اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

یہ ٹائپ نہیں کرتے، کاپی پیسٹ کرتے ہیں۔
تلاش کرنا پھر یہ دیکھنا تحریر اصل حالت میں ہے مطلب صیح ہونے کی تصدیق کرنا یہ کوئی آسان کام ہے کاپی پیسٹ بھی بہت مشکل کام ہے محمد خلیل الرحمٰن سرکبھی آپ بھی ایک کوشش کریں پتہ چل جائے گا ہم کتنی محنت کرتے ہیں
 
عجب صدا یہ نمائش میں کل سنائی دی
کسی نے سنگ سے تصویر کو رہائی دی

سنہرے حرف بھی مٹی کے بھاؤ بیچ دیے
تجھے تو میں نے نئے ذہن کی کمائی دی

بچا سکی نہ مجھے بھیڑ چپ کے قاتل سے
ہزار شور مچایا بہت دہائی دی

وہ شخص مر کے بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا
کہ اک زمانے نے جنبش تو انتہائی دی

کبھی وہ ٹوٹ کے بکھرا کبھی وہ جمع ہوا
خدا نے اس کو عجب معجزہ نمائی دی
اقبال ساجد
 
لگا دی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی
بشر کے نام کر دی ہے خدا نے کائنات اپنی

خلا کے آر بھی میں ہوں خلا کے پار بھی میں ہوں
عبور اک پل میں کرتا ہوں حدو ممکنات اپنی

جیوں گا اپنی مرضی سے مروں گا اپنی مرضی سے
مرے زیر تسلط ہے فنا اپنی حیات اپنی

لکھی ہے میں نے اپنے ہاتھ پر تحریر آئندہ
مری اپنی وراثت ہے قلم اپنا دوات اپنی

میں خود پر آزماؤں گا خود اپنا آخری داؤ
خبر ہے مجھ کو ساجدؔ جیت بن جائے گی مات اپنی
اقبال ساجد
 
بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں
دوستو میرے دکھوں کو مشتہر کرتے ہو کیوں

کوئی دروازہ نہ کھولے گا صدائے درد پر
بستیوں میں شور و غل شام و سحر کرتے ہو کیوں

مجھ سے غربت مول لے کر کون گھر لے جائے گا
تم مجھے رسوا سر بازار زر کرتے ہو کیوں

آنکھ کے اندھوں کو کیوں دکھلاتے ہو پرواز حرف
کاغذوں پہ اب تماشائے ہنر کرتے ہو کیوں

تذکرہ لکھتے ہو کیا میری شکست و ریخت کا
لفظ کی بستی میں معنی کو کھنڈر کرتے ہو کیوں

دوستو! بینائی بخشے گی تمہیں ان کی اڑان
پنچھیوں کو چھوڑ دو بے بال و پر کرتے ہو کیوں

لفظ اگر بوتے تو پھر فصل معانی کاٹتے
دوستو! اب شکوۂ اہل ہنر کرتے ہو کیوں

ظالموں کے ساتھ مل جاؤ رہوگے عیش میں
عمر ساجدؔ کسمپرسی میں بسر کرتے ہو کیوں
اقبال ساجد
 
سنگ دل ہوں اس قدر آنکھیں بھگو سکتا نہیں
میں کہ پتھریلی زمیں میں پھول بو سکتا نہیں

لگ چکے ہیں دامنوں پر جتنے رسوائی کے داغ
ان کو آنسو کیا سمندر تک بھی دھو سکتا نہیں

ایک دو دکھ ہوں تو پھر ان سے کروں جی بھر کے پیار
سب کو سینے سے لگا لوں یہ تو ہو سکتا نہیں

تیری بربادی پہ اب آنسو بہاؤں کس لیے
میں تو خود اپنی تباہی پر بھی رو سکتا نہیں

جس نے سمجھا ہو ہمیشہ دوستی کو کاروبار
دوستو وہ تو کسی کا دوست ہو سکتا نہیں

خواہشوں کی نذر کر دوں کس لیے انمول اشک
کچے دھاگوں میں کوئی موتی پرو سکتا نہیں

میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر
آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں

مجھ کو اتنا بھی نہیں ہے سرخ رو ہونے کا شوق
بے سبب تازہ لہو کی فصل بو سکتا نہیں

یاد کے شعلوں پہ جلتا ہے اگر میرا بدن
اوڑھ کر پھولوں کی چادر تو بھی سو سکتا نہیں

ہاتھ جس سے کچھ نہ آئے اس کی خواہش کیوں کروں
دودھ کی مانند میں پانی بلو سکتا نہیں
اقبال ساجد
 
مجھے نہیں ہے کوئی وہم اپنے بارے میں
بھرو نہ حد سے زیادہ ہوا غبارے میں

تماشا ختم ہوا دھوپ کے مداری کا
سنہری سانپ چھپے شام کے پٹارے میں

جسے میں دیکھ چکا اس کو لوگ کیوں دیکھیں
نہ چھوڑی کوئی بھی باقی کشش نظارے میں

وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا
اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں

تمام لوگ گھروں کی چھتوں پہ آ جائیں
بڑی کشش ہے نئے چاند کے نظارے میں

ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کی
میں کیا ہوں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں

پرانی سمت مڑے گا نہ کوئی بھی ساجدؔ
یہ عہد نو نہ بہے گا قدیم دھارے میں
اقبال ساجد
 
ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں
تو ہے خوش قسمت اگر تجھ سے حسد کرتا ہوں میں

بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرح
نفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں

کوئی اپنے آپ کو منوانے والا بھی تو ہو
ماننے میں کب کسی کے رد و کد کرتا ہوں میں

کچھ شعوری سطح پر کچھ لا شعوری طور پر
کار فکر و فن میں اب سب کی مدد کرتا ہوں میں

اس لیے مجھ سے خفا ہیں اہل گلشن آج کل
رنگ جھٹلاتا ہوں خوشبو مسترد کرتا ہوں میں

میرے جذبوں سے بچاؤ نیک دل لوگو مجھے
روز او شب ان بد معاشوں کی مدد کرتا ہوں میں

دوسروں کے واسطے لکھا ہوا لگتا ہے جھوٹ
اپنی سچائی کو اکثر آپ رد کرتا ہوں میں

رنگ پر آئی ہوئی ہے اب جنوں خیزی میری
روز و شب توہین ارباب خرد کرتا ہوں میں

طوق گردن میں پہنتا ہوں لہو کی دھار کا
خلق کو حیران ساجدؔ زد بہ زد کرتا ہوں میں
 
وہ مسلسل چپ ہے تیرے سامنے تنہائی میں
سوچتا کیا ہے اتر جا بات کی گہرائی میں

سرخ رو ہونے نہ پایا تھا کہ پیلا پڑ گیا
چاند کا بھی ہاتھ تھا جذبات کی پسپائی میں

بے لباسی ہی نہ بن جائے کہیں تیرا لباس
آئینے کے سامنے پاگل نہ ہو تنہائی میں

تو اگر پھل ہے تو خود ہی ٹوٹ کر دامن میں آ
میں نہ پھینکوں گا کوئی پتھر تری انگنائی میں

رات بھر وہ اپنے بستر پر پڑا روتا رہا
دور اک آواز بنجر ہو گئی شہنائی میں

دائرے بڑھتے گئے پرکار کا منہ کھل گیا
وہ بھی داخل ہو گیا اب سرحد رسوائی میں

حبس تو دل میں تھا لیکن آنکھ تپ کر رہ گئی
رات سارا شہر ڈوبا درد کی پروائی میں

آنکھ تک بھی اب جھپکنے کی مجھے فرصت نہیں
نقش ہے دیوار پر تصویر ہے بینائی میں

لوگ واپس ہو گئے ساجدؔ نمائش گاہ سے
اور میں کھویا رہا اک محشر رعنائی میں
 
سائے کی طرح بڑھ نہ کبھی قد سے زیادہ
تھک جائے گا بھاگے گا اگر حد سے زیادہ

ممکن ہے ترے ہاتھ سے مٹ جائیں لکیریں
امید نہ رکھ گوہر مقصد سے زیادہ

لگ جائے نہ تجھ پر ہی ترے قتل کا الزام
بدنام تو ہوتا ہے برا بد سے زیادہ

خواہش ہے بڑائی کی تو اندر سے بڑا بن
کر ذہن کی بھی نشو و نما قد سے زیادہ

دیکھوں تو مرے جسم پہ شاخیں ہیں نہ پتے
سوچوں تو گھنا چھاؤں میں برگد سے زیادہ

رہنے دو خلاؤں میں مری قبر نہ کھودو
ہے پیار مجھے خاک کی مسند سے زیادہ

آنکھیں تو لگی رہتی ہیں دروازے کی جانب
ملتی ہے خوشی اپنی ہی آمد سے زیادہ

کیا جانئے کیا بات ہے اک عمر سے ساجدؔ
ویران ہے ٹوٹے ہوئے مرقد سے زیادہ
 
پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو
نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو

کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو

ہے سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ
راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو

پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو

ذہن خالی ہو گئے ہیں وقت کے احساس سے
سامنے وو مسئلہ رکھ جس کا کوئی حل نہ ہو

سب کے ہی سینوں میں ہے پھیلا ہوا سانسوں کا حبس
کوئی شہر ایسا نہیں جس کی فضا بوجھل نہ ہو

لوگ اکثر اپنے چہرے پر چڑھا لیتے ہیں خول
تو جسے سونا سمجھتا ہے کہیں پیتل نہ ہو

جستجو اس پیڑ کی کیوں ہو کہ جو سایہ نہ دے
ہاتھ اس ڈالی پہ کیا پہنچے کہ جس پر پھل نہ ہو

روز و شب لگتا رہے سوچوں کا میلہ ذہن میں
شور سے خالی کبھی احساس کا جنگل نہ ہو

گرم کر ساجدؔ لہو کو دھیمی دھیمی آنچ سے
وقت سے پہلے ترے جذبات میں ہلچل نہ ہو
 
سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو
میں کہر میں لپٹا ہوں شفق چاہئے مجھ کو

ہو جائے کوئی چیز تو مجھ سے بھی عبارت
لکھنے کے لیے سادہ ورق چاہئے مجھ کو

خنجر ہے تو لہرا کے مرے دل میں اتر جا
ہے آنکھ کی خواہش کہ شفق چاہئے مجھ کو

ہو وہم کی دستک کہ کسی پاؤں کی آہٹ
جینے کے لیے کچھ تو رمق چاہئے مجھ کو

ہر بار مری راہ میں حائل ہو نیا سنگ
ہر بار کوئی تازہ سبق چاہئے مجھ کو

جو کچھ بھی ہو باقی وہ مرے ہاتھ پہ لکھ دے
مضمون بہر طور ادق چاہئے مجھ کو

جو ذہن میں تصویر ہے کاغذ پر اتر آئے
دنیا میں نمائش کا بھی حق چاہئے مجھ کو

ہر پھول کے سینے میں گل سنگ ہو ساجدؔ
ہر سنگ میں اک رنگ قلق چاہئے مجھ کو
 
اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی
جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی

لہجے کی تیز دھار سے زخمی کیا اسے
پیوست دل میں لفظ کی سنگین ہم نے کی

لائے بروئے کار نہ حسن و جمال کو
موقع تھا پھر بھی رات نہ رنگین ہم نے کی

جی بھر کے دل کی موت پہ رونے دیا اسے
پرسا دیا نہ صبر کی تلقین ہم نے کی

دریا کی سیر کرنے اکیلے چلے گئے
شام شفق کی آپ ہی تحسین ہم نے کی
 
اس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی
اک روز مجھ پہ اس کی طبیعت بھی آئے گی

قدغن لگا نہ اشکوں پہ یادوں کے شہر میں
ہوگا اگر تماشا تو خلقت بھی آئے گی

میں آئنہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا
اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی

موسم اگر ہے سرد تو پھر آگ تاپ لے
چمکے گی آنکھ خوں میں حرارت بھی آئے گی

کچھ دیر اور شاخ پہ رہنے دے صبر کر
پکنے دے پھل کو کھانے میں لذت بھی آئے گی

آنکھیں ہیں تیرے پاس تو پھر سطح آب پر
گہرائی سے ابھر کے عبارت بھی آئے گی

نکلیں چراغ ہاتھ میں لے کر گھروں سے لوگ
سورج کی رہ میں منزل ظلمت بھی آئے گی

یہ جانتا تو کاٹتا ساجدؔ نہ سائے کو
تلوار پر لہو کی تمازت بھی آئے گی
 
اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی

ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا
سرد رت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی

موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب
پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی

خار قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے
ناخن تدبیر کی کاوش بہت مہنگی پڑی

اس عمل نے تو کہیں کا بھی نہ رکھا دوستو
خود کو چاہے جانے کی خواہش بہت مہنگی پڑی

ذکر قحط رنگ سے پہلے ہی تالے پڑ گئے
ہر لب تصویر کو جنبش بہت مہنگی پڑی

تند خو موجوں نے ساجدؔ چاند ساحل کھا لیے
بحر شب میں امن کی کوشش بہت مہنگی پڑی
 
اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی
ہائے یہ تصویر بھی رنگوں سے خالی ہو گئی

پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری
لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی

باغ کا سب سے بڑا جو پیڑ تھا وہ جھک گیا
پھل لگے اتنے کہ بوجھل ڈالی ڈالی ہو گئی

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

کھینچ ڈالا آنکھ نے سب آسمانوں پر حصار
بن چکے جب دائرے پرکار خالی ہو گئی

صبح کو دیکھا تو ساجدؔ دل کے اندر کچھ نہ تھا
یاد کی بستی بھی راتوں رات خالی ہو گئی
 
ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئ
جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی

یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مرے دل میں مگر
اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی

وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا
خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی

باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لٹ گئی
چشم شبنم سے چرا کر لے گیا ٹھنڈک کوئی

دے گیا آنکھوں کو فرش راہ بننے کا صلہ
دے گیا بینائی کو سوغات میں دیمک کوئی

ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی

وہ بھی ساجدؔ تھا مرے جذبوں کی چوری میں شریک
اس کی جانب کیوں نہیں اٹھی نگاہ شک کوئی
 
تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے
میں جسے دیکھوں وہی پتھر نظر آنے لگے

بے سبب گھر سے نکل کر آ گئے بازار میں
آئنہ دیکھا نہیں تصویر چھپوانے لگے

دشت میں پہنچے تو تنہائی مکمل ہو گئی
بڑھ گئی وحشت تو پھر خود سے ہی ٹکرانے لگے

خون کا نشہ چڑھا تو جسم زہریلا ہوا
خواہشوں کے پانیوں میں سانپ لہرانے لگے

کچھ نہیں ہے ذہن میں تو وہم کی شکلیں بنا
روشنی ہوگی اگر سائے نظر آنے لگے

دیکھنا چاہا تو وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
چومنا چاہا تو میرے ہونٹ پتھرانے لگے

رنگ آخر لے ہی آیا میری سوچوں کا جمود
برف کے سورج بلا کی دھوپ پھیلانے لگے

چل پڑے تو ہو لئے اقبال ساجدؔ اپنے ساتھ
تھک گئے تو اپنے ہی سائے ہیں سستانے لگے
 
ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی
رنگ بوسیدہ ہوئے خوشبو پرانی ہو گئی

جس سے روشن تھا مقدر وہ ستارہ کھو گیا
ظلمتوں کی نذر آخر زندگانی ہو گئی

کل اجالوں کے نگر میں حادثہ ایسا ہوا
چڑھتے سورج پر دیئے کی حکمرانی ہو گئی

رہ گئی تھی لعل بننے میں کمی اک آنچ کی
آنکھ سے گر کر لہو کی بوند پانی ہو گئی

چلۂ جاں پر چڑھا کر آخری سانسوں کے تیر
موت کی سرحد میں داخل زندگانی ہو گئی

خوف اب آتا نہیں ہے سیپیاں چنتے ہوئے
دوستی اپنی سمندر سے پرانی ہو گئی

کس جگہ آیا ہے تو آنکھوں کے نیلم بھول کر
غم کہاں اقبال ساجدؔ کی نشانی ہو گئی
 
خدا نے جس کو چاہا اس نے بچے کی طرح ضد کی
خدا بخشش کرے گا اس لیے اقبال ساجدؔ کی

گواہی دے گا اک دن خود مرا منصف مرے حق میں
دھری رہ جائیں گی ساری دلیلیں مرے حاسد کی

وہی جو پہلے آیا تھا وہ سب کے بعد بھی آیا
اسی پیکر نے تو پہچان کروائی ہے موجد کی

جو میرے دل میں تھی اس نے وہی تحریر پہنچائی
اب اس سے بڑھ کے کیا تعریف ہو سکتی ہے قاصد کی

جو اندر سے نہیں باہر سے خد و خال منوائے
پر اصل آئینہ صورت گنوا دیتا ہے قاصد کی

حوالے سے جو منوائے وہ سچائی نہیں ہوتی
قسم کھاتا نہیں ہوں اس لیے میں رب واحد کی
 
Top