹوریل ہو بہو پڑا ہوا ہے اور منہاجین کی عمدہ کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کئی دلچسپ خطوط اردو کے الفاظ پر منہاجین کی شرارتوں کا مظہر ہیں۔ اس کے بعد منہاجین چند اور مصروفیات کی وجہ سے آنا کم ہوگئے ۔ اب پھر سے سرگرم ہوئے ہیں، آجکل یونیوکوڈ چوپالوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں اور ان کاتجزیہ کرنے میں مصروف ہیں اور نتائج نہ صرف خود نکال رہے ہیں بلکہ فضائل یونیکوڈ نامی ایک کتا بچہ بنا کر سب کو بھی اس کی تبلیغ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منفرد رکن کا کہنا ہے کہ منہاجین ہمیشہ خفیہ آتا ہے (جانے کس کا ڈر رہتا ہے ، نبیل نے تو اب عرصہ سے جھڑپنا اور ڈانٹنا بھی چھوڑ دیا ہے ) اور ساتھ میں چند مضمون ، خطوط اور تجزیہ ضرور لاتا ہے جس میں کچھ خاص بھی ہوتا ہے۔ سوال گندم جواب چنا نامی دھاگہ چونکہ طبیعت سے میل کھاتا ہے اس لیے اس پر بڑے شوق سے پوسٹنگ کرتے ہیں۔قدیر احمد اگر ملتان کی سیریں شیریں کر رہے ہوں تو یہ اسے فرہاد والی “شیریں“ اور “سیرین“ سمجھتے ہیں اور پریشان ہو کر پوچھتے ہیں کہ شیریں کے فرہاد آپ ہی ہیں یا کوئی اور لے اڑا شیریں کو ، اسی پر بس نہیں بلکہ زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خط کا جواب جلد دینا تشویش ہورہی ہے کہ شیریں کا کیا بنا آخر ( شاید کسی شیریں نے داغِ مفارقت دے دیا تھا ماضی میں اور اس وجہ ہر شیریں کے لیے بے پناہ ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں دل میں)۔ خود تو بھاگنے میں آگے آگے ہیں ہی دوسروں کو بھی نو دو گیارہ ہونے اور سر پر پیر رکھ کر بھاگنے کے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ پسندیدہ اشعار پر بھی کبھی کبھی دوسروں کو داد دیتے ہیں ، عینک اور آنکھوں کی روشنی کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں ثبوت کے طور پر یہ شعر پیش کرتےہیں

اُس کے جاتے ہی میری آنکھوں کی دنیا ہوئی سیاہ
جاتے جاتے وہ میری اِکلوتی عینک لے گیا

عقل کے بارے میں جاننے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ اصل میں یہ ہے کیا چیز ، ویسے جاننے کی کوشش ظاہری ہے حقیقی نہیں ، کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ مبادا فسلفی ہی نہ بن جائیں اور لوگ خشک اور غائب دماغ سمجھ کر پرے پرے نہ ہو جائیں۔ مرغی اور انڈے کی پیدائش والا معاملے کو عرصہ ہوا حل کر چکے ہیں۔ اپنا تجزیہ شیریں کی کزن “سیریں“ کے چھوٹے بھائی “سین“ پر ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرغی اور انڈے سے پہلے مرغا پیدا ہوا تھا، جس کی بغل سے دنیا کی پہلی مرغی نکلی اور اس نے پہلا انڈہ دیا۔
اردو کے بارے میں بہت پرامید رہتے ہیں اور اس کی ہمہ سمتی وصف کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اردو سیدھی طرف سے شروع ہو یا الٹی طرف سے وہ اردو ہی ہوتی ہے۔ محفل پر جب کبھی جمود طاری ہو تو فتوی صادر کر دیتے ہیں کہ اس کا سبب میرے مشوروں پر عمل نہ ہونا ہے۔ کوہ قاف بھی جائیں تو ان پر اقتصادی پابندیاں لگ جاتی ہیں ، سمجھ نہیں آتا کہ یہ کوہ قاف جاتے ہیں یا کوہ مالیات سے ہو کر آجاتے ہیں ، کوہ قاف کا حال لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب وہاں پریاں اور دیو نہیں بستے انسانوں کے خوف سے وہ بیسویں صدی کے نصف اول میں کہیں اور کوچ کر گئے تھے جس کا پتہ تاحال منہاجین نہیں لگا سکے۔ شعیب صفدر کا خیال ہے کہ منہاجین کوہ قاف کی بجائے کوہ الف سے ہو کر آگئے ورنہ یہ محال تھا کہ کوئی پری نہ ملتی ، مزید انکشافات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ منہاجین نے کسی پری کو دیکھ کر گلی کے لڑکوں والی حرکت کی ہو جس کی وجہ سے ان پر اقتصادی پابندیاں لگ گئی ہیں ( اور بھی جانے کون کون سی پابندیاں ہیں ڈھال کے طور پر اقتصادی پابندیوں کا ہی ذکر کیا ہے ) ۔ شعیب اور قدیر کی ہرزہ سرائی پر منہاجین خاصے چراغ پا ہوئے اور یوں گویا ہوئے

“لگتا ہے کہ شرافت راس نہیں آئے گی۔
جنابِ محترم پچھلی صدی کے نصف اول میں ہونے والی ایٹم ریز جنگِ عظیم نے صرف اِنسانوں ہی نہیں کوہِ قاف کے باسیوں کو بھی لرزا کے رکھ دیا تھا۔ اُنہوں نے کسی اور سیارے کا رُخ کر لینے ہی میں عافیت جانی۔اگر اَب بھی کوئی اِشکال باقی ہے تو مجھ سے اُلٹے سیدھے سوال پوچھنے کی بجائے ہمت کر کے ذرا کوہِ قاف سے ہو آؤ، عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ “


اس سے آپ کو منہاجین کی دو دو ہاتھ کرنے والی شوقین فطرت کا کچھ اندازہ تو ہوگیا ہوگا۔ مزید بتاتا چلوں کہ کوئی جھڑپ کا موقع مہیا کردے تو اس کا باقاعدہ شکریہ ادا کرتے ہیں اور باقیوں کو خبردار کہ کوئی اب چھڑانے نہ آئے ۔ بچے کا نام رکھنے کا حق صرف ماں باپ کو دیتے ہیں ، اسی سے ایجادات کے نام دینے کی بھی مثال نکالتے ہیں اور کیا خوب نکالتے ہیں البتہ پیار اور طنزیہ ناموں کا حق دوسروں کو بھی کمال سخاوت سے دے دیتے ہیں۔ چوپال کا لفظ بہت پسند ہے اور فورم کے لیے اردو متبادل اسی کو سمجھتے ہیں بلکہ اپنی اور سب کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ عربی، فارسی اور ہندی کے وہ الفاظ جو اردو زبان کی اصل ہیں ان سے خوفزدہ ہونے سے روکتے ہیں اور اس خوف کے روکنے کو اردو کی بہترین خدمت بھی گردانتے ہیں ، اگر کوئی اس سے اختلاف کرے تو فتوی بھی لگا دیتےہیں ، فتوی کے الفاظ من و عن درج کر رہا ہوں تاکہ میں اپنے الفاظ شامل کر کے کسی گستاخی کا مرتکب ہو کر واصل جہنم نہ ہوجاؤں۔


پھر چھوڑ دیجئے اردو کی خدمت کا خیال اور بہنے دیجئے اس ناؤ کو تھپیڑوں کے سنگ۔ طوفانِ بدتمیزی اسے جدھر چاہے لئے جائے۔
اگر قوم کو آپ کی طرف سے اردو کی خدمت میں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے تو اسے مت بجھائیے۔ یاد رکھیں آپ اس ویب کی صورت میں "میڈیا" ہیں اور قوم کی رہنمائی کا فریضہ حکمرانوں کے بعد سب سے زیادہ "میڈیا" پر لاگو ہوتا ہے۔ آپ قوم کو رستہ دکھانے والے اور اجتماعی قومی شعور کی رہنمائی کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر آپ بھی "مغرب زدہ اردو" کے نمائندہ قرار پا گئے تو اردو کا اللہ ہی حافظ۔ احساسِ کمتری اور معذرت خواہانہ رویئے سے نکلے بغیر اردو کی خدمت، چہ معنیٰ دارد؟“


فورم پرگوشہ خواتین میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس میں باتیں ایسی ہونی چاہیے جو مردوں کے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہوں( گوشہ خواتین کے بجائے اس کا نام گوشہ خواتین برائے مرداں کاہے نہیں تجویز کردیا)۔ علم میں اضافہ کا تو سب ہی رسما شکریہ ادا کرتے ہیں مگر یہ ایسے منکسر المزاج اور بامروت ہیں کہ جہالت میں اضافہ پر بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تحقیق کے بڑے دلدادہ ہیں ،ذرا php پر ان کی تحقیق ملاحظہ ہو

“بھلے زمانے کی بات ہے جب ایک پنڈت انگل لینڈ تشریف لے گئے۔ سیر سپاٹے کو نکلے تو رنگ برنگی پہاڑیاں دیکھ کر حیران ہوئے اور لگے ہنومان کی طرح ایک سے دوسری اور پھر تیسری پہاڑی پر چھلانگیں لگانے۔ ایسے میں جب وہ ایک ہری پہاڑی سے گرے تو سیدھے ایک کھجور میں جا اٹکے۔
ایک انگریز نے دیکھا تو بولا: php (پنڈت ہری پہاڑی)
بعض لوگوں نے انگل لینڈ کے انگریز والی بات سے اختلاف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انگریز نے php اس لئے کہا تھا کہ پنڈت جی کا نام "پنڈت ہرگوپال پانڈو" تھا۔ “


اگر کوئی شخص لفظوں پر الٹے سیدھے تجربہ کررہا ہو یا لفظوں پر تحقیق کرکے وہ معنی نکال رہا ہو جو آپ کے وہم و گمان تو کیا لا شعور و تحت الشعور سے بھی پرے کسی دنیا میں بستے ہوں تو سمجھ لیں کہ منہاجین ہے۔
 
محفل کے عہد طفولیت میں جب وہ پنگوڑھے میں جھول رہی تھی اور نبیل ، زکریا، ، قدیر، منہاجین جھولے جھلا رہے تھے اسے یاہو کمپیوٹنگ گروپ کے عبقریوں ( اعجاز اختر ، جیسبادی ، شارق ) نے آکر ٹھوس غذا پر لگادیا اور اس کے حلق سے فونٹس ، phpbb ، صوتی کی بورڈ ، مقامیانے کی بھاری بھرکم اور تکنیکی مصالحوں سے بنی مرغم غذا اتارنے لگے جو اردو محفل کو اتنی پسند آئی کہ وہ اسی پر لگ گئی اور آج بھی یہ اس کی پسندیدہ غذا ہے گو اب اردو لائبریری اور وکی زیادہ شوق سے نوش کرتی ہے۔
 
شارق مستقیم

شارق نے یار لوگوں کی بوریت دور کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ بوریت ہی کے نام سے بنا رکھی ہے ، دنیا بھر سے بور خبریں جمع کرکے ان کی بوریت نکالتا رہتا ہے اور دن کے اختتام پر ساری بوریت ایک تھیلے میں بھر کر کراچی کے سمندر میں بہا آتا ہے تاکہ آلودگی کے ساتھ ساتھ کچھ بوریت بھی شامل ہو جائے پانی میں شاید اسی سے کراچی کے سمندر کی خالص آلودگی کچھ کم ہو جائے۔ کہانی لکھنے اور بنانے کا شروع سے شوق ہے ، اردو محفل پر بھی کہانی لکھنے کی بنیاد ڈالنے میں بڑا ہاتھ ہے مگر کہانی کا آغاز کرکے پلاٹ دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے اور مڑ کر نہیں دیکھتا کہ کہانی نت نئے موڑ لیتی کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے ( پلاٹوں سے اس عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ ساری قابلیت ہونے کے باوجود ایک پلاٹ نہیں اپنے نام کروا سکا جبکہ لوگوں نے پلاٹ جمع کرکے پلازے بھی کھڑے کر لیے )۔ بچپن میں بچوں کی کہانیاں شوق سے پڑھا کرتا تھا اب سنا ہے بڑے ہونے کی وجہ سے یہ شوق پورا کرنے سے قاصر ہے ، کسی بچے کو بچوں کی کہانیاں پڑھتے دیکھے تو ایسی حسرت سے دیکھتا ہے کہ بچہ کہانی چھوڑ کر شارق کو دیکھنے لگتا ہے ۔ بچوں کے لیے کام کرنے پر بہت زور دیتا ہے ، اعلی منصوبے اور تجزیے مفت میں کردیتا ہے مگر کام نہیں کرتا ( اللہ کام کرنے والے بندے کہاں ہوتے ہیں سارے میری طرح باتیں اور منصوبے ہی بناتے ہیں )۔

محنت کرکے آدھے بال اڑ گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ سارے سفید ہوگئے ہیں ، اوتار دیکھ کر لگتا ہے کہ اردو کا مستقبل سوچ سوچ کر شاید آخری وقت آن پہنچا ہے۔ کبھی کبھی فلسفیانہ موضوعات میں حصہ لیتے ہیں مگر اگر کسی مرض کی تشخیص کے ساتھ دوا نہ بتائی جائے تو بڑی گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں جیسے مرض انہیں ہی لاحق ہونے آرہا ہے اور بغیر دوا کے جانے مرض ان کا کیا حال کرےگا۔ بچپن میں شاید آئن سٹائین کہہ کر کسی نے چھیڑ دیا تھا ، وہ دن ہے اور آج کا دن آئین سٹائین کو نہیں بھولے اور نہ کسی اور کو بھولنے دیا ، ثبوت کے طور اس کی بچوں کو ڈرانے والی تصویر اوتار میں لگا رکھی ہے ۔ ٹکسالی اردو کا لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا بلا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی قزاقی اور چوری کا فرق معلوم کرنا چاہتے ہیں شاید اپنے آسان اردو کے قاعدوں میں لکھنا ہے۔ خدائے سخن میر کی زمینوں پر بھی کبھی کبھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ میر کیا اپنے پیچھے زمینیں چھوڑ کر گیا تھا میں نے تو پڑھا تھا کہ وہ بہت عسرت میں اس جہانِ ناشناس سے گیا۔ میر کے شعروں میں کبھو کبھو کا استعمال ہورہا ہو تو انہیں لگتا ہے جیسے کہیں دھماکے ہورہے ہوں۔


عام آدمی کے فائدے کی بات ڈرے ڈرتے کرتے ہیں مبادا کوئی ضروری سمجھ کر فائدہ کر ہی نہ دے ۔ کبھی کبھی کسی کا انداز تحریر یا نوٹ کرکے اپنا تجزیہ بتاتے ہیں کہ کسی سے کچھ کچھ انداز ملتا ہے ساتھ میں باقاعدگی سے لکھنے کی صلاح بھی دیتے ہیں۔ فانٹس کے معاملے میں ان کا رویہ معذرت خواہانہ ہی دیکھا گیا ہے ،نقش فانٹ کی گڑبڑیں انہیں بھی گڑبڑائے رکھتی ہیں اور اس پر بارہا افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں اس طرح کہ پڑھنے والے کو بھی افسوس ہونے لگتا ہے۔ فورم کودھاندلی پر اصرار نہیں کرتے شاید اس وجہ سے کبھی کامیاب دھاندلی کا منہ نہیں دیکھا۔ نیٹ پر اردو کی ترقی کا اہم کردار گردانتے ہیں اور اسے اردو کے چاہنے والوں کا گھر قرار دیتے ہیں۔ شعروں کے معاملے میں کبھی دھاندلی کر جاتے ہیں مگر شریف شہریوں کی طرح مان لیتے ہیں۔ دھاندلی کرکے فورا پکڑ جاتے ہیں مگر منہ اتنا معصوم بناتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ دھاندلی کر لینے دی جائے مگر دھاندلی پر اصرار نہیں کرتے شاید اس وجہ سے کبھی کامیاب دھاندلی کا منہ نہیں دیکھا۔کسی کی بے وزن اور بے بحر غزل یا نطم پر تنقید اس طرح کرتے ہیں کہ وہ وزن اور بحر چھوڑ شاعری ہی چھوڑ جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو ان تنقید کا ایک نمونہ

“دوست اپنی کوئی "نارمل" غزل یا نظم لاؤ ۔ اس غزل کے تو اوزان خطاء ہو چکے ہیں۔“

صفائی اور نفاست کے حدرجہ شوقین ہیں حتی کہ سائٹ بنانے میں اس کا خیال ضروری سمجھتے ہیں اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو جنگ کی اردو سائٹ کو بھی یتیمی کا شکار دے دیتے ہیں۔ طبع نازک پر کمپیوٹر پر لمبے آرٹیکل پڑھنا گراں گزرتا ہے کجا کہ پوری پوری کتابیں۔ اس وجہ سے اردو ڈیجیٹل لائبریری کے ناقد ہیں، ریفرنس کی کتابوں کو برقیانے کے حق میں ہیں تاکہ تیز تلاش کا فائدہ اٹھا سکیں (جانے کس کی تلاش تیز تر چاہتے ہیں جس کا کہیں حوالہ بھی دینا ہے ) فرماتے ہیں کہ

“کوئی مجھے یہ سمجھائے کہ ان کتب کو ڈیجیٹل حالت میں لاکر کیا فوائدحاصل ہوسکیں گے۔ “

کوئی ایسے نمبر سے کال کرے جو ذرا عجیب ہو تو مخمصے میں پڑ جاتے ہیں مگر فون نہیں اٹھاتے مبادا مشکل میں بھی نہ پڑ جائیں، شاید نمبر اتنے لوگوں کو دے رکھا ہے کہ اب یاد نہیں رہتا کہ کس کو کب اور کیوں نمبر دیا تھا اور اب کون کیوں فون کررہا ہے ( علم بانٹنے سے بڑھتا ہے مگر نمبر بانٹنے سے علم نہیں بڑھتا ) ۔ خود کو غلطی پر نہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ در آمد کا مطلب چیز کو امپورٹ کرنا ہوتا ہے مزید تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے یوں سمجھیے کہ سامان کی آپ کے در پر آمد ہونا، ثبوت کے طور پر دلاور فگار کا شعر پیش کرتے ہیں

افسوس کہ پھر اس کو درآمد کیا ہم نے
جو پیاز ہوئی ملک سے اک بار برآمد​

اپنی وضع داری کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم لوگ اچھی کوالٹی کے آم برآمد کردیتے ہیں اور کمتر کوالٹی والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ وضع داری کی ایک اور مثال ان کی یہ ہے کہ پہلی دوسری جماعت کے لفظوں کے بارے میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیسے لکھتے ہیں ( مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں آسان قاعدہ لکھنے کے لیے مواد اکھٹا کر رہے ہیں )۔ پوچھنے کے بہانے کہتے ہیں

نہ تو زمیں کے لیے (آگے جان بوجھ کر نہیں لکھتے کہ کہیں دوسرا گلے ہی نہ پڑ جائے )

اس میں “لیے“ کیسے لکھیں گے ، ساتھ ہی خود دو صورتیں بتا کر کہتے ہیں لیے یا لئے ، کتابوں میں دونوں طرح سے لکھا دیکھا ہے( اتنی لے دے کے بعد بتانے والا بھی سوال لے کر جواب نہیں دیتا ہوگا) ۔ کوئی بتا دے تو بہت شکریہ کہہ کر پوچھنے لگتے ہیں اچھا یہ کہیے کہ کہیے کیسے لکھیں:

کہیے
یا
کہئے
یا
کہیئے
یا
کہئیے

اب اتنا کہنے کے بعد بھی دل نہیں بھرتا اور کہتے ہیں

جب ہم لکھتے ہیں 'کردیا'۔ (یہ نہ پوچھئے گا یہ کیا کردیا) تو کیا کر اور دیا کے بیچ میں سپیس ہونا چاہئیے یا یہ ایک ہی لفظ ہے۔

اتنا کچھ کر کے بھی تواضع کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے نہیں اور پوچھتے ہیں کہ کوئی کام کر کے دینے کے درمیان وقفہ دینا چاہیے کہ نہیں( بھائی جو کرنا ہے وہ کر کے دے دیا کریں پہلے کرکے آئن سٹائن کی پیروی میں غور وفکر کرتے رہے تو جس دینا ہے وہ اتنی دیر میں کہیں اور سے لے لے گا)

جیسبادی کو اردو اور انٹرنیٹ کی ایک پراسرار شخصیت سمجھتے ہیں ، جیسبادی بھی جوابا یہی سمجھتے ہوں گے۔ کوئی سوال اگر ذہن میں چبھ رہا ہو تو زیادہ تر اس کو ذہن میں رکھنے کی بجائے باقیوں کو چبھو دیتے ہیں ، پیشن کرنے کے بہانے ۔ یوں تو اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں مگر کچھ چیزوں کی الف بے بھی نہیں پتہ مثلا پوڈ کاسٹ ( اب کوئی اور نہ یہ کہے کہ اسے بھی اس کی الف بے نہیں پتہ) اپنی عمر پر کبھی غور و فکر نہیں کیا البتہ کسی کو سالگرہ کی مبارکباد بھی دینی ہو تو پوچھتے ہیں کہ گزرے ہوئے سالوں پر نظر ڈالیں تو کیا نظر آتا ہے ، جس کی سالگرہ ہو وہ جواب دینے کی بجائے ایک کھا جانے والی نظر ڈال دیتا ہے ، سمجھدار ہیں سوالات کا سلسلہ وہیں روک دیتے ہیں ۔ کسی کا سوال اچھا لگے تو یہ نہیں کہتے کہ اہم نکتہ اٹھایا ہے بلکہ فرماتے ہیں کہ بہت اہم سوال پر کی بورڈ اٹھایا ہے ، پڑھ کر پہلی ساعت میں یہ مغالطہ ہوتا ہے جیسے سوال کرنے والے پر کی بورڈ اٹھایا ہے کہ ایسا سوال کیا ہی کیوں۔ ویسے اچھے ہیں کوئی معلومات فراہم کرے تو شکریہ اس طرح ادا کرتے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ شکریہ کیا ہے یا طنز
مثال
یہ آپ نے معلومات میں اضافہ کیا۔۔۔۔۔۔۔شکریہ !
 
جیسبادی

جیسبادی بھی شارق کے ساتھ ہی 14 جولائی کو فورم پر وارد ہوا۔ جیسبادی اور شارق کی شمولیت سے اردو محفل پر کمپیوٹر سے متعلق تکنیکی اور عملی مہارت کے نئے باب رقم ہوئے اور ان دونوں کی لگن سے بہت سے ایسے دھاگے چلتے رہے جن میں تکنیکی مسائل اور ان کے حل کے ساتھ ساتھ نئے جہتوں پر بھی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی یہ دونوں منہ کا ذائقہ بدلنے کو سیاست کے کارزار میں بھی حصہ لیتے ہیں مگر کبھی کبھی ؛)۔


جیسبادی خاص طور پر مغرب کے دوہرے رخ دکھانے میں پیش پیش ہوتا ہے اور اس سلسلے میں لطیف پوسٹس کرتا رہتا ہے اس کے لیے علاوہ ریاضی کی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ڈھونڈتا بھی اکثر پایا جاتا ہے۔ بحث میں اپنی مرضی کے فریق کو تسلی کے حرف کہنا بھی نہیں بھولتا ، کہیں کسی کو مددگار کی ضرورت پاتا ہے تو مدد کرسکے یا نہ مگر حوصلہ ضرور دے جاتا ہے ۔ محفل پر کئی ارکان کو دل برداشتہ ہونے سے بچانے میں جیسبادی کا اہم کردار ہے ۔ وکی پیڈیا جیسبادی کا تازہ عشق ہے (عشق میں نیند اڑ جاتی ہے سنا تھا مگر راتوں کو جیسبادی کی پوسٹس دیکھ کر یقین کامل ہوگیا کہ لوگ سچ ہی کہتے تھے ) اور اس کے لیے بڑی باقاعدگی سے محفل پر پوسٹس بھی کرتا ہے اور سوئے ہوئے کو بار بار جھنجھوڑتا بھی ہے ( میں اور میرے جیسے کئی آنکھیں کھول کر یقین دلا دیتے ہیں کہ ہم اٹھ گئے ہیں مگر جیسبادی کے جاتے ہی پھر آنکھیں موند کر سو جاتے ہیں) جیسبادی کی کوششوں سے وکی پیڈیا پر اردو کے مضامین میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور امید ہے کہ جیسبادی کی یہ لگن وکی پیڈیا پر اردو کو اور بہتر مقام دلانے میں سود مند ثابت ہوگی۔ ادبی اور شاعری کی محفلوں میں بھی کبھی شرکت کرتے ہیں مگر اس طرح کے شاعری اور ادب کا گلا گھٹ کر رہ جائے ، ادب اور شاعری کو بھی پتہ چل جائے کہ جیسبادی آیا ہے تو وہ بھی دروازے بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ جیسبادی آگیا اب ہماری خیر نہیں،

جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو۔

اگر کبھی بہت خیال کیا کسی ادبی محفل کا تو یوں گویا ہوں گے “ میرا مقام تو نہیں کہ میں کچھ کہوں ( جب مقام نہیں تو میاں چپ رہو کچھ کہنے کی ضرورت کیا ہے مگر یہ تو صرف تمہید ہوتی ہے ، بچاؤ اور الجھاؤ کا ایک ذریعہ ) مگر گستاخی معاف (گستاخی کسی نے معاف کی کہ نہیں اس کی کبھی پرواہ ہی نہیں کی) یہ کہہ کر ادب کی شان میں کھلی گستاخیاں شروع کردیں گے، جاتے جاتے پھر گستاخی معاف کہہ کر رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے (جو جو اس دھاگے پر گفتگو میں مصروف ہوتا وہ تلملا کر رہ جاتا مگر کچھ کر نہ پاتا)۔
جرمنی میں اعلی انسانی حقوق کی مثالوں کا گاہے بگاہے ذکر کرتے رہتے ہیں، جیسبادی ہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔

“جرمن حکومت نے ایک ترک نژاد باشندے کو، جو جرمنی میں کئی سال سے مقیم تھا، بے روزگار ہو جانے کے جرم میں پکڑ کر ملک بدر کر دیا ہے۔ یوں انسانی حقوق کی اعلٰی مثال قائم ہوئی ہے۔ “

پیغامات کے ساتھ لمبے لمبے دستخط قطعی پسند نہیں کہ اس سے گوگل دیوانہ ہو کر بے تکے اشتہار دکھانے لگتا ہے ( جیسبادی کی طبع اشتہار پر بے تکے اشتہار بہت گراں گزرتے ہیں)۔ اپنی رائے کو عاجز بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ چوپال بغیر دستخطوں کے ہی اچھی ہے مگر جیسبادی کی بات کسی نے نہ سنی اور یوں جیسبادی کی ایک اور عاجز رائے ان سنی ہوگئی۔ حکمرانوں کی بدطینتی کے علاوہ بے عقلی کا بھی رونا روتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کو امورِ حکومت تو دور گدھا گاڑی چلانے کے قابل بھی نہیں سمجھتے (ویسے یہ زیادتی ہے جیسبادی کی مجھے پوری امید ہے کہ چند حکمران کمال کے شاہسوار ہوں گے گدھا گاڑیوں کے )۔ مسلمانوں کی “روح“ بیدار ہوتی ہے جب جیسبادی میں تو فرماتے ہیں

“ قوم میں اگر دم ہو تو وہ ان لوگوں کو درست کر دے۔ مگر آج کی دنیا میں ہر جگہ یہ حال ہے کہ قومیں اپنے "حکمرانوں" کی غلام بن کر رہ گئی ہیں۔“

لینکس ان میں اس طرح رچ بس گیا ہے جیسے بھلے وقتوں میں تربیت سے طبیعت میں تہذیب رچ بس جایا کرتی تھی۔ لینکس کے متعلق خود ہی استفہامیہ انداز میں پوچھتے ہیں
کیا آپ کو لینکس سے ڈر لگتا ہے؟ ( مجھے تو واقعی لگتا ہے )
کیا آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ لینکس کا ساری دنیا میں کیا شور و غوغا ہے؟ (شور شرابے والی چیزیں دیکھنے کا مجھے قطعا شوق نہیں جیسبادی بھائی)
کیا آپ اس وقت کیلئے تیار ہیں جب ونڈوز ڈی۔آر۔ایم۔ کے ساتھ آپ کا جینا دوبھر کر دے گی؟ ( جینا دوبھر ہوجائے پر ونڈوز نہ چھوڑیں گے)
کیا آپ نے ونڈوز ایکس پی سٹارٹر ایڈیشن کا نام سنا ہے؟ ( نہیں کیا کھانے میں مزے کی ہے ؟)

پھر جواب دیتے ہیں

“حل آسان ہے۔ لینکس بغیر کسی خدشے کے آزما کر دیکھیے۔ اس کو کہتے ہیں، لینکس لائیو سی۔ڈی۔
یہ آپ کے کمپوٹر پر (یعنی ہارڈ ڈرائیو پر) کچھ انسٹال نہیں کرتی، بلکہ سی۔ڈی۔ ڈرائیو سے ہی بوٹ ہوتی ہے۔ اس لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ اگر آپ کو پسند آئے تو آپ ہارڈ ڈرائیو پر انسٹال بھی کر سکتے ہیں۔ “


شارق نے جیسبادی کے واعظ سے متاثر ہوکر نہ صرف لینکس استعمال کرلیا بلکہ پسند کرنے کی غلطی بھی کرڈالی جس پر جیسبادی نہایت خوش ہوئے اور شارق کے ایک معصوم سوال کا نہایت ڈراؤنا جواب دیا ۔ شارق نے اپنی تجسس پسند طبیعت سے مجبور ہو کر پوچھا کہ یہ یہ ڈی آر ایم کیا ہے جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔

جیسبادی کا خوفناک جواب ملاحظہ ہو

“شارق، یقیناً آپ لینکس سے نہیں ڈرتے۔
ڈی۔آر۔ایم، "ڈیجیٹل رایٹس مینیجمنٹ" کا مخفف ہے۔ مثلاً آپ نے گانے کی کوئی سی۔ڈی۔ خریدی۔ اب یہ ونڈوز کی مرضی ہو گی کہ وہ آپ کو اس کی کاپی بنانے دے یا نہیں۔ یا گانے کا فورمیٹ بدلنے دے (ایم۔پی۔تھری وغیرہ)۔ یا گانا سنانے سے پہلے انٹرنیٹ پر رابطہ کر کے کمپنی سے پوچھے کہ شارق صاحب کے پاس یہ سی۔ڈی۔ اصلی ہے یا انہوں نے کراچی میں کسی ریڑھی والے سے "نمبر 2" مال خریدا ہے، اس لیے ان کا نام پتہ ایف۔بی۔آئی۔ کو بھیج دیا جائے۔“


سستی سی سی ڈی خریدنے کا ایسا بھیانک انجام صرف جیسبادی ہی دکھا سکتے ہیں (اللہ ان کے اس فن کو زوال بخشے ، آمین )۔ ہندی فلموں سے اردو سیکھنے کے خیال سے چیں بچیں ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں۔
“صرف بولنا زبان دانی نہیں کہلاتا۔
ویسے یہ خام خیالی معلوم نہیں کیسے پھیلی کہ بیرونِ ملک پاکستانی بچے اردو فلموں سے سیکھتے ہیں۔ بچے زبان اپنے ماں باپ سے ہی سیکھتے ہیں! ٹورانٹو میں پبلک سکولوں میں ھفتے کو باقاعدہ اردو کی کلاسیں ہوتی ہیں جہاں پاکستانی بچے اردو پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں اردو کی تعلیم لازمی ہے اس لیے ہر شخص جو سکول سے فارغ تحصیل ہوتا ہے، اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے خود اردو سیکھی یا مسلم سکولوں میں پڑھے، وہ ہی اردو لکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ ریاستوں میں صورتِ حال مختلف ہو مگر عمومی حقائق یہ ہی ہیں۔“


تیل کے بارے میں ان کی رائے بڑی آتشی ہے اور اظہار خیال یوں کرتے ہیں

“تیل کی دولت کی بات کرنا تو آسان ہے، مگر جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ استعماری قوتوں نے آزادی تیل والے ملکوں میں اپنے گماشتے بٹھا کر ہی دی تھی۔ ان میں صرف ایرانی ہی انقلاب برپا کر سکے۔ عرب تیل اصل میں امریکی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ امریکہ میں سرکار کی حیثیت سرمایہ کاروں اور سود خوروں کے کارندے کی ہوتی ہے۔“


کوئی بم یا دھماکہ والی کہانی لکھ دے تو اسے سمجھاتے ہیں کہ بھائی اس طرح کی کہانیاں لکھو گے تو خفیہ والے پکڑ کر لے جائینگے اور تفتیش کرینگے کہ ملزم "بومبر" کا نام پتہ بتاؤ۔ کب سے جانتے ہو؟ دنیا کے کسی کے ملک میں بھی رہتے ہو، تسلی کے لیے لکھ دیتے ہیں کہ آج کل سب جگہ یہی حال ہے۔

آج کل کچھ دنوں سے غائب ہیں مگر قیاس غالب ہے کہ جلد ہی رات کے پچھلے پہر وکی یا لینکس کی تازہ خبر کے ساتھ وارد ہوں گے

‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌
 
پاکستانی

16 جولائی کو پاکستانی کی آمد ہوئی اور مدت تک چپ چاپ شرکت ہی رہی اکا دکا پوسٹس کے ساتھ پھر اپنا ڈیرہ جمانے کے بعد پچھلے چند ماہ میں خاصے فعال ہوگئے ہیں اور جگہ جگہ ان کی موجودگی کے ثبوت مل رہے ہیں۔ بچپن میں پیار سے منا کہا جاتا تھا اب بڑے ہو کر منیر ہوگئے ہیں اور بھی کچھ ہوگئے ہوں گے مگر ہمیں یہی پتہ ہے۔ شروع شروع میں کیبل نیٹ کی بجائے ڈائل اپ سے انٹر نیٹ کا رابطہ جوڑا کرتے تھے اور ساتھ میں خواہش رکھتے تھے کہ فون بھی بزی نہ رہے تاکہ ٹو ان ون کے مزے اڑا سکیں مگر حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے ایک ہی لطف اٹھا سکے گو دونوں لطائف کی خواہش میں جگہ جگہ کی خاک چھانی اور بالآخر تھک کر کیبل نیٹ لگوا کر دل کی مراد پائی۔ شروع میں انپیچ کا استعمال کرتے تھے پھر نبیل کی نرگسیت سے متاثر ہو کر اردو ایڈیٹر استعمال کرنا شروع کیا اور اسی کے ہو کر رہ گئے تا دمِ تحریر۔ غالب کی دو غزلوں کا سرائیکی ترجمہ پیش کرچکے ہیں جو نہایت دلچسپ ہے

ایہہ نہ ہئی اساڈی قسمت جو وصال یار ہوندا
یہ نہ تھی ہماری قسمت جو وصال یار ہوتا

جو بیا وی جیندے رہندے ایہو انتظار ہوندا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

کوئی میڈے دل توں پچھے، تیڈے تیر ادھ پڈے کوں
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو

اینویں چبھدا ایہہ نہ رہندا، جو جگر دے پار ہوندا
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا


ابن انشا کی چاند نگر کی بات ہورہی ہو تو یہ دور کی کوڑی لا کر فرماتے ہیں

ہمارے ہاں موٹر سائیکل رکشہ کو چاند گاڑی کہتے ہیں آپ کہیں تو وہ بھیجوا دوں شاید وہ آپ کو چاند نگر تک لے جائے۔

اب بندہ پوچھے ان سے کہ موٹر سائیکل پر اگر چاند نگر پہنچ سکتے تو سی ڈی 70 رکھنے والے ا لیٹر میں 70 کلو میٹر چلا کر پورے چاند پر قابض ہو چکے ہوتے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے ڈیرے کے گرد و نواح میں کوئی غیر سرکاری چاند نگر قائم کررکھا ہو جس کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے، اب اصل حقیقتِ حال تو خدا ہی بہتر جانے ہم تو اندھیرے میں تیر ہی چلا سکتے ہیں سو چلا رہے ہیں اندھا دھند۔ ایک غالب کی پرستار نے جب محفل میں شرکت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا ہاتھ لکھتے وقت کانپ رہا ہے کہ اتنی بڑی بڑی ہستیاں ہیں ، پاکستانی بھیا نے اور ڈراتے ہوئے لکھا کہ ہاتھ تو کیا انسان کا پورا جسم کانپتا ہے ( اب پتہ نہیں کن خوفناک شخصیات کی طرف اشارہ ہے ایک تو شاید ۔۔۔۔۔ اب میں نام کیسے لوں مجھے بھی تو ڈر لگتا ہے ) ان ہستیوں کے سامنے ، تسلی کے لیے لکھ دیا کہ ڈرنا مفید ہے ، یہ نہیں بتایا کہ کس کے لیے ۔
دل اور درد کا رشتہ دھڑکن سے جوڑتے ہیں اور پھر شاعرانہ علاج بتانے کی بجائے خالص طبی علاج یعنی ای سی جی کرانے کا مشورہ دیتے ہیں، تشخیص ٹھیک کرتے ہیں مگر علاج غلط اور مہنگا بتاتے ہیں اس لیے کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جان ۔

فیصل مسجد کا انہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کس شہر میں ہے ، پوچھتے ہیں۔

اسلام آباد کی فیصل مسجد پاکستان کے کس شہر میں واقع ہے؟
اب اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا ۔

نام بتائیں ایک مقبول کھیل ہے محفل کا جس میں کسی مشہور شخصیت کا نام لکھنا ہوتا ہے اس میں ت سے ایک نام بتانا تھا ، شومئی قسمت کہ پاکستانی بھیا کی باری تھی اور انہیں تختہ یاد تھا جھٹ سے بول پڑے کہ تختہ ، کہہ تو دیا مگر کچھ عجیب لگا تو مزید تشریح کردی ت سے تختہ ۔۔۔۔ موت والا نہیں
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا کیا پاکستانی نے (دھڑن تختہ ہی کردیا ) ۔ تفصیل بتاتا چلوں کہ تختہ لفظ سے ذہن میں کیا کیا آسکتا ہے ، اس سے اس لفظ تختہ کا تختہ کرنے میں آسانی ہوگی ۔ تختہ بادشاہت کا بھی ہوتا ہے اور اسکول کے زمانے میں جانے کونسے کونسے مشکل تختے ہوتے ہیں تو پھر موت کا تختہ ہی کیوں ذہن میں آئے گا بھلا جس کی تشریح کی مگر پاکستانی بھیا کو زیر عتاب آنا تھا تو قسمت نے انہیں یہی سوجھایا بروقت یا اس وقت ۔
اگر یہ لگ رہا ہو کہ میں نے ایک لفظ تختہ کو پکڑ ہی لیا ہے ، اتنے لوگ تھے محفل پر کسی اور کو نظر نہیں آیا تھا یہ لفظ تختہ تو ملاحظہ ہو شہنشاہِ خطوط کا جواب اس پیغام پر ت سے تختہ ۔۔۔۔ موت والا نہیں

بیٹے جی یہاں الف انار اور بے بکری نہیں لکھنا بلکہ کسی مشہور شخصیت کا نام لکھنا ہے اور وہ بھی اس حرف سے جس پر پہلے رکن نے ختم کیا ہے۔

اگر سمجھ نہیں آئی تو بتانا، ایک بار پھر تفصیل سے سمجھا دوں گا۔


امید ہے کہ اب بات تہہ تک سمجھ آگئی ہوگی ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھیجتا ہوں شہنشاہِ خطوط کو آپ کو سمجھانے کے واسطے بھی ، گیارہ ہزار خطوط ہم رکاب ہوں گے اور سمجھانے میں جو ملکہ ہے وہ تو اوپر دیکھ ہی چکے آپ۔

کسی نئے آنیوالے کو خوش آمدید کہہ کر تعارف کروانے کا ایسے کہیں گے جیسے لاہور کے رہنے والے مہمانوں کو کھانے شروع کرنے کے لیے بصد اصرار کہتے ہیں ، ملاحظہ کیجیے ۔


خوش آمدید
تعارف لازمی ہے جناب بسم اللہ کیجیئے



شہنشاہ خطوط کے ساتھ ایک نوک جھونک تو ملاحظہ کر ہی چکے ہیں اب ذرا ایک اور دلچسپ قصہ دیکھتے ہیں جس میں شہنشاہِ خطوط کے چار ہزار خطوط ہوئے تھے اور پاکستانی انہیں اپنی دھن میں بے پرواہ مبارکباد دے رہے تھے کہ شہنشاہِ خطوط نے انہیں آہنی ہاتھوں سے لیا۔ مبارکباد دیتے ہوئے لکھتے ہیں

پاکستانی : بہت مبارک ہو آپ کو ۔ اور بس اسی خوشی میں ہو جائیں ایک ہزار اور !

اس فرمائشی مبارکباد پر شہنشاہِ خطوط ذرا گھبرا اٹھے اور کہنے لگے

شہنشاہِ خطوط: بہت بہت شکریہ آپ کا اور اکٹھے ایک ہزار اور ایکدم سے

پاکستانی بھیا نے جو شہنشاہِ خطوط کے قدم اکھڑتے دیکھے تو خوش ہو کر مستانہ وار ایک جملہ اور پھینکا

پاکستانی : ایک دم بلکہ یک دم !!!! مزے کریں جناب
خط نہ ہوئے ردی کے کاغذ ہو گئے جو ہزار بھی ہو جائے اور یک دم بھی۔ خیر شہنشاہِ خطوط کچھ سنبھل چکے تھے اس لیے جوابی حملہ کچھ یوں کیا

خود تو ابھی تک صرف 31 خطوط پر پہنچے (پہنچی) ہیں اور مجھے ایک دم سے ہزار خطوط لکھنے کو کہہ رہے (رہی) ہیں۔
پاکستانی کے ابھی 31 خطوط ہی ہوئے تھے اور کمال چالاکی سے شہنشاہِ خطوط نے ان کی شناخت بھی مشکوک کرکے گویا ایک پنتھ دو کاج والا کام کرڈالا۔ پاکستانی بھی پکے پیروں سے تھے ، ذرا نہ گھبرائے کہ کہاں 31 خطوط اور کہاں چار ہزار ، لگے اپنے 31 خطوط کو قیمتی قطروں سے تشبیہ دینے اس طرح
پاکستانی : قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے شمشاد صاحب اور آپ 31 پر ہی پریشان ہو گئے ہیں۔

شہنشاہِ خطوط اب رواں ہوچکے تھے اور پریشانی تو ان سے گھبرا کر دور بھاگ چکی تھی یوں گویا ہوئے
میں پریشان بالکل نہیں ہوں بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ دریا نہیں تو کم از کم ایک ندی نالہ ہی بنا دیں، 31 سے تو نالی بھی نہیں بنے گی۔

داد دینے پڑے گی پاکستانی کو کہ وہ اس سخت حملہ کو بھی کمال خوبی سے جھیل گئے ( پکے پیر شاید سیمنٹ‌سے کروائے ہوئے تھے) اور جا پہنچے اپنے اقبال تک
پاکستانی :‌ندی نالے کا تو صرف محدود سوچ رکھنے والے ہی سوچتے ہیں، ہم تو اقبال کے شاہین ہیں، آپ نے وہ شعر تو سنا ہی ہو گا کہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جب شاہینوں میں آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

شہنشاہِ‌ خطوط اگر ان جملوں میں الجھ جاتے تو پھر شہنشاہِ خطوط کیسے کہلاتے ، عمدگی سے پینترا بدلا اور میدان مار جملوں سے قصہ ختم کیا

چلیں اسی بہانے آپ کے 35 خطوط تو ہو گئے۔ اس طرح لگے رہیں تو میرے ایک فیصد تک تو آج پہنچ ہی جائیں گے۔

فٹنگ کے اتنے شوقین ہیں کہ کوئی سافٹ وئیر انسٹال نہیں کرتے بلکہ اپنے کمپیوٹر میں اس کی فٹنگ کرتے ہیں ۔ محاورے بہت پسند کرتے ہیں اور بے دریغ استعمال بھی کرتے ہیں چاہے محاورہ ٹھیک ہو یا نہ ہو مگر یہ اسے ٹھیک سمجھنے پر ہی اصرار کریں گے ، ایک محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
ارے واہ دوست یعنی مرے کو مارے شاہ نامدار

( بہرحال کچھ ایسا ہی فقرہ ہے )


کشمکش میں ہیں کہ محاورہ ٹھیک ہے کہ نہیں مگر دوسروں کو یقین دہانی کرانے کے لیے قوسین میں لکھ دیا کہ فقرہ کچھ ایسا ہی ہے بھائی اگر ایسا ہی ہے تویہ لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ شاعری کے بارے میں بھی عین یہی رویہ رکھتے ہیں جو ان کی مستقل مزاجی کا پتہ دیتا ہے۔ شاعری سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں ، شاعری کے بارے میں کہہ نہیں سکتے کہ اس کا ان سے کتنا لگاؤ ہے۔ اگر کسی غزل کے ساتھ شاعر کا نام غلط لکھ دیں تو گھبراتے نہیں ، تصحیح بھی کر دی جائے تو پائے استقلال میں فرق نہیں آنے دیتے اور کمال شانِ استغنا سے فرما دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور شاعر ہو بہرحال میری معلومات یہی کہتی ہے ( اب ان کی معلومات کے تازہ ہونے کے انتظار میں پڑھنے والا چاہے سوکھ کر کانٹا ہوجائے )۔
‌ ‌
 
اعجاز اختر

اعجاز اختر صاحب کی شمولیت محفل کے لیے باعث صد افتخار بنی کہ وہ انٹر نیٹ پر اردو کمپیوٹنگ کے لیے سعی کرنے والوں میں بانیوں کا درجہ رکھتے ہیں مزید یہ کہ اردو کے ادبی و لسانی پہلوؤں سے بخوبی آشنا ہیں جس سے ان کی کوششیں برآور بھی ثابت ہوتی ہیں کہ حقائق کا جائزہ مختلف پہلوؤں سے لے سکتے ہیں۔ ان کی ادبی و علمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک علیحدہ باب کی ضرورت ہے اس پوسٹ میں صرف محفل پر ان کی موجودگی اور اس کے ثمرات پر مختصرا گفتگو مطلوب ہے۔ ان کی آمد سے شاعری کی اصلاح کا در وا ہوگیا اور اب تک نو آموز شعرا ان سے اپنے کلام کی اصلاح لیتے ہیں جو محفل کو انفرادیت بخشتی ہے۔ اعجاز صاحب نے محفل کے پررونق دھاگوں پر بھی برابر حصہ لے کر انہیں رونق بخشی اور لائبریری پراجیکٹ میں اپنی کتابیں بھی رکھی اور بہت سے لوگوں کی کتابیں ٹائپ کرکے بھی رکھتے رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کئی اکابرین کو محفل پر لانے کی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں مگر اب تک کوئی ان جیسی مستقل مزاجی ہستی تو دور رسما بھی نہیں آسکے مگر اعجاز صاحب کی استقامت میں فرق نہیں آیا۔ محفل کی تشہیر اور اردو ڈیجیٹل لائبریری کے لیے کئی دوستوں اور یونیورسٹیوں سے خط و کتابت بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کی کوششوں سے اردو محفل ان گوشوں تک پہنچی ہے جہاں تک شاید اسے پہنچنے میں بہت وقت لگتا ۔ غالب کے دیوان کو آنلائن لانا اور پھر اس کی پروف ریڈنگ کا کام مکمل کرنا اعجاز صاحب کا ہی خاصہ ہے اور اس کے لیے ان جیسی صاحب علم اور بزرگ شخصیت ہی کرسکتی تھی۔ کئی صوتی کی بورڈ بھی اردو کے لیے پیش کرچکے ہیں اور اردو کے انٹر نیٹ اور کمپیوٹر پر فروغ کے لیے ان کے کارہائے نمایاں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں محفل کو دونوں منفرد ارکان کو ان کی اس عادت کا بخوبی تجربہ ہو گیا ( ایک منفرد ممبر تو کئی دن منہ پھلائے بھی رہا ) ۔ گو صاف بات کرتے ہیں مگر پھر شفقت اور پیار سے سمجھا بھی دیتے ہیں کہ کیوں کی تھی اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرکے اپنے سے چھوٹوں کو منا بھی لیتے ہیں۔ محفل پر ایسے موجود ہوتے ہیں جیسے اپنے گھر میں ہوں ، کہیں کسی کی شاعری کی اصلاح کروا رہے ہیں ، کہیں کسی کو مشکل نکات سمجھا رہے ہیں ، کہیں کسی کو اصطلاحات بتا رہے ہیں ، کہیں کسی کی فائلوں کی پروف ریڈنگ کر رہے ہیں ، کہیں کسی کو ڈانٹ رہے ہیں کہ صحیح کام کیوں نہیں کرتے ہو ( پیار سے کبھی غصہ سے بھی ) ، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اردو محفل پر ہیں اپنے گھر میں نہیں ( اتنی اپنائیت ہیں انہیں اردو محفل سے ) اس لیے سب ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی تصحیح اور ڈانٹ کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں ( مجھے ابھی تک ڈانٹ کھانے کا شرف نہیں حاصل ہوا)۔ محفل پر سب کو اپنے بچے سمجھ کر بات کرتے ہیں مگر لاڈ پیار سے بگاڑتے نہیں بلکہ جہاں اچھا کام ہو وہاں تعریف اور پذیرائی کرتے ہیں اور جہاں غلطی دیکھتے ہیں وہاں تنقید اور اصلاح کرتے ہیں۔
کیا سارہ تم نے سب کی بولتی۔۔۔۔ یا نغمگی بند کر دی۔ ظ سے مجھے ایک ہی گیت یاد تھا جو دے چکا، ظالم زمانہ مجھ کو۔۔۔۔اور وہ بھی درست یاد نہیں آ رہا۔
کھیلوں میں بھی برابر حصہ لیتے ہیں ، گانوں کے کھیل میں ایک ممبر سارا کو دلچسپ جواب دیتے ہیں

کیا سارہ تم نے سب کی بولتی۔۔۔۔ یا نغمگی بند کر دی۔ ظ سے مجھے ایک ہی گیت یاد تھا جو دے چکا، ظالم زمانہ مجھ کو۔۔۔۔اور وہ بھی درست یاد نہیں آ رہا۔
اس لئے اب اس کی تجدید کر رہا ہوں۔ اور اب تجدید کی
ت
سے


اردو صوتی کی بورڈ بنا بنا کر بھی لوگوں کو اردو لکھنے کی طرف مائل کرتے رہتے ہیں ، حال ہی میں اردو دوست کے نام سے طویل مشاورت کے بعد ایک صوتی کی بورڈ بنایا تو دوسرے ہی دن اس میں تبدیلی کی فرمائشیں ہونا شروع ہو گئیں بجائے دوسروں کو قناعت کا سبق دینے کے فرمائشیں پوری کرنے پر لگ گئے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کو خوش کرنا مشکل ہے یہ کٹھن کام سنبھال لیا۔ اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں

لیجئے حاضر ہے اردو دوست 2
لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ سب کو خوش کرنا مشکل ہے، وہی صورتِ حال میری ہے۔ دیکھیں اپ لوڈ ہوتا ہے یا نہیں۔


فورم پر بہت سے ممبران اعزازی اور حقیقی شاگرد ہیں مگر شاگردوں کے ساتھ بھی اس طرح گھل مل کر رہتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ شاگرد کون ہے اور استاد کون۔ حاضری لگاؤ ایک کھیل ہے جس میں اپنی ایک شاگرد جویریہ مسعود کے کھیل میں خود شاگرد بن جاتے ہیں اور اپنی حاضری یوں لگواتے ہیں

میلی ہاجلی اشتانی جی۔ ماٹصاب کی ابھی ڈیوٹی نہیں تو کون لگائے گا۔ آ جاؤ اور لگا دو۔



لوگوں کے فون ڈیڈ ہوتے ہیں مگر اعجاز صاحب کا تو انتقال ہی کر جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض دفعہ فورم پر نہیں آپاتے مگر آ کر خوشگوار تبدیلیاں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ مادر پدر آزاد شاعری کے سخت خلاف ہیں اور اسے روکنے پر خصوصی زور دیتے ہیں ، شاعری جس نازک دور اور خود رو شاعروں سے گزر رہی ہے اس کا بخوبی احساس ہے اس وجہ سے شاعری پر نوآموز شاعروں سے بچانے کی بھرپور کوششیں کرتے رہتے ہیں۔


شروع میں ظفری کی اصلاح کیا کرتے تھے جس سے دکان خوب چلتی رہتی تھی پھر وہ خود پروفیسر بن بیٹھا تو اعجاز صاحب خالی ہاتھ رہ گئے ، جمی جمائی دکان تو مندے میں گئی سو گئی مصروفیت کا بہانہ بھی چلا گیا ، اسی دکھ کا اظہار کرتے کہتے ہیں

کیا بات ہے، ہم دوکان لگا کر بیٹھے ہیں اور گاہک ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتے!! اللہ اللہ کیا زمانہ آ گیا ہے۔ ظفری بھی اچانک منظرعام سے غائب ہو گئے۔

اچھے شاعر ہی نہیں اچھے افسانہ نگار بھی ہیں مگر چاہتے ہیں اردو ادب میں ان کی تخلیقات کے حوال سے نہیں بلکہ اردو زبان کی ترویج اور ارتقا کے لیے ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے۔ ایک ممبر ثناء کا شکریہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

شکریہ ثناء اللہ کہ آپ لوگ مجھے بطور ایک اہم شاعر بھی گردانتے ہیں اگرچہ میری یہ خواہش زیادہ ہے کہ میری اردو زبان کے بقا اور ارتقا کی کوششیں یاد رکھی جائیں۔ شعرا کا تو وہی حال ہے کہ کسی ہند و پاک کے 'اردو 'شہر پرہوائی جہاز سے آپ سو پتھر پھینکیں تو پانچ پتھر ضرور کسی شاعر کو لگیں گے ۔

اردو محفل کی خوش قسمتی ہے کہ اسے آغاز سے ہی ایسی علم پرور ، عالم ، محقق ، مستقل مزاج اور مشفق ہستی مل گئی جس نے اپنی ہمہ جہت صلاحیتیوں سے اسے چار چاند لگا دیے۔ یقینا اعجاز کی اردو زبان کی ترویج اور ارتقا کی کوششیں بلخصوص انٹرنیٹ پر یاد رکھی جائیں گی۔ خدا ہمیں اس گھنے سایہ دار پیڑ کی چھاؤں میں سدا رکھے۔
ً
 
ظفری

٣ اگست کو ایک چلبلے اور شریر رکن کی شمولیت ہوتی ہے جو چند غزلوں کی اصلاح اعجاز صاحب سے لے کر اور ایک دو افسانے پوسٹ کرکے رفو چکر ہو جاتا ہے اور دوبارہ ١٨ اپریل کو چپ چاپ روانگی کے بعد دھماکہ دار واپسی کرتا ہے (ماورا کے کہنے پر ، ثابت ہوا کہ خود کم ہی اچھے کام کرتا ہے کوئی اگر کیا بھی تو کسی کے کہنے سننے پر ) اور سب اس کی آمد کو پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ اس دفعہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے افسانے اور غزلیں پوسٹ کرتا ہے بلکہ بزم سخن کو اوروں کے ساتھ مل کر اس طرح سجاتا ہے کہ شاعری کے دھاگے اس کے بغیر سونے سونے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ آنے والا کون کی رونقوں کو رات گئے تک بڑھانے میں رضوان اور شمشاد کے ساتھ اسی جوان کا ہاتھ رہتا ہے ۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں اپنے ظفری کی جس کی حس مزاح خداداد ہے اور جو اپنے خطوط میں مسکراہٹیں بکھیرتا رہتا ہے۔ اس جوانِ رعنا کو شاید چند ساتھیوں کی ضرورت تھی جو رضوان ، شمشاد ، محب کی صورت میں پوری ہوگئی اور اعجاز صاحب کی نظرِ کرم سے اس نے اب محفل کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے ۔ مزاحیہ خبرنامہ لکھنے میں جواب نہیں رکھتا ، محفل پر الیکشن اور موسم کی خبریں اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ بہترین منہ بنانے کی ترکیب ہو یا کسی گمشدہ رکن کی تلاش ظفری کا انداز بیاں جدا اور لبوں پر تبسم سجانے والا ہے ۔

خوابوں کی تعبیر کے پروفیسر ہیں ، اس شعبہ میں ان کی مہارت سے تادمِ تحریر کوئی منکر نہیں ہے۔ پہلے خواب دیکھا کرتے تھے اب ترقی کرکے خواب دکھانے لگے ہیں ( اس ضمن میں مشہور ہی نہیں بدنام بھی ہیں ) ساتھ ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی بتاتے ہیں نئے خواب دکھا کر۔ چاند دیکھنے اور دکھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ، چاند سے متعلق خوابوں کی تعبیر بھی بتاتے ہیں اور خود بھی فارغ وقت میں کسی چاند کے خواب دیکھتے ہیں۔ چاند کو دیکھنے اور چھونے پر ان کی تعبیریں ، تعبیروں کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ بندے کی طبیعت کا حال بھی بتاتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ مشق مزاح بھی کرتے جاتے ہیں۔ خواب کی پوری تفصیل میں جاتے ہیں ، فزکس اور حساب کے کلیے کی مدد سے نتائج اخذ کرتے ہیں اور اگر خواب دیکھنے والا اور سوال کرے تو اس پر جوابی حملہ کرکے کہتے ہیں کہ خواب تفصیل سے دیکھا کرو تو میں بھی تفصیل سے تعبیر بتاؤں ، تم نے خواب ادھورا دیکھا میں نے تعبیر ادھوری بتائی ، انصاف کے تقاضے پورے کردیے اور کیا چاہتے ہو میاں۔

موسیقی سے بہت رغبت ہے خاص طور پر اگر کوئی مغنیہ نغمہ سرا ہو تو اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، نغمہ سن رہے ہیں کہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک نغمہ

اے دنیا کیا تجھ سے کہیں
جا چھیڑ نہ ہم دیوانوں کو


سن کر جھوم اٹھے اور جانے جوانی کے کون کون سے قصہ یاد آنے لگے کہ کہنے لگے
واہ نبیل بھائی مزا آگیا آج تو ۔۔۔۔۔ آج یہاں رم جھم لگی ہوئی ہے اور پھر مہدی حسن کی آواز اور یہ خوبصورت نظم اور اور اور پھر ۔۔۔۔(یاد آگئیں گزری جوانی کی غلط کاریاں) ۔۔۔۔۔۔ خیر جانے دیں ۔ :wink:

شاعری اور موسیقی دونوں میں غزل پسند ہے وجہ یہ ہے کہ چھیڑی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساز اور آواز کے ساتھ۔
بھری جوانی میں کوئی بت داغِ مفارقت دے گیا تھا تب سے یہ گانا بہت سنتے ہیں

تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں
تیرے بنا زندگی بھی لیکن زندگی تو نہیں


اوائل جوانی میں کسی نازنین نے بھائی بنا لیا تھا تب سے بھائی بننے سے گھبراتے ہیں ( یہ الگ بات کسی کو بھائی بنتا دیکھ کر بہت محظوظ ہوتے ہیں شاید اپنا وقت یاد آجاتا ہے ) صنف نازک ایک طرف ، اپنی صنف میں بھی صرف دوست بناتے ہیں بھائی نہیں حالانکہ اب جس عمر میں ہیں وہاں کوئی دوشیزہ انہیں بھائی بنا کر اپنی عمر بڑھوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ چچا ماموں کی عمر میں پہنچ گئے ہیں مگر ابھی بھی انہیں چانس نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بندھن میں بندھ جانے کا
سکول سے بھاگنے کے پرانے شوقین ہیں، فورم پر بھی حاضری کا رجسٹر لے کر دو دفعہ بھاگ چکے ہیں مگر مس جویریہ نے حاضری کے لیے جانے کتنے رجسٹر بنا رکھے ہیں کہ ظفری بھی پریشان ہیں کیسے حاضری کا جھگڑا نمٹائیں۔

چند افسانے۔۔۔۔۔(قصے اس وقت کے جب آتش جوان تھا ) جو لوگوں نے مشہور کر رکھے تھے ظفری نے لکھ ڈالے تاکہ سند رہے ۔ غزلیں (غزالوں کے پیچھے جو وقت بتایا اس کا شاعرانہ حال) بھی لکھ رکھی ہیں مگر ایسی کہ اصلاح سے بھی ٹھیک نہ ہوئیں ، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی تغافل شعار کی نظر پڑی تو لے اڑا اور کسی طاقچے میں رکھ کر بھول گیا۔ ظفری مارے حجاب اور مروت کے واپس بھی نہ مانگ سکے اور یوں شعر لکھنے سے معذور ہو گئے (دل نکال کر رکھتے تھے تو شعر بنتے تھے ) ، اب کوئی پوچھے کہ میاں شاعری کیوں نہیں کرتے تو مصروفیت کی جھوٹی بپتا سناتے ہیں۔


آجکل رضوان نے آبِ گم کے دام میں پھنسا رکھا ہے دیکھیں ظفری استاد کیسے اس دام سے نکلتے ہیں یا واقعی کچھ لکھ کر داغِ گذشتہ کو دھو ڈالتے ہیں۔ کام بڑا کٹھن ہے کہ آجکل حوروں سے بھی راہ و رسم ہے ، اب ایک طرف آبِ گم ہے تو دوسری طرف حوریں دیکھتے ہیں کدھر جاتا استاد ظفری

ملنے کا پتہ ؛ اردو محفل براہ راست ورنہ براستہ ماورا معرفت اردو محفل
 
آصف

محفل کے تیسرے اور قدرے روپوش ایڈمن آصف جنہوں نے کافی دیر سے شمولیت اختیار کی ۔ اس کے بعد طویل عرصہ تک رخِ زیبا کسی اوٹ میں چھپائے رکھا اور ١٣ فروری کو دوبارہ طلوع ہوئے اردو کی بدقسمتی کی وجہ لیے ہوئے۔ پڑھے لکھے اور انجنئیر طبقہ کی اردو سے غفلت اور لاعلمی کو اردو کی بدقسمتی کی اصل وجہ سمجھتے ہیں۔ گو اردو کی بدقسمتی کی وجہ ڈھونڈ لی ہے اور وہ بھی اصلی مگر مصروفیت کی وجہ سے ابھی خوش قسمتی انہیں مل نہیں سکی یا کترا رہی ہے ، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی کیونکہ خوش قسمتی مجھے بھی نہیں ملی گو اس کی وجوہات میں مصروفیت کہیں شامل نہیں۔ واحد رکن ہیں جو رجسٹر تو کر گئے تھے مگر پوسٹنگ شادی کے بعد شروع کر سکے اور اب تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے تمام شادی شدگان کو تازہ ہوا کی لہر آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ شادی کے بعد بھی کچھ کام کیاجاسکتا ہے ورنہ اب تک یہ خیال غالب تھا کہ شادی کے بعد صرف گھرداری ہی کی جاسکتی ہے۔ شادی سے پہلے آخری پوسٹ جنگل میں سفر کے بارے میں تھی ، اس کے بعد پھر شادی کی مبارکباد کی پوسٹ تھی ، ان دو پوسٹ کے درمیانی وقفہ کے بارے میں تاریخ اور آصف دونوں خاموش ہیں۔ شادی سے پہلے ان کا اردو بلاگ مشہور تھا اب شاید ان کی سعادت مندی مشہور ہے۔ آصف کی واپسی پر منفرد رکن کافی خوش ہوئی کہ اب اس کی بات سننے والا کوئی آگیا ورنہ نبیل اور زکریا سے تو نالاں ہی رہا کرتی تھی ، شروع میں آصف نے بھی خاصی خوش دلی سے اقرار کیا کہ وہ سب کے مسائل توجہ اور انہماک سے سنا کریں گے مگر پھر ان کی تعلیم مصروفیت آڑے آ گئی ( ازدواجی پابندیوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں اس سلسلے میں زکریا اور نبیل کی مثال دینا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ یہ دونوں حضرات برسا برس کی محنت کے بعد اب گھرداری اور نیٹ پر ٹائم دینے میں کامیاب توازن پیدا کر چکے ہیں۔ زکریا کا کچن کارنر میں گاہے بگاہے پایا جانا اس امر کی واضح دلیل ہے)۔ آصف نے اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو لغت کے لیے گرانقدر کام کیا ہے اور اس پر اچھی خاصی تحقیق بھی کی ہے۔ چند ہزار الفاظ کی کانٹ چھانٹ بھی کی اور لغت کے لیے ابتدائی مواد جمع کر لیا۔ اس پراجیکٹ پر گو ابھی کام کچھ رکا ہوا ہے مگر امید ہے جلد ہی یہ اہم پراجیکٹ شروع ہو جائے گا۔
نگاہِ دوربیں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے مقفل ہونے والے دھاگوں کو دور ہی سے بھانپ لیتے ہیں اور کبھی کبھار مطلع بھی کر دیتے ہیں کہ فلاں دھاگہ مقفل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے ، معلوم نہیں کہ ہر بار دوربینی ہی پس منظر ہوتی ہے یا کبھی چشمِ منتظم بھی کارفرما ہوتی ہے۔ بطور منتظم اچھے ہیں ، لوگوں کی خواہشیں بھی پوری کردیتے ہیں مگر چونکہ منتظم ہیں اس لیے پوری طرح خوش ہونے کا موقع نہیں دیتے اور تعمیلِ خواہش پر ایک عدد فرمائش بھی جڑ دیتے ہیں۔ آجکل پھر سے کم کم نظر آتے ہیں جبکہ جانتے بھی ہیں کہ زکریا کے نازک کندھوں ( ویسے نازک کہنا تو نہیں چاہیے خیر سے خاصے تنومند ہیں ) پر منتظمی کا سارا بوجھ آ پڑا ہے۔
 
سیفی

12 اگست کو سیفی نے محفل میں شمولیت اختیار کی اور ساتھ ہی خطوط بھی ارسال کرنے شروع کر دیے ( قیاس ہے کہ خطوں سے ان کا رشتہ پرانا ہے اور محفل پر خطوط کا ذکر سن کر دوڑے چلے آئے ہوں گے خیر اس پر زیادہ غور کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک قیاس ہے جو حقیقت سے بہت قریب بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ، قیاس جو ٹھہرا )۔ جیسبادی نے چائے کی ہرزہ سرائی شروع کی اور حسبِ معمول سامراج کو بھی گھسیٹ لائے اور خوب لتے لیے چائے پینے اور پلانے والوں کے ، زور قلم سارا کالی چائے پر صرف کیا ، سبز چائے اور چینیوں کے گن گاتے پوسٹ کا اختتام کیا۔ خوبی قسمت کہ سیفی بھی چند سال پہلے کالی چائے چھوڑ چکے تھے سو جھٹ ہاں میں ہاں ملانے کو کود پڑے اور سو فیصد اتفاق کا اظہار کیا اور بھی کرتے مگر سو سے زیادہ حساب میں روا نہیں کیا کیا جائے۔ چائے کی حمایت میں ایک کمزور دلیل پیش کرکے خود ہی اس کے بخیے ادھیڑ ڈالے کہ یہ تو بالکل نشیئوں والی منطق ہے ( یہ تو آپ لوگوں نے سنا ہی ہوگا کہ مقدمہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو کمزور دلیلیوں سے ہار ہی مقدر بنتی ہے )۔ دلیل یہ پیش کی کہ چائے پینے سے ٹینشن دور ہوجاتی ہے ( بھائی ہو جاتی ہو گی کچھ لوگوں کی اب ایسی بھی کیا بے اعتباری ) اور پھر حملہ آور یوں ہوئے کہ ٹینشن تو بذات خود چائے کی وجہ سے ہوتی ہے ( لو کر لو گل)۔ اب اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں تھوڑا غصہ میں ہوں ، چائے کی مخالفت کی مخالفت کر رہا ہوں اور خود چائے کا شوقین اور حامی ہوں تو آپ بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں اور اس پر خود کو داد نہ دیں کہ یہ تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ، آپ نے کوئی مسئلہ فیشا غورث نہیں بوجھ لیا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ، یہ جملہ معترضہ بھی خوب اصلاح ہے جو ادیب لوگوں نے کسی بھی مضمون پر تسلسل سے بات کرتے کرتے کوئی بھولی ہوئی یا اپنی دل پسند بات کہنے کے لیے گھڑ رکھی ہے اور نام بھی کیا خوب رکھا ہے اعتراضی جملہ یعنی جملے کے جملے اور اعتراض والا بھی لکھنے والا خود ہی ویسے اس سے سہولت بہت ہوتی ہے اور بات کو جہاں مرضی سے جدھر مرضی لے جائیں بس آخر میں لکھ دیں کہ یہ تو جملہ معترضہ تھا ، اللہ اللہ خیر سلا۔ پڑھنے والا کتنا ہی چیں بچیں ہو جائے لکھنے والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ اس نے یہ لکھ کر اپنا دامن ویسے ہی صاف بچا لیا جیسے انگریز لوگ بڑی سی بڑی غلطی کرکے سوری کہہ کر غلطی کا ازالہ کر دیتے ہیں جیسے اس جادوئی لفظ کے بعد ساری چیزیں اپنی ٹھیک حالت میں آجاتی ہیں۔
ہاں تو بات ہورہی تھی سیفی کی چائے پر ، سیفی کا کہنا ہے کہ چائے کا ساتھ چھوٹے پانچ سال ہوئے اور ساتھ ایسے چھوٹا جیسے طلاق مطلق ہوگئی ہو چونکہ یہاں کچھ ابہام تھا اور پڑھنے والے کو یہی لگتا کہ طلاق یقینا سیفی کو ہوئی ہوگی اس لیے جھٹ قوسین میں لکھ دیا کہ (چائے کو) ۔ اس کے بعد جیسے کہ عادت ہے یار لوگوں کو چائے کی پیالی میں طوفان لاتے ہوئے بات پہنچ گئی سامراج اور اجارہ دار کمپنیوں تک وہاں سے ہوتی ہوئی نشہ تک اور پھر نشہ آور پیدوار اور پروردگاروں تک اور چل سو چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی دور تک بات نکلے تو امریکہ بہادر تک نہ پہنچے تو دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں کہ یا تو بحث کرنے والے امریکی ہیں یا سوچ کے پنچھیوں کی پرواز ابھی تازہ تازہ ہے۔ جس معاملے کی طرف کوئی اور توجہ نہ دے اس طرف توجہ بھی دیں گے اور احتیاط بھی جاری رکھیں گے کہ زیادہ ٹانگ اڑا کر ٹانگ تڑوانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ شاید ابھی زیادہ تجربات نہیں ورنہ یہ نہ کہتے کہ زیادہ ٹانگ اڑانے سے ٹانگ ٹوٹتی ہے بلکہ یہ جانتے کہ کچھ لوگ خود ہی ٹانگ کھینچ کر توڑنے کا کام فی سبیل اللہ کر دیتے ہیں۔ زکریا سے ایک ٹکا سے جواب لے کر امیدوں کا مرکز و محور نبیل کی ذات کو بنا لیا اور قربتِ دل بڑھانے کے واسطے کئی باتیں کہہ چکنے کے بعد ایک دو فرمائشیں بھی کرڈالیں اور دورِ جمہوریت کی دہائی دے کر نبیل معصوم کو اس شعر کے جال میں پھنسانے کی حتی الامکان کوشش کی

عہدِ وفا یا ترکِ محبت جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے


فرمائش پوری ہوئی یا نہیں اس کی تو خبر نہیں مگر سیفی کی چند خدا داد صفات کا علم ضرور ہوگیا جن میں سرفہرست عمدہ اشعار کو اپنے مقاصد کے لیے بروقت استعمال کرنا۔ حسِ مزاح خوب پائی ہے ، ثناء ( جو شادی کے بعد نہ پلٹے کہ اس مقام سے چند ہی سرفروش سرخرو ہو کر لوٹتے ہیں) نے غالب کی ایک غزل بہت پسند کی اور سیفی سے اصرار کیا کہ باقی اشعار بھی پوسٹ کریں اور یہ بھی پوچھا کہ ہزاروی تخلص ہے کہ شوق سے لکھا ہے ۔ اس پر سیفی گویا ہوئے کہ

پسندیدگی کا شکریہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ غالب نے دیوانِ غالب میں صرف یہی اشعار لکھے ہیں۔ اگر جی کڑا کر کے دو چار اور بھی لکھ دیتے تو آپ کو گلہ کی نوبت نہ آتی۔
میں ہزارہ کا رہنے والا ہوں۔ اور ہزاروی میرا تخلص بھی ہے۔ اسلئیے ہزاروی لکھتا ہوں۔ شوق کی عمر تو بیت چکی کب کی۔۔۔


محفل پر بعد میں آنے والے چند ممبران سے مل لیے ہوتے تو یہ نہ کہتے ہیں کہ شوق کی عمر تو کب کی بیت چکی بلکہ کہتے کہ شوق تو اب انگڑائیاں لے کر بیدار ہورہے ہیں ( اب اور کیا لکھوں کہ آگے اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں )۔ سادہ ایسے کہ چھپنے کو جگہ ڈھونڈتے ہیں اور جگہ نہیں ملتی ( جگہ خود چھپتی پھرتی ہے کہ سیفی کو چھپا کر کبھی چھپا ہے کوئی ) ، اس وجہ سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں ، اب بھلا پکڑے نہ جائیں تو کیا چھپے رہیں ایسے اعلی چھپنے کے طریقے تو اب بچے بھی نہیں آزماتے مگر اب سیفی کو کون سمجھائے۔ خطوں سے سیفی کی محبت کا ذکر شروع میں کرچکا ہوں اب اس کا ثبوت ملاحظہ ہو جس میں فونٹ کا ترجمہ “خط“ کرتے ہوئے سیفی رقمطراز ہیں

میرے خیال میں خط کو پہلے لکھ کر کسرِ اضافی لگانے سے بہتر ہے کہ نام کے بعد خط لگا دیا جائے۔۔۔۔(خصوصا انگریزی ناموں کے بارے)

خطِ نیو ٹائمز رومن۔۔۔۔۔۔۔۔۔خطِ تاہوما

نیوٹائمز رومن خط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاہوما خط۔۔۔۔۔۔۔۔سینز سیرف خط

اردو میں تاہم خط کا لفظ پہلے ہی مزہ دیتا ہے۔۔۔


حفظِ ماتقدم کے طور پر سیفی نے خطِ استوا ، خطِ مستقیم اور سب سے بڑھ کر نازنینوں ، حسینوں کے خطوط کا ذکر نہیں کیا جن میں لفظ شروع میں بھی مزہ دیتے ہیں اور آخر میں بھی یعنی اول تا آخر مزیدار ہوتے ہیں۔ شاعری سے محبت کرتے ہیں اور ہزارہ سے بھی اب تخلص مین جو ہزاروی لکھتے ہیں وہ جانے ہزارہ کی نسبت سے ہے یا محبت کی گنتی ہزار تک پہنچی ہے۔ دستخط میں ایک عمدہ شعر لکھ رکھا ہے جو سیفی کی یاد دلاتا رہتا ہے ۔

ہم زند گی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے
 

اجنبی

محفلین
محب علوی نے کہا:
قدیر

رانا قدیر نے ٣ جولائی کو شمولیت اختیار کی ، انہیں شاید نبیل نے روکا ہوا تھا کہ میں نے ایک دن آرام کیا ہے تم تین دن آرام کرنا ۔
اہم ترین کارہائے نمایاں phpbb کی فائلوں کا ترجمہ ہے اور محفل کو آغاز میں رونق بخشنا

ایک تو میرا نام گڑبڑ کر کے لکھا گیا ، قدیر احمد لکھا جاتا تو کہیں بہتر ہوتا ۔ دوسرا یہ کہ تعارف کافی مفصل ہے :roll:

ویسے اس تعارف کو “مختصر اور جامع“ کہا جاسکتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ محب صاحب مجھے سے خائف تھے جب انہیں یہ سب لکھنا تھا ۔ :lol:
 
شکریہ

محب بہت دیر سے تمہاری کاوش دیکھی، شکریہ ہی کر سکتا ہوں تمہاری محنت کا۔ غالباً میری تحریروں پر یہ سب سے مفصل تجزیہ ہے :)
 
جہانزیب نے ٠٧ ستمبر کو محفل میں شمولیت اختیار کرکے اپنا نام اکابرین بلکہ کسی حد تک منتظمین میں لکھوا لیا۔ سیاست کے دھاگوں کے شوقین ہیں ، چند امریکی سیاستدانوں کی بک بک سے نالاں ہیں اور ونزویلا کے صدر اور عوام پر امریکہ میں بیٹھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ( پس ثابت ہوا کہ فخر کرنے کے لیے آپ کا بیدار مغز اور معاملہ فہم ہونا زیادہ ضروری ہے بجائے کوئی کارنامہ یا کار ہائے نمایاں انجام دینا )
جب تک خاص باتیں کرتے رہیں ناظموں میں سے رہتے ہیں جیسے ہی عام باتیں شروع کی تو محفل پر مہمان بن جاتے ہیں اور پھر نبیل کے توجہ دلاؤ نوٹس پر دوبارہ محفل میں شریک ہو کر ہمارے سروں پر سوار ہوجاتے ہیں اس کسر نفسی کے ساتھ کہ اپنی چھوٹی اور عام باتوں کے ساتھ ہمارے سروں پر ہی سوار رہیں گے اور ہم برداشت بھی کرتے رہیں گے یعنی زبردست مارے اور رونے بھی نہ دے کا عملی مظاہرہ۔ شروع شروع میں ایک دھاگہ شروع کیا جس کا نام رکھا “ چلو جی عام سی باتیں کریں “ ، جانے کیا سوچ کر یہ عنوان رکھا حالانکہ پتا بھی ہے کہ لوگ عام سی باتیں ہی کریں گے خاص باتیں تھوڑی کریں گے آپ سے مگر شاید دل کی تسلی اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھ دیا۔ سادگی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کون سی بات عام ہے کون سی آم سی ہے اور کون سی بات خاص ہے۔ اب کون بتائے کہ اگر کسی کو یہ بات پتا بھی ہوگی تو وہ اتنا تردد کرکے آپ کو کس لیے بتائے گا اور وہ بھی سر راہ۔ ہجوں کے کچے ہیں اور اکثر کچھ کا کچھ لکھ جاتے ہیں۔ اعترافیہ بیان میں لکھتے ہیں


“اس وقت جو عام سی بات مجھے مجھے تنگ کر رہی ہے وہ ہے اس کی بورڈ کا مختلف ہونا لکھتا کچھ ہوں ہوتا کچھ اور ہے مگر یہ صیح ہو جائے گا صرف ٣-٤ حروف کا ہی فرق ہے اور لکھنا صرف ہوتا ہے بن شرف جاتا ہے اب کیسا شرف؟ جی ایک تو اس فورم کا رکن ہونے کا دوسرا ابھی کنوارا ہونے کا۔۔واہ کیا کہا کنوارہ ہونا کون سا شرف ہے میرے بھائی یقین کرو آج کے دور میں یہ ایک شرف ہی ہے جو اسراف سے بچاتا ہے۔۔ تو اسراف سے بچ رھا ہوں میں؟ مطلب کنجوس تو نہیں سمجھ رہے نا آپ مجھ کو ایسی بات نہیں ہے میری امی ہر ھفتے کی تنخواہ مجھ غریب سے اس لئے لے لیتی ہیں کہ گوروں کی طرح ھفتے میں اڑا دوں گا۔۔تو ایسا کرنے سے میں گورا بن جاؤں گا وھ تو فیر اینڈ لولی سے بھی نہیں بن پایا۔۔ایسے ہی اونچی دکان اور پھیکا پکوان۔“


پڑھا آپ نے صرف اور شرف کا فرق اور پھر کنوارگی کا شرف جو اسراف سے بچاتا ہے ۔ کس خوبی سے شادی نہ ہونے کے غم کو کنوارہ پن کے شرف میں چھپا لیا اور ساتھ ہی اسراف سے بچنے کا ذکر بھی کردیا ہے شکر ہے ساتھ میں اخلاقیات کا لیکچر نہیں شروع کردیا ورنہ ہر کنوارہ تاحیات کنوارہ رہنے کا عزم کر لیتا ( اچھا اگر سارے نہیں تو چند کنوارے تو بہک ہی جاتے نہ )۔

ایک دفعہ محفل پر سیاست کے پرانے کھلاڑی ( جی ہاں دو ہی امیدوار ہیں اب تک ماورا اور محب) الیکشن الیکشن کھیل رہے تھے اور حسب معمول گرمی بازار اور رونق محفل عروج پر تھی۔ گو دونوں امیدوار ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے ووٹ بڑھا رہے تھے مگر محب علوی خصوصا ووٹ پڑنے کے دوران آنے جانے والوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ جہانزیب آن لائن ہوئے ہیں ، فورا سے پیشتر ایک ذاتی پیغام بھیجا جس میں سلام دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد دلپذیر پیرائے میں الیکشن کی صورتحال بیان کی اور پھر انصاف کا ساتھ دینے پر زور دیتے ہوئے مقدس ووٹ کاسٹ کرنے کی اپیل کی ، ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ پہلے اور ذاتی طور پر رابطہ کرنے کی بنا پر ووٹ کا اولین حقدار سمجھا جائے اور کچھ شرائط ہیں تو وہ بھی طے کر لی جائیں مگر ووٹ صرف محب علوی کو ہی دیا جائے۔ جہانزیب نے اس وقت تو شانِ استغنا سے کہہ دیا کہ میں سوچ سمجھ کر اور حالات و واقعات کا جائزہ لے کر ووٹ دوں گا مگر ووٹ مخالفین کو ہی ڈال دیا اور پھر معذرت کی ایک پوسٹ کر دی کہ غلطی سے غلط ووٹ ڈال دیا۔ ملاحظہ ہو بیان

میں نے غلطی سے غلط ووٹ کاسٹ کر دیا ہے :twisted:

اب اس سادگی اور غلطی پر کون نہ کٹ مر جائے۔

جہانزیب کا سب سے اہم کام محفل پر قوائد و ضوابط مرتب کرنا ہے(جس میں لکھا ہے کہ پوسٹ کرنے سے پہلے ان کا خیال رکھیں) اور پھر اسے ہر فورم پر چسپاں کرنا ہے تاکہ ہر کوئی جہانزیب سے محتاط رہے اور ساتھ میں جان بھی لے کہ جہانزیب نام ہے کس بلا کا۔

پوسٹ بہت کم کرتے ہیں کیونکہ خود بھی قوائد و ضوابط کا بہت خیال رکھتے ہیں :lol:
 
شمیل قریشی​

10 ستمبر کو محفل کے اب تک کے سب سے معصوم اور بھولے رکن کی آمد ہوتی ہے ، جی ہاں کوئی اور نہیں بلکہ ہم سب کا پیارا اور بے ضرر شمیل قریشی ۔ سب سے پہلے آ کر ‘ آنے والا کون ہے ‘ دھاگے پر جا کر اپنی آمد کی اطلاع دی کہ میں بھی تو ہوں ( مجھے بھی تو دیکھے سمجھے کوئی ) اور آنے والے کی اطلاع دینے کی زحمت کیے بغیر ہی چلے آئے۔ اس پر افتخار راجہ نے پوچھا کہ اگلے بندے کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنی تو فرمایا کہ
اب میں دوبارہ اور
پھر کہیں جا کر آپ


فرذوق نے فورم میں ابھی شمولیت اختیار کرکے گانوں کے کھیل میں پوسٹ کرنا شروع ہی کیا تھا کہ شمیل نے موقع اچھا سمجھتے ہوئے خوش آمدید کہا اور بجائے یہ کہنے کہ مجھے بھی آپ کی طرح پرانے گانے پسند ہیں یوں گویا ہوئے

محفل میں آپ کے تعارف سے معلوم ہوا کہ آپ کو میری طرح پرانے گیتوں سے لگاؤ ہے ۔

اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ پوچھا کہ پرانے گلوکاروں میں کون پسند ہے اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہی یہ بھی بتا دیا کہ مجھے تو بہرحال لتا منگیشکر پسند ہیں ( اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو اپنی پسند سے رجوع کر لو ورنہ ۔۔۔۔ خود سمجھدار ہو)۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک گیت کی فرمائش بھی کر ڈالی کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں کیا آپ کے پاس ہے ( بہت خوب ڈھونڈ خود رہے ہو بھائی اور پوچھ نئے نویلے معصوم رکن سے رہے ہو )
کوئی شہر کا نام پوچھے تو ج سے جلوانا بتاتے ہیں پھر کوئی شہر کا نام نہیں پوچھتا کہ جانے آگے کیا حال کرے۔ جیسبادی کو بھائی بھی کہنے سے باز نہیں آتے اور ساتھ میں یہ فرمائش بھی کرتے ہیں کہ ایسی تصویر لگائیں جس میں پینگوئن کی جگہ اپنا چہرہ واضح ہو ( معلوم نہیں اس پوسٹ کے بعد جیسبادی اور پینگوئن کے تعلقات کیسے ہیں اور جیسبادی نے کس کو ترجیح دی خود کو یا پینگوئن کو )۔ زکریا کی بہت جی حضوری کرنے کی عادت ہے ، جی زکریا ، شکریہ زکریا ، اچھا زکریا ، میں کرتا ہوں زکریا ، میں آتا ہوں زکریا ۔۔۔۔۔۔۔ اور جانے کیا کیا زکریا ، منتظمین کا اتنا احترام کسی اور کو کرتے ان گہنگار آنکھوں نے نہیں دیکھا ہے جتنا شمیل قریشی نے کیا ہے۔
گانوں کی طلب شمیل کو اس طرح اٹھتی ہے جس طرح کسی کو نشہ کی حاجت ہوتی ہے ایک دم تیز اور سخت بے چینی مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ طلب کہاں سے پوری ہوگی نہ ہی پوری معلومات ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو شدید طلب کا ایک منظر

مجھے ایک پرانے گیت کی اشہد طلب ہے ۔ یہ گیت لتا منگیشکر کی آواز میں ہے ۔گیت کے بول ہیں " یہ دل اور ان کی نگاہوں کے سائے " ۔فلم کا نام معلوم نہیں ۔

ایک جگہ تفسیر نے غلطی سے کہہ دیا کہ اس مصرعہ کے ساتھ مصرعہ ملاؤ

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

شمیل کی تو جیسے برسوں پرانی آس بر آئی جتنے ارمان تھے سب مصرعوں میں لکھ ڈالے

یؤں نہ ہو کہ یہ رت ملن کی بے قرار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے

َکہیں روتا ہوا یہ موسمِ بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے

ے آنگن سے تو پہلے ہی غم گسار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے

ہے یہ خواہش تیرا افسوں بار بار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے


ساتھ لکھ ڈالا کہ مزید بنا رہا ہوں ، نتیجہ یہ نکلا کہ منفرد ممبر نے اپنی طرف سے مصرعہ پوسٹ کرنے کی فرمائش شروع کردی جسے سادہ لوح شمیل نے فورا قبول کر لیا اور اگلے مصرعے منفرد ممبر کی طرف سے اپنے نام سے پوسٹ کرنے شروع کردیے جس سے منفرد ممبر کی چالاکی اور شمیل کی سادگی دونوں طشت از بام ہوگئے۔ شمیل کو شک ہوا بھی تو تفسیر پر کہ کہیں وہ بانس پر تو نہیں چڑھا رہے پر تصدیق چاہی تو کس سے گنوں کی پوری منفرد ممبر سے کہ ماجرا کیا ہے۔ منفرد ممبر نے اپنے نام سے شعر پوسٹ ہونے سے رکتے دیکھے تو فورا کہا بھئی صحیح جا رہے ہو نا بس اگلا مصرعہ میری طرف سے پوسٹ کردینا ( باقی میری بلا جانے کہ ٹھیک جا رہے ہو کہ نہیں میرا کام تو نکلے ) پھر خیال آیا کہ نہیں تعریف کرنی چاہیے کہیں بندہ ہاتھ سے ہی نہ جائے ، لکھ ڈالا

نہیں واقعی، بہت اچھے ہیں۔۔اور ویسے بھی حوصلہ افزائی سے ہی تو انسان آگے بڑھتا ہے نا۔

شمیل نے جھٹ تین اور مصرعے منفرد ممبر کے نام کر ڈالے اور مزید بنانے کا بھی لکھ ڈالا۔ خدا جانے گھر مصرعے بنانے کا آٹومیٹک پلانٹ لگا لیا تھا جو دھڑا دھڑ مصرعے بن رہے تھے بہرحال یہ شمیل شعر فیکڑی اعجاز صاحب کی تیز نظروں سے بچ نہ سکی اور انہوں نے جھٹ شمیل کو ففٹی ففٹی میں بزنس کی آفر کر ڈالی۔ تفسیر نے بھی اپنے دھاگے کی رونق بڑھتے دیکھ کر ہلا شیری دی شمیل کو کہ جاری رکھیے نکہار آرہا ہے ۔ ہجوں کی غلطیوں کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ سے تفسیر کا نکھار ایسا بن گیا جیسے کوئی نہ کہہ کر ہار رہا ہو۔ پریم روگ بھی لگا بیٹھے جس کا ایک جگہ یوں اعتراف کیا

لگا لگا لگا رے
لگا لگا لگا رے
لگا لگا لگا رے لگا پریم روگ

اب اتنے دل سے لگا لگا کر لگاؤ گے تو بھائی پریم روگ لگے بغیر کیسے رہے گا۔ پریم روگ چھوڑ کر کوئی بھی روگ لگ جائے گا ، پریم روگ تو ویسے ہی لگنے تو تیار کھڑا ہوتا ہے۔

فرذوق کا اتنا خیال رہتا ہے جتنا خود فرذوق کو بھی اپنا نہیں رہتا ہوگا۔ اس کی جان کو ننھی سمجھ رکھا ہے جبکہ غیر اعلانیہ طور پر محفل پر شمیل کی جان کو سب سے ننھی سمجھا جاتا ہے البتہ بتایا نہیں جاتا کہ ننھی جان ہے یہ خبر سہہ نہ سکے گی۔ بات ہو رہی تھی شمیل کے خیال رکھنے کی ، ایک جگہ سب کو یوں سمجھایا

فرزوق کو کل اعجاز صاحب نے ڈانٹا تھا کہ پڑھتے نہیں ہو اور یہاں آتے جاتے رہتے ہو ۔شمشاد بھائی نے آج ٹکا سا جواب دے دیا ۔ مجھے تو ڈر ہے ننہی سی جان کا کہیں
دل نہ ٹوٹ جائے ۔فرزوق اس محفل کا لا ڈلا اور سب سے کم سن رکن ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھا جا‎‎ئے ۔


آپ نے دیکھا کس خوبصورتی سے سب کو خبردار بھی کردیا اور فرذوق کے ساتھ ساتھ اپنے لاڈ بھی اٹھوالیے۔مزید فرذوق سے اپنی انسیت اور تعلق کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں

“ میں تمہارا ہر خط ضرور پڑھتا ہوں ۔ پتا نہیں کیوں مجھے تمہاری ہر تحریر میں معصومیت ، شرافت ، سادگی اور روحانیت محسوس ہوتی ہے ۔
انسان کی خوبصورتی معصومیت میں پوشیدہ ہے ۔ اسے کبھی جانے نہ دینا ۔
خوش رہو ۔ “


یہ سب پڑھ کر معصوم فرذوق خوش تو بہت ہوا مگر ان باتوں پر یقین لانے میں کچھ تامل ہوا اور بے اختیار پوچھ بیٹھا کہ ویسے کہیں آپ نے مسکا تو نہیں لگایا نہ ۔ جو کلمات شمیل نے فرذوق کے لیے ادا کیے ہیں بعینہ یہی کلمات شمیل کے لیے بھی کہے جا سکتے ہیں بلکہ میرے خیال میں شمیل نے درپردہ اپنی ہی بات کہی ہے بس نام فرذوق کا لیا ہے ورنہ یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم شمیل میں پائی جاتی ہیں۔ سب سے دلچسپ شے جو شمیل کے محسوسات میں ہے وہ ہے روحانیت جو اسے فورا سے پیشتر ہو جاتی ہے جیسا کہ آپ نے ابھی پڑھا کہ فرذوق کے آنے کے کچھ دیر بعد ہی شمیل کو روحانیت محسوس ہونے لگی اور وہ بھی ہر تحریر میں چاہے وہ گانے اور فلموں کے دھاگے میں ہی کیوں نہ ہو۔ اور تو اور راقم بھی شمیل کی روحانیت کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکا اور ایک جگہ یہ پڑھ کر حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا

محب بھائی مجھے آپ سے ایک روحانی تعلق ہے۔

اس کے پیچھے جڑی کہانی خود شمیل کی زبانی

لگتا ہے کہ محب بھائي مجھ سے ناراض ہیں اور وہ بھی اسی دن سے جب میں نے جشن آزادی کے سلسلے میں کچھ وال پیپرز بنائے تھے اور ایک میں صدر پرویز مشرف صاحب کی تعریف میں بھی بنایا تھا ۔ اور اس دن ہی محب بھائی کا ایک نہایت چھوٹا لیکن پر زور سا پیغام بھی دیکھنے کو ملا کہ میں اس وال پیپر کو ہٹاوں ۔ پر میں اپنی سستی کی وجہ سے وہ نہ ہٹا پایا اور اس دن سے محسوس کرتا ہوں کہ محب بھائي مجھ سے دور دور سے رہتے ہیں ۔ پر آج معلوم ہوا ہے کہ وہ کونسلر کے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں تو یہ بات تو پکی ہے کہ ان کی سیاسی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے رہی ہو گی اور وہ یقیناً پرویز صاحب سے نفرت کرتے ہیں ۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی نہیں رکھتا اور نان پولیٹیکل نیچر رکھتا ہوں ۔میں نے ابھی تک ووٹینگ میں حصہ نہیں لیا ۔ اور صدر صاحب کی تصویر میں نے اپنے ملک کے صدر کو عزت دینے کے لیے کی تھی نہ کہ صدر صاحب کی ذاتی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش کی تھی ۔

مجھے امید ہے کہ محب بھائی ( جن سے میں اس اردو محفل میں ایک مخصوص روحانی وابستگی رکھتا ہوں ) میری یہ صفائی قبول کریں گے ۔


محب کا جواب اس پوسٹ پر

استغفراللہ شمیل (نبیل تمہارا آدھا قرض تو شمیل پر اتر جائے گا )‌ Laughing کیسی باتیں کر رہے ہو۔

میں اور تم سے ناراض اور وجہ مشرف کا وال پیپر ۔۔۔۔۔۔۔لا حول ولا قوتہ
نہ تو میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے اور نہ میں کسی سیاسی جماعت سے فی الحال کوئی وابستگی رکھنا چاہ رہا ہوں۔

کونسلر کا الیکشن میں لڑ چکا ہوں
مگر صرف نبیل کی تحریر اور تخیل میں :wink:
ضمانتیں ضبط ہونے والی بات پڑھ کر تو میری ہنسی نہیں رک رہی تھی اور تم نے سچ سمجھ لیا ، کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں الیکشن لڑوں تو میری ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی ( اتنا غیر مقبول یا غیر معقول سمجھ لیا ہے تم نے مجھے :lol: )

تمہاری آخری بات میں چونکہ روحانیت کا ذکر ہے جس سے مجھے مستقبل میں کوئی روحانی گدی ملنے کی توقع پیدا ہورہی ہے تو اگر تم صفائی دینے کی بجائے وقت آنے پر مریدی کا وعدہ کرو تو میں تم پر لطف و کرم کی بارش کر دوں گا۔
باقی کسر جو اس پیغام میں رہ گئی ہے وہ میں تمہاری محفل کی سرگزشت میں باری آنے پر پوری کروں گا۔ Laughing ( شمیل دیکھ لو میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے اور اس پوسٹ کو خاص یاد رکھا ہے )


بقول نبیل؛ شمیل اتنی مرتبہ اپنی روح کو پہنچنے والی تکلیف کا ذکر کر چکے ہیں کہ انہیں کچھ کہتے ہوئے اب ڈر ہی لگتا ہے۔کسی بے ضرر سی بات پر بھی ان کی روح کے مَسَل پُل ہوجاتے ہیں۔
Music


شمیل بظاہر کام کرنے کو تیار ، چست و چوبند اور پرجوش نظر آتے ہیں مگر درپردہ کام کسی اور سے نکلوانے اور کروانے کے مشورے اور ترکیبیں پیش پیش رہتی ہے ۔ شمیل بہت اچھے گرافک ڈیزائنر ہیں اور رنگوں سے کھیلنے کا شوق بھی کافی ہے ( اس سے آپ شمیل کو رنگین مزاج نہ سمجھ لیجیے گا بس رنگ اچھے لگتے ہیں دور سے خود کبھی نہ ہاتھ رنگے ہیں اور نہ کبھی رنگے ہاتھوں کہیں پکڑے گئے ہیں)۔ ملاحظہ ہو ایک زور دے کر کسی اور سے کام کروانے کی مثال جس میں زور سارا کسی سے کام کروانے پر ہے مگر ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بھی بالکل تیار ہیں (جانے اپنی ذمہ داریوں سے کیا مراد ہوتی ہے شمیل کی )

“نبیل بھائی ، آپ دوبئی والے شعیب بھائی سے ویب سا‏ئیٹ کو ڈیزائن کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے ؟ وہ بھی بہت اچھے گرافک ڈیزائنر ہیں ۔میں اپنی ذمہ داریاں سمبھالنے کے لیے بالکل تیار ہوں
( یہ تیاری ہے تو پھر عیاری کیا ہے ) “۔

شمیل کو اردو سے لگاؤ ہے اس لیے بقول ان کے وہ محفل پر چلے آتے ہیں ورنہ اکثر اوقات پڑھائی کرتے ہی پائے جاتے ہیں جس کی ایک بنیادی وجہ ان کی والدہ کا پرنسپل ہونا بھی ہے گو شمیل کا اصرار ہے کہ پڑھائی کا شوق ان کا ذاتی ہے نہ کہ کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ۔شمیل کو شاعری کا بہت شوق ہے اور بس نہیں چلتا کہ کس طرح کسی کو دے دلا کر شاعر بن جائیں ، تفسیر نے ایک سلسلہ شروع کیا تو فورا ٹپک پڑے۔

مجھے شاعری کرنے کا بہت شوق ہے پر شاعری کبھی نہیں کی ۔ اب تفسیر صاحب کی شاعری کلاسوں میں شرکت کر کے امید بندھ چلی ہے کہ شاعری آ ہی جائے گی ۔ جسے ہی تفسیر صاحب نے کہا کہ شمیل میاں اب تم اچھی شاعری کرنے لگے ہو میں سب سے پہلے نعت لکھ کر اپنی شاعری کی شروعات کروں گا ۔

نعت کا اس لیے لکھا کہ اگر کوئی شاعری کو بے وزن سمجھے بھی تو ادب کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکے ورنہ نو آموز شعرا کا جو حال لوگ کرتے ہیں وہ احاظہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔

اسکول سے جڑی اپریل فول کی کہانی خود شمیل کی زبانی


شمیل کو اب تک اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں آیا ہے اور فورم پر پوچھتے پھرتے ہیں کہ

اپنے منہ میاں مٹھو کیسے بنتے ہیں ( اب بھلا یہ کوئی بتانے والی یا سکھانے والی بات ہے ) ۔

شمیل جیسے سادہ ، صلح جو اور مخلص لوگ اب نایاب ہیں اور جتنی بھی قدر کی جائے وہ کم ہے۔ شمیل پر اور بھی لکھنے کو بہت جی چاہ رہا ہے مگر پہلے ہی خاصہ طویل ہوگیا ہے اور شمیل کی اپنی تحریریں ہی ایسی ہیں کہ کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
 
Top