اردو محفل پر اقبال ساجد کی غزلیں

سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمین دل جہاں بارش نہیں ہوئی

روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے
آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی

دیوار و در ہیں پاس مگر ان کے باوجود
اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی

باب سخن میں اب وہی مشہور ہو گئے
وہ جن کے ذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی
 
کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے
شیشہ اٹھا کہ جوئے معانی نکل پڑے

پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر
مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے

مجھ کو ہے موج موج گرہ باندھنے کا شوق
پھر شہر کی طرف نہ روانی نکل پڑے

ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ
آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے

ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر
ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے
 
گڑے مردوں نے اکثر زندہ لوگوں کی قیادت کی
مری راہوں میں بھی حائل ہیں دیواریں قدامت کی

نئی کرنیں پرانے آسماں میں کیوں جگہ پائیں
وہ کافر ہے کہ جس نے چڑھتے سورج کی عبادت کی

پرانی سیڑھیوں پر میں نئے قدموں کو کیوں رکھوں
گراؤں کس لئے چھت سر پہ بوسیدہ عمارت کی

ترا احساس بھی ہوگا کبھی میری طرح پتھر
نکل جائے گی آئینے سے پرچھائیں نزاکت کی

وہ میرا بت تھا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے توڑا
کہ برسوں کی یہ محنت ایک لمحے میں اکارت کی

اگر ہے نام کی خواہش تو دیواروں پہ چسپاں کر
بنا کر جھوٹ کے رنگوں سے تصویریں صداقت کی

ابھی سینوں میں لہراتے ہیں میری یاد کے پرچم
ابھی تک ثبت ہیں مہریں دلوں پر بادشاہت کی

ابھی سب حرف تازہ ہیں مکرتا کیوں ہے معنی سے
سیاہی خشک بھی ہونے نہیں پائی عبارت کی

کوئی میٹھے پھلوں کی آس میں کیوں تلخ دن کاٹے
کسے فرصت ہے ساجدؔ آج کل صبر و قناعت کی
 
موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے
لوگ اپنی ذات کے اندر سفر کرنے لگے

مانجھیوں کے گیت سن کر آ گیا دریا کو جوش
ساحلوں پہ رقص تیزی سے بھنور کرنے لگے

بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق
لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے

باندھ دے شاخوں سے تو مٹی کے پھل کاغذ کے پھول
یہ تقاضا راہ میں اجڑے شجر کرنے لگے

گاؤں میں کچے گھروں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
شہر سے نقل مکانی اہل زر کرنے لگے

جیسے ہر چہرے کی آنکھیں سر کے پیچھے آ لگیں
سب کے سب الٹے ہی قدموں سے سفر کرنے لگے

اب پڑھے لکھے بھی ساجدؔ آ کے بیکاری سے تنگ
شب کو دیواروں پہ چسپاں پوسٹر کرنے لگے
 
ہر گھڑی کا ساتھ دکھ دیتا ہے جان من مجھے
ہر کوئی کہنے لگا تنہائی کا دشمن مجھے

دن کو کرنیں رات کو جگنو پکڑنے کا ہے شوق
جانے کس منزل میں لے جائے گا پاگل پن مجھے

سادہ کاغذ رکھ کے آیا ہوں نمائش گاہ میں
دیکھ کر ہوتی تھی ہر تصویر کو الجھن مجھے

ناچتا تھا پاؤں میں لمحوں کے گھنگرو باندھ کر
دے گیا دھوکا سمٹ کر وقت کا آنگن مجھے

نیکیوں کے پھل نہیں لگتے بدی کے پیڑ پر
اس نے واپس کر دیا ہے پھر تہی دامن مجھے

دوستو سن لی خدا نے کل مری پہلی دعا
شرم سے آخر جھکانی پڑ گئی گردن مجھے

کیا ملا تجھ کو بتا اندھے سے لاٹھی چھین کر
کر دیا کیوں آس سے محروم جان من مجھے

سرد ہو سکتی نہیں ساجدؔ کبھی سینے کی آگ
دل جلانے کو ملا ہے یاد کا ایندھن مجھے
 

الف عین

لائبریرین
سارا کلام کہاں سے ہاتھ لگا؟ اس ماخذ کا حوالہ دیں۔ جمع و ترتیب میں تمہارا نام دے دیا جائے گا۔ ایسی کئی کتب میں نے کاپی پیسٹ کر کے بنائی ہیں۔
 
Top