اردو قواعد ۔۔۔از مولوی عبدالحق

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ڈیڑھ دو سال پہلے برادرم نبیل نے میری درخواست پر ازراہِ کرم مجھے لائبریری میں کام کرنے کی سہولت مہیا کی۔ ارادہ یہ تھا کہ تنقیدی ادب اور گرامر کی کتابوں پر کام کروں گا۔ نورالحسن ہاشمی کی کتاب " ادب کیا ہے" کے دو مضامین پوسٹ کرچکا ہوں اور دیگر پر کام جاری ہے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تصنیف "اردو قواعد" اپنے موضوع پر اہم ترین کتب میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب بہت پہلے شائع ہوئی اور اب صرف اسکین شدہ پی ڈی ایف صورتوں میں دستیاب ہے۔ برسوں پہلے اردو محفل لائبریری پروجیکٹ میں متعدد محبانِ اردو نے بہت محنت سےاس کتاب کی ٹائپنگ کی تھی لیکن بوجوہ اس کی پروف ریڈنگ نہیں ہوسکی ہے ۔ میں نے ایک ڈیڑھ سال پہلے اس خشک کتاب کی پروف ریڈنگ شروع کی تھی لیکن یہ کام میری توقع سے کہیں زیادہ مشکل اور صبر آزما ثابت ہوا۔ میں اب تک صرف ایک تہائی کتاب مکمل کر چکا ہوں۔ ٹائپ شدہ مواد میں موجود متعدد مسائل اس سست رفتاری کی وجہ ثابت ہوئے۔
- ٹائپ کرنے والے کارکنان نے پی ڈی ایف کے ایک سے زیادہ نسخے استعمال کیے کہ جن کے متن میں بعض جگہوں پر فرق موجود ہے۔
- بہت سی جگہوں پر اسکین شدہ کتاب کا متن صاف اور واضح نہیں تھا سو ٹائپنگ درست نہیں ہوئی۔
- بہت ساری جگہوں پر غلطی سے کئی کئی سطریں ٹائپ ہونے سے رہ گئی ہیں ۔
- اصل کتاب میں کاتب حضرات نے اس زمانے کے رواج کے مطابق نون غنہ کو بھی ہر لفظ میں نقطے کے ساتھ لکھا ہے ۔ چنانچہ تمام کارکنان نے ان الفاظ کو اسی طرح ٹائپ کردیا ہے۔
- اصل کتاب میں کاتب نے بہت سارے الفاظ کو ملا کر لکھا ہے اور وہ سب اسی طرح ٹائپ کیے گئے۔

-میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جہاں جہاں شبہ ہو پی ڈی ایف کے دونوں نسخے سامنے رکھ تصدیق اور تصحیح کرلی جائے ۔ نون غنہ کو بغیر نقطے کے نون میں تبدیل کرنا خاصا لمبا اور پیچیدہ کام ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ میں نے گردانوں اور الفاظ کی فہرستوں کو قارئین کی آسانی کے لیےٹیکسٹ باکس کی صورت میں درج کردیا ہے۔
چونکہ اردو محفل اب بند ہورہی ہے ا س لیے جو ایک تہائی کتاب پروف ریڈنگ سے گزر چکی ہے اسے یہاں پوسٹ کررہا ہوں ۔ اگر آئندہ کسی فورم پر اس کام کی سہولت نظر آئی تو بقیہ کتاب کو بھی مکمل کرنے کا سوچا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو قواعد۔۔۔۔ از مولوی عبدالحق

اردو قواعد
ڈاکٹر مولوی عبدالحق

فہرست

۔۔۔۔۔ دونوں پی ڈی ایف نسخوں میں فہرستِ مضامین میں بہت زیادہ اختلاف ہے ۔ اس لیے میں فہرست کو فی الحال یہاں درج نہیں کرتا اور اسے کتاب کے مکمل ہونے تک اٹھا رکھتا ہوں تاکہ کسی قسم کا اختلاف نہ واقع ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقدمہ

اردو زبان دنیا کی جدید زبانوں میں سے ہے اور ابھی ابھی اس نے اپنے بل بوتے پر کھڑا ہونا سیکھا ہے۔ زبان نہ کسی کی ایجاد ہوتی ہے اور نہ کوئی اُسے ایجاد کر سکتا ہے۔ جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ، پتے نکلتے ، شاخیں پھیلتی ، پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہوجاتا ہے۔ اُسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ، بڑھتی اور پھیلتی پھولتی ہے۔ اردو اس زمانے کی یادگارہے جب مسلمان فاتح ہندوستان میں داخل ہوئے اور اہلِ ہند سے ان کا میل جول روز بروز بڑھتا گیا۔ اُس وقت ملک کی زبان میں خفیف سا تغیر پیدا ہوتا چلا جس نے آخر ایک نئی صورت اختیار کی جس کا ان میں‌سے کسی کو سان گمان بھی نہ تھا۔ مسلمان فارسی بولتے آئے تھے اور ایک زمانے تک ان کی زبان فارسی ہی رہی۔ دربار و دفاتر میں بھی اُسی کا سکہ جاری تھا۔ ہندوؤں نے بھی اُسے شوق سے سیکھا۔ اُس زمانے میں فارسی لکھنا تہذیب میں داخل تھا۔ فارسی کے علاوہ عربی مسلمانوں کی مذہبی اور علمی زبان تھی۔ دستارِ فضیلت کا ملنا بغیر تحصیلِ زبانِ عربی نامکمل تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے علوم و فنون کا خزانہ اُسی زبان میں مدفون ہے۔ ادھر ملک میں جو زبان (قدیم ہندی یا پراکرت) رائج تھی اُسے بھی مسلمانوں نے سیکھا۔
عوام وہی زبان بولتے تھے۔ چنانچہ اس مخلوط زبان میں بڑے بڑے شاعر ہوئے۔ مسلمان شاہی درباریوں اور علماء اور شعراء نے بھی یہ زبان سیکھی اور اس میں تالیف و تصنیف بھی (جو زیادہ تر نظم تھی) کی۔ غرض ہندوستانیوں کے اس میل جول اور خلاملا سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کا نام بعد میں اردو رکھا گیا۔ اردو کے معنی لشکر کے ہیں اور لشکری زبان جیسی ہوتی ہے ظاہر ہے۔ یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر ، اس لیے اول اول ثقہ لوگ اس کے استعمال سے بچتے رہے اور اس کے لکھنے پڑھنے کو عار سمجھتے رہے لیکن رفتہ رفتہ اس کے قدم جمتے گئے اور مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں شعراء نے اس بچے کو اپنے سایۂ عاطفت میں لیا اور پال پوس کر بڑا کیا۔ بہت کچھ صفائی پیدا کی اور نئی تراش خراش سے آراستہ کیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال پر سمندر کے راستے ایک نئی قوم ہندوستان پر مسلط ہوئی جو ہندو مسلمانوں سے بالکل غیر تھی۔ اس قوم نے اس کی اُنگلی پکڑتے اُن کا پہنچا پکڑا اور دربار سرکار میں اس کی رسائی ہوگئی اور رفتہ رفتہ دفاتر سے فارسی کو نکال باہر کیا اور خود اُس کی کرسی پر جلوہ گر ہوئی۔ آخر ہندوستان کی قدیم راج دھانی اس کا جنم بھوم اور دوآبہ اس کا وطن ہوا۔ اب دور دور پھیل چلی ہے اور ہندوستان کے اس سرے سے اُس سرے تک چلے جائیے۔ ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ ہندوستان کے باہر تک جاپہنچی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تین مختلف جلیل القدر قوموں کی یعنی ہندو ، مسلمانوں اور انگریزوں کی چہیتی ہے اور ان تینوں کی متفقہ کوششوں کی عظیم الشان یاد گار ہے۔ تینوں نے اسے سیکھا ، پڑھا لکھا۔ تینوں نے اس کی ترقی میں مقدور بھر کوشش کی اور اب تینوں کی بدولت اس رُتبے کو پہنچی کہ دنیا کی جدید زبانوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہوئی۔
اردو ہندی نژاد ہے اور قدیم یا پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت ہے۔ ہندی بولی اور فارسی کے میل سے بنی ہے۔ اس میں جو سنسکرت اور پراکرت کے الفاظ ہیں وہ زمانہ دراز کے استعمال اور زبانوں پر چڑھ جانے سے ایسے ڈھل گئے ہیں کہ اصل الفاظ میں جو بھدا پن اور کرختگی اور تلفظ اور لہجے کی دقت تھی بالکل جاتی رہی۔ اور چھٹ چھٹا کر پاک صاف سیدھے سادے رہ گئے ہیں۔ جس سے زبان میں لوچ ، گھلاوٹ اور صفائی پیدا ہوگئی۔ اردو کے ہندی نژاد ہونے میں کچھ شبہ نہیں کیونکہ بیرونی زبانوں‌کا اثر صرف اسماء و صفات میں ہوا ہے۔ ورنہ زبان کی بنیاد یہیں کی زبان پر ہے۔ تمام حروف فاعلی ، مفعولی ، اضافت ، نسبت ، ربط وغیرہ ہندی ہیں۔ ضمیریں سب کی سب ہندی ہیں۔ افعال سب ہندی ہیں۔ لیکن عربی فارسی الفاظ کے اضافے نے مختلف صورتوں میں اس کی اصل خوبی میں اضافہ کردیا ہے۔ ہندی الفاظ میں دل نشینی کا خاص اثر ہے اور عربی فارسی الفاظ میں شان و شوکت اور زبان کے لیے ان دونوں عنصروں کا ہونا ضروری ہے۔ عربی فارسی الفاظ نے نہ صرف لغت اور نحو میں بلکہ خیالات میں بھی وسعت پیدا کر دی ہے۔ جس سے اس کا حسن دوبالا ہوگیا اوروہ زیادہ وسیع اور کارآمد بن گئی مگر اصل بنیاد جس پر وہ قائم ہے ہندی ہی ہے۔ محض غیر زبانوں کے اسماء و صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فرق نہیں آسکتا۔ مثلا آج کل بہت سے انگریزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں‌پڑ سکتا۔ ایک دوسری بات اردو زبان میں یہ ہے کہ اس اصول پر قائم ہے کہ جو تمام جدید زبانوں میں اس وقت پایا جاتا ہے یعنی صورت ترکیبی سے حالت تفصیلی کی طرف اس کا رجحان ہے۔
قدیم زبانوں میں یہ بڑی دقت تھی کہ ایک ہی لفظ کو ذرا ذرا سے فرق اور پھیر سے مختلف صورتو ں میں لے آتے تھے۔ اب دوسرے الفاظ کی مدد سے مرکب صورتیں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ دقتیں جاتی رہی ہیں۔ اردو کو بھی اس قید سے آزادی مل گئی ہے۔ غرض یہ زبان مختلف حیثیتوں سے ایسی قبول صورت ہوگئی ہے کہ اس کی ترقی میں شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی صفائی ، فصاحت اور صلاحیت اور ہندی ، فارسی ، عربی اور انگریزی کے مختلف مفید اثرات اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ دنیا کی ہونہار زبانوں میں سے ہے اور ایشیا میں ایک روز اس کا ستارہ چمکے گا۔
مجھے خوب یاد ہے کہ کئی سال کا عرصہ ہوا کہ میرے ایک دوست نے جلسے میں‌تذکرتاً میری کتاب صرف و نحو اردو کے متعلق کہا کہ انجمن ترقی اردو (حیدرآباد ، دکن) اسے چھپوا دے تو بہت اچھا ہو۔ اس پر ہمارے ایک عالم دوست نے فرمایا کہ صرف و نحو کی کتابیں بچوں کے لیے ہوتی ہیں۔ انجمن کی طرف سے ایسی کتابوں کا طبع ہونا ٹھیک نہیں۔ مجھے اس میں کلام ہے کہ صرف و نحو کی کتابیں اہلِ زبان کے لیے مخصوص ہیں بلکہ میری رائے میں‌انہیں اپنی زبان کی صرف و نحو پڑھانا مضر ہے۔ البتہ یہ میں تسلیم کرتا ہوں‌کہ ایک زندہ اور جدید زبان کے لیے گریمر (صرف و نحو) کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر گریمر کی ضرورت پڑی کیوں؟ جب ہم دنیا کی مختلف زبانوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے ادب کی تاریخ بغور پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں گریمر کی ضرورت اس وقت واقع ہوئی جبکہ ایک زبان والوں نے دوسری زبان کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اول اول خود اہلِ زبان کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مثل دوسرے علوم و فنون کے ضرورت نے اسے ایجاد کیا۔ اور زبان کے سب سے پہلے علمی نحوی وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے اول علمی طور پر زبانوں کی تعلیم دی۔ صرف و نحو کے قواعد کی تدوین انہیں معلمینِ السنہ کا کام تھا۔
زبانوں کا سیکھنا سکھا نا نسبتاً جدید زمانے کی ایجاد ہے جو آج کل خاصا پیشہ ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ غیر زبانوں کے سیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاٍ کسی قدیم یونانی یا عرب کو کسی دوسری زبان کے سیکھنے کا کبھی خیال نہیں آتا تھا اور وہ کیوں سیکھتا؟ اس لیے کہ یونانی سوائے یونانیوں کے اور عرب سوائے عربوں کے سب کو وحشی خیال کرتا تھا۔ غیروں کی زبان سیکھنا ، ان کے اداب و اطوار کا اختیار کرنا اس کے لیے عار اور موجبِ ذلت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی غیر اقوام کو ایک لوسائی یعنی بے زبان عرب اور دوسروں کو عجم یعنی گونگے اور پول اپنے پڑوسی اہلِ جرمن کو نیمیا یعنی گونگے بہرے اور ہندو اپنے سوا دوسروں کو ملیکھ (ملیچھ) کہتے تھے۔ ملیکھ یعنی ملیچھ کے اصل معنی ایسے شخص کے ہیں جسے صاف طور پر بولنا نہیں آتا۔
جب یونانیوں کو دوسری قوم سے سابقہ پڑا اور ان سے بات چیت کی ضرورت ہوئی تو بڑی دقت پیش آئی۔ اگر ہر شخص اپنی ہی زبان بولنے پر اصرار کرے تو دوسرے کی کیونکر سمجھے۔ اُن کے لیے غالباً غیر زبانوں کے سیکھنے کی پہلی محرک تجارت ہوئی اور دوسری محرک اسکندر کی فتوحات۔ ایران اور ہندوستان کی فتوحات نے یونانیوں پر ثابت کر دیا کہ دوسری قومیں بھی زبان رکھتی ہیں لیکن طرہ یہ ہے کہ بہ نسبت یونانیوں کے دوسری اقوام میں جنہیں یونانی وحشی کہتے تھے زبانیں سیکھنے کی زیادہ صلاحیت تھی۔ اسکندر کی فتوحات نے باہمی میل جول کا راستہ کھول دیا تھا۔ اور اسکندریہ مختلف اقوام ، مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کا سنگم ہوگیا۔ گو ابتدائی تعلق تجارتی تھا لیکن فرصت کے اوقات میں دوسرے معاملات اور مباحث بھی خود بخود زیر بحث آگئے۔
علاوہ اس کے خود یونانی بھی اسکندریہ میں موجود تھے جو قدیم حالات کی تحقیق میں مصروف تھے۔ اور اسی طرح مصریوں ، ایرانیوں اور یہودیوں کے علم آداب اور معتقدات بحث میں آئے اگرچہ اسکندریہ میں دوسرے اقوام کے علم و ادب کے متعلق ایک دلچسپی پیدا ہو گئی تھی لیکن زبان کی تحقیق و تنقید دوسری زبانوں کے مطالعہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خود یونانی زبان کی مختلف شاخوں پر غور کرنے سے اس کا آغاز ہوا۔ اور سب سے بڑی وجہ اس کی ہومر کی کتاب ہوئی۔ سب سے اول ان علما نے زبان کی تنظیم کی طرف توجہ کی جو قدیم اساتذہ اور خاص کر ہومر کی تصانیف کو صحت اور تنقید کے ساتھ شائع کرنے کا کام کر رہے تھے۔ مختلف نسخے اسکندریہ اور پرگامس میں یونان کے مختلف حصوں سے موصول ہوئے جن میں آپس میں بہت کچھ اختلاف تھا اور اس لیے ان علما کو مجبوراً یونانی گریمر کی صحیح صورت قائم کرنے پر متوجہ ہونا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے اول یونانی زبان کا تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا اور اس کی تنظیم کی اور مختلف اجزائے کلام کا امتیاز قائم کیا اور الفاظ کے مختلف عمل کے لیے اصطلاحی الفاظ گھڑے۔لیکن تاہم حقیقی اور ابتدائی گریمر ابھی تک نہیں لکھی گئی تھی۔ پہلا حقیقی نحوی ڈائونی سی آس تھریکس تھا۔
یہ شخص جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے تھریکس کا باشندہ تھا۔ لیکن وہ اسکندریہ میں رہتا تھا۔ بعد ازاں وہ روما گیا جہاں اس نے یونانی زبان کی تعلیم دینی شروع کی اور معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اپنے رومن شاگردوں کے لیے زبان کی پہلی گریمر لکھی اگرچہ گریمر کا ڈھانچہ پہلے سے موجود تھا لیکن اس نے پہلے کے فلسفیوں اور نقادوں کے نتائج سے فائدہ اٹھا کر یہ کتاب مرتب کی یونانیوں کے لیے نہیں کیونکہ انھیں ضرورت نہ تھی وہ اپنی زبان سے خود واقف تھے بلکہ اہلِ روما کی تعلیم کے لیے۔ اس شخص کے بعد اور لوگ پہنچے اور معلمی یا مترجمی کا پیشہ کرنے لگے۔ یہ پیشہ وہاں اچھا خاصہ اور معزز سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ رومن نوجوانوں کو یونانی پڑھنے لکھنے اور بولنے کا ایسا ہی شوق اور خبط تھا جیسا آج کل ہندی نوجوانوں کو انگریزی پڑھنے اور لکھنے بولنے کا ہے یہاں تک کہ بچوں کو اول یونانی پڑھائی جاتی تھی اور بعد میں لاطینی۔ اور یونانی آداب و تہذیب کا اختیار کرنا اور یونانی جاننا علامتِ شرافت سمجھی جاتی تھی۔ بعینہ جیسے ہمارے ہاں آجکل انگریزی پہناوا ، انگریزی بات چیت انگریزی طرز معاشرت باعث فخر خیال کی جاتی ہے۔ گو روما نے یونان کو فتح کیا تھا لیکن علمی لحاظ سے وہ خود اس کا مفتوح ہو گیا۔ غرض یونانی زبان کے سیکھنے اور یونانی کتابوں کے ترجمہ کا عام رواج ہو گیا۔ اور اسی وجہ سے یونانی گریمروں کی ضرورت ہوئی اور جب لاطینی گریمر لکھی گئی تو یونانی اصطلاحات لاطینی لباس میں ترجمہ ہو کر داخل ہو گئیں۔ اور اس جدید لباس میں یہ گریمر دو ہزار سال سے یورپ پر چھائی ہوئی ہے بلکہ آج اس کا اثر ہندوستانی مدارس اور ہندوستانی زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
اسی طرح جب ہم عربی زبان کی صرف و نحو کی ابتدا پر نظر ڈالتے ہیں تو بعینہ یہی صورت وہاں بھی پیش آئی۔ جس طرح ہومر کی کتاب کی درستی اور صحت کے لیے اول اول نحو کے ابتدائی اصول پر نظر گئی اسی طرح قرآن پاک کے الفاظ کی صحت قائم رکھنے کے لیے سب سے پہلے نحوِ زبان کی طرف مجبوراً توجہ کرنی پڑی۔ سب سے پہلا شخص ابوالاسود دؤلی تھا جسے ایک قاری کو قرآن کی آیت غلط پڑھتے ہوئے سن کر یہ خیال ہوا کہ اگر خدانخواستہ یہ حالت رہی تو اندیشہ ہے کہ قرآن پاک کے معانی کچھ کے کچھ ہو جائیں گے۔ ابتداءً رسم خط عربی ایسی تھی کہ اس میں نقطے اور اعراب نہ تھے اور اس لیے اعراب اور نقطے ایجاد کرنے پڑے۔ صرف و نحو کا خیال بھی اسی قسم کے واقعات سے پیدا ہوا۔ خصوصاً جب اہلِ عجم مذہب اسلام میں داخل ہوئے اور عربی زبان کا اثر وسیع ہونے لگا تو عجمی زبان کے بولنے میں طرح طرح کی غلطیاں کرنے لگے۔ زبان کے خراب اور مسخ ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ اس پر سے ابوالاسود کی تحریک پر حضرت علی نے نحو کا پہلا قاعدہ بتایا کہ "سارا کلام اس سے خالی نہیں کہ یا تو اسم ہوگا یا حرف"۔ چنانچہ اس پر سے ابوالاسود نے اول اول قواعد فن لسان کی تدوین کی۔ جب عربون کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور عربی زبان کی روشنی بھی ساتھ ساتھ پھیلنی شروع ہوئی تو قواعد زبان کی ضرورت روز بروز بڑھنے لگی۔ کوفہ و بصرہ میں نحویین کے دو الگ مذہب قائم ہو گئے۔ جن کے مباحث پر اس وقت نظر ڈالنا ہمارے مقصد سے خارج ہے۔ غرض ہوتے ہوتے نوبت یہ پہنچی کہ نحو یا تو زبان سیکھنے کا آلہ تھی یا خود ایک مستقل فن ہو گئی اور ایک نحوی کی ایسی ہی عزت ہونے لگی جیسے کسی عالم فاضل کی۔ عربی صرف و نحو کی تدوین میں عجمیوں نے بہت بڑا حصہ لیا (کیونکہ ضرورت زیادہ انہیں کو تھی) اور بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھیں اور اس میں وہ بحثیں اور نزاکتں پیدا کیں کہ یہ فن خاصا فلسفہ ہو گیا۔ اور اس کے پڑھنے پڑھانے میں مبالغہ کے ساتھ بڑے بڑے اہتمام ہونے لگے۔ جس کا اثر اب تک باقی ہے۔ عربی زبان اور صرف و نحو کا اثر فارسی ، ترکی اور اردو زبانوں پر بہت کچھ ہوا ہے۔ اور اب تک عربی اصطلاحات صرف و نحو ان زبانوں کی قواعد میں برابر جاری ہیں۔ بلکہ فارسی اردوکی صرف و نحو عربی کی صرف و نحو کی نقل ہے۔ اور نقل کیا کی ہے منھ چڑایا ہے۔ غرض کہنے کی یہ ہے کہ عربی صرف و نحو کو زیادہ رونق اور عروج عجمی علما کی بدولت ہوا ہے۔
موجودہ زبان فارسی کو دیکھاجائے تو اس کی صرف و نحو بہت صاف اور سیدھی اور مختصر ہے۔ اور اس میں مطلق وہ پیچیدگیاں نہیں جو قدیم زبانوں یا اردو زبان میں ہیں۔ لیکن یار لوگوں نے عربی کے تتبع میں اس کی بھی خوب مٹی خراب کی۔ زبان کچھ کہتی ہے اور گریمر کچھ اور۔ بعینہ یہ مثال صادق آتی ہے۔
من چہ سرایم و طنبورہ من چہ سراید
لیکن تاہم بری بھلی جو کتابیں فارسی صرف و نحو ، تنقیدِ زبان ، صنائع بدائع اور لغت پر لکھی گئی ہیں وہ سب زیادہ تر تو اہلِ ہند یا بعض اور بیرونی لوگوں کی تصنیف سے ہیں۔ اہلِ زبان نے کبھی اس پر قلم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انہیں اپنی زبان کی صرف و نحو لکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ کبھی انہیں اس کا خیال آیا۔ وہ ان کی مادری زبان تھی پیدا ہوتے ہی وہی آوازیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں اور ہوش سنبھالتے ہی وہ وہی زبان جو سنتے تھے بولتے تھے۔ صرف و نحو تو وہ پڑھے جس کی مادری زبان نہ ہو۔اور یہی وجہ ہے کہ فارسی کی صرف و نحو غیروں نے لکھی۔
اس کے بعد جب ہم اردو زبان پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی حالت سب سے عجیب و غریب ہے۔ اس کی صرف و نحو کی طرف ابتدا میں نہ صرف کسی اہلِ ہند بلکہ ایشیا بھر میں کسی شخص کا خیال نہ گیا۔ اور خیال کیا تو غیروں نے۔ اور غیر بھی کیسے ، بات چیت اور زبان ہی میں غیر نہی ں ، بلکہ صورت شکل ، عادات و اطوار ، طریق ماند و بود ، طرزِ خیال غرض گفتار ، رفتار و کردار میں بھی غیر ہیں اور ایسے غیر کہ باوجودیکہ دو سو ڈیرھ سو برس ایک سرزمیں پر رہتے گزر گئے ہیں مگر اب تک غیریت نہیں گئی۔ میرا مطلب ان اہلِ فرنگ سے ہے جو آگ لینے آئے تھے اور گھر کے مالک بن بیٹھے۔ اہلِ یورپ کے آنے سے اس ملک کو اگر کچھ فوائد پہنچے ہیں تو ان میں سے بلاشبہ ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان کی سرپرستی اور تقویت میں ہاتھ بٹایا جو ملک کی مختلف اقوام کی متحدہ اور مشترکہ زبان تھی۔ اگرچہ اس میں ان کی ذاتی غرض پنہاں تھی ، کیونکہ بغیر ایک ایسی زبان سیکھے ان کو اپنے اغراض میں کامیابی نہیں ہو سکتی تھی ، مگر ذاتی اغراض کے ساتھ ملکی اغراض بھی خودبخود انجام پاگئے۔ ان لوگوں کے اس زبان پر توجہ کرنے اور سیکھنے سے بھی یہ صاف عیاں ہے کہ یہ زبان ملک کی عام زبان تھی۔ ان حضرات کو ملک کی کسی زبان سے نہ الفت تھی نہ نفرت۔ وہ ایسی زبان سیکھنا چاہتے تھے جو ہر جگہ کارآمد ہو اور ان کے کاروبار اور معاملات میں سہولت پیدا کرے۔ اور وہ سوائے اردو کے کوئی دوسری زبان نہ تھی۔ لہٰذا ان کی تحصیل میں انھوں نے کوشش کی اور بیشک یہ ان کے اغراض کے لیے مفید بھی ثابت ہوئی۔
جہاں تک میں نےتحقیق کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا یورپین جس نے ہندوستانی زبان کے قواعد لکھے وہ جان جوشوا کٹلر تھا ،جو پرشیاکے شہر ایل بنجن میں پید اہوا۔ مذہب میں یہ لوتھر کا پیروکار تھا یہ شخص شاہ عالم باد (۱۷۰۸۔۱۷۱۲ع) میں جہاں دار شاہ بادشاہ (۱۷۱۲ع) کے دربار میں بطور ڈچ سفیر کے حاضر ہوا۔ ۱۷۱۱ع میں وہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ناظم تجارت بمقام سورت مقرر ہوا۔ وہ لاہور سے آتے اور جاتے وقت براہ دہلی آگرہ سے گزرا لیکن یہ بالیقین نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وہاں ٹھہرا بھی یا نہیں۔ اگرچہ وہاں اہلِ ڈچ کا ایک کارخانہ سورت کے تحت میں موجود تھا۔ اس کا مشن لاہور کے قریب ۱۰ دسمبر ۱۷۱۱ع کو پہنچا اور جہاں دار شاہ کے ہمراہ دہلی واپس ہوا اور آخر کار اس مقام سے ۱۴ اکتوبر ۱۷۱۲ع کو روانہ ہو کر ۲۰ اکتوبر کو آگرہ پہنچا۔ اور پھر آگرہ سے سورت واپس چلا گیا۔ ۱۷۱۶ع تک وہ تین سال سورت میں ڈچ کمپنی کا ناظم (ڈائرکٹر) رہا۔ اس کی بعد وہ ایران کا سفیر مقرر ہوا اور بٹاویا سے جولائی ۱۷۱۶ع میں روانہ ہوا۔ اس وقت اسے ایسٹ انڈیا میں ڈچ کی ملازمت کرتے ہوئے تیس سال ہو گئے تھے۔ اور اصفہان واپس ہوتے وقت خلیج فارس کے مقام گمبرون میں بعلالت بخار انتقال کیا۔
اس نے ہندوستانی زبان کے قواعد اور لغت لکھا جسے ڈیوڈ مل نے ۱۷۴۳ع میں چھاپ کر شائع کیا۔ قیاس یہ ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اس نے ۱۷۱۵ع کے لگ بھگ تالیف کیں۔ یہ کتاب لیٹن زبان میں ہے لیکن ہندوستانی الفاظ اور عبارتیں رومن حروف میں ہیں البتہ حروف کے پیٹوں میں ہندوستانی الفاظ بعینہ لکھے ہیں۔ اور ان الفاظ کا املا ڈچ کے طریقہ پر ہے۔ ایک بات اس قواعد میں قابل لحاظ یہ ہے کہ حرف فاعلی کا کہیں ذکر نہیں ہے اور علاوہ ہم کے وہ آپ کو بھی (جو گجراتی زبان میں استعمال ہوتا ہے) جمع متکلم کی ضمیر بتاتا ہے۔
کیٹلر کی گریمر کے طبع ہونے کے دوسرے سال مشہور مشنری شلز کی کتاب ہندوستانی زبان (اردو) قواعد پر شائع ہوئی (سنہ طبع ۱۷۴۴ع) یہ صاحب کیٹلر کی گریمر سے واقف تھے۔ اور اپنی کتاب کے دیباچے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ شلز کی گریمر بھی لیٹن میں ہے مگر ہندوستانی الفاظ فارسی عربی خط میں ہیں اور ان کا تلفظ بھی ساتھ ساتھ لاطینی میں دیا ہوا ہے۔ ناگری حروف کی بھی تصریح کی ہے مگر بعض حروف بالکل ترک کر دیے ہیں۔ وہ ضمائر شخصی کے واحد و جمع سے واقف ہے لیکن افعال متعدی کے زمانۂ ماضی کے ساتھ نے کے استعمال سے واقف نہیں۔ اور اسی پر موقوف نہیں بلکہ اکثر قدیم کتب قواعد میں نے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پرانی اردو میں نے کا استعمال بالالتزام نہیں ہوتا تھا۔
ہیڈلے کی گریمر ۱۷۷۲ع میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد متعدد کتابیں قواعد زبان ہندوستانی کے متعلق لکھی گئیں۔ اس کے بعد کا وہ زمانہ ہے جبکہ جان گلکرسٹ نے ہندوستانی زبان کی خدمت شروع کی۔ لیکن جان گلکرسٹ کی خدمات کا ذکر کرنے سے قبل ہم ایک شخص لے بی ڈف کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اپنے حالات خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ یہ شخص مدراس میں ۱۷۸۵ میں آیا اور غالباً خدمت بینڈ ماسٹری پر معمور ہوا۔ وہاں دو سال قیام کرنے کے بعد کلکتہ چلا آیا ، وہاں اس کی ملاقات ایک پنڈت سے ہوئی جس سے اس نے سنسکرت ، بنگالی اور ہندوستانی (جسے وہ ہندوستان کی مخلوط زبان کہتا ہے) پڑھنی شروع کی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے دو ناٹکوں کا ترجمہ بنگالی میں کیا اور اس کے اپنے بیان کے بموجب ان میں سے ایک ناٹک عام طور پر پبلک میں پسند کیا گیا اور اس کی بہت تعریف ہوئی۔ ایڈلنگ لکھتا ہے کہ اس کے بعد وہ مغل بادشاہ کے ہاں ٹھیٹر کا منتظم (میںجر) ہو گیا۔ اور آخر مشرق میں بیس سال کے قیام کے بعد انگلستان واپس چلا گیا۔ لنڈن میں اس نے اپنی گریمر شائع کی اور روسی سفیر ڈرن زو سے ملاقات پیدا کی۔ اس نے اسے روس میں بھیج دیا جہاں وہ فارن آفس میں ملازم ہو گیا اور سرکار کی طرف سے سنسکرت کا مطبع قائم کرنے کے لیے اسے بہت کچھ رقم دی گئی۔لیکن اس کی ہندوستانی گریمر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید بہ نسبت ہندوستانی زبان کے اس کا علم بنگالی اور سنسکرت میں زیادہ ہو۔ کیونکہ اس نے ہندوستانی گریمر میں نہ صرف الفاظ کا تلفظ غلط کہا ہے بلکہ قواعد کے بیان کرنے میں بھی بہت سی صریح غلطیاں کی ہیں۔
ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا نام اردو کے محسنین میں نہایت ممتاز ہے اور اردو زبان کا مورخ ان کا ذکر بغیر احسان مندی اور شکر گذاری کے نہیں کر سکتا۔ انہوں نے نہ صرف زبان اور قواعد زبان و لغت پر اعلیٰ درجے کی کتابیں ، بلکہ چند خاص اہلِ زبان حضرات کو جمع کر کے ان سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن میں سے بعض ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو کی خدمت کا کام ۱۷۸۷ع میں شروع کیا اور فورٹ ولیم کالج اردو زبان کی تالیف و تصنیف کا مرکز انیسویں صدی کے ابتدائی دس سال تک رہا۔ اگرچہ اصل مقصد اس کا یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں جو انگریز ملازم ہو کر آتے تھے ان کو اردو سکھانے کے لیے مناسب کتابیں لکھوائی جائیں تاکہ وہ آسانی سے ملک کی اس زبان کو جو ہر جگہ بولی یا سمجھی جاتی ہے سیکھ سکیں۔ لیکن اس پردے میں بعض بے مثل کتابیں لکھی گئیں اور آئندہ اس ڈھنگ کی تالیف کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ خود گلکرسٹ صاحب نے متعدد کتابیں اردو زبان اور اس کی لغت اور قواعد پر لکھی ہیں۔ ان کی کتاب قواعد اردو ۱۸۰۹ع میں چھپ کر شائع ہوئی۔ اگرچہ ان کی دو ایک کتابیں جو اس سے چند سال قبل طبع ہوئی تھیں ان میں بھی اردو زبان کے قواعد کا کچھ کچھ حصہ شریک تھا۔
مسٹر جان شیکسپیر کی اردو گریمر لندن میں اول اول ۱۸۱۳ میں شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن ۱۸۱۸ع میں تیسرا ۱۸۲۶ع میں ، چوتھا ایڈیشن میں دکھنی زبان کی مختصر سی گریمر بھی اضافہ کی ہے ۱۸۴۳ میں اور اس کے بعد ایک ایڈیشن ۱۸۵۸ میں شائع ہوا۔
۱۸۲۰ع میں اردو رسالہ گلکرسٹ کے نام سے ایک کتاب کلکتہ میں شائع ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن ۱۸۳۱ع ، ۱۸۴۶ع میں کلکتہ میں اور ۱۸۴۵ میں آگرہ میں چھپے۔ یہ رسالہ دراصل گلکرسٹ کی گریمر کا ملخص ہے۔
ولیم ٹیٹ نے ایک کتاب مقدمہ زبان ہندوستانی کے نام سے تالیف کی جو تین حصوں پر منقسم تھی۔ یعنی گریمر ، لغت اور اسباق زبان دانی۔ اول بار کلکتہ میں ۱۸۲۷ میں طبع ہوئی دوسری بار ۱۸۲۴ میں اور تیسری بار ۱۸۳۳ میں چھپی۔
گلکرسٹ صاحب کے بعد دوسرا یورپین محسن اردو فرانسیسی عالم موسیو گارساں دتاسی تھے۔ انہوں نے اصول زبان ہندوستان پر ایک کتاب لکھی جو پیرس میں ۱۸۲۹ میں طبع ہوئی اور صرف اردو و قواعدِ اردو پر ایک بڑا مضمون جنرل ایشیاٹک سوسائٹی بابت ۱۸۳۶ع میں لکھا (اس کے علاوہ موصوف نے تاریخ شعرائے اردو لکھی جو ایک بے مثل کتاب ہے)۔
مسٹر ایس ڈبلیو بری ٹن نے ہندوستانی زبان کے قواعد کے پر ایک کتاب تالیف کی جو لندن میں ۱۸۳۰ع میں طبع ہوئی۔
اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۸۳۱ میں مسٹر سٹیمفورڈ ارناٹ کی کتاب بنام "جدید خود آموز قواعد زبان ہندوستانی ، جو برٹش انڈیا کی نہایت کارآمد اور عام زبان ہے"۔ یہ کتاب فارسی اور رومن حروف میں ہے اور اس کے ساتھ بطور ضمیمہ کے لغت اور مشقی اسباق زبان دانی بھی اضافہ کیے گئے ہیں۔ لندن میں اول بار ۱۸۳۱ع میں اور دوسری بار ۱۸۴۴ع میں طبع ہوئی۔
۱۸۴۲ع میں ایک کتاب انگریزی اور ہندوستانی افعالِ بے قاعدہ پر اور مقدمہ قواعدِ ہندوستانی برائے افادۂ طلبہ مدراس میں طبع ہوئی۔ مؤلف کا نام تحریر نہیں ہے۔
ہندوستانی زبان کے قواعد مشرقی اور رومن حروف میں مع آسان انتخابات بغرض تحصیل زبان دانی فارسی عربی اور دیوناگری حروف میں مؤلفہ ایس ارناٹ باضافۂ لغت و حواشی از مسٹر ڈنکن فاربس مطبوعہ لندن ۱۸۴۴ع
اسی سال مسٹر جیمس آر بالن ٹائن کی گریمر لندن میں طبع ہوئی اور غالباً یہی کتاب بعد ترمیم و اضافہ ۱۸۶۸ع میں شائع ہوئی۔
۱۸۴۷ع میں ہندوستانی زبان کی ایک گریمر لندن میں طبع ہوئی اس کے مؤلف ریورنڈ جی اسمال تھے۔ اس میں کچھ انتخابات اردو ادب کے بھی شریک ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۸۵۸ء میں شائع ہوا۔
جرمنی کے ایک عالم جے دت لو پراخنو نے بھی ہندوستانی زبان کے قواعد پر ایک کتاب لکھی تھی جو برلن میں ۱۸۵۲ میں طبع ہوئی۔
سر مونیر ولیمس نے سنسکرت اور ہندی زبان کی جو خدمت کی ہے وہ محتاجِ تعریف نہیں۔ ایک زمانہ اس سے واقف ہے۔ صاحب موصوف نے ہندوستانی زبان کی ایک ابتدائی کتاب لکھی اور اس میں علاوہ روز مرہ کے استعمال کے الفاظ و محاورات و قصص مبتدیوں کے لیے صرف و نحو کے قواعد بھی درج کیے۔ ماسوائے اس کے ہندوستانی گریمر مؤلفہ کاٹن ماتھر مطبوعہ لندن ۱۸۶۲ع کو مرتب کیا جو ۱۸۷۶ میں شائع ہوئی۔
۱۸۷۲میں مسٹر جان ڈوسن نے اردو زبان کی ایک گریمر تالیف کی۔
مسٹر جان پلیٹ کی قواعد اردو لندن میں ۱۸۷۴ میں طبع ہوئی۔ یہ کتاب درحقیقت اچھی لکھی گئی ہے۔
کسی یورپین صاحب نے دکنی گریمر پر ایک رسالہ لکھا تھا لیکن اس پر مؤلف کا نام نہیں۔ یہ رسالہ ۱۸۷۸ع میں ستارا میں طبع ہوا۔
پامر صاحب کی ہندوستانی فارسی و عربی گریمر ۱۸۸۲ع میں بمقام لندن طبع ہوئی۔
۱۸۸۲ و ۱۸۸۳ع میں مسٹر ڈبلیو کیگر نے زبانِ ہندوستان کی گریمر لکھی۔ ان صاحب کا تعلق سروہنہ سے معلوم ہوتا ہے۔
۱۸۸۳ع میں پروفیسر فان کیو نے ہندوستانی زبان کے قواعد مرتب کیے۔ یہ کتاب نپولی میں طبع ہوئی۔
اسی سال مسٹر جے ون سن نے بھی اردو گریمر پر تالیف کی۔
جرمن عالم اے سی ڈل نے ایک کتاب اردو زبان کے قواعد پر تالیف کی جس کا نام اس نے ہندوستانی گریمر قیاسی و عملی رکھا۔ یہ کتاب ۱۸۹۳ میں بمقام لپ زک طبع ہوئی۔ ۱۸۹۴ میں شلز کی گریمر بھی لپ زک میں طبع ہوئی۔
یہ فہرست میں نے صرف اردو صرف و نحو کی ایسی کتابوں کی دی ہے جو اہلِ یورپ نے تالیف کی ہیں۔ لغت و ادب وغیرہ پر جو کتابیں ان لوگوں نے لکھی ہیں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہاں ان کا ذکر خارج از بحث ہے (اس مضمون پر مفصل بحث میری کتاب "تاریخ زبان اردو" میں ہوگی۔ یہ کتاب زیر تالیف ہے)۔ اس سے میرے اس بیان کی تصدیق ہوگی کہ اردو زبان کی صرف و نحو پر پہلے پہل غیروں نے توجہ کی۔
اہلِ ہند میں سب سے اول اس مضمون پر اردو کے مشہور شاعر میر انشاء اللہ خان انشاء دہلوی نے قلم اٹھایا ان کی کتاب دریائے لطافت ۱۲۲۲ھ/۱۸۰۲ع میں بعہد نواب سعادت علی خان بہادر لکھی گئی۔ اس میں علاوہ قواعد صرف و نحو کے عورتوں کے محاورات ، مختلف قوموں کی بولیاں اور گفتگوئیں اور طرح طرح کی نظم و نثر بھی شریک ہے۔ بعض محاورات و الفاظ کی تحقیق بھی خوب کی ہے۔ باوجودیکہ اس کتاب کو تالیف ہوئے مدت گذر چکی ہے لیکن اس وقت بھی وہ بے مثل اور قابل قدر کتاب (انجمن ترقی اردو اس کتاب کو عنقریب طبع کرانے والی ہے) ہے اور اردو زبان کےا دب میں ہمیشہ وقعت کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ یہ کتاب اول اول مرشد آباد میں ۱۸۴۸ میں طبع ہوئی۔
غالباً ناظرینِ کتاب کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ سر سید احمد خان مرحوم نے بھی اردو صرف و نحو پر ایک رسالہ تالیف کیا تھا۔ اس کا ایک قلمی نسخہ اسلامیہ ہائی سکول اٹاوہ کی حالی لائبریری میں موجود ہے۔ کاتب نے کتاب کے آخر میں ۱۲۵۲ ہجری مطابق ۱۸۴۰ع تحریر کیا ہے۔ اگرچہ یہ سنہ کتابت ہے لیکن سنہ تالیف بھی اسی کے لگ بھگ ہوگا۔ اس میں صرف و نحو کے معمولی قواعد ہیں۔ زیادہ تر بحثِ مصادر ہے۔ اگرچہ یہ کتاب کچھ ایسی قابل لحاظ نہیں لیکن اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو اردو زبان سے کس قدر دلچسپی تھی۔
اس کے بعد مولوی احمد علی دہلوی نے ایک ابتدائی رسالہ صرف و نحو پر لکھا جو دہلی میں ۱۸۴۵ع میں طبع ہوا اس کتاب کا نام "فیض کا چشمہ" ہے غالباً یہ تاریخی نام ہے اور اس سے سنہ تالیف ۱۲۵۹ ہجری نکلتا ہے۔
مولوی امام بخش صاحب صہبائی دہلوی فارسی کے مشہور منشی اور ادیب گذرے ہیں اور دہلی کالج میں پروفیسر بھی تھے ، انہوں نے بھی اردو صرف و نحو پر ایک کتاب تالیف کی تھی جو دہلی میں ۱۸۴۹ میں طبع ہوئی۔ یہ کتاب بھی اچھی ہے اس کے آخر میں بہ ترتیب حروف ابجد اردو کے محاورات اور کہیں کہیں ضرب الامثال بھی درج ہیں۔
ان کے علاوہ بھی اسی زمانہ میں دو ایک کتابیں اور لکھی گئیں۔ مثلاً ایک صاحب مرزا محمد صالح نے ایک گریمر ہندوستانی ، فارسی اور عربی کی لکھی اور اس میں فارسی گفتگو کا بھی ایک حصہ اضافہ کیا۔ اور ایک یورپین صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اصل کے ساتھ تھا۔ یہ کتاب بمقام لندن ۱۸۲۳ میں طبع ہوئی۔ یا ایک دوسری کتاب بمبئی کے محمد ابراہیم صاحب مقبہ مقبہ نے تحفتہ الفنسٹن کے نام سے تالیف کی جو بمبئی میں ۱۸۲۳ میں طبع ہو کر شائع ہوئی۔ یہ کتاب الفنسٹن صاحب گورنر بمبئی کے نام سے موسوم کی گئی تھی لیکن یہ کتابیں کچھ زیادہ قابل لحاظ و قابل ذکر نہیں ہیں۔
زمانہ حال میں متعدد کتابیں اس مبحث پر طلبہ مدارس وغیرہ کے لیے پنجاب و ممالک متحدہ آگرہ و اودھ میں تالیف ہوئی ہیں جن میں کم و بیش عربی صرف و نحو کا تتبع کیا گیا ہے۔ البتہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے جو دو مختصر رسالے طلبہ مدارس کے لیے لکھے ہیں ان میں انہوں نے تقلید سے الگ ہو کر جدت سے کام لیا ہے۔ لیکن یہ رسالے بہت مختصر ہیں اور صرف ابتدائی مدارس کے طالب علموں کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں۔
میں اس سے قبل اس امر کا اعتراف کر چکا ہوں کہ ایک زندہ زبان کے لیے قواعد کی چنداں ضرورت نہیں۔ اور میں نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ عموماً اور اکثر کسی زبان کی صرف و نحو اس وقت لکھی گئی جبکہ کسی غیر قوم کو اس زبان کی تحقیق یا اس کے سیکھنے کی ضرورت واقع ہوئی اور صرف و نحو کی تحریر ابتداًیا اس کے متعلق جد و جہد ہمیشہ غیر قوم والوں کی طرف سے ہوئی۔ کیونکہ اہلِ زبان اس سے مستغنی ہوتے ہیں۔ یہی حال اردو کا ہوا۔ اس کے صرف و نحو اور لغت کی طرف اول اول اہلِ یورپ نے بضرورت توجہ کی۔ اس کے بعد جب اہلِ ملک نے یہ دیکھا کہ ان لوگوں کو اردو پڑھنے کا شوق ہے تو ان کی دیکھا دیکھی یا ان کے فائدہ کی غرض سے خود بھی کتابیں لکھنی شروع کیں۔ بعد ازاں جب یہ زبان مدارس میں بھی پڑھائی جانے لگی تو صرف طلبہ کے لیے کتابیں لکھی جانے لگیں چنانچہ آج کل جس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی اصل غرض یہی تھی۔ لیکن ماسوائے اس کے اب ایک ضرورت داعی ہوئی ہے وہ یہ کہ زبان اردو ادب ملک کی عام اور مقبول زبان ہو گئی ہے اور اس میں اکثر جگہ بولی جاتی ہے اور ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ ملک کی دوسری زبانیں خاص خاص خطوں میں محدود اور مخصوص ہیں۔ نیز اس زبان کو کچھ ایسے مقامات کے لوگ بھی پڑھتے اور سیکھتے ہیں جن کی یہ مادری زبان نہیں۔ اس لیے یہ ضرورت واقع ہوئی کہ اس زبان کے قواعد منضبط کیے جائیں اور مستند کتابیں لغت پر لکھی جائیں تاکہ زبان بگڑنے سے محفوظ رہے۔ میں نے اس کتاب کے لکھنے میں اس خیال کو مد نظر رکھا ہے اور صرف طلبہ مدارس کی ضروریات کا لحاظ نہیں کیا ہے۔ بلکہ زیادہ تر یہ کتاب ان حضرات کے لیے ہے جو زبان کو نظر تحقیق سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہاں اب تک جو کتابیں قواعد کی رائج ہیں ان میں عربی صرف و نحو کا تتبع کیا گیا ہے۔ اردو خالص ہندی زبان ہے اور اس کا شمول آریاوی السنہ میں ہے بخلاف اس کے عربی زبان کا تعلق سامی السنہ سے ہے۔ لہٰذا اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طرح جائز نہیں۔ دونوں زبانوں کی خصوصیات بالکل الگ ہیں۔ جو غور کرنے سے صاف معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح اگرچہ اردو ہندی نژاد ہے اور اس کی بنیاد قدیم ہندی پر ہے ، افعال جو زبان کا بہت بڑا جز ہیں ، نیز ضمائر اور اکثر حروف سب کے سب ہندی ہیں۔ صرف اسماء و صفات عربی فارسی سے داخل ہو گئے ہیں۔ اور چند گنتی کے مصادر جو عربی فارسی الفاظ سے بن گئے ہیں۔مثلاً بخشنا ، بدن ، قبولنا ، تجویزنا وغیرہ کسی شمار میں نہیں بلکہ بعض ثقات بزعم خود انہیں فصیح بھی خیال نہیں کرتے۔ تاہم اردو زبان کی صرف و نحو میں سنسکرت کے قواعد کا تتبع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے متعلق چند موٹی موٹی باتیں یہاں لکھی جاتی ہیں۔
ہر اسم کے سنسکرت میں تین حصے کئے گئے ہیں۔
(۱) مادہ ، حرف بعد مادہ اور حرفِ آخر۔ موجودہ ہندی یا اردو میں حرفِ آخر اڑ گیا ہے۔
(۲) سنسکرت میں اسم کی مختلف حالتیں (فاعلی ، مفعولی ، اضافی وغیرہ) صرف حرفِ آخر کے تغیر سے بنتی ہیں جو اکثر قدیم زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ اور ہندی اردو میں الگ حروف بڑھانے سے بنتی ہیں اور تمام جدید زبانوں کا میلان اسی طرف ہے۔
(۳) سنسکرت اور پراکرت میں جنس تین ہیں یعنی نر ، مادہ اور بے جان۔ موجودہ ہندی یا اردو میں صرف دو ہیں۔
(۴) سنسکرت کا فعل بہت دقیق اور پیچیدہ ہے اور ایک زمانہ سے اس میں اصلاح ہوتے ہوتے موجودہ ہندی میں آ کر صاف اور سادہ ہوا ہے۔ تثنیہ کا صیغہ سنسکرت میں ہے ہندی میں نہیں۔
سنسکرت میں ہر فعل کی چھ صورتیں ، تیرہ قسمیں اور نو جنسی حالتیں ہیں یعنی کل صیغے سات سو دو ہوتے ہیں اور یہ سب ایک ہی لفظ کے ہیر پھیر سے بنتے ہیں۔ موجودہ زبان میں یہ بڑی آسانی ہوتی ہے کہ اکثر افعال امدادی افعال کی اعانت سے بنائے جاتے ہیں۔ اور سب سے مصادر فارسی اور عربی اسما و صفات کے آگے ہندی مصادر مثلاً دینا کرنا وغیرہ بڑھا کر بنائے جاتے ہیں۔

ایسی صورت میں اردو زبان کی صرف و نحو میں عربی یا سنسکرت کا تتبع کرنا الٹی گنگا بہانا ہے۔ البتہ اصطلاحات عربی سے لی گئی ہیں کیونکہ اس سے گریز نہیں۔ اردو زبان میں تقریباً کل علمی اصطلاحات عربی ہی سے لینی پڑتی ہیں جیسے انگریزی زبان میں لاطینی اور یونانی سے۔
میں اس موقع پر اردو ہندی کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ بحث میرے خیال میں بالکل بے سود ہے۔ اول تو اس لیے کہ صرف و نحو میں اس بحث کا کوئی موقع نہیں خصوصاً اس خیال سے کہ اس امر میں تقریباً دونوں ایک ہیں اور ماسوائے بعض جزوی اختلافات کے کوئی اختلاف نہیں۔دوسرے جو شخص اس ملک کی مختلف زبانوں کی تاریخ کو نظرِ غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ فریقین نے محض سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے۔ اصل جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔ قدرتی اثرات اور رجحانات کا روکنا اپنے ہاتھوں سے اپنی ترقی کو روکنا ہے۔
بات یہ ہے کہ جب آریا لوگ اس ملک میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں ایک دوسری قوم کو آباد دیکھا جن کی زبان ان کی زبان سے بالکل مختلف تھی۔ ملک کی اصل قوم ان قوی آریاؤں کے حملوں کی تاب نہ لا سکی اس لیے کچھ تو ان میں سے شمالی پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے اور بہت سے جنوبی اور وسطی ہند کے پہاڑوں اور جنگلات میں جا بسے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ایسے تھے جنہیں اپنے عزیز وطن سے جدائی گوارا نہ تھی۔ اگرچہ وطن دوسروں کے ہاتھوں میں تھا اور اس لیے نئے حملہ آوروں کی غلامی میں بسر کرنے لگے۔ اگرچہ ایسی ضرورت میں ظاہر ہے کہ مغلوب اور پائمال کی زبان کیا باقی رہ سکتی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان کی زبان نے آریاؤں کی زبان یعنی سنسکرت پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا۔ اور اس لیے یہ کہنا غلطی ہوگا کہ قدیم ہندی بولیاں جو پراکرت (یعنی عوام کی بولی) کے نام سے مشہور ہیں اس اثر کا نتیجہ تھیں۔ اور جو صدیوں تک سنسکرت کے دوش بدوش ملک میں قائم رہیں۔ اور انہیں پراکرت بولیوں سے ہندوستان کی موجودہ آریائی زبانیں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق سنسکرت سے ایسا ہی ہے جیسے یورپ کی موجودہ رومائی السنہ کو لاطینی سے۔ ان زبانوں کی تعداد عموماً سات شمار کی جاتی ہے۔ یعنی پنجابی ، سندھی ، گجراتی ، مرہٹی ، ہندی ، اڑیا اور بنگالی۔
ان سب میں ہندی بلحاظ قدامت و اہمیت کے سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے لیکن ابتدا ہی سے اس پر غیروں کی نظریں پڑنی شروع ہوئیں۔ مسلمان جو شمال کی طرف سے اس ملک میں آنے شروع ہوئے اس کو اپنی زبان سے متاثر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور جو اثر بارھویں صدی سےپڑنا شروع ہوا تھا وہ آخر ایک نئی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور یہی اردو (لشکری زبان) کی اصل ہے۔ یہ دراصل کسی پراکرت یا ہندی کی بگڑی ہوئی صورت نہیں بلکہ ہندی کی آخری اور شائستہ صورت ہے۔ اور اس وقت ہندوستان کی عام ملکی زبان مانی جاتی ہے۔یہ نہ کسی خاص شخص یا فریق کی ایجاد ہے اور نہ کسی خاص پالیسی (مصلحت) اور منشا سے بنائی گئی ہے بلکہ جس طرح اس ملک کی معاشرت و سیاست میں وقتاً فوقتاً مختلف قدرتی اسباب سے تغیرات پیدا ہوئے اور آج انہیں اثرات کی وجہ سے ایک جدید حالت نظر آتی ہے اسی طرح زبان میں بھی قدرتی اثرات و رجحانات اور مختلف واقعات سے تغیرات ظہور میں آئے۔ اور اس وقت جو ہم خاص پالیسی کی وجہ سے پرانی شے کو نئی سمجھ کر چوکنے ہوتے ہیں وہ صرف ایک دھوکا ہے۔ اب اتنی مدت کے بعد ان باتوں پر جھگڑا کرنا گویا صدیوں کے واقعات کو جھٹلانا اور قدرتی اثرات اور رجحانات کو الٹا لے جانا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز ایک حالت پر نہیں رہتی۔ اور جب ہم ہی ایک حالت پر نہ رہے تو ہماری زبان کیوں رہنے لگی۔ اور کچھ نہیں تو اگر صرف زبان کے الفاظ ہی کو سرسری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی کتنی قوموں نے (بغیر کسی خاص ارادہ کے محض قدرتی اثرات کی وجہ سے) اس کے بنانے میں حصہ لیا ہے۔ تو کیا ایک ایسی یادگار کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ایک نہایت دردناک فعل نہ ہوگا؟ خصوصاً ایسے عہد میں جبکہ زمانہ قدیم کے ایک ایک پتھر اور اینٹ کو سینت سینت کر رکھا جاتا ہے۔
اس نہایت مختصر ذکر سے میرا مقصد یہ تھا کہ اردو کی صرف و نحو کو سنسکرت زبان کے قواعد سے اسی قدر مغائرت ہے جتنی عربی زبان کی صرف و نحو سے۔ (اور زبان کی اصلیت پر مفصل بحث میں نے اپنی تالیف زبان اردو کی تاریخ میں کی ہے)۔ میرا خیال ہے کہ کسی زبان کے قواعد کو لکھتے وقت اس کی خصوصیات کو کبھی نظر انداز نہ کیا جائے اور محض کسی زبان کی تقلید میں اس پر زبردستی قواعد اور اصول کے نام سے ایسا بوجھ نہ ڈال دیا جائے جس کی وہ متحمل نہ ہو سکے۔ میں نے حتی الامکان اسی اصول کو مد نظر رکھا ہے اور اس امر کی کوشش ہے کہ جدھر زبان کا رجحان ہو ادھر ہی اس کا ساتھ دیا جائے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے۔ بہرحال مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور اس کے ساتھ ہی مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ کتاب اسقام سے خالی نہیں۔ اور اس لیے میں ہر ایک مشورہ اور اختلاف کو نہایت شکر و احسان کے ساتھ سننے اور اپنی غلطیوں کی اصطلاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قواعدِ اردو

الفاظ ان انسانی آوازوں کو کہتے ہیں جو ہم اپنے خیالات ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
زبان الفاظ سے بنتی ہے۔
اول بہ لحاظِ صوت (آواز)
دوم بہ لحاظِ معنی ، صورت اور اصل
سوم بہ لحاظِ ترکیبِ باہمی جس سے جملہ بنتا ہے ، اور جس کے ذریعہ ہم اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔
۱۔ جب ہم کسی لفظ کو سنتے ہیں تو یا تو اس میں ایک سادہ آواز ہوتی ہے یا ایک سے زیادہ آوازیں ملی ہوئی ہوتی ہیں ، جب ان آوازوں کو تحریر میں لاتے ہیں تو ان علامات کو حروف کہتے ہیں۔
۲۔ مختلف استعمالات کی رو سے الفاظ کی کئی تقسیمیں ہو سکتی ہیں۔ جب وہ دوسرے الفاظ سے ملتے ہیں تو ان میں بعض اوقات تغیر و تبدل بھی واقع ہوتا ہے یا جب کبھی ان میں کچھ اضافہ کر دیا جائے تو وہ نئے لفط ہو جاتے ہیں۔
۳۔ ان الفاظ کی ترکیب بعض خاص قواعد کی رو سے ہوتی ہے ، اس لیے زبان کے قواعد تین مضامین سے بحث کرتے ہیں۔
اول اصوات و حروف و اعراب (ہجا)
دوم تقسیم تبدیل و اشتقاق (صرف)
سوم جملے میں الفاظ کا باہمی تعلق نیز جملوں کا تعلق ایک دوسرے سے (نحو)

فصل اول

ہجا

ہجا سے مطلب ہے حروف کی آواز اور ان کی حرکات و سکنات۔
آواز کو تحریری علامات میں لانے کا نام حروف ہے۔
حروف کے مجموعہ کو ابجد کہتے ہیں۔
(ابجد کا لفظ ابتدائی حروف ا ب ج د سے بنا ہے)
چونکہ اردو زبان سنسکرت فارسی اورعربی سے مل کر بنی ہے لہٰذا اس میں سب زبانوں کے حروف موجود ہیں۔
خاص عربی حروف یہ ہیں۔
ث ، ح ، ذ ، ص ، ض ، ط ، ظ ، ع ، ق۔
ہندی کے خاص حروف یہ ہیں۔
ٹ ، ڈ ، ڑ
خاص فارسی کے حروف یہ ہیں۔
پ ، چ ، ژ ، گ۔
لیکن پ ، چ ، ژ ، گ ہندی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ہندی فارسی میں مشترک ہیں۔ ہندی میں خ کی آواز نہیں ہے۔ فارسی میں ہے اسی طرح غ بھی عربی و فارسی میں مشترک ہے۔
ہندی میں بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ ، جھ ، کھ ، گھ حروف میں شامل ہیں لیکن درحقیقت یہ مفرد آوازیں نہیں بلکہ دو دو حروف ب ہ ، ٹ ہ وغیرہ کے مرکب ہیں۔ لہٰذا ان کوحروف میں شامل نہیں کیا گیا ، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات یہ دونوں مل کر ایک آواز پیدا کرتے ہیں۔ کھا اور کہا میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے پنجاب میں غالباً کرنل ہالرائڈ کی تحریک سے اس کے املا میں بھی فرق کیا جاتا ہے جب یہ مل کر ایک آواز دیتے ہیں تو دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں مثلاً یہ دو لفظ کھا اور کہا لکھے جائیں گے اور یہ امتیاز بہت ضروری ہے۔
یہ حروف جو ہر ملک کے لیے مخصوص کئے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آوازیں آب و ہوا وغیرہ کے وجوہ سے ان لوگوں کے گلوں سے بہ آسانی نکلتی ہیں مگر دوسرے ممالک کے لوگ انہیں وجوہ سے ان کو ادا نہیں کر سکتے یا بدقت ادا کرتے ہیں۔ انسان کا گلا آلۂ موسیقی کے اصول پر بنا ہوا ہے اور اسی طور پر اس میں تار بھی بندھے ہوئے ہیں۔ سانس کے ہوا میں ملنے سے زبان ، تالو ، ہونٹ ، دانت اور خلائے دہن کی مدد سے آواز میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
اردو ، فارسی ، عربی ، حروف پر اگر نظر ڈالی جائے تو گویا وہ دیکھنے میں مختلف آوازوں کی علامات ہیں لیکن درحقیقت ان حروف کے نام سے کوئی سادہ آواز پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ خاصے الفاظ ہیں مثلاً الف عین جیم وغیرہ وغیرہ حروف نہیں بلکہ پورے الفاظ ہیں چہ جائے کہ ان سے سادہ آوازوں کا کچھ بھی خیال پیدا ہوتا ہو۔ اس کی وجہ بلاشبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانہ کی یادگار ہیں جب کہ اس قسم کی تحریر ایجاد نہیں ہوئی تھی ، بلکہ لوگ اپنے خیالات تصاویر میں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے۔ مثلاً گائے یا عورت کا بتانا مقصود ہے تو وہ گائے یا عورت کی تصویر کھینچ دیتے تھے۔
دوسرے دور میں یہ اصلاح ہوئی کہ شے سے اس کا فعل ظاہر کرنے لگے مثلاً آنکھ سے نظر یا دو ٹانگوں سے رفتار مراد لینے لگے۔
تیسرے دور میں یہ ہوا کہ شے سے اس کی ممتاز خصائص یا ظاہری علامت سے اصل شے مراد لی جانے لگی مثلاً لومڑی کی تصویر سے مکاری یا تخت سے سلطنت مقصود ہوتی تھی۔
چوتھے دور میں ایک شے کے اظہار میں یہ ترکیب کرنے لگے کہ اس شے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک ایک تصویر بناتے تھے۔ مثلاً اگر کرا لکھنا ہو تو پہلے گھنٹے کی تصویر بنائیں گے کیونکہ کنی گھنٹے کو کہتے ہیں اور پھر سورج کی کیونکہ را سورج کو کہتے ہیں بعد ازاں یہ ہوا کہ یہی تصویر مختلف اصوات کی قائم مقام ہو گئیں۔ اور انہیں تصویروں کی یادگار یہ حروف ہیں جو اب بھی کسی قدر اُن سے مشابہ ہیں مثلاً الف۔ الف کے معنی بیل کے سرکے ہیں چونکہ ا کی آواز اس لفظ کے آغاز میں تھی۔ تو اس آواز کے ظاہر کرنے کے لیے گائے کا سر بنادیتے تھے۔ بعد ازان خود یہ لفظ بجائے ا کی آواز کے تحریر میں ایک حرف قرار پایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ فارسی ، عربی ، عبرانی زبانوں کے حروف درحقیقت الفاظ ہیں جس کی ابتدا کے حروف اس کی مناسب آواز کی بجائے کام دیتے ہیں۔
اسی طرح ب درحقیقت بیت سے ہے جس کی ابتدائی شکل ایک مکان مستطیل کی سی تھی اور سکے نیچے نقطہ ایک شخص تھا جو مکان کے دروازہ کے سامنے بیٹھا تھا اب رفتہ رفتہ اس کی شکل ایسی ہوگئی اور وہ آدمی نقطہ رہ گیا۔
ج جمل یعنی اونٹ ہے۔ اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور اس کی نکیل زور سے کھینچے تو اس کے سر اور گردن کی شکل بعینہ ج کی ہوجائے گی۔
پ عبرانی میں منھ کے معنی میں ہے
د (عبرانی دالت) دروازہ
ہ۔ دریچہ
ع (عین) کے معنی آنکھ کے ہیں چناچہ (ع) کا سر بالکل آنکھ کے مشابہ ہے۔
ن (نون) مچھلی۔ مشابہت ظاہر ہے۔
ک (کف ہتھیلی) اگر ہتھیلی پھیلائی جائے تو انگلیاں انگوٹھے کے ساتھ مل کر بالکل (ک) کی صورت بن جاتی ہیں۔
م (میم پانی کی لہر) صورت سے ظاہر ہے۔
س عبرانی میں دانت کو کہتے ہیں (س) کا دندانہ بالکل دانت کے مشابہ ہے۔
و (واؤ) کے معنی ہک یعنی کانٹے کے ہیں جس کی صورت و سے ملتی ہے۔
غرض اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حروف دراصل الفاظ ہیں جو دو یا دو سے زائد آوازوں سے مرکب ہیں۔ اور ہر ایک بہ لحاظ اپنی اول سادہ آواز کے ایک علامت مقرر کرلیا گیا ہے مثلاً الف میں تین آوازیں ا ،ل ،ف کی ہیں مگر آواز اول آ ہے اس لیے اسے آ کے بجائے مقرر کرلیا۔ اسی طرح دوسرے حروف کے متعلق قیاس کرلیا جائے۔ ابتداء میں اس سادہ آواز کے لیے اس شے کی تصویر کھینچ دی جاتی تھی۔ مگر اب ایک چھوٹی سی علامت جو کسی قدر اصل کے مشابہ ہے بجائے اس آواز کے مستعمل ہے۔ اور نام ان کے قریب قریب وہی ہیں جو اصل اشیاء کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حروف تہجی بولنے میں درحقیقت الفاظ ہیں۔ اردو حروف تہجی کل چونتیس ہیں اور ان میں ہر قسم کی آواز کے ادا کرنے کی گنجائش ہے اور اس خیال سے اردو ابجد کو دنیا کی تمام زبانوں پر ایک طرح تفوق حاصل ہے۔ مگر دنیا کی کوئی ابجد کامل نہیں ہے ایک نہ ایک نقص ضرور رہ جاتا ہے۔ یا تو کل سادہ آوازوں کے ادا کرنے کے لیے کافی حروف نہیں ہوتے یا ایک ہی آواز کے لیے کئی کئی حروف ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اردو زبان بھی اس سے خالی نہیں چنانچہ یہ آخری نقص اردو زبان میں بھی پایا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ اردو کو علاوہ فارسی سنسکرت کے عربی سے بھی بڑا تعلق ہے اس لیے کثرت سے اس کے الفاظ زبان میں موجود ہیں اور اس وجہ سے لامحالہ اس کے تمام حروف بھی اردو ابجد میں آگئے۔ ورنہ عربی الفاظ کی صحت تحریر میں قائم نہ رہتی۔ چناچہ ز ذ ض ظ چار الگ حروف ہیں جن کی آواز قریب قریب یکساں معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح ث ص اور ت ط اور ح ہ۔ گو عرب کا باشندہ یا وہ شخص جو صحتِ زبان کا خیال رکھتا ہے ان حروف کے تلفظ میں فرق بتا سکے۔ مگر ہر ایک کے لیے اس کا امتیاز دشوار ہے ، تاہم غور سے دیکھا جائے تو علم اللسان کی رو سے اردو ابجد ہر طرح کامل ہے اور یہ کہا جانا کہ بعض حروف ایک سی آواز پیدا کرتے ہیں درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان میں نازک فرق ہے۔ اور یہ فرق ہی اس کی خوبی اور کمال کی دلیل ہے۔ کیونکہ ذرا ذرا سے فرق کے لیے بھی الگ الگ حروف موجود ہیں۔

اعراب یا حرکات

سادہ آوازوں کو ہم بلاتکلف ہونٹ اور زبان کی امداد سے ملا کر مرکب کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح فراٹے سے باتیں کرتے چلے جاتے ہیں جیسے کسی نے کل کوک دی۔ زبان اور لب کی ذرا سی جنبش سے آواز کی مختلف صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ آواز کا پھیلنا ، تند ہونا ، بڑھنا ، گھٹنا ، گول ہوجانا ، سب اسی پر منحصر ہے۔ ان تمام آوازوں کو صفائی کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لانا نہایت مشکل ہے۔ اگرچہ بہت کوشش کی گئی لیکن اب تک کامیابی نہیں ہوئی۔ بعض زبانوں مثلاً سنسکرت ، انگریزی وغیرہ میں سادہ آوازوں کے مرکب کرنے کے لیے جو جنبش لب و زبان کو ہوتی ہے اس کے لیے بعض حروف مناسب قرار دیے ہیں اور جہاں دو یا دو سے زیادہ حروف کا ملانا منظور ہوتا ہے وہاں ان میں سے بہ لحاظ آواز کے ایک نہ ایک حرف ضرور آتا ہے اس لیے اس قسم کی ہر زبان میں حروف کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ ایک وہ جو دوسرے حروف کو ملا کر آواز قائم کرنے کے لیے آتے ہیں جنہیں عربی میں حروفِ علت کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو بغیر ان حروف کے آپس میں مل کر آواز پیدا نہیں کرسکتے وہ حروفِ صحیح کہلاتے ہیں۔
اردو میں مثل عربی کے حروفِ علت دو قسم کے ہیں ایک محض علامات(حرکات)دوسرے اصل حروف ا و ی جنکی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے۔
زبر۔ (جسے عربی میں فتح کہتے ہیں۔ جس کے معنی کھلنے کے ہیں۔ یعنی کل آواز کھل کر نکلتی ہے) زبر کے معنی اوپر کے ہیں۔ چونکہ یہ علامت حروف کے اوپر آتی ہے اس لیے زبر کہتے ہیں اور درحقیقت الف کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز کو لمبا کرنے سے الف کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ جیسے مَر اور مار۔
زیر۔ (جسے عربی میں کسرہ کہتے ہیں جس کے معنی توڑ ڈالنے کے ہیں۔ کیونکہ آواز میں ایک قسم کی شکن واقع ہوتی ہے)۔ زیر کے معنی نیچے کے ہیں زیر اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی آواز خفیف ی کی سی ہوتی ہے۔ لیکن ی کے ساتھ آنے میں دو قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں ایک زیادہ باریک اور طویل دوسری کسی قدر واضح اور کھلی ہوئی ہوتی ہے جیسے شیر (جانور) شیر (دودھ) یہاں ی کی دو حالتیں ہیں۔ پہلی حالت میں یائے خفی (مجہول) ہے اور دوسری حالت میں یائے جلی (معروف)۔ مجہول کے نیچے معمولی لکھا جائے اور معروف کے نیچے کھڑا زیر جیسے پیر ، تیر۔
پیش (ُ) جسے عربی میں ضمہ کہتے ہیں جس کے معنی ملانے کے ہیں۔ پیش کے معنی سامنے یا آگے کے ہیں۔ یہ حرف کے اوپر آتا ہے اور خفیف واؤ کی آواز دیتا ہے۔ جب اس کی آواز بڑھانا یا کسی قدر واضح کرنا مقصود ہو تو واو سے لکھتے ہیں جیسےدُر ، دور ، روم
( واؤ مجہول اور یائے مجہول کی آواز عربی میں نہیں آتی اس لیے عربوں نے اس کا نام مجہول (یعنی نامعلوم) یا عجمی رکھاہے۔ لیکن اردو میں یہ آوازیں مجہول یا نامعلوم نہیں ہیں۔)
(مولوی نظام الدین حسن صاحب بی اے ایل ایل بی اس علامت (واؤ) کو لفظ ضمہ کا مخفف بتاتے ہیں اس طور پر کہ م ، ہ دونوں حذف کردیےگئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ؤ ہے چونکہ پیش کی آواز سے بہت مشابہ ہے اس لیے یہ صورت قرار دی گئی۔)
واؤ کی بھی دو حالتیں ہیں ایک خفی (مہجول) جیسے موم میں دوسرے جلی (معروف) جیسے روم میں۔
الف واؤ ی کبھی حروفِ صحیح بھی ہوتے ہیں۔ الف جب شروع میں آتا ہے تو ہمیشہ حرفِ صحیح ہوگا۔ واؤ جب لفظ کے شروع میں آئے یا درمیان میں تو متحرک ہوگی جیسے وعدہ ، ہوا۔
ی کی بھی یہی حالت ہے جیسے یقین کے شروع میں یا میسّر کے درمیان۔ یوں تو زبر الف کے ساتھ زیر ی کے ساتھ واؤ پیش کے ساتھ آتی ہے ، اور بہ لحاظ آواز کے ان کا جوڑ بھی ہے لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا بلکہ مختلف حرکات کا اجتماع ہوجاتا ہے مثلاً زبر اور واؤ کا جیسے قوم۔ اس وقت یہ دونوں مختلف حرکات ایک ہی آواز دیتی ہیں یہی حالت ی کی بھی ہےجیسے خیر۔ اسے واؤ یائے ما قبل فتح کہتے ہیں۔ واؤ مجہول پر معمولی پیش اور واؤ معروف پر الٹا پیش لکھتے ہیں جیسے بوٗند ، شُور ، نوٗر ، دوٗر ، چُور۔
( ّ )جب کوئی حروف مکرر آواز دیتا ہے تو بجائے دوبارا لکھنے کے صرف ایک ہی بار لکھتے ہیں۔ اور اس پر یہ علامت ( ّ ) لکھ دیتے ہیں اس کا نام تشدید ہے۔ مثلاً مدّت بجائے مددت لکھنے کے د پر تشدید کی علامت لکھ دی اور اس سے مقصد حاصل ہوگیا۔ جس حوف پر تشدید ہوتی ہے اس پر علاوہ تشدید کے زبر زیر پیش میں سے کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ تاکہ پڑھنے میں زبان سے وہی آواز نکالی جائے۔ لیکن جب تشدید ی یا واؤ پر آتی ہے تو لفظ کے پہلے جز کی حرکت کو گھمانا پڑتا ہے ورنہ تلفظ صحیح نہ ہوگا مثلاً نیّر اگر معمولی طور سے اس کے ہجے کیے جائیں گے تو یہ ہوں گے ( نے یر) مگر یہ صحیح نہ ہوگا اس لیے ے کے زبر کو گھما کر پڑھنا ہوگا۔ اسی طرح نواب۔ معمولی طور سے ہجے کریں تو (نوواب) ہوگا لیکن بوجہ تشدید و کو گھما کر پڑھنا چاہیے۔
جزم یا سکون ( ْ ) جب کسی حروف پر کوئی حرکت زیر زبر پیش میں سے نہ ہو جیسے دم میں م پر جزم ہے تو ایسے حرف کو ساکن کہتے ہیں۔ ساکن کے معنی ٹھہرنے والے کے ہیں یعنی اس حرف پر آواز ٹھہر جاتی ہے۔
مد (۔۔۔۔ ) الف کو جب کھینچ کر پڑھتے ہیں تو اس وقت اس پر یہ علامت لگا دیتے ہیں جیسے آم۔ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہیں۔ مد کے معنی لمبا کرنے یا کھینچنے کے ہیں۔
ہمزہ (ء) اسے غلطی سے حروف میں شامل کرلیا گیا ہے یہ درحقیقت ی کے ساتھ وہی کام دیتی ہے جو مد الف کے ساتھ (یعنی جہاں ی کی آواز کھینچ کر نکالنی پڑے اور قریب دو ی کے ہو وہاں اسے لکھ دیتے ہیں) یہ ہمیشہ ی یا و کے ساتھ آتا ہے جیسے کئی۔ تئیں۔ کھاؤ۔ جدائی۔ الف کا مد شروع اور درمیان دونوں میں آسکتا ہے مگر ہمزہ ی یا و پر صرف درمیان یا آخر میں آتا ہے۔
تنوین ( ً۔ ٌ ) کسی اسم کے آخر دو زبر یا دو زیر یا دو پیش آنے کو تنوین کہتے ہیں۔ تنوین کا مادہ نون ہے۔ چونکہ اس علامت کے دینے سے اس کے آخر حرف کی آواز نون کی پیدا ہوتی ہے اس لیے اسے تنوین کہتے ہیں جیسے نسلاً بعد نسل ، اتفاقاً ، دفعتہً۔ یہ صرف عربی الفاظ میں آتی ہے۔
نوٹ
ان علامات کو اعراب اس لیے کہتے ہیں کہ اہلِ عرب کی ایجاد سمجھے جاتے ہیں اور کسی دوسری زبان میں نہیں پائے جاتے۔ اعراب کے معنی ہیں کہ کسی حرف پر ان میں سے کسی علامت کا لگانا۔ انہیں حرکات بھی کہتے ہیں کیونکہ ان علامات سے آواز میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن چونکہ جزم سے سکون ہوتا ہے اس لیے پورا نام حرکات و سکنات ہے۔ اعراب کا لفظ مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔ جس حرف پر کوئی حرکت ہوتی ہے اس متحرک کہتے ہیں۔

(حرف کے متعلق چند مفید باتیں)

۱۔ حروفِ شمسی و قمری
عربی میں امتیاز و خصوصیت کے لیے اسماء پر ال لگادیتے ہیں۔ بعض حروف ایسے ہیں کہ جب ان کے شروع میں ال آتا ہے تو ل تلفظ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر بعض ایسے ہیں کہ اگر ان کے پہلے ال آتا ہے تو ل تلفظ میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اور لفظ کا اول صرف مشدد پڑھا جاتا ہے۔ جن حروف کے شروع میں ال نہیں پڑھا جاتا انہیں حروفِ شمسی کہتے ہیں۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ جب شمس کے پہلے ال لگادیا جاتا ہے تو ل کی آواز ظاہر نہیں کی جاتی (الشمس) اور جن حروف میں ل کی آواز تلفظ میں ظاہر کی جاتی ہے انہیں حروفِ قمری کہتے ہیں کیونکہ قمر پر جب ال لگائیں گے تو ل کی آواز ظاہر کی جائے گی (القمر)۔ اس کا استعمال صرف عربی الفاظ کے ساتھ عربی قواعد کی رو سے ہوتا ہے۔ چونکہ اردو میں ایسے الفاظ اکثر آتے ہیں لہذا اس کی تصریح یہاں کردی جاتی ہے۔

حروفِ قمری
ا۔ جیسے الامان۔ نبّاش الاول
ب۔ فصیح البیان
ج۔ عبدالجلیل
ح۔ عبدالحئی
خ۔ مراۃ الخیال
ع۔ نورالعین
غ۔ اسد اللہ الغالب
ف۔ سریع الفہم
ق۔ صادق القول
ک۔ بالکل
ل۔ عمی اللون
م۔ بیت المال
و۔ کتاب الوعظ
ہ۔ بوالہوس
ی۔ الیوم
حروفِ شمسی
د۔ مظفرالدین۔ یوم الدین
ذ۔ صاحب الذکر
ر۔ ہارون الرشید
ز۔ خلیفتہ الزمان
س۔ ظل السلطان
ش۔ الشمس
ص۔ اَلصّبر
ض۔ الضالین
ط۔ جَبَلُ الطّارق
ظ۔ الظّہر
ن۔ ذوالنورین۔ النوم

۲۔ فارسی میں چند الفاظ ایسے ہیں کہ ان میں حرف واؤ ساکت ہوتا ہے یعنی تلفظ میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اسے واؤ معدولہ کہتے ہیں مگر یہ واؤ ہمیشہ خ کے بعد آتی ہے۔ یہ الفاظ بہت کم ہیں اور وہ یہ ہیں۔ خود۔خویش۔خویشتن۔خوئے۔(خے) خوش۔خور۔خوردن۔(اور اس کے تمام اشتقاق) خواندن مع اشتقاق لیکن خواب۔خواہش (اور خواستن مع اشتقاق) خواہر۔ خواجہ۔ خوان۔ خوارزم۔ (نام ملک) میں واؤ کی خفیف سی آواز ظاہر کی جاتی ہے۔ انگریزی کے بعض الفاظ ایسے ہیں جن میں نہ تو پورا واؤ کا تلفظ ہوتا ہے نہ پیش کا ، ان کی حالت بعینہ الفاظ مذکورہ بالا کی سی ہوتی ہے لہذا ان کے صحیح تلفظ کے لیے اسی قسم کی واؤ استعمال کرنا چاہیے۔ اور اس کے نیچے اک چھوٹا سا خط کھینچ دینا چاہیے ، تاکہ امتیاز نہ ہوسکے۔ جیسے ہوِال ، بوِرال ، لوِارڈ۔
۳۔ اردو میں بھی بعض الفاظ ایسے ہیں جہاں واؤ بجائے پیش کے استعمال کی جاتی تھی لیکن اب وہ متروک ہوتی جاتی ہے مثلاً اوس (بجائے اُس) ، پہونچنا (بجائے پہنچنا) ، پورانا (بجائے پرانا) اور چورانا (بجائے چرانا) کے لکھتے تھے اور اب بھی پرانے لوگ لکھتے ہیں۔
۴۔ ن کی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک تو جب اس کی آواز پوری ادا ہو جیسے کمان۔ دوسرے جب پورے طور پر ادا نہ ہو بلکہ کسی قدر ناک میں گنگنی سے آواز نکلے ایسی حالت میں اسے نون غنہ کہتے ہیں جیسے سماں کنواں۔ نون غنہ یا تو حروفِ علت کے بعد آتا ہے جیسے کنواں۔ سانپ۔ اینٹ۔ برسوں۔ یا حروفِ ساکن کے بعد جیسے منھ۔ ہنسنا۔ نون غنہ جب ب یا پ کے قبل آتا ہے تو اس کی آواز میم کی ہوجاتی ہے۔ جیسے انبوہ۔ لنبا۔ (لمبا) چنپا۔ وغیرہ لیکن جب اس کے قبل حرفِ علت آجاتا ہے تو آواز نون ہی کی رہتی ہے جیسے تانبا وغیرہ۔
۵۔ نون غنہ کا استعمال زبان میں عام طور پر ہے اور یہ ہر حرف کے ساتھ آتا ہے۔ جب بچے کو کسی ایسی لفظ کے ہجے کرانے پڑتے ہیں جس میں نون غنہ ہوتا ہے تو حضرت استاد صاحب بڑی دھاندلی سے کام لیتے ہیں اور ہجے ایسے خبط کردیتے ہیں کہ بچہ خاک نہیں سمجھتا اور وہ کیا سمجھے حضرت خود ہی نہیں سمجھتے۔ یہ بڑی کمی ہے اور اس کمی کے پورا کرنے کی صرف ایک یہ تدبیر ہے کہ بھہ جھہ چھہ وغیرہ حروف کی طرح اردو ابجد میں ایک مرکب صورت کا اضافہ کیا جائے اور جس طرح ہ دوسرے حروف کے ساتھ مل کر ایک خاص قسم کی آواز پیدا کرتی ہے اسی طرح نون غنہ دوسرے تمام حروف کے ساتھ مل کر ایک خاص گنگنی آواز پیدا کرتا ہے اس کے رواج دینے سے یہ دقت بالکل جاتی رہے گی۔
افسوس ہے کہ کہنے میں یہ آواز پوری طور پر ادا نہیں ہوتی۔ لیکن نون غنہ کی آواز کا خیال رکھا جائے تو ہر حرف کے ساتھ بآسانی ادا ہونے لگے گی۔ یہ صورتیں اں۔ بں۔ جں۔ وں وغیرہ ہونگی۔ اب جنگ کے ہجے یوں ہوں گے۔ جں گ زبر جنگ۔ یا سانپ کے ہجے سں اں زبر ساں ، پ موقوف سانپ وغیرہ اس کے بعد نون غنہ کوئی چیز نہیں رہے گا۔
۶۔ حروف سے جب الفاظ بنائے جاتے ہیں تو حروف کی تین حالتیں ہوتی ہیں ایک شروع میں۔ دوسرے بیچ میں۔ تیسرے آخر میں۔ بعض حروف کی تین سے بھی زیادہ صورتیں ہوتی ہیں مثلاً میم۔ لفظ کے شروع میں مور ، بیچ میں دو حالتیں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، قمر ، آخر میں جیسے میم میں۔ بعض حروف شروع میں مل کر نہیں آتے یہ حروف ا۔ د۔ ذ۔ ر۔ ز۔ و ہیں جب کسی لفظ میں ان حروف کے بعد کوئی دوسرا حرف لکھنا ہو تو الگ لکھنا پڑ ے گا جیسے سورج۔ ایال۔ نذر۔ وغیرہ جب ان حروف میں سے چند حروف مل کر لفظ بنتا ہے تو سب الگ الگ لکھے جائیں گے۔ جیسے دور۔ دورہ وغیرہ۔
الف ممدودہ کے علاوہ ایک الف مقصورہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بعض خاص عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے جیسے عقبٰی۔ دعویٰ۔ اس ی کو الف مقصورہ کہتے ہیں س طرح عربی الفاظ میں بعض حروف پر کھڑا فتح لکھدیتے ہیں جس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے الف کے ساتھ کھینچ کر پڑھا جائے جیسے رحمٰن۔ ہذٰا۔
اردو تحریر میں (مثل عربی فارسی کے) یہ عجیب بات ہے کہ الفاظ میں حروف پورے نہیں لکھے جاتے بلکہ ہر حرف کے کے لیے صرف چھوٹا سا نشان بنادیتے ہیں اس طو ر پر الفاظ نہایت مختصر ہوجاتے ہیں۔ بخلاف دوسری زبانوں کے جن کے لکھنے میں بہت طول ہوجاتا ہے۔ اور وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے یہ طرز تحری نہایت شائستہ اور مہذب ہے۔ شارٹ ہینڈ رائٹنگ (مختصر نویسی) جس کا رواج یورپ میں اب تھوڑے زمانہ سے ہوا ہے وہ ہمارے یہاں صد ہا سال سے موجود ہے ایک مشاق لکھنے والا مقرر کی تقریر کو بخوبی قلمبند کرسکتا ہے۔ یہ خوبی درحقیقت نہایت قابل قدر اور دوسری زبانوں کے لیے قابل رشک ہے۔

فصل دوم

صرف

الفا ظ جو استعمال کیے جاتے ہیں وہ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور بتاتے ہیں اور اس لحاظ سے کہ وہ جملہ میں کیا کیا بتاتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔
اول مستقل: جو اپنی ذات سے پورے معنی رکھتے ہوں۔
دوم غیر مستقل: جو اپنی ذات سے پورے معنی نہ رکھتے ہوں جبتک وہ کسی دوسرے لفظ کے ساتھ ملکر نہ آئیں۔
الفاظ مستقل کے مفصلہ ذیل قسمیں ہیں۔
۱۔ اسم جو اشیا کا نام بتاتا ہے
۲۔ صفت جو اسم کی صفت یا حالت کو بتاتی ہے۔
۳۔ ضمیر۔ جو بجائے اسم کے استعمال ہوتی ہے۔
۴۔ فعل۔ جس سے کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے۔
۵۔ متعلق فعل۔ جو فعل کے معنی میں کمی یا بیشی پیدا کرتا ہے یا اس کی کیفیت یا حالت بتاتا ہے۔

الفاظ غیر مستقل کو حروف کہتے ہیں جن کی چار قسمیں ہیں۔
۱۔ ربط
۲۔ عطف
۳۔ تخصیص
۴۔ فجائیہ
۱۔ اسم
اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔
اس کی دو قسمیں ہیں
۱۔ خاص
۲۔ عام
خاص۔ کسی خاص شخص یا شے کا نام ہے مثلاً علاءالدین ، کلکتہ ، گنگا۔
عام۔ وہ اسم ہے جو ایک قسم کی تمام افراد کے لیے فرداً فرداً استعمال ہوسکے جیسے آدمی ، گھوڑا ، درخت۔
اسمِ خاص
۱۔ خطاب۔ نام جو بادشاہ سرکار و دربار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے اقبال الدولہ ، عماد الملک۔
۲۔ لقب۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑگیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا ، یا کلیم اللہ لقب ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔
۳۔ عرف۔ وہ نام جو محبت یا حقارت کی وجہ سے پڑ جائے یا اصلی کا اختصار لوگوں کی زبان زد ہوجائے جیسے چنو ، کلن ، فخرو ، اچھے میاں۔
۴۔ تخلص ایک مختصر نام جو شاعر نظم میں بجائے اصلی نام کے داخل کردیتے ہیں۔ مثلا غالب تخلص ہے مرزا اسداللہ خان کا۔ حالی تخلص ہے مولانا الطاف حسین کا۔ اس کے علاوہ ممالک دریاؤں اور پہاڑوں کے اور دیگر جغرافی اسماء اور علوم و فنون و امراض وغیرہ کے نام سب اسمِ خاص ہوں گے۔
۵۔ بعض اوقات اسمِ خاص صفتِ اسم کی طرح استعمال ہوتے ہیں جیسے رستم۔ حاتم۔ وغیرہ مثلاً یوں کہیں کہ وہ شخص اپنے وقت کا حاتم ہے یا وہ رستمِ ہند ہے۔ یا فلاں شخص قیس یا فرہاد ہے یا وہ ہومر یا کالیداس ہے ایسے موقعوں پر رستم سے بڑا پہلوان ، حاتم سے بڑا سخی ، قیس و فرہاد سے بڑے عاشق ، ہومر و کالیداس سے بڑے شاعر مراد ہیں۔
اسمِ عام
اردو میں اسمِ عام کئی قسم کے ہوتے ہیں ان میں اسمائے کیفیت۔ اسمِ ظرف۔ اسمِ آلہ۔ اسمِ جمع خاص قسمیں ہیں۔ اسمائے کیفیت جن سے حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے جیسے سختی ، روشنی ، صحت۔
اسمائے کیفیت تین چیزیں ظاہر کرتے ہیں۔
اول حالت جیسے صحت ، نیند ، رفتار ، سچ ، جھوٹ۔
دوم صفت مثلاً سختی ، نرمی ، بہتات۔
سوم دلی کیفیت مثلاً درد ، خوشی ، مطالعہ۔
اسمائے کیفیت کیونکر بنتے ہیں۔
۱۔ بعض فعل سے بنتے ہیں مثلاً چال چلن ، گھبراہٹ ، لین دین۔
۲۔ بعض صفت سے بنتے ہیں مثلاً نرمی ، خوشی ، کھٹائی ، دیوانہ پن۔
۳۔ بعض اسم سے جیسے دوست سے دوستی ، لڑکے سے لڑکپن۔
۴۔ اکثر عربی ہندی فارسی کے الفاظ اسمائے کیفیت کا کام دیتے ہیں جیسے صحت ، حسن ، دہن۔
(۵) ایک لفظ کی تکرار یا دو لفظوں کے ملنے سے جیسے بک بک ، چھان بین ، جان پہچان؛ خوشبو۔
اسمِ ظرف
وہ اسم ہے جس میں معنی جگہ یا وقت کے پائے جائیں۔ مثلاً چراگاہ ، گھر ، میدان بعض علامات ایسی ہیں کہ ان کے لگانے سےسے اسمِ ظرف بن جاتا ہے۔ بعض ان میں سے ہندی ہیں اور بعض فارسی۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ جس اسم کے ساتھ چاہا ان میں سے کوئی علامت لگا دی اور اسمِ ظرف بنا لیا۔ ان میں اکثر سماعی ہیں یعنی جو زبان میں مروج ہیں۔ البتہ کاہ اور خانہ اور شہروں اور گاؤں کے نام جو آباد ، نگر ، پور کے ساتھ آتے ہیں اس سے مستثنٰی ہیں۔
ہندی علامات
سال (یعنی جگہ) جیسے گھڑ سال (گھوڑوں کے رہنے کی جگہ) ٹکسال (جہاں ٹکے یعنی سکہ بنایا جاتا ہے۔)
شالہ یا سالہ جیسے دہرم سالہ ، پاٹ شالہ ، گئو سالہ
ستھان (فارسی ستان) جیسے دیواستھان
آل ،یال جیسے سسرال ، ننھیال ، ددھیال
آنہ جیسے سمدھیانہ۔ سرہانہ
کا جیسے میکا۔(ماکا)
بعض خاص الفاظ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر اسمِ ظرف کے معنی دیتے ہیں مثلاً ٹولہ سے قاضی ٹولہ
گھاٹ یا گھٹ جیسے مرگھٹ ، پن گھٹ ، دھوبی گھاٹ
واڑہ ، باڑہ جیسے سید واڑہ ، قصائی باڑہ ،
واری جیسے پھلواری
پارہ جیسے اوپر پارہ
دوار ، دوراہ جیسے ہر دوار ، گردوارہ ، ٹھاکر دوارہ
گھر: ڈاک گھر ، ریل گھر ، تارگھر ، ناچ گھر
نگر: سری نگر ، احمد نگر
پور ،پورہ: غازی پورہ ، شولاپور ، عثمان پورہ ،
گڑھ: علی گڑھ ، آسمان گڑھ
منڈی: کٹھل منڈی

فارسی علامات
خانہ: کتب خانہ۔ ہندی اور انگریزی الفاظ کے ساتھ جیسے چنڈوخانہ ، چڑیا خانہ ، جیل خانہ
گاہ: چراگاہ ، شکارگاہ ، بارگاہ ، درگاہ
دان: چاردان۔ ہندی الفاظ کے ساتھ پاندان ، خاصدان ، پیک دان
دانی: (ہندیوں کا تصرف ہے) سرمہ دانی ، تلے دانی (طلا دان)
زار: سبزہ زار ، لالہ زار ، مرغزار
سار: کوہسار
ستان: گلستان ، پرستان
شن: ، گلشن
آباد: حیدر آباد ، اورنگ آباد
بعض اوقات فعل سے بھی اسمِ ظرف بنتا ہے مثلا بیٹھنا سے بیٹھک ، پینا سے پیاؤ۔ کبھی فعل اور اسم کے ملنے سے اسمِ ظرف بنتا ہے مثلاً بدرو ، آب چک۔ رمنا اور جھرنا دونوں مصدر ہیں مگر یہ اسمِ ظرف کے معنوں میں بھی مستعمل ہیں رمنا کے معنی پھرنے کے ہیں۔ظرفی معنی پھرنے کی جگہ یعنی چراگاہ کے ہیں۔جھرنا کے معنی پانی رسنے کے ہیں۔ ظرفی معنی وہ مقام جہاں سے پانی رستا ہے۔ عربی میں اسمِ ظرف مفعل ، مفعلہ کے وزن پر آتے ہیں۔ ان میں اکثر اردو میں بھی رائج ہیں ، مثلاً مکتب ، مدرسہ ، مقبرہ ، مسجد ، مجلس ، مرقد ، مقام ، مزار ، محشر ، مقتل ، منبع ، مخرج ، ماخذ۔
اسمِ آلہ
وہ اسم جو آلہ یا آواز کے معنوں میں آئے مثلاً چاقو ، تلوار ، ہتھوڑا ،
۱۔ بعض اسمِ آلہ فعل سے بنائے گئے ہیں مثلاً
بیلنا سے بیلن ، جھولنا سے جھولا
دھونکنا سے دھونکنی ، جھاڑنا سے جھاڑو
چھاننا سے چھلنی یا چھاننی ، پھانسنا سے پھانسی
لٹکنا سے لٹکن ، کترنا سے کترنی ، پھونکنا سے پھکنی
۲۔ بعض اسم سے بھی بنتے ہیں جیسےنُہَرنا سے نُہَرنی ، (نُہ= ناخن)
ہتھوڑا (ہاتھ سے)
دتون (دانت سے)
۳۔ دو اسم مل کر جیسے دسپناہ (دست پناہ) منال (منھ - نال)
۴۔ فارسی اسماء کے آگے بعض علامات یا الفاظ بڑھانے سے بنائے گئے ہیں۔
ہ کے بڑھانے سے جیسے دست سے دستہ ، چشم سے چشمہ
آنہ جیسے انگشت سے انگشتانہ ، دست سے دستانہ
گیر جیسے کف گیر ، گلگیر ،
کش جیسے بادکش ، دودکش
تراش جیسے قلم تراش
۵۔ عربی کے اسمائے آلہ جو اکثر مفعل مفعلہ یا مفعال کے وزن پر ہوتے ہیں اردو میں بھی مستعمل ہیں مثلاً مقراض ، مشعل ، منقا ، مسواک ،میزان ، مضراب ،مسطر ، منبر ، مینار ، مصقلہ۔
عربی اسمِ ظرف اور اسمِ آلہ میں صرف یہ فرق ہے کہ اسمِ ظرف میں اول حرف میم مفتوح ہوتا ہے اور اسمِ آلہ میں مکسور۔
اسمِ جمع
اسمِ جمع اس اسم کو کہتے ہیں جو صورت میں جمع واحد ہو لیکن درحقیقت کئی اسم کا مجموعہ ہو جیسے فوج ، انجمن ، قطار ، جھنڈ۔
لوازمِ اسم
لوازمِ اسم سے مطلب ان خصوصیتوں سے ہے جو ہر اسم میں پائی جاتی ہیں۔
ہر اسم کے لیے جنس ، تعداد اور حالت کا ہونا لازم ہے۔
(۱) جنس
جنس سے مراد اسماء کی تذکیر و تانیث سے ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حقیقی دوسری غیر حقیقی (یا مصنوعی)۔
حقیقی جنس صرف جانداروں میں پائی جاتی ہے ، جس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک نر (مذکر) دوسری مادہ (مؤنث) تیسری وہ جس پر نر و مادہ میں سے کسی کا اطلاق نہیں ہو سکتا لیکن انسان کے تخیل میں بڑی وسعت ہے اس نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ بے جان اشیاء اور خیالات حتٰی کہ ہر قسم کے اسماء میں تذکیر و تانیژ کا طرہ لگا دیا۔ لیکن ہر زبان کی حالت ایک سی نہیں ہے ، کسی میں جنس تین ہیں کسی میں دو اور بعض ایسی بھی خوش قسمت زبانیں ہیں کہ جن میں سرے سے یہ جھگڑا ہی نہیں۔ جیسے فارسی زبان۔قدیم انڈویورپین زبانوں میں جنس کی قسمیں تین ہیں۔ سامی زبانوں میں صرف دو ہیں۔ لیکن حقیقی جنس تمام زبانوں میں ہے اور مصنوعی بعض میں۔ اور جن زبانوں میں مصنوعی جنس نہیں ہوتی وہاں حقیقی جنس کے امتیازِ تذکیر و تانیث کے لیے اکثر دو مختلف لفظ ہوتے ہیں۔ اور جن زبانوں میں جنس کی دو قسمیں ہوتی ہیں وہاں لفظ کی صورت میں تغیر و تبدیل پیدا کر دینے سے تذکیر و تانیث کا امتیاز پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اکثر یہ امتیاز کے لفظ آخری جز یا حرف علت ک بدلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو اور نیز اس کے ساتھ کی دوسری زبانوں میں جنس کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں ، اگرچہ ان میں باہم کسی قدر اختلاف ہے۔ سنسکرت میں جنس کی تینوں صورتیں ہیں۔ یعنی مذکر اور مؤنث اور تیسری وہ صورت جو نہ مذکر ہے نہ مؤنث۔ اسی طرح پراکرت میں بھی تینوں صورتیں پائی جاتی ہیں۔(سنسکرت ہندوستان کی قدیم علمی زبان تھی اور پراکرت عوام کی بول چال)۔ لیکن جدید زبانوں میں جو سنسکرت یا زیادہ تر پراکرت سے پیدا ہوئی ہیں ، صرف گجراتی اور مرہٹی ایسی زبانیں ہیں جن میں جنس کی تین صورتیں ہیں۔ سندھی۔ پنجابی۔ ہندی (یا اردو) میں صرف دو ہیں ، یعنی مذکر اور مؤنث۔ بنگالی اور اُریہ کی عام بول چال میں جنس کا کوئی لحاظ نہیں ہے ، سوائے اُن الفاظ کے جو ٹھیٹ سنسکرت کے داخل کر لیے گئے ہیں ، اور جن کی جنس وہی باقی ہے جو سنسکرت میں تھی۔ لیکن ان تین زبانوں یعنی سندھی ، پنجابی ، ہندی میں سندھی ایسی زبان ہے جس کے تمام اسما کا آخری حرف حرف علت ہوتا ہے اور اس لیے جنس کی تمیز آسان ہے لیکن باقی دو زبانوں میں یہ امتیاز آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان سب زبانوں میں بڑی ، بھاری بھرکم ، قوی اور عظیم الشان اشیا مذکر ہیں اور چھوٹی ، کمزور اور ہلکی پھلکی چیزیں مؤنث۔ یہاں تک کہ جب اصل لفظ مذکر ہے اور اس کی چھوٹی کمزور یا ہلکی صورت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے تو اسے مؤنث بنا لیا جاتا ہے اور اسی طرح جب اصل لفظ مؤنث ہے اور اُسے بڑی یا بھاری بھرکم صورت میں لانا مقصود ہوتا ہے تو اسے مذکر بنا لیتے ہیں مثلا سنسکرت میں اصل لفظ "رشم" تھا اس سے ہندی رسّا بنا۔ یہ دونوں مذکر ہیں اس کی چھوٹی اور کمزور صورت رسّی ہے۔ سنسکرت "گوڈ"تھا ہندی میں گول یا گولا بنا۔ یہ دونوں مذکر ہیں اس کی چھوٹی اور کمزور صورت گولی بنائی گئی جو مؤنث ہے۔ اسی طرح پگ سے پگڑی بنی جو مؤنث ہے۔ بڑی بھاری بھرکم پگڑی کے لئیے پگّڑ مذکر بنا لیا گیا۔
یہ آخری ی (معروف) عام طور پر تانیث کی علامت ہے اور آخری ا علامتِ تذکیر یہاں تک کہ بنگالی اور اڑیا میں جہاں تذکیر و تانیث کا چنداں لحاظ نہیں ہے تصغیر و تکبیر کا امتیاز انہیں علامات سے کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک عام قاعدہ ہے لیکن ایسے الفاظ بہت کم ہیں جن کے آخر میں ی معروف یا ا ہو۔ ایسی صورت میں صرف اہلِ زبان کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔
اردو زبان میں تذکیر و تانیث کا معاملہ بہت ٹیرھا ہے اور ایسے قواعد کا وضع کرنا جو سب صورتوں پر حاوی ہوں بہت مشکل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بے جان اشیاء کی جو تذکیر و تانیث قرار دی گئی ہے اس میں ضرور کسی خیال یا اصول کی پابندی کی گئی ہے لیکن ہر لفظ کی اصل کا پتہ لگانا اور جن اسباب نے اس کی تذکیر و تانیث قرار دینے میں اثر ڈالا ہے اس پر غور کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی محنت اور جان کاہی درکار ہے اور سب سے بڑھ کر عالی دماغی ، اور حکیمانہ نظر کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں ہم صرف اسی قدر کر سکتے ہیں کہ تذکیر و تانیث کے امتیاز کے مختلف قواعد بالتفصیل لکھ دیں تا کہ ان کی شناخت میں کسی قدر سہولت ہو۔ زیادہ تر دقت اس وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کہ ہندی کے الفاظ سنسکرت اور پراکرت سے آئے ہیں لیکن ان میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ خصوصاً لفظ کا آخری حرف بالکل گر گیا ہے یا بدل گیا ہے حالانکہ تذکیر و تانیث کا دارومدار اسی پر ہے۔
جان داروں کی تذکیر و تانِیث
اردو اور دیگر ہندی زبانوں میں جاندار اور بے جان سب ہی میں تذکیر و تانیث کا لحاظ ہوتا ہے۔ البتہ جان داروں میں یہ آسانی ہے کہ ان میں تذکیر و تانیث کا امتیاز آسان ہے۔ بے جان اشیاء میں چونکہ کوئی علامت تذکیر و تانیث کی نہیں ہوتی اس لیے دشواری ہوتی ہے۔ نظر برآں ، ہم نے ان دونوں کو الگ کر دیا ہے اور ان کے قواعد بھی الگ الگ بیان ہوں گے۔
۱۔ جن الفاظ کے آخر میں ا یا ہ ہو گی وہ مذکر ہوں گے حتیٰ کہ اکثر عربی فارسی الفاظ پر یہی قیاس کر لیا گیا ہے جیسے لڑکا ،گھوڑا ، بندہ ، سقہ ، زیبرا وغیرہ۔ عربی کے الفاظ جن کے آخر میں ہ علامتِ تانیث یا یٰ (الف مقصورہ) علامتِ اسمِ تفضیل ہو مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ مؤنث ہوتے ہیں جیسے والدہ ، ملکہ ،کبریٰ۔ صغریٰ۔ نیز ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر میں یا علامتِ تصغیر یا تانیث ہوتی ہے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے چڑیا ، بڑھیا ، بندریا وغیرہ۔
۲۔ یائے معروف علامتِ مؤنث ہے۔ جیسے گھوڑی ، ٹوپی ، لڑکی وغیرہ مگر بعض الفاظ مستثنٰی ہیں۔ جیسے پانی ، موتی ،گھی ، جی ، ہاتھی ، دہی۔ یہاں یہ لکھنا دلچسپی اور فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ سنسکرت میں لفظ کے آخر میں ا عموماً علامتِ تانیث اور ای یعنی یائے معروف تذکیر و تانیث دونوں کی علامت ہے۔ لیکن ہندی اور اس کے ساتھ کی دوسری زبانوں میں ا عموماً علامتِ تذکیر اور ای علامتِ تانیث ہوتی ہے حالانکہ تمام ہندی الفاظ کا ماخذ اور اصل سنسکرت ہے۔ آخراس کی وجہ کیا ہے؟ تحقیق کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پراکرت میں جس سے ہندی اور اس کے ساتھ کی دوسری زبانیں نکلی ہیں ہر قسم کے اسم کے آخر میں اَکا لگا دیتے تھے مثلاً پراکرت میں کُھٹکا تھا جو بعد میں گھوڑاو اور پھر گھوڑا ہوا۔ اَکا جس طرح مذکر کی علامت تھی اس کے جواب میں اِکا علامت مؤنث کی تھی۔ رفتہ رفتہ اِکا بدل کر اِیا ہو گیا اور اِیا ہوتے ہوتے اِی یعنی یائے معروف رہ گیا۔ علاوہ اس کے صفات کی خاص علامت مذکر کے لیے آو اور مؤنث کے لیے اِی ہے۔ چونکہ طبعی طور پر یہ مناسب اور موزوں معلوم ہوتا کہ جس اسم کے آخر میں اِی ہے اس کے ساتھ صفت بھی ایسی استعمال کی جائے جس کے آخر میں ی علامت ہو۔ لہذارفتہ رفتہ ای علامتِ مؤنث ہو گئی اور ا علامتِ مذکر۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر قواعد نویسوں نے ایسے مذکر اسماء کو جن کے آخر میں ای یعنی یائے معروف ہے اور اُن مؤنث اسماء کو جن کے آخر میں ا ہے مستثنٰی خیال کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس کی وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ مگر وہ الفاظ جو اوپر مستثنٰی بتائے گئے ہیں در حقیقت سنسکرت کے بگڑے ہوئے ہیں۔ سنسکرت الفاظ میں آخر میں ی نہیں ہے لہذا جنس تو وہی قائم رہی جو سنسکرت میں تھی مگر صورت بدل کر کچھ ایسی ہو گئی کہ جسے دیکھ کر ان کے مؤنث ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے مثلاً گھی دراصل سنسکرت میں گھرتم تھا اور دہی دراصل ددہی اور جی دراصل جیو اور پانی دراصل پانیو اور موتی دراصل سوک تلم تھا۔(جن کی جنس سنسکرت میں مخنث ، نہ مذکر نہ مؤنث ، ہوتی ہے وہ ہندی میں عموماً مذکر ہو جاتی ہے)۔ اس کے علاوہ بعض پیشہ وروں کے نام بھی مستثنٰی ہیں۔ ان کے آخر میں بھی یائے معروف آتی ہے جیسے دھوبی ، مالی ،گھوسی ، تیلی وغیرہ۔ اسی طرح جن اسماء کے آخر میں یائے نسبتی ہو گی وہ بھی مستثنٰی ہیں جیسے پنجابی ، بنگالی وغیرہ۔فارسی عربی الفاظ پر اس قاعدہ کا اطلاق پوری طرح نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں بہت سے ایسے لفظ ہیں جن کے آخر میں یائے معروف ہے مگر مذکر ہیں۔ جیسے قاضی ، منشی وغیرہ۔
۳۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مذکر کے آخری ا یا ہ کو یائے معروف سے بدل دینے سے مؤنث بن جاتا ہے۔ یا جہاں پیشہ وروں کے نام کے آخر میں ی (معروف) ہوتی ہے
اگر اسے ن سے بدل دیا جائے تو وہ مؤنث ہو جاتا ہے لیکن جہاں آخر میں الف یا ی نہ ہو تو وہاں مشکل پڑتی ہے۔ اس لیے جس جس طرح سے زبان میں مذکر سے مؤنث بنے ہیں خواہ وہ تبدیلِ علامتِ آخر یا اضافہ الفاظ سے اُن میں سے اکثر کو آگے الگ الگ لکھ دیا گیا ہے تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔بے جان اشیاء میں بھی یہ قاعدہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت وہاں ی معروف کے اضافہ کرنے یا ا کو یائےئےمعروف سے تبدیل کرنے سے مراد اُس اسم کی تصغیر ہوتی ہے۔ جیسے پہاڑ سے پہاڑی ، ٹوکرے سے ٹوکری وغیرہ۔ بے جان میں مذکر و مؤنث حقیقی نہیں ہوتے ، تصغیر کو مؤنث استعمال کرتے ہیں۔ جاندار کے لیے البتہ ضرور ہے کہ مذکر کے لیے مذکر اور مؤنث کے لیے مؤنث ہو۔
۴۔ ایسے مذکر جن کے آخر میں کوئی علامتِ تذکیر نہیں اور ظاہراً تذکیر و تانیث میں مشترک معلوم ہوتے ہیں ان کی تانیث آخر میں یائے معروف بڑھانے سے بنتی ہے جیسے ہرن سے ہرنی ، کبوتر سے کبوتری۔
۵۔ جانداروں میں تذکیر و تانیث کی دو صورتیں ہیں۔ اول مذکر اور مؤنث الگ الگ الفاظ ہیں۔ ایک دوسرے سے بظاہر کچھ تعلق نہیں جیسے بیل مذکر گائے مؤنث۔ دوم آخر علامت کے بدلنے یا آخر میں کسی حرف یا حروف کے اضافہ سے مؤنث بنایا جاتا ہے۔ تفصیل نیچے لکھی جاتی ہے۔
۱۔ ہر دو مختلف
باپ۔ماں
غلام۔باندی
میاں۔بی بی
نواب۔بیگم
بیل۔گائے
مینڈھا۔بھیڑ
خصم یا خاوند۔جورو
۲۔ مختلف علامات
(ا) مذکر کے آخر کا الف یا ہ مؤنث میں ی (معروف) سے بدل جاتی ہے جیسے:
لڑکا۔ لڑکی
کانا۔کانی
بیٹا۔بیٹی
اندھا۔اندھی
بچھڑا۔بچھڑی
گھوڑا۔گھوڑی
بکرا۔بکری
شاہزادہ۔شاہزادی
بندہ۔بندی (باندی)
چیونٹا۔چیونٹی
مرغا۔مرغی
بھانجا۔بھانجی
بھتیجا۔بھتیجی
چچا۔چچی
پھوپھا۔پھوپھی
لنگڑا۔لنگڑی
لولا۔لولی
بہرا۔بہری
(باندی کا لفظ صرف غلام عورت کے معنوں میں آتا ہے۔ اور ہندی عورتیں بجائے ضمیر متکلم واحد کے بولتی ہیں جیسے مرد بندہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بھانجا دراصل بہن جایا اور بھتیجا بھائی جایا ہے۔)
(ب) باضافۂ یائے معروف جیسے:
برہمن۔برہمنی
ہرن۔ہرنی
پٹھان۔پٹھانی
کبوتر۔کبوتری
تیتر۔تیتری
لوہار۔لوہاری
چمار۔چماری
سُنار۔سُناری
ماموں۔ممانی

(ج) مذکر کے آخر حرف کو “ن” سے بدل دینے سے۔ جیسے:
مراسی۔مراسن
نائی۔نائن
کنجڑا۔کنجڑن
جوگی۔جوگن
مالی۔مالن
دھوبی۔دھوبن
بھنگی۔بھنگن
گوالا۔گوالن
فرنگی۔فرنگن
پارسی۔پارسن
بھائی۔بہن
گھوسی۔گھوسن
حاجی۔حجن
سپولیا۔سپولن
دلہا۔دلہن
چودہری۔چودہرائن
گویا۔گائن
ناگ۔ناگن
گارد۔گاردن (حیدرآباد دکن میں مستعمل ہے یعنی وہ عورتیں جو محلوں میں مرد سپاہیوں کا کام دیتی ہیں یعنی قلماقنیاں)۔
(د) آخر حرف کو حذف کر کے یا بلا حذف نی یا انی کے اضافہ سے۔ جیسے:
شیر۔شیرنی
مُلا۔ملانی
مہتر۔مہترانی
استاد۔استانی (مذکر کی دال حذف کر دی گئی۔)
مغل۔مغلانی
ہاتھی۔ہتھنی (ہاتھی کا الف اور”ی”دونوں حذف ہو گئے ہیں غالباً یہ لفظ ہاتھ سے نکلا ہے۔سونڈ بجائے ہاتھ کے سمجھی گئی ہے)
اونٹ۔اونٹنی
سور۔سورنی
رائے (راجہ)۔رانی (اصل میں راجنی تھا “ج” کثرتِ استعمال سے اڑ گیا)
فقیر۔فقیرنی
مور۔مورنی
جیٹھ۔جٹھانی
دیور۔دیورانی
بنیا۔بنینی
ڈاکٹر۔ڈاکٹرنی
ڈوم۔ڈومنی
بھُوت۔بھُتنی
جن۔جنّاتنی (یہاں مؤنث واحد مذکر سے نہیں بنا بلکہ جمع مذکر سے بنا ہے۔)
شاعر۔شاعرنی ( جانؔ صاحب کا شعر ہے: میں وہ شاعرنی ہوں گر پکڑے کوئی میری زبان :: لاکھ مرزاؔ کو سناؤں سو سناؤں میرؔ کو)
پنڈت۔پنڈتانی
ٹٹو سے ٹٹوانی مؤنث آتا ہے لیکن حقارت کے موقع پر بولتے ہیں۔
(ہ) بعض اوقات اخیر حرف میں کچھ تبدیلی کے بعد یا بغیر تبدیلی کے “یا” اضافہ کرنے سے مؤنث بنتا ہے۔جیسے:
کتا۔کتیا
بندر۔بندریا
چوہا۔چوہیا
گدھا۔گدھیا
چڑا۔چڑیا
۳۔ بعض غیر زبانوں کے مذکر و مؤنث بعینہ اردو میں مستعمل ہیں مثلاً بیگ مذکر بیگم
مؤنث ترکی میں خان سے خانم ہے یا عربی کے مثلاً سلطان سے سلطانہ ، ملک سے ملکہ۔ خاتون و آتون بھی ترکی لفظ ہیں جو مؤنث ہیں۔
۴۔ بعض اوقات اسمِ خاص (عَلَم)کو مذکر سے مؤنث بنا لیتے ہیں جیسے:
رحیم۔رحیمن
امیر۔امیرن
کریم۔کریمن
نور۔نورن
محمد۔محمدی
امامی۔امامن
مراد۔مرادن
نصیب۔نصیبن
بعض اوقات اسمائے خاص میں حرف واؤ کے مجہول و معروف ہونے سے مؤنث و مذکر کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ واؤ معروف سے مذکر اور مجہول سے مؤنث:
مجُّو۔مجو
رامُو۔رامو
بدلُو۔بدلو
بعض اسمائے خاص مرد و عورت کے لیے یکساں استعمال ہوتے ہیں جیسے گلاب۔احمدی وغیرہ۔
۵۔ عموماً مؤنث مذکر سے بنتا ہے لیکن بعض مذکر ایسے بھی ہیں جو مؤنث سے بنتے ہیں جیسے بھینسا بھینس سے یا رنڈوا رانڈ سے ، بلاؤ بلی سے ، سسرا ساس سے۔
۶۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جو صرف مذکر استعمال ہوتے ہیں اور ان کا مؤنث نہیں آتا اور بعض صرف مؤنث استعمال ہوتے ہیں اور ان کا مذکر نہیں آتا۔ مثلاً چیل۔بطخ۔مینا۔بلبل۔فاختہ ،لومڑی غیر ذوی العقول میں۔ رنڈی ، کسبی ، ہڑدنگی ، ڈائن ، چڑیل ، بیوہ ، سوت ، سہاگن وغیرہ ذوی العقول میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں۔ طوطا ، کوا ، اژدہا ، تیندوا ، باز ، الو ، چیتا اور غیر ذوی العقول میں بھانڈ ، بھڑوا ، ہیجڑا ، وغیرہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہیں۔
۷۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں میں اکثر صرف ایک ہی جنس مستعمل ہے مثلاً مکھی(مؤنث) ، جگنو(مذکر) ، چھپکلی(مؤنث) ، چھچھوندر(مؤنث) ، کچھوا( مذکر) ، بھڑ (مؤنث)۔
۸۔ اکثر اوقات الفاظ کے ساتھ نر اور مادہ کا لفظ لگا کر مذکر و مؤنث بنا لیتے ہیں مثلاً مادہ خر ، نر گاؤ یا چیتے کی مادہ۔ مادہ خرگوش وغیرہ۔
۹۔ بعض اوقات مذکر لفظ مؤنث کے لیے بھی استعمال کر جاتے ہیں مثلاً بیٹی کو ماں پیار سے کہتی ہے "نہ بیٹا ایسا نہیں کرتے"۔بعض لفظ مشترک ہیں کہ دونوں کے لیے آتے ہیں مثلاً بچہ کا لفظ یا گھوڑی کو دیکھ کے کہہ سکتے ہیں کہ کیا اچھا جانور ہے۔
۱۰۔ جن ہندی الفاظ کے آخر میں “ا” یا “ہ” ہوتی ہےمونث میں یائے معروف سے بدل جاتے ہیں۔ مثلاً لڑکا سے لڑکی۔ فارسی الفاظ بھی جو اردو میں عام طور پر استعمال ہونے لگے ہیں اسی قاعدے میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً شاہزادہ سے شاہزادی ، بیچارہ سے بیچاری ، بندہ سے بندی ، حرام زادہ سے حرام زادی وغیرہ مگر شرمندہ اور عمدہ مستثنیٰ ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے جان کی تذکیر و تانیث
۱۱۔ بے جان اسماء کی تذکیر و تانیث قیاسی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات وہ الفاظ خصوصاً ہندی اور تدبھوا یعنی مخلوط سنسکرت کے جن کے آخر “ا” یا “ہ” ہوتی ہے مذکر ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈبا۔ چولہا۔ حقہ۔ پیشہ گڑھا وغیرہ لیکن اس میں مستثنیٰ بھی ہیں جو حسبِ ذیل ہیں۔
(ا) تمام ہندی اسمئے تصغیر جن کے آخر میں یا ہوتی ہے مثلاً پڑیا ڈبیا وغیرہ۔
(ب) تمام عربی کے سہ حرفی الفاظ جیسے ادا ،قضا ، حیا ، رضا ، خطا وغیرہ
(ج) بعض عربی مصادر جن کے آخر اء ہو خواہ ہمزہ لکھی ہو یا نہ لکھی ہو جیسے ابتدا ، انتہا۔ (اس کی تفصیل آگے آئے گی)
(د) عربی کے اسمائے تفضیل جن کے آخر میں الف مقصورہ ہوتا ہے یا بعض دیگر الفاظ جیسے عقبٰی ، صغریٰ ، کبریٰ ، دنیا ، کیمیا۔
(ہ) بعض ہندی لفظ جو ٹٹ سما یعنی خالص سنسکرت کے ہیں۔ کیونکہ سنسکرت میں آ علامت تانیث بھی ہے مثلاً پوجا ، بیچا ، ماتا ، بروا ،ب چھوا ، بھاکا ، سیتلا ، گھٹا ، گھٹیا ، انگیا ، مالا ، سبھا ، جٹا ، چھالیا۔ (انّا اور ددّا بھی مؤنث ہیں)
۱۲۔ عربی وہندی اسمائے کیفیت جن کے آخر میں ت ہو مؤنث ہوتے ہیں مثلاً ندامت ، رفعت ، شوکت ، مشقت ، کرامت وغیرہ مگر خلعت ، رایت ، شربت ، لغت مستثنیٰ ہیں۔
۱۳۔ عربی الفاظ کی جمع جب عربی قواعد کے رو سے آتی ہے تو اس کی تذکیر و تانیث میں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو حالت واحد کی ہےوہی جمع کی ہو گی۔ مثلاً شے ، مجلس اور مسجد مؤنث ہیں تو ان کی جمع اشیا ، مساجد اور مجالس بھی مؤنث ہو گی۔ چند الفاظ البتہ مستثنٰی ہیں۔ مثلاً اگرچہ معرفت ، حقیقت ،قوت ، شفقت مؤنث ہیں مگر ان کی جمع معارف ، حقائق ، قویٰ اور اشفاق مذکر مستعمل ہیں۔ بعض متاخرین اہلِ لکھنو کا یہ قول ہے کہ ہر لفظ کی عربی جمع مذکر ہی آتی ہے۔ یہ قاعدہ تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اہلِ زبان یوں نہیں بولتے۔ اہلِ دہلی بجز بعض مستثنیات کے ہمیشہ مؤنث کی جمع مؤنث اور مذکر کی جمع مذکر ہی استعمال کرتے ہیں۔ جن حضرات کا یہ قول ہے کہ ہر عربی لفظ کی عربی جمع مذکر بولنی چاہیے انہیں یہ دھوکا اس وجہ سے ہوا ہےکہ بعض الفاظ جو مؤنث ہیں ان کی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے جو واحد میں مذکر ہیں مثلاً حادثہ مذکر اس کی جمع حوادث ہے لہذا یہ بھی مذکر ہے اور مذکر بولا جاتا ہے۔ چونکہ حقائق بھی اسی وزن پر ہے دھوکے میں اسے بھی مذکر بولنے لگے لیکن یہ چند الفاظ مستثنیات میں سے ہیں۔ اس پر سے یہ قیاس قائم کر لینا کہ ہر لفظ عربی کی (خواہ مؤنث ہو یا مذکر) جمع مذکر ہی ہو گی صحیح نہیں ہے۔ یوں تو عورات (عورت کی جمع) بھی مذکر ہونی چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ بعض مذکر الفاظ کی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے۔ اس کا یہ جواب کہ یہ مؤنث حقیقی ہے لہذا اس قاعدہ کے تحت میں نہیں آتا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم ایک لفظ کو واحد کی حالت میں مؤنث مان چکے ہیں (گو وہ مؤنث غیر حقیقی ہی کیوں نہ ہو) تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی جمع کو مؤنث نہ تسلیم کریں۔ کیونکہ واحد میں جب ہم ایک لفظ کو جو مؤنث غیر حقیقی ہے مؤنث تسلیم کرتے ہیں تو افعال اور صفات بھی اس کے لیے مثل مؤنث حقیقی کے استعمال کرتے ہیں اور کوئی فرق اس میں اور مؤنث حقیقی میں نہیں کرتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مؤنث حقیقی کی عربی جمع کو مؤنث بولیں اور مؤنث غیر حقیقی کی جمع کو مذکر؟ غرض ان حضرات کا یہ اجتہاد کسی طرح قابل تسلیم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ عجب منطق ہے کہ ایک لفظ جو واحد میں مؤنث ہے جمع ہوتے ہی مذکر ہو جاتا ہے۔ اور اگر غیر حقیقی مؤنث کے متعلق ان کا یہ خیال ہے تو حقیقی مؤنث کے متعلق بھی یہی ہونا چاہیے اور یہیں ان کے اس قاعدہ کا نقص ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب ایک بار بے جان شے کا مؤنث قرار پا چکتا ہے تو پھر اس میں اور حقیقی مؤنث میں کسی قسم کا فرق اور امتیاز باقی نہیں رہتا۔ ہمارے خیال میں حتی الامکان اس قسم کے الفاظ کی اردو جمع استعمال کرنا زیادہ فصیح ہے۔ اگرچہ بعض مواقع پر عربی جمع کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ ایسی حالت میں بجز چند مستثنٰی الفاظ کےیہی قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ مؤنث کی جمع مؤنث ہوگی اور مذکر کی جمع مذکر۔
۱۴۔ زبانوں کے نام عموماً مؤنث ہوتے ہیں مثلاً انگریزی ، فارسی ، اردو ، سنسکرت وغیرہ
۱۵۔ ایسے اسما جو آواز کی نقل ہیں مؤنث ہوتے ہیں سائیں سائیں “ چٹ چٹ ، دھڑا دھڑ وغیرہ
۱۶۔ دنوں اور مہیںوں کے نام مذکر استعمال ہوتے ہیں۔ دنوں میں جمعرات مستثنٰی ہے۔
۱۷۔ دھاتوں اور جواہرات کے نام بھی مذکر ہیں۔ چاندی البتہ مستثنٰی ہے۔ ہندی میں اسے روپا کہتے ہیں جو مذکر ہے۔
۱۸۔ ستاروں اور سیاروں کے نام بھی مذکر ہیں۔
کتابوں کے نام اگر مفرد ہیں تو مؤنث ہوں گے لیکن مرکب ہونے کی حالت میں مضاف یا موصوف کی تذکیر و تانیث پر کتاب کی تذکیر و تانیث منحصر ہو گی۔ مثلاٌ بوستان ، گلستان مؤنث ہیں مگر قصۂ حاتم طائی یا قصۂ حلیمہ دائی مذکر ہیں۔
۲۰۔ اسی طرح نمازوں کے نام مؤنث بولے جاتے ہیں۔
۲۱۔ ہندی حاصل مصدر (یعنی وہ اسمائے کیفیت جو مصدر سے بنائے جاتے ہیں) اور اکثر اسمائے کیفیت جو اسی وزن پر ہوں مؤنث ہوتے ہیں۔ جیس
پکار ، پھٹکار ، پھنکار ، جھنکار وغیرہ
پھسلن ، دھڑکن ،کھرچن ، چھبن وغیرہ۔ البتہ چلن مستثنٰی ہے
بناوٹ ، کھچاوٹ ، نیلاہٹ وغیرہ
مہک۔ روک ، چوک۔ جھلک۔ چمک وغیرہ
مٹھاس ، کھٹاس ، نکاس وغیرہ
البتہ برتاؤ ، بچاؤ کے وزن پر جو حاصلِ مصدر آتے ہیں وہ سب مذکر ہوتے ہیں
بناؤ ، لگاؤ ، اٹکاؤ ، تاؤ ، لداؤ وغیرہ
اسی طرح وہ اسمائے کیفیت جو اسم یا صفت کے آخر "پن" لگانے سے بنتے ہیں مذکر ہوتے ہیں۔ مثلاً بچپن ، لڑکپن ، دیوانہ پن وغیرہ
۲۲۔ ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر او یا اوں ہوتا ہے اکثر مؤنث ہوتے ہیں جیسے باؤ ، چھاؤں ، جوکھوں ، بھوں ، سوں ، سرسوں ،کھڑاؤں وغیرہ
۲۳۔ حروف تہجی میں۔ ب پ ت ج چ ح خ د ذ ڈ ر ز ژ ط ظ ف ہ و ی مؤنث ہیں۔ میم مختلف فیہ ہے
۲۴۔ جو عربی الفاظ افعال۔ افتعال۔ افضال۔ استفعال۔تفعل تفاعل اور تفعلہ کے اوزان پر آتے ہیں وہ مذکر ہوتے ہیں۔ بروزن افعال جیسے اکرا ، احسان ، انعام وغیرہ باستثنائے انشا ، افراط ، ایذا ، امداد ، الحاح ، اصلاح۔
بروزن افتعال جیسے اختیار ، اعتدال ، اضطراب وغیرہ باستثنائے ابتدا ، انتہا ، التجا ، احتیاط ، احتیاج ، اطلاع ، اشتہا ، اصطلاح ، اقتدار۔
بروزن استفعال جیسے: استعفا ، استقلال وغیرہ باستثنائے استعداد ، استدعا ، استغنا ، استمداد ، استغفار
بروزن انفعال جیسے انکسار ، انقلاب ، انحراف وغیرہ
بروزن تفعل جیسے توکل ، تکلف ، تعصب وغیرہ باستثنائے توقع ، توجہ ، تمنا ، ترشح ، تضرع ، تہجد۔
بروزن تفاعل جیسے تغافل ، تنازع ، تلاطم وغیرہ باستثنائے تواضع
بروزن تفعلہ جیسے تذکرہ ، تجربہ ، تصفیہ ، تخلیہ وغیرہ
۲۵۔جو عربی الفاظ مفاعلہ کے وزن پر آتے ہیں وہ مذکر ہیں جیسے مجادلہ ، مشاعرہ ، معامل ، مناظرہ وغیرہ
لیکن یہی الفاظ یا دوسرے الفاظ جب مفاعلت کے وزن پرآتے ہیں تو مؤنث ہوتے ہیں جیسے معاملت ، مصاحبت ، مشارکت وغیرہ۔ یہی حال تفعلہ اور تفعلت کا ہے جیسے تربیت ، تقویت وغیرہ مؤنث ہیں۔ تفعلہ کی مثالیں لکھی جا چکی ہیں۔
۲۶۔ تمام عربی الفاظ تفعیل کے وزن پر مؤنث ہوتے ہیں جیسے تحریر ، تقریر وغیرہ باستثنائے تعویذ۔ لیکن جب تفعیل کے بعد ہائے ہوز آتی ہے تو وہ الفاظ مذکر ہوتے ہیں۔ جیسے تخمینہ ، تعلیقہ وغیرہ۔
۲۷۔ نیز وہ الفاظِ عربی و فارسی جن کی آخری ہ اضافی ہوتی ہے اکثر مذکر ہوتے ہیں جیسے نسخہ ، روضہ ، صفحہ ، ذرہ ، طرہ ، شیشہ ، آئیںہ ، پیمانہ وغیرہ باستثنائے دفعہ ، فقہ ، توبہ ، زوجہ۔
۲۵۔ عربی اسمائے ظرف مذکر ہوتے ہیں جیسے مکتب ، مسکن ، مقام ، مشرق ، مغرب وغیرہ باستثائے مجلس ، محفل ، منزل ، مسجد ، مجال ، مسند وغیرہ۔
اسمائے آلہ بروزن مفعال اکثر مؤنث ہوتے ہیں۔ جیسے مقراض ، میزان وغیرہ باستثنائے معیار ، مقیاس ، مصداق۔
لیکن بروز مفعل اکثر مذکر ہوتے ہیں جیسے منبر ، مصقل وغیرہ باستثنائے مشعل مگر بروزن مفعلہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہیں جیسے منطقہ ، مصقلہ ، مراۃ وغیرہ۔
۲۹۔ تمام فارسی حاصل مصدر جن کے آخر میں ش ہے مؤنث ہوتے ہیں جیسے دانش ، خواہش ، بخشش وغیرہ
۳۰۔مرکب الفاظ جو دو لفظوں سے مل کر بنتے ہیں خواہ بلا حرف عطف یامع حرف عطف ان کی تذکیر و تانیث میں بھی اختلاف ہے۔
(ا) جو لفظ دو افعال یا ایک اسم اور ایک فعل سے مل کر بنتے ہیں وہ اکثر مؤنث ہوتے ہیں جیسے آمد و رفت ، زد و کوب ، نشست و برخاست ، شست شو ، قطع و برید ، تراش خراش ، تگ و دو ، آمد و شد ، خرید و فروخت ، بود و باش ، دار و گیر ، شکست و ریخت ، داد و دہش ، کم و کاست باستثنائے سوز و گداز ، بندوبست و ساز و باز۔
(ب) اگر ان میں ایک مؤنث اور دوسرا مذکر ہے (مع حرف عطف یا بلا حرف عطف) تو فعل کی تذکیر وتانیث آخری لفظ کے لحاظ سے ہو گی۔ جیسے آب و ہوا ، قلم دوات ، آب و غذا ، آب و گل ، کشت و خون ، تاخت تاراج ، عنایت نامہ ، سالار منزل ، خلوت خانہ وغیرہ مگر جب دو لفظ مل کر ایک خاص معنوں میں آئیں تو یہ لحاظ نہیں رہتا جیسے گلشکر ، مگر پیچ و تاب مستثنٰی ہے۔
(ج) جب دونوں جز مذکر ہوں تو مذکر اور دونوں مؤنث ہوں تو مؤنث آئے گا جیسے آب و رنگ۔ آب و دانہ ، آب و نمک ، گلقند مذکر استعمال ہوتے ہیں اور آب و تاب ، جستجو ، گفتگو مؤنث ہیں۔ مگر شیر برنج مستثنٰی ہے۔ حالانکہ دونوں جز مذکر ہیں لیکن پھر بھی مؤنث ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ فرنی اور کھیر دونوں مؤنث ہیں لہذا شیر برنج بھی ان کا مترادف ہونے کی وجہ سے مؤنث ہی استعمال ہونے لگا۔ نیشکر جس کے دونوں جز مؤنث ہیں مذکر آتا ہے اس لیے کہ گنّے کا مترادف ہے۔ چونکہ گنّا مذکر مستعمل ہے اس لیے نیشکر بھی مذکر بولا جانے لگا۔
۳۱۔ جن الفاظ کے آخر میں بند ، آب (سوئے مہتاب کے جس کے معنی ایک قسم کی آتشباری کے ہیں) بان ، وان ، ستان ، سار ، زار ہوتا ہے وہ اکثر مذکر ہوتے ہیں جیسے سینہ بند ، پاسبان ، گلاب ، پیچوان ، گلستان ، بوستان ، (باستثنائے نام کتب معروفہ) کوہسار ، لالہ زار وغیرہ
۳۲۔ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جو بعض معنوں میں مؤنث ہیں اور بعض معنوں میں مذکر جیسے:
دوپہر: جب دن کے خاص وقت کے لیے (جو بارہ بجے ہوتا ہے) آتا ہے تو مؤنث ہے جیسے دوپہر ڈھل گئی۔ بمعنی دو ساعت مذکر ہی جیسے مجھے انتظار کرتے کرتے دو پہر ہو گئے۔
گزر: گزرنے کا حاصل مصدر ہے۔ جیسے میرا گذر وہاں ہوا۔ بمعنی بسر اوقات مؤنث جیسے اس میں میری گزر نہیں ہو سکتی۔
تکرار: بحث اور جھگڑے کے معنوں میں مؤنث جیسے میری اس سے تکرار ہو گئی۔ کسی لفظ کے مکرر لانے کی معنوں میں مذکر جیسے اس لفظ کا تکرار فصیح نہیں۔
آب: پانی کے معنوں میں مذکر۔ صفائی یا چمک کے معنوں میں مؤنث جیسے موتی کی آب۔
مد: ضدِ جزر جیسے دریا کا مد۔جب اس خط کے معنوں میں ہو جو حساب میں یا عرضی پر کھینچا جاتا ہے تو مؤنث ہے۔ بعض نے مذکر بھی لکھا ہے۔ نوکری یا حساب کے صیغے کے معنوں میں مؤنث۔ جیسے روپیہ کون سی مد سے دیا جائے۔ الف ممدودہ کا مد مذکر ہے۔
ترک: (عربی) بمعنی دست برداری مذکر ہے۔ یعنی نشان جو یاداشت کے لیے کتاب میں رکھ دیا جاتا ہے مؤنث ہے۔
"ترک اک اک جزو کی دو دو پہر ملتی نہیں" (اسیؔر)
عرَض: ضدِ طول مذکر۔ جیسے اس مکان کا عرض۔ بمعنی التماس مؤنث جیسے میری یہ عرض ہے۔
کف: جھاگ کے معنوں میں مذکر۔ تلوے یا ہتھیلی کے معنوں میں مختلف فیہ۔
تاک: تاکنا سے اسم۔ مؤنث ہے۔ انگور کی بیل مذکر۔
آہنگ قصد کے معنوں میں مذکر۔آواز کے معنوں میں مؤنث
تال: تالاب کے معنوں میں مؤنث۔ وزنِ موسیقی کے معنوں میں مؤنث
نال: بندوق کی نلی مؤنث۔ناف کے معنوں میں مختلف فیہ۔ گھاس وغیرہ کی ڈنڈی مؤنث۔ لکڑی یا پتھر کا کندا جو پہلوان اٹھاتے ہیں مذکر۔
بیل: ایک خاص پھل کے معنوں میں مذکر۔ بیل باقی سب معنوں میں مؤنث
مثل: بمعنی مانند مذکر۔ کاغذاتِ مقدمہ مؤنث
لگن: بمعنی ظرف یعنی طاس شمع مذکر۔ بمعنی لگاؤ مؤنث
مغرب: بمعنی مقام غروب مذکر۔ بمعنی وقتِ شام مؤنث
۳۳۔ چند الفاظ ایسے ہیں جنہیں اہلِ زبان مذکر و مؤنث دونوں طرح بولتے ہیں یا بعض الفاظ ایسے ہیں کہ وہ ایک جگہ مؤنث بولے جاتے ہیں اور دوسری جگہ مذکر جیسے۔سانس ، قلم ، فکر ، غور ، طرز ، نقاب ، مرقد ، شکرقند ، کٹار ، درود ، فاتحہ ، کلک ، کیف ، جھونک ، سیل ، سبحہ ، ہن ، گزند ، نشاط ، حروف تہجی میں میم اور جیم ، زنار ، متاع ، قامت ، گیند ، مالا۔
(سانس اور فکر اہلِ دہلی و لکھنؤ دونوں کی یہاں مختلف فیہ ہیں یعنی مذکر و مؤنث دونوں طرح استعمال ہوئے ہیں۔ نقاب اور زنار مختلف فیہ ہیں۔ متاع کو اہلِ دہلی مؤنث اور اہلِ لکھنؤ مذکر بولتے ہیں۔ گیند اہلِ لکھنؤ مذکر بھی بولتے ہیں۔ املا عام طور پر مذکر ہے مگر اہلِ لکھنؤ میں مختلف فیہ ہے۔ مالا اہلِ دہلی مؤنث بولتے ہیں مگر اہلِ لکھنؤ میں مختلف فیہ ہے)۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
(۲) تعداد

اسمِ عام یا تو واحد ہو گا یا جمع۔ اسی کو تعداد کہتے ہیں۔
۱۔ جن واحد مذکر الفاظ کے آخر میں ا یا ہ ہے وہ جمع میں یائے مجہول سے بدل جاتے ہیں۔ مثلاً لڑکا لڑکے ، ڈبہ ڈبے ، حقہ حقے
۲۔ واحد مذکر الفاظ کے آخر میں یہ علامت نہ ہو تو ان کی صورت واحد جمع میں یکساں رہتی ہے۔ مثلاً ایک مرد آیا ، چار مرد آئے۔ میرے پاس ایک لیمپ ہے ، اس کے پاس کئی لیمپ ہیں۔ ایک ہاتھی آیا ، چار ہاتھی آئے۔ ایک لڈو کھایا ، چار لڈو کھائے۔ لیکن دھواں اور رواں مستثنٰی ہیں۔ جمع میں ں کے ماقبل الف (ے) سے بدل جاتا ہے۔ یعنی جمع دھویں اور روئیں ہوتی ہے۔
۳۔ جن مؤنث واحد الفاظ کے آخر "ی" ہو ان کی جمع میں اں بڑھا دیتے ہیں جیسے لڑکی لڑکیاں ، گھوڑی گھوڑیاں ، کرسی کرسیاں ،
۴۔ جن مؤنث واحد الفاظ کے آخر میں یا ہو ان کی جمع میں صرف ں بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے گڑیا سے گڑیاں ، چڑیا سے چڑیاں۔
۵۔ جن مؤنث واحد الفاظ کے آخر میں ا ہوتا ہے جمع میں اس کے بعد ئیں (ء ی ں ) بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے گھٹائیں ، مامائیں ، تمنائیں۔
۶۔ جن کے آخر میں مذکورہ بالا علامات میں سے کوئی نہیں ہوتی ان کی جمع کے لیے صرف یں (ے ں) بڑھادیتے ہیں جیسے مالنیں ، گاجریں ، کتابیں ، بیگمیں ، باتیں۔ لیکن بَھوں مستثنیٰ ہے۔ اس کی جمع بھویں آتی ہے۔
۷۔ بعض اسما کی جمع نہیں آتی مثلاً

(ا) وہ مذکر الفاظ جن کے آخر ا یا ہ نہ ہو جس کا نمبر ۲ میں ذکر ہوچکا ہے(مگر جب ان کے بعد کوئی حرفِ ربط آجاتا ہے تو جمع میں استعمال ہوتے ہیں)
(ب) عموماً اسمائے کیفیت کی جمع نہیں آتی ، جب تک کوئی خاص وجہ نہ ہو یعنی کیفیاتِ مختلفہ جمع نہ ہوں۔ درد ، بخار وغیرہ
(ج) دھاتوں کی جمع استعمال نہیں ہوتی۔ جیسے چاندی ، سونا ، تانبا وغیرہ۔ اگر مختلف ممالک یا مختلف اقسام کی کوئی معدنی شے ہو تو البتہ جمع آئے گی۔ جیسے اس نے مختلف قسم کے سونے جمع کیے ہیں۔
روپیہ پیسہ کی اگرچہ جمع آتی ہے مگر جب اس کے معنی دولت کے ہوتے ہیں تو واحد ہی استعمال ہوتا ہے مگر معنی جمع کے ہوتے ہیں۔ جیسے اس کے پاس بہت روپیہ پیسہ ہے یعنی مال دار ہے۔ صرف روپیہ (واحد میں)بھی ان معنوں میں آتا ہے۔ جیسے اس کے پاس بہت روپیہ ہے۔
یوں بھی روپیہ جمع کے معون میں دونوں طرح استعمال ہوتا ہے مثلاً اس نے دو ہزار روپیہ خرچ کیا یا اس نے دو ہزار روپے خرچ کیے۔ دونوں طرح صحیح ہے۔

۸۔ اب تک صرف ایک فاعلی صورت کا بیان تھا۔ لیکن جب فاعل یا مفعول یا اضافت کے حروف یا حرفِ ربط اسما کے بعد آتے ہیں تو واحد اور جمع کی صورت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ لہذا اب اس کا مفصل ذکر کیا جاتا ہے۔
جن حروف کے آجانے سے تبدیلی ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔ کا ، کی ، کے ، نے ، کو ، پر ، پہ ، سے ، تک ، میں۔ یہ حروفِ ربط کہلاتے ہیں۔
ان حروف کے آنے سے یہ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔
(۱) جن واحد الفاظ کے آخر میں ا یا ہ ہوتی ہے۔ وہ ان حروف کے آجانے سے (ے) مجہول سے بدل جاتے ہیں۔ جیسے لڑکے نے ، گھوڑے کو ، حقے میں۔
لیکن ذیل کے الفاظ مستثنٰی ہیں۔
(الف) بعض ہندی الفاظ جن میں سے اکثر ٹٹ سما (خالص سنسکرت کے) اور بعض مڈبھوا (یعنی بگڑی ہوئی سنسکرت کے) ہیں جیسے:
راجا ، گھٹا ، سبھا ، پوجا ، بھاکا ، (بھاشا) ، چٹا ، بالا ، بیچا ، سیتلا ، انگیا ، بچھیا ، انّا ، ماما ، ددّا ، داتا وغیرہ۔
(ب) اسماء جو عزیزوں اور رشتہ داروں کے معنوں میں آتے ہیں جیسے: چچا ، ابا ، دادا ، نانا ، خالا ، پھوپا ، ماتا ، پتا وغیرہ۔
(ج) عربی سہ حرفی لفظ ریا ، ربا ، دعا ، حیا ، قبا ، عبا ، زنا ، خلا ، غنا ، طلا ، ہوا ، دوا ، بلا ، صفا ، غذا ، ثنا ، رجا ، سزا ، جزا ، جلا ، جفا ، وفا وغیرہ۔
(د) عربی مصادر جن کے آخر ا ہوتا ہے وہ بھی مستثنٰی ہیں جیسے انشا ، املا ، استہزا ، اخفا ، تمنا ، افزا ، اقتضا ، التجا وغیرہ۔
(ہ) ان مصادر سے ایسے عربی مفعول جن کے آخر میں الف ہے۔ مدعا ، مقتضا ، منشا وغیرہ۔
(و) جن کے آخر میں الف مقصورہ ہے جیسی اعلیٰ ، ادنیٰ ، عقبیٰ وغیرہ۔
(ز) تمام اسمائے خاص جیسے گنگا ، متھرا ، خدا وغیرہ۔
(ح) فارسی کے اسمِ فاعل جیسے دانا ، بینا ، شناسا وغیرہ۔
(ط) بعض دوسرے فارسی عربی اسماء جیسے دریا ، صحرا ، مسیحا ، عنقا ، کیمیا ، طوبا ، ثریا ، مینا۔

(۲) جہاں یہ علامت یعنی (ا یا ہ) نہیں ہوتی وہاں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی جیسے شہر میں ، مالی نے ، لڑکی سے وغیرہ۔
لیکن دو ہندی لفظ دھواں اور رواں ایسے ہیں جن کی حالت سب سے جدا ہے۔ ان کے بعد جب حروفِ ربط آتے ہیں تو ں کے قبل کا الف یائے مجہول سے بدل جاتا ہے جیسے دھویں میں۔ روئیں سے۔
(۳) وہ عربی الفاظ جن کے آخر میں ع یا ح ہو ان کے ماقبل حرف کی حرکت زبر ہو تو پڑھنے میں زبر زیر سے بدل جاتا ہے۔ جیسے مجمع میں ، مطبع میں ، مصرع میں۔
جمع کی حالت میں بھی جبکہ (صورت فاعلی ہو) زبر زیر سے بدل جاتا ہے۔ جیسے بہت سے مرقع رکھے ہیں۔ یہاں مطبع کثرت سے ہیں۔
نیز وہ عربی الفاظ جن کے آخر ہ زاید اور ماقبل ع مفتوح ہو تو وہ ہ ے سے نہیں بدلتی مگر تلفظ میں حرف ماقبل ع کا زبر زیر ہوجاتا ہے جیسے جمعہ کے روز قلعہ میں آؤ (بعض لوگ ے سے لکھتے ہیں جیسے قلعے ، جمعے)۔
(۴) جمع مذکر کے بعد حرفِ ربط کے آنے سے جمع میں "و ں" بڑھا دیتے ہیں جیسے شہروں میں ، مردوں کے ساتھ۔
جمع مؤنث کا الف ں بھی و ں سے بدل جاتا ہے۔ لڑکیوں نے ، دھونیوں کو۔ لیکن جن الفاظ کے آخر میں و ہوتی ہے ان کی جمع میں و پر ہمزہ بڑھا کر ں زیادہ کردیتے ہیں جیسے جو رؤں نے ، گاؤں میں ، کھڑاؤں میں۔ ( ہماری رائے میںواحد میں صحیح املا گانؤ ہے۔ گانؤں ، گاؤں ٹھیک نہیں ہوتا اگرچہ تینوں طرح لکھا جاتا ہے)۔
(۵) بعض الفاظ ایسے ہیں جو ہمیشہ جمع میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً دستخط بہت اچھے ہیں ، معنی۔ اس لفظ کے کیا معنی ہیں یا یہ کن معنوں میں آتا ہے۔
پت میں فعل جمع کے ساتھ آتا ہے جیسے قے میں پت نکلے۔
ختنےٰ کا لفظ واحد اور جمع دونوں میں ہوتا ہے جیسے اس کے ختنے ہوگئے یا اس کا ختنہ ہوگیا۔ ایسے ہی اور بعض الفاظ ہیں جس کا ذکر نحو میں ہوگا۔
(۶) اقسامِ غلہ کی واحد جمع میں بہت اختلاف ہے۔
بعض صرف واحد میں استعمال ہوتے ہیں جیسے باجرا ، مکی ، جوار۔بعض صرف جمع میں استعمال ہوتے ہیں جیسے یہ گیہوں بڑے ہیں ، یہ تِل بہت اچھے ہیں ، ان تلوں میں تیل نہیں۔ آج کل جَو بہت سستے ہیں۔ بعض واحد جمع دونوں میں آتے ہیں جیسے چنا منھ لگا نہیں چھٹتا ، چنے کھایا کرو۔
(۷) بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی جمع کی جمع استعمال ہوتی ہے جیسے اولیاؤں یا انبیاؤں سے دعا مانگنا ، تمھیں شاید کبھی اشرافوں کی صحبت نصیب نہیں ہوئی۔ آج کل رجحان اس طرف ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جمع الجمع نہ بنائی جائے۔ اس قسم کے لفظ عموماً عربی الفاظ ہوتے ہیں اردو میں ان کی دوبارہ جمع بنالی جاتی ہے۔
اشراف کا لفظ اردو میں واحد مستعمل ہے جیسے اخبار کا لفظ۔ اصول واحد اور جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً میرا یہ اصول ہے ، کچھ زبانوں کے اصول قریب قریب یکساں ہیں۔
اسی طرح کائنات ، واراوت (حادثہ کے معنوں میں) کرامات ، خیرات ، صلوات ، حاضرات ، فتوح (بمعنی آمدنی بالائی) اوزار (واحد و جمع) اخلاق (واحد و جمع دونوں) القاب (واحد و جمع دونوں) آفاق (بمعنی جہاں) احوال ، املاک ، اسرار (واحد و جمع) مواد ، عملہ ، ارواح (واحد و جمع) رعایا ، (واحد و جمع دونوں طرح) اوقات (بمعنی حیثیت جیسے تیری کیا اوقات ہے) تحقیقات ، صلوات ، سکرات ، حوالات ، تعینات ، اولاد ، (واحد جمع) تراویح ، تسلیمات ، آداب (بمعنی سلام) ، خواص (جمع میں بمعنی خدمتگار و بمعنی زن پرستار واحد آتا ہے مگر بمعنی خاصۂ شے واحد اور جمع دونوں طرح مستعمل ہے) ، احوال (واحد جمع دونوں طرح) ، اسباب (بمعنی سامان) معلومات ، (واحد جمع) ، افواہ ، معقولات (یعنی علوم) ، موجودات ( گنتی اور شمار کے معنوں میں جیسے موجودات لینا) اگرچہ جمع ہیں مگر اردو میں واحد کے معنوں میں مستعمل ہیں۔

(۳) حالت

اسم کی چند حالتیں ہوتی ہیں اور ہر اسم کے لیے ضرور ہے کہ وہ ذیل کی کسی نہ کسی حالت میں ہو۔
(۱) حالتِ فاعلی یعنی کام کرنے والے کی حالت۔ جیسے احمد نے روٹی کھائی۔ یہا کام کرنے والا یعنی روٹی کھانے والا احمد ہے لہذا احمد کی حالت فاعلی ہوگی۔
متعدی افعال کے ساتھ فاعل کی علامت نے ہوتی ہے ، نے کے آنے سے اسمائے عام کے واحد اور جمع کی صورت بدل جاتی ہے۔ لڑکے نے روٹی کھائی ، لڑکوں نے روٹی کھائی۔ مگر جہاں کوئی خاص علامت تذکیر و تانیث کی نہیں ہوتی وہاں تبدیلی نہیں ہوتی جیسے گھر جل گیا ، گھر جل گئے۔
(۲) حالتِ مفعولی اسے کہتے ہیں جس پر کام کا اثر پڑے جیسے اوپر کی مثال احمد نے روٹی کھائی میں کھانے کا اثر روٹی پر پڑتا ہے اس لیے روٹی حالتِ مفعولی میں ہے۔ مفعول کے ساتھ اکثر اوقات کو یا سے آتا ہے جیسے میں نے حامد کو خط لکھا ، کلیم حامد سے لڑا۔ اس کی کئی قسمیں ہیں ان کا ذکر نحومیں کیا جائے گا۔
کو ، سے کے آنے سے جو تبدیلی ہوتی ہے اس کا ذکر "تعداد" میں ہوچکا۔
(۳) حالتِ ظرفی یعنی جب کسی اسم کا تعلق زمان و مکان سے پایا جائے جیسے وہ گھر میں ہے ، وہ شام سے غائب ہے۔ یہاں گھر اور شام حالتِ ظرفی میں ہیں۔
حالتِ ظرفی میں جب اسماء کے ساتھ میں ، سے ، تک ، پر ، آتے ہیں تو ان حروف کے آنے سے جو تبدیلیاں اسمائے ما قبل میں ہوتی ہیں ان کا ذکر ہوچکا ہے۔
(۴) حالتِ اضافی: جس میں کسی ایک اسم کو دوسرے کی نسبت دی جائے یعنی کسی اسم کا علاقہ یا تعلق کسی دوسرے اسم سے ظاہر کیا جائے۔ جیسے احمد کا گھوڑا ، یہاں گھوڑے کا تعلق احمد سے ظاہر کیا گیا ہے ، اس لیے یہ مضاف کہلاتا ہے اور جس سے نسبت یا علاقہ ظاہر کیا جاتا ہے اسے مضاف الیہ کہتے ہیں۔ یہاں احمد مضاف الیہ ہے۔
حروفِ اضافت واحد مذکر میں کا ، جمع مذکر میں کے اور واحد اور جمع مؤنث میں کی آتے ہیں۔ ان کی تبدیلیاں پہلے بیان ہوچکی ہیں۔
ف۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان تمام حروف کے آنے سے جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ صرف اسمائے عام میں ہوتی ہیں اسمائے خاص میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی جیسے جمنا کے کنارے ، متھرا کے پاس۔
(۵) حالتِ منادیٰ: وہ جسے بلایا جائے جیسے اے لڑکے۔ اے آدمی ، یااللہ۔
واحد مذکر میں اگر آخر الف ہے تو ے مجہول سے بدل جائے گا جیسے اے لڑکے اور جمع میں بجائے لڑکوں کے صرف لڑکو رہ جائے گا ، ں گرجاتا ہے جیسے اے لڑکو!
واحد مؤنث میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی جیسے اے لڑکی۔ جمع میں مذکر کی طرح نوں گرجاتا ہے جیسے اے لڑکیو!
جہاں کوئی علامتِ مذکر نہیں ہوتی وہاں واحد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے اے جانور ، البتہ جمع کی حالت یکساں ہے جیسے اے جانورو!

اسما کی تصغیر و تکبیر

تصغیر کے معنی ہیں چھوٹا کرنے کے۔ بعض اوقات الفاظ میں کسی قدر تغیر کرکے یا بعض حروف کے اضافہ سے اسما کی تصغیر بنالیتے ہیں۔
(۱) کبھی تصغیر محبت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ مثلاً بھائی سے بھیا ، بہن سے بہنا۔
(۲) کبھی تصغیر حقارت کے لیے جیسے مرد سے مردوا ، جورو سے جوروا۔
(۳)کبھی چھوٹائی کے لیے جیسے شیشہ سے شیشی۔
اردو میں اسماء کی تصغیر کئی طرح آتی ہے۔
(ا) الفاظ کے آخر میں ا یا وا بڑھادینے سے جیسے جورو سے جوروا۔ مرد سے مردوا ، بھائی سے بھیا۔ لونڈی سے لونڈیا۔
(۲) بعض اوقات مذکر کو مؤنث بنانے سے مثلاً شیشہ سے شیشی ، ٹوکرا سے ٹوکری۔
(۳) بعض اوقات مختلف علامات ڑا ، ڑی ، لی ، لا ، یا وغیرہ بڑھادینے سے اور الفاظ میں کسی قدر تبدیلی کرنے سے جیسے آنکھ سے انکھڑی ، گٹھے سے گٹھڑی ، مکھ سے مکھڑا ، پلنگ سے پلنگڑی ، جی سے جیوڑا ، کونڈے سے کونڈالی ، ناند سے نندولا ، کھاٹ سے کھٹولا ، سانپ سے سنپولا یا سپولیا ، کاگ (کوّا) سے کگیلا ، چور سے چوٹٹا ، آم (انب) سے انبیا۔
بعض اوقات محض حقارت کے لیے روپیہ کو روپلی بولتے ہیں۔ سودا نے ایک جگہ شاعر کو حقارت سے شاعرلّا کہا ہے۔
بعض اقات اسم خاص کی تصغیر (تحقیر کے لیے) بنالیتے ہیں۔ جیسے لکھنوی سے لکھنوّا ، کانپوری سے کانپوریا۔
فارسی میں چ ، ک وغیرہ علاماتِ تصغیر ہیں۔ مثلاً ہیں مثلاً باغچہ ، مردک ، مشکیزہ۔
تصغیر کی ضد تکبیر ہے جس کے معنی ہیں بڑا کرنا یا بڑھانا۔ بعض اسموں کو عظمت کے لیے کسی قدر تغیر سے بڑایا بھاری بھرکم کرکے دکھاتے ہیں۔ جیسے مخدوم سے مخادیم۔اگرچہ مخادیم جمع ہے لیکن بعض اوقات کسی شخص کو تحقیر سے (جو بڑا بنتا ہے) مخادیم کہتے ہیں جیسے بڑا مخادیم بنا بیٹھا ہے۔ اسی طرح موٹے سے موٹلّا ، پگڑی سے پگڑ ، گٹھری سے گٹھر ، بات سے بتنگڑ۔
کبھی شہ (شاہ) کا لفظ شروع میں لگاکر بناتے ہیں۔ جیشے شہتیر ، شہباز ، شاہ بلوت ، شاہراہ۔ شہپر (یہ فارسی ترکیب ہے)۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صفت

الفاظ صفت وہ ہیں جو کسی اسم کی حالت یا کیفیت و کمیت ظاہر کریں۔
صفت ہمیشہ اسم کی حالت کو محدود کر دیتی ہے۔ مثلاً بیکار لوگ ، جاہلِ آدمی ، شریر لڑکا۔
اس کی کئی قسمیں ہیں۔
۱۔ صفت ذاتی
۲۔ صفت نسبتی
۳۔ صفت عددی
۴۔ صفت مقداری
۵۔ صفت ضمیری

۱۔ صفت ذاتی
وہ ہے جس سے کسی چیز کی حالت اندورنی یا بیرونی ظاہر ہو جیسے ہلکا ، ٹھوس ، سبز۔
(۱) بعض اوقات یہ صفات دوسرے اسماء یا افعال سے بھی بنائی جاتی ہیں۔
مثلاً لڑاک (لڑنے سے) ڈھلوان (ڈھال سے) کھلاڑی (کھیل سے) بلّی (بل سے) جیوٹ ، لاج ونت ، ہنسوڑ ، بھاگوان (جی ، لاج ، ہنسی اور بھاگ سے)۔
(۲) بعض اوقات بلکہ اکثر دو الفاظ سے مرکب آتی ہے مثلاً ہنس مکھ ، من چلا ، منھ پھٹ وغیرہ۔
(۳) بعض فارسی علامتیں عربی ہندی الفاظ کے ساتھ آکر صفت کا کام دیتی ہیں جیسے سعادت مند ، ناشکرا ، بے فکرا ، سمجھدار ، بے چین ، بے بس وغیرہ۔
(۴) فارسی عربی صفات ذاتی بھی اردو میں بکثرت سے مستعمل ہیں جیسے دانا ، احمق ، بینا ، شریف ، نفیس ، خوب وغیرہ۔
(۵) صفات ذاتی کے تین مدارج ہیں۔
درجہ اول جس میں صرف کسی شے یا شخص کی صفت محض مقصود ہوتی ہے جیسے اچھا یا بڑا۔
درجہ دوم جس میں ایک شے کو دوسری پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ حرف سے ظاہر ہوتی ہے جیسے کپڑا اس سے اچھا ہے۔
درجہ سوم جس میں کسی شے کو اس قسم کی سب اشیا سے ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے ان کپڑوں میں یہ سب سے اچھا ہے۔ جماعت میں یہ لڑکا سب سے ہوشیار ہے۔
بعض اوقات صفات میں زور یا مبالغہ پیدا کرنے کے لیے بعض الفاظ بڑھادیے جاتے ہیں وہ الفاظ یہ ہیں۔
بہت۔ جیسے بہت اچھا ، بہت ہی اچھا ، تمہارا بھائی اس لڑکے بہت ہی بڑا ہے۔
کہیں۔ یہ بھی درجہ دوم میں صفت کے بڑھانے کے لیے آتا ہے جیسے یہ اس سے کہیں بہتر ہے۔ یہ اس سے بدر جہا بہتر ہے۔
زیادہ۔ صرف درجہ دوم میں استعمال ہوتا ہے جیسے یہ زیادہ اچھا ہے۔
بڑا۔ بڑا لمبا سانپ ، بڑا گہرا تالاب۔
نہایت ، یہ حرف فارسی عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے نہایت عمدہ ، نہایت نفیس بعض اوقات ایک کا لفظ بھی مبالغہ پیدا کرتا ہے جیسے ایک چھٹا ہوا ، ایک بدذات ہے۔
یہ جو چشمِ پُر آب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں
لیکن اس کا استعمال ہمیشہ ذم کے موقع پر ہوتا ہے۔ زور کے واسطے بھی بڑھادیتے ہیں۔
اسی طرح اعلیٰ ، اعلیٰ درجہ ، اول نمبر ، اول درجہ ، پرلے درجہ کے الفاظ بھی یہی کام دیتے ہیں۔ جیسے اس میں یہ اعلیٰ صفت ہے ، اعلیٰ درجہ کی جنس ، اول نمبر کا احمق ، پرلے درجہ کا بیوقوف۔ اس میں اعلیٰ اور اعلیٰ درجہ کا لفظ اسم کے ساتھ آتا ہے باقی صفات کے ساتھ۔
۶۔ سا کا لفظ بھی صفات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ، اس سے مشابہت پائی جاتی ہے ، مگر ساتھ ہی صفت میں کمی کا اظہار ہوتا ہےجیسے لال سا کپڑا ، کالا سا رنگ ، وہ تو مجھے بیوقوف سا معلوم ہوتا ہے۔
بعض اوقات سا اڑا کر نہایت پاکیزہ مبالغہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے ہلکا پھول ، میٹھا شہد۔ اگرچہ اس کی ترکیب یہ ہوگی کہ پھول سا ہلکا یا شہد سا میٹھا لیکن اس کے معنی زیادہ بہت ہلکے اور بہت میٹھے کے لیے جاتے ہیں چناچہ اس قسم کی ترکیبی صفات ذیل میں دی جاتی ہیں۔ ہلکا پھول ، میٹھا شہد ، لال انگارہ ، لال بھبھوکا ، کالا بھجنگ ، کھٹا چوک ، کھٹا چونا ، کڑوا زہر ، کڑوا نیم۔ کڑوا کریلا۔ سوکھا کھڑنک ، پھیکا پانی ، موٹا پھّپس ، لنبا اونٹ ، سوکھا کانٹا ، دبلا قاق ، سیدھا تک ، سیدھا تیر ، سفید جھک ، گرم آگ ، ٹھنڈا برف ، ٹھنڈا اولا ، اندھیرا گھپ ، نیلا کانچ ، بہرا پتھر ، اندھا پٹم ، میلا چیکٹ ، بڈھا پھوس۔
سا کا استعمال صفت کی زیادتہ کے لیے اسی طرح بھی آتا ہے جیسے بہت سا آٹا ، بڑا سا گھر۔
سا ان معنوں میں سنسکرت کی علامت شس سے نکلا ہے جس کے معنی گنا کے ہیں اور جہاں سا کے معنی مشابہت کے ہیں وہ سنسکرت کے لفظ سما سے ہے ، برج میں یہ سان ہوا اور ہندی اور اردو میں سا ہوگیا۔

منفی صفات ذاتی
اردو میں چند حروف یا الفاظ ہندی کے ایسے ہیں جن کے لگانے سے صفات ذاتی میں نفی کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جیسے
ا جیسے اٹل امر (نہ مرنے والا)
ان جیسے انجان اَن مل
نِر جیسے نرمل نراس
بے جیسے بےدھڑک ،بے سرا ،بے جوڈ
ک جیسے کُراہ ، کڈھب
بِن جیسے بن سرا بن جتی (زمین)
نِ جیسے نڈر
فارسی عربی کے الفاظ کے ساتھ فارسی عربی کی علامات استعمال ہوتی ہیں مثلاً نالائق ، نابینا (فارسی علامت) غیر ممکن (عربی علامت) بے وقوف (فارسی علامت)۔

۲۔صفات نسبتی
صفات نسبتی وہ ہیں جن میں کسی دوسری شے سے لگاؤ یا نسبت ظاہر ہو ، مثلاً ہندی عربی وغیرہ۔
۱۔ عموماً یہ لگاؤ اسما کے آخر میں یائے معروف کے بڑھانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے فارسی ، ترکی ، ہندوستانی ، آبی ، پیازی وغیرہ۔
۲۔ جب کسی اسم کے آخر میں ی یا ہ یا ا ہوتا ہے یہ ی یا ہ یا ا کو واؤ سے بدل کر ی بڑھادیتے ہیں جیسے دہلی سے دہلوی ، سندیلہ سے سندیلوی ، موسیٰ سے موسوی ، عیسیٰ سے عیسوی۔
۳۔ بعض اوقات ہ کو حذف کردیتے ہیں۔ جیسے مکہ سے مکی ، مدینہ سے مدنی۔
نوٹ: صفات نسبتی جب بغیر اسم کے آتی ہیں تو بجائے خود اسم ہونگی جیسے بنگالی بڑے ذ ہین ہوتے ہیں۔
۴۔ بعض اوقات انہ بڑھانے سے نسبت ظاہر کرتے ہیں جیسے غلامانہ ، عاقلانہ ، جاہلانہ ، مردانہ (یہ فارسی ترکیب ہے)۔
۵۔ ہندی میں بھی چند علامتیں ہیں جن کے اسم کے آخر میں آنے سے صفتِ نسبتی بن جاتی ہے۔
ر ا یا لا (ہندی میں ر اور ل کا بدل عام طور پر ہوتا ہے) جیسے سنہرا ، روپہلا ، چچیرا۔
واں جیسے گیہواں ،
ار جیسے گنوار (گاؤں سے)۔
لا یا الا جیسے سانولا ، رنگیلا ، مٹیالا ، اکیلا ، منجھلا ، پچھلا ، اگلا۔
والا جیسے کلکتہ والا تاجر۔
کا جیسے قیامت کا ، غضب کا۔

۔صفت عددی

جس سے تعداد کسی اسم کی معلوم ہو۔
۱۔ تعداد دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جب ٹھیک عدد کسی شے کا معلوم ہو جیسے پانچ آدمی ، چھ گھوڑے ، ا سے تعدادِ معین کہتے ہیں۔
دوسرے جب ٹھیک ٹھیک تعداد کسی شے کی نہ معلوم ہو جیسے چند لوگ ، بعض شخص۔ اسے تعدادِ غیر معین کہتے ہیں۔
۲۔ تعداد غیر معین کے لیے اکثر یہ الفاظ مستعمل ہوتے ہیں۔
کئی ، چند ، بعض ، سب ، کل ، بہت ، بہت سے ، تھوڑا ، تھوڑے ، کم ، کچھ۔
۳۔ تعدادِ معین کی تین قسمیں ہیں۔
ایک تعداد معمولی جیسے دو ، تین ، چار وغیرہ کل اعداد۔
فائدہ: پراکرت سے ہندی الفاظ بنانے میں آخری حرفِ علت عموماً گرجاتا ہے۔ حروفِ ربط خارج کرکے درمیانی حرفِ علت پر زور دیا جاتا ہے۔یہاں سنسکرت اور پراکرت کے اصل ہندسوں کا لکھنا اور یہ بتانا کہ موجودہ ہندی ہندسے کیسے بنے ہیں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
ہندسہ​
سنسکرت​
پراکرت​
ہندی​
۱​
ایک​
ایکا​
ایک​
۲​
دوی​
دو​
دو​
۳​
تری​
رتنی​
تین​
۴​
چتر​
چتّاری​
چار​
۵​
پنجم​
پانچا​
پانچ​
۶​
ششٹ​
چھا​
چھ (ش چ سے بدل گیا)​
۷​
سپتم​
ستّا​
سات​
۸​
اشٹم​
آٹھا​
آٹھ​
۹​
نوم​
نا​
نو​
۱۰​
دشم​
دسا​
دس​

دس سے آگے کے ہندسے اکائیوں اور دہائیوں کے ملنے سے بنے ہیں اور ان میں جو تبدیلی ہوئی ہے وہ ظاہر کی جاتی ہے۔ اول پراکرت "دسّاں" بدل کر دہا ہوا اور اس کے بعد دہا سے رہا ہوگیا۔ یہ وہی رہا ہے جو گیارہ وغیرہ میں آتا ہے۔
۱۱ سنسکرت کا اکا دساں (یعنی ایک اور دس) پراکرت اِیارہا ، ہندی اگیارہ سے گیارہ۔ ( ہندی میں سنسکرت کا ک گ سے بدل گیا اور اول کا حرفِ علت گر گیا)۔

ہندسہ​
سنسکرت​
پراکرت​
ہندی​
۱۱​
اکا دساں​
ایارہا​
گیارہ​
۱۲​
دوا دساں​
وارہا​
بارہ​
۱۳​
تریو دساں​
ترہ​
تیرہ​
۱۴​
چاتر دساں​
چاددہا​
چودہ​
۱۵​
پانچا دساں​
پانا دہا​
پندرہ​
۱۶​
شو دساں​
سورہ​
سولہ​
۱۷​
سپتا دساں​
سترا​
سترہ​
۱۸​
اشٹا دساں​
اٹھارہا​
اٹھارہ​
۱۹​
اونا وی سی​
انیس​
۲۰​
دیم شتی​
وی سئی​
بیس​

ان ہندسوں میں یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ خلافِ معمول نو کا ہندسہ ہر دہائی کے ساتھ اگلی دہائی سے ایک کم کرکے ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُنیس اصل میں اون نیس ہے۔ اونا کے معنی کم اور ایس پراکرت وی سی کا بگڑا ہوا ہے یعنی ایک کم بیس۔ اسی طرح انتین اونے تیس یعنی ایک کم تیس ہے۔ علیٰ ھذا القیاس انتالیس ، انچاس ، انسٹھ ، انہتر ، اناسی ہیں۔ مگر نواسی (نو اور اسّی) ، ننّاوے ( نو اور نوّے) باقاعدہ ہیں۔​
ہندسہ: سنسکرت۔۔۔ پراکرت۔۔۔ ہندی
۳۰ : چت ورین ست۔۔۔ چتاری سا ۔۔۔ چالیس
۵۰ : پانچاست۔۔۔ پان ناسا۔۔۔ پچاس
۶۰ : شش ئی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ساٹھ
۷۰ : سپ نتی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ستر
( پ ، ر سے مل گئی اور آکری ت ، ر سے بدل گئی۔ اور مرکب ہونے کی حالت میں س ، ہ سے بدل گیا۔)
۸۰ : (سنسکرت: اس تی) اس میں ت گرگئی اور س ڈبل ہوکر اسّی ہوگیا۔
۹۰ : سنسکرت کے لفظ نوے تی سے بنا ہے۔
۱۰۰: سنسکرت کے لفظ شتم ، پراکرت ساؤ سے سو یا سے بنا۔
سا جیسے چاند سا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تعدادِ معین کی دوسری قسم تعدادِ ترتیبی ہے جس سے ترتیب کسی شے کی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ساتواں پانچواں وغیرہ۔ اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ تعدادِ معین کے آگے واں لگادیتے ہیں۔ لیکن پہلے چار عدد اور چھ کا ہندسہ اس قاعدے سے مستثنٰی ہے۔ ان کی تعداد ترتیبی یہ ہے۔
پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، چھٹا۔
بعض اوقات اعداد کے آگے وں اظہارِ کلیت کے لیے بڑھا دیا جاتا ہے۔ جیسے پانچوں ، تنیوں ، چھئوں جاتے رہے ، چاروں موجود ہیں ، دونوں آملے۔ دونوں میں لفظ دوں بجائے دوکے استعمال ہوا ہے اس کے آگے وں بڑھایا گیا ہے۔ بعض اوقات مزید تاکید کے لیے اسے دہرادیتے ہیں۔ جیسے دونوں کے دونوں چلے گئے ، ساتوں کے ساتوں موجود ہیں۔
فارسی میں عدد کے آخر میں میم بڑھا دیتے ہیں جیسے یکم دوم سوم چہارم وغیرہ۔
تیسری قسم تعدادِ معین اضافی ہے ، جس میں کسی عدد کا ایک یا ایک سے زائد بار دہرانا پایا جائے۔ اردو میں کئی طرح مستعمل ہے۔
۱۔ عدد کے آگے گنا بڑھانے سےجیسے دگنا ، تگنا ، چوگنا وغیرہ۔ گنا یا گونہ (فارسی) دراصل سنسکرت کے لفظ گون آ سے ہے ، جس کے معنی قسم کے ہیں۔
۲۔ چند (فارسی) کے بڑھانے سے جیسے دوچند ، سہ چند ، دہ چند وغیرہ۔
۳۔ ہرا بڑھانے سے جیسے اکہرا ، دوہرا ، تہرا ، چوہرا۔
ہرا درحقیقت ہارا کا مخفف ہے جو سنسکرت کے لفظ دارا سے بنا ہے۔
بعض اوقات تعداد میں کے آگے ایک کا لفظ بڑھادینے سے تعداد غیر معین ہوجاتی ہے جیسے پچاس ایک آدھی بیٹھے تھے جس کے معنی ہوں گے یقیناً کم و بیش پچاس۔ اسی طرح بیس ایک ، دو ایک وغیرہ وغیرہ دس ، بیس ، پچاس ، سیکڑہ ، ہزار ، لاکھ ، کروڑ جمع کی حالت میں تعداد غیر معین کے معنوں میں آتے ہیں۔ اور اس کثرت کا اظہار ہوتا ہے مجھے دسیوں کام ہیں ، اس مکان میں بیسیوں کمرے ہیں ، ہرروز سیکڑوں آدمیوں سے ملنا پڑتا ہے ، ہزاروں آدمی جمع تھے ، لاکھوں روپیہ صرف ہوگا۔
اسی طرح ان کی فارسی جمع صدہا ، ہزارہا ، لکھوکھا ، کروڑہا بھی اسی طور اور۔

۴۔ صفتِ مقداری
جس سے مقدار یا جسامت کسی شے کی معلوم ہوتی ہے۔ مقدار دو قسم کی ہیں۔ ایک معین دوسری غیر معین۔
غیرمعین۔ جیسے بہت تھوڑا ، کچھ زیادہ۔
یہ الفاظ تعداد اور مقدار دونوں کے لیے آتے ہیں۔ موقعِ استعمال سے امتیاز ہوسکتا ہے کہ صفات تعدادی ہیں یا مقداری۔ مثلاً بہت سے آدمی بیٹھے ہیں (تعدادی) بہت سا گڑ رکھا تھا (مقداری)۔
ان کے علاوہ کتنا (کس قدر) جتنا ، اتنا ، بھی صفاتِ مقداری کے لیے آتے ہیں۔ جیسے دیکھو کتنا پانی چڑھ آیا ، جتنا کھانا کھاسکو کھاؤ ، اتنا پانی مت پیو۔ اتنا بڑا کیڑا ، کبھی (یہ ، اور ، وہ) ان معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جیسے یہ بڑا بچھو تکیے کے نیچے سے نکلا ، اب کی برسات کا وہ زور ہے کہ خدا کی پناہ ، یہ ڈھیر کتابوں کا پڑا ہے۔
نوٹ: یہ کا لفط اکثر کسی دوسری صفت کے ساتھ آتا ہے مگر وہ تنہا۔

۵۔ صفات ضمیری
وہ ضمائر جو صفت کا کام دیتی ہیں مثلاً وہ ، یہ ، کون ، کونسا ، جو ، کیا۔
وہ عورت آئی تھی۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ کون شخص ایسا کہتا ہے۔ جو کام تم سے نہیں ہوسکتا اسے ہاتھ کیوں لگاتے ہیں۔ کیا چیز گرپڑی۔
یہ الفاظ جب تنہا آتے ہیں تو ضمیر ہیں اور جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو صفات ہیں۔
صفاتِ ذاتی و نسبتی جب اسم کے ساتھ ہیں تو اسم کی صفت ہوتے ہیں اور جب تنہا آتے ہیں تو اسم کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً اچھا آدمی یہاں اچھا صفت ہے۔ چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے ، یہاں وہی لفظ اسم کا کام دیتا ہے۔ یہ بنگالی لڑکا بڑا ذہین ہے۔ (صفت) بنگالی بڑے ذہین ہوتے ہیں (اسم)

صفت کی تذکیر و تانیث
اردو میں صفات کی تذکیر و تانیث اکثر ہندی الفاظ میں ہوتی ہے اور وہ بھی بعض بعض حالتوں میں۔ جب مذکر کے آخر میں الف ہوتا ہے تو یہ الف یائے معروف سے بدل جاتا ہے۔ اسی طرح جمع میں الف یائے مجہول سے بدل جاتا ہے مگر جمع مؤنث میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
واحد مزکر۔۔۔۔۔جمع مذکر۔۔۔۔۔واحدمؤنث۔۔۔۔۔۔جمع مؤنث
اچھا مرد۔۔۔۔۔۔اچھے مرد۔۔۔۔۔۔اچھی عورت۔۔۔۔۔۔ اچھی عورتیں
بعض اوقات فارسی صفات میں بھی جو اردو میں بکثرت مستعمل ہیں اور جن کے آخر ہ یا ا ہوتا ہے یہی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جیسے دیوانہ مرد ، دیوانے مرد ، دیوانی عورت ، دیوانی عورتیں ، اسی طرح جدا اور جدی۔
صفاتِ عددی باترتیب میں مذکر کا اں مؤنث میں یں سے بدل جاتا ہے جیسے پانچواں مرد ، پانچویں عورت۔ لیکن جب مذکر کے بعد حرفِ ربط آجاتا ہے تو الف یائے مجہول سے بدل جاتا ہے جیسے پانچویں مرد نے کہا مگر مؤنث کی حالت یکساں رہتی ہے۔ جیسے پانچویں عورت نے کہا۔

صفات کی تصغیر
بعض اوقات صفات کی تصغیر بھی آتی ہے۔ لمبے سے لنبوا لنبوترا ، چھوٹے سے چھٹکا ، موٹے سے مٹکا۔

۳۔ ضمیر
وہ الفاظ جو بجائے اسم کے استعمال کیے جاتے ہیں ضمیر کہلاتے ہیں جیسے وہ نہیں آیا۔ میں آج نہیں جاؤں گا۔ ضمیر سے فائدہ یہ ہے کہ بار بار انہی اسماء کو جو گزر چکے ہیں دہرانا نہیں پڑتا۔ اور زبان میں الفاظ کے دہرانے سے جو بدنمائی پیدا ہوجاتی ہے وہ نہیں ہونے پاتی۔

ضمائر کی قسمیں
(۱) شخصی (۲) موصولہ (۳) استفہامیہ (۴) اشارہ (۵) تنکیر۔

(۱)ضمیر شخصی وہ ہیں جو اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔
ایک وہ جو بات کرتا ہے۔ اسے متکلم کہتے ہیں۔
دوسرا وہ جس سے بات کی جاتی ہے۔ اسے مخاطب کہتے ہیں۔
تیسرا وہ جس کی نسبت ذکر کیا جاتا ہے۔ اسے غائب کہتے ہیں۔
ضمائر کی تین حالتیں ہوتی ہیں ایک فاعلی دوسری مفعولی تیسری اضافی۔
ہر ایک کی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔

ضمائر متکلم
واحد​
جمع​
حالتِ فاعلی​
میں​
ہم​
حالتِ مفعولی​
مجھے یا مجھ کو​
ہمیں یا ہم کو​
حالتِ اضافی​
میرا​
ہمارا​
ضمائر مخاطب
واحد​
جمع​
حالتِ فاعلی​
تو​
تم​
حالتِ مفعولی​
تجھے یا تجھ کو​
تمہیں یا تم کو​
حالتِ اضافی​
تیرا​
تمہارا​

ضمائر غائب
واحد​
جمع​
حالتِ فاعلی​
وہ​
وہ​
حالتِ مفعولی​
اُسے یا اُس کو​
انہیں یا اُن کو​
حالتِ اضافی​
اُس کا​
اُن کا​
اردو ضمائر میں تذکیر و ثانیث کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔
ضمائر غائب میں واحد جمع دونوں کے لیے وہ آتا ہے (وو پرانی اردو ہے) اور اس میں اشخاص اور اشیا کا امتیاز نہیں ہوتا۔
وہ کے بعد جب حروفِ ربط آتے ہیں تو۔
واحد​
جمع​
حالتِ فاعلی​
اُس نے​
انہوں نے​
حالتِ مفعولی​
اُسے یا اُس کو​
انہیں یا اُن کو​
حالتِ اضافی​
اپس کا​
اُن کا​
تو یا تونے بے تکلفی اور محبت کے لیے آتا ہے جیسے ماں بچے سے ، گرو چیلے سے باتیں کرتا ہے یا مخاطب کی کم حیثیتی کو ظاہر کرتا ہے جیسے آقا نوکر سے باتیں کرتے وقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اوقات بہت سے بے تکلف دوست بھی تو کہہ کر باتیں کرتے ہیں۔
نظم میں اکثر تو لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھی اسی طرح خطاب کیا جاتا ہے۔
بعد شاہانِ سلف کے تجھے یوں ہے تفضیل
جیسے قرآن پس، توریت و زبور و انجیل
(ذوق)
دعا پر ختم کروں اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں تو چنیں ہے چناں ہے
(میر)
دعا مانگتے وقت خدا سے بھی تو سے خطاب کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانون کی توحید کا اثر ہے جو اردو سے ہندی زبانوں میں پہنچا ہے۔ دوسرے مواقع پر واحد مخاطب کے لیے تم ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم بھی اکثر نوکروں اور چھوٹے لوگوں سے خطاب کرتے وقت بولا جاتا ہے۔ ورنہ اکثر اور عموماً واحد مخاطب اور جمع مخاطب دونوں کے لیے آپ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
آپ تعظیماً واحد غائب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اگرچہ لوگ طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے تھے مگر آپ کو کبھی ملال نہ ہوتا یا جب کوئی شخص کسی دوسرے سے ملاتا ہے تو تعظیماً کہتا ہے کہ آپ فلاں شہر کے رئیس ہیں۔ آپ شاعر بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہم ضمیر متکلم جمع میں استعمال ہوتا ہے لیکن بڑے لوگ بجائے واحد متکلم کے بھی استعمال کرتے ہیں جیسے ہم نے جو حکم دیا تھا اس کی تعمیل کیوں نہیں کی گئی۔ نظم میں یہ تخصیص نہیں وہاں اکثر واحد متکلم کے لیے آتا ہے جیسے۔
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
ایک ہم ہیں کہ دیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
کبھی متکلم عمومیت کے خیال سے ہم استعمال کرتا ہے جیسے ایک روز ہمیں یہ سب کچھ چھوڑنا پڑےگا۔ ترقی کیسی ، ہماری حالت ہی اس قابل نہیں۔
کبھی متکلم اپنے لیے ہم کا استعمال کرتا ہے۔ جیسے یہ چند روزہ صحبت غنیمت ہے ورنہ پھر ہم کہاں تم کہاں۔ ہماری قسمت ہی بری ہے جو کام کیا بگڑ گیا۔ وہ بڑے ضدی ہیں۔ کسی کی کیوں ماننے لگے آخر ہمیں کو دینا پڑا۔
بعض اوقات یار اور یاروں کا لفظ واحد متکلم کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے یار تو گوشئہ تنہائی میں رہتے ہیں کہیں آئیں نہ جائیں ، یاروں سے بچ کر جائے گا کہاں ، یاروں کا لفظ واحد متکلم اور جمع متکلم دونوں کے لیے آتا ہے۔ مگر عموماً بے تکلفی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے۔
کیا مدِ نظر تم کو ہے یاروں سے تو کہیے
گر منہ سے نہیں کہتے اشاروں سے تو کہیے
(ذوق)
جب کسی جملے میں کوئی اسم یا ضمیر حالتِ فاعلی میں ہو اور وہی مفعول بھی واقع ہو تو بجائے ضمیر مفعولی کے آپ کو ، اپنے تئیں ، اپنے آپ میں سے کوئی ایک استعمال کرتے ہیں جیسے احمد آپ کو دور کھینچتا ہے۔ یا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ یا اپنے کو فاضل خیال کرتا ہے۔
اسی طرح جب کوئی اسم یا ضمیر کسی فقرے میں فاعل ہے اور اس کی اضافی حالت لانی منظور ہو تو بجائے اصل ضمیرِ اضافی کے اپنا ، اپنی ، یا اپنے حسب موقع استعمال ہوں گے۔ جیسے احمد اپنی حرکت سے باز نہیں آتا ، تم اپنا کام کرو ، مجھے اپنے کام سے فرصت نہیں۔ وہ خود تو چلے گئے مگر اپنا کام مجھ پر چھوڑ گئے۔ یہ اُسی حالت میں ہے جب کہ فاعل ایک ہو۔ اگر فاعل الگ الگ یا مضاف ، مضاف الیہ مل کر خود کسی فعل کا فاعل ہیں تو اپنے کی ضمیر نہیں آئے گی بلکہ جس ضمیر کا موقع ہوگا اُسی کی اضافی ضمیر لکھی جائے گی۔ جیسے وہ تو چلے گئے مگر ان کا کام مجھ پر آن پڑا۔ یہاں چلے گئے کے فاعل وہ ہیں اور آپڑا کا فاعل ان کا کام ہے۔ یا جیسے تم تو چلے گئے مگر تمہارا کام انہوں نے مجھے سونپ دیا۔ یہاں چلے گئے کا فاعل تم ہے اور سونپ دیا کا فاعل انہوں نے۔ اپنے کی ضمیر صرف فاعل کی نسبت مفعولی اور اضافی حالت میں استعمال ہوتی ہے۔
اپنا ، اپنی اور اپنے مضاف کے لحاظ سے حسبِ ترتیب واحد مذکر ، واحد مؤنث اور جمع مذکر کے لیے آتے ہیں۔ اگر حروفِ ربط میں سے کوئی مضاف کے بعد آجاتا ہے تو اپنا بدل کر اپنے ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ اپنے کام سے غافل ہے۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ دراصل ایسے فقروں میں اصل ضمیریں اپنا ، اپنے ، اپنی سے بدل گئی ہیں۔ مثلاً "مجھے اپنے کاموں سے فرصت نہیں" اصل میں تھا " مجھے میرے کاموں سے فرصت نہیں"۔ آپ اور اپنا دوسرے ضمائر کے ساتھ تاکید کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً حالتِ فاعلی میں " میں آپ گیا تھا۔ وہ آپ آئے تھے۔ ہم آپ آئے تھے۔ تم آپ گئے تھے۔" حالتِ اضافی میں میرا اپنا کام تھا۔ یہ ان کا اپنا باغ ہے۔
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام (غالب)

فارسی کا لفظ خود بھی (جس کے معنی آپ یا اپنے کے ہیں) انہیں معنوں میں آتا ہے جیسے انہوں نے خود فرمایا۔ خود بعض حالتوں میں زیادہ فصیح ہے ، اور خصوصاً حالتِ مفعولی میں خود استعمال کیا جاتا ہے آپ نہیں آسکتا۔ جیسے میں نے خود اسے دیا۔ یہاں خود کا تعلق اسے سے ہے۔ اگرچہ ابہام پایا جاتا ہے کہ خود کا تعلق میں نے سے بھی ہے۔ لہذا اس کے دفع کے لیے ایسے موقعوں پر استعمال کی یہ صورت ہونی چاہیے کہ جس لفظ سے اس کا تعلق ہو اس کے اول استعمال کیا جائے۔ مثلاً اگر یہاں خود کا تعلق میں نے ظاہر کرنا مقصود ہو تو یوں کہا جائے خود میں نے اسے دیا۔ مگر حالتِ اضافی میں خود کا کہنا فصیح نہیں ہے ، ایسے موقع پر اپنا زیادہ فصیح ہے۔

۔ضمیر موصولہ
وہ ہے جو کسی اسم کا پتہ یا حالت بیان کرے ، اور ساتھ ہی دو جملوں کو ملانے کا کام دے جیسا وہ کتاب جو کل چوری ہوگئی تھی مل گئی ، آپ کے دوست جو چیچک رو ہیں مجھے ملے تھے ، پہلے جملے میں جو کتاب کا اور دوسرے میں جو دوست کا پتہ دیتا ہے۔ ضمیر موصولہ صرف جو ہے جس کی مختلف حالتیں یہ ہیں۔
واحد جمع
حالتِ فاعلی جو (حرف نے کے ساتھ) جس نے جو اور(نے کے ساتھ) جنہوں نے
حالتِ مفعولی میں جس کو یا جسے جن کو یا جنہیں
حالتِ اضافی میں (مذکر) جس کا جن کا ، (مؤنث) جس کی جن کی
جن کو ، جنہیں ، جنہوں نے ، جن کا۔ اگر جمع ہیں مگر تعظیماً واحد کے لیے بھی آتے ہیں۔
جس اسم کے لیے یہ ضمیر آتی ہے اسے مرجع کہتے ہیں۔
ضمیر موصولہ ہمیشہ ایک جملہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسرا جملہ اس کے جواب میں ہوتا ہے مثلاً وہ کتاب جو کل خریدی تھی جاتی رہی ، اس میں دو جملے ہیں ایک جو کل خریدی تھی صلہ (ضمیر) ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو کل آئے تھے آج چلے گئے۔
یہ حالت فاعلی میں واحد اور جمع دونوں میں یکساں استعمال ہوتا ہے ، مگر جب فاعل کے ساتھ نے ہو تو واحد میں جو بدل کر جس ہو جاتا ہے مثلاً جس نے ایسا کیا برا کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے قصور کیا تھا معاف کر دیئے گئے۔
کبھی کبھی جو کے جواب میں فقرہ ثانی میں سو آتا ہے جو ہو سو ہو۔ جو چڑھے گا سو گرے گا۔ جون بھی ہندی ضمیر موصولہ ہے مگر اردو میں سا کے ساتھ مل کر آتا ہے جیسے ان میں سے جون سا چاہو لے لو۔ جمع میں جون سے اور واحد و جمع مؤنث میں جون سے استعمال ہوتا ہے۔ بعض اوقات صفت بھی ہوتا ہے جیسے جون سی کتاب چاہو لے لو۔
کبھی کہ بطور ضمیر موصولہ کے استعمال ہوتا ہے جیسے
میں کہ آشوبِ جہاں سے تھا ستم دیدہ بہت
امن کو سمجھا غنیمت دلِ غم دیدہ بہت (آزاد)
جو اور جن بہ تکرار بھی آتے ہیں ، جس سے اگرچہ حالت جمع ظاہر ہوتی ہے مگر اطلاق اس کا فرداً فرداً ہوتا ہے۔ مثلاً جو جو پسند ہو لے لو۔ جن جن کے پاس گیا انہوں نے یہی جواب دیا۔
 
Top