تعدادِ معین کی دوسری قسم تعدادِ ترتیبی ہے جس سے ترتیب کسی شے کی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ساتواں پانچواں وغیرہ۔ اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ تعدادِ معین کے آگے واں لگادیتے ہیں۔ لیکن پہلے چار عدد اور چھ کا ہندسہ اس قاعدے سے مستثنٰی ہے۔ ان کی تعداد ترتیبی یہ ہے۔
پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، چھٹا۔
بعض اوقات اعداد کے آگے وں اظہارِ کلیت کے لیے بڑھا دیا جاتا ہے۔ جیسے پانچوں ، تنیوں ، چھئوں جاتے رہے ، چاروں موجود ہیں ، دونوں آملے۔ دونوں میں لفظ دوں بجائے دوکے استعمال ہوا ہے اس کے آگے وں بڑھایا گیا ہے۔ بعض اوقات مزید تاکید کے لیے اسے دہرادیتے ہیں۔ جیسے دونوں کے دونوں چلے گئے ، ساتوں کے ساتوں موجود ہیں۔
فارسی میں عدد کے آخر میں میم بڑھا دیتے ہیں جیسے یکم دوم سوم چہارم وغیرہ۔
تیسری قسم تعدادِ معین اضافی ہے ، جس میں کسی عدد کا ایک یا ایک سے زائد بار دہرانا پایا جائے۔ اردو میں کئی طرح مستعمل ہے۔
۱۔ عدد کے آگے گنا بڑھانے سےجیسے دگنا ، تگنا ، چوگنا وغیرہ۔ گنا یا گونہ (فارسی) دراصل سنسکرت کے لفظ گون آ سے ہے ، جس کے معنی قسم کے ہیں۔
۲۔ چند (فارسی) کے بڑھانے سے جیسے دوچند ، سہ چند ، دہ چند وغیرہ۔
۳۔ ہرا بڑھانے سے جیسے اکہرا ، دوہرا ، تہرا ، چوہرا۔
ہرا درحقیقت ہارا کا مخفف ہے جو سنسکرت کے لفظ دارا سے بنا ہے۔
بعض اوقات تعداد میں کے آگے ایک کا لفظ بڑھادینے سے تعداد غیر معین ہوجاتی ہے جیسے پچاس ایک آدھی بیٹھے تھے جس کے معنی ہوں گے یقیناً کم و بیش پچاس۔ اسی طرح بیس ایک ، دو ایک وغیرہ وغیرہ دس ، بیس ، پچاس ، سیکڑہ ، ہزار ، لاکھ ، کروڑ جمع کی حالت میں تعداد غیر معین کے معنوں میں آتے ہیں۔ اور اس کثرت کا اظہار ہوتا ہے مجھے دسیوں کام ہیں ، اس مکان میں بیسیوں کمرے ہیں ، ہرروز سیکڑوں آدمیوں سے ملنا پڑتا ہے ، ہزاروں آدمی جمع تھے ، لاکھوں روپیہ صرف ہوگا۔
اسی طرح ان کی فارسی جمع صدہا ، ہزارہا ، لکھوکھا ، کروڑہا بھی اسی طور اور۔
۴۔ صفتِ مقداری
جس سے مقدار یا جسامت کسی شے کی معلوم ہوتی ہے۔ مقدار دو قسم کی ہیں۔ ایک معین دوسری غیر معین۔
غیرمعین۔ جیسے بہت تھوڑا ، کچھ زیادہ۔
یہ الفاظ تعداد اور مقدار دونوں کے لیے آتے ہیں۔ موقعِ استعمال سے امتیاز ہوسکتا ہے کہ صفات تعدادی ہیں یا مقداری۔ مثلاً بہت سے آدمی بیٹھے ہیں (تعدادی) بہت سا گڑ رکھا تھا (مقداری)۔
ان کے علاوہ کتنا (کس قدر) جتنا ، اتنا ، بھی صفاتِ مقداری کے لیے آتے ہیں۔ جیسے دیکھو کتنا پانی چڑھ آیا ، جتنا کھانا کھاسکو کھاؤ ، اتنا پانی مت پیو۔ اتنا بڑا کیڑا ، کبھی (یہ ، اور ، وہ) ان معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جیسے یہ بڑا بچھو تکیے کے نیچے سے نکلا ، اب کی برسات کا وہ زور ہے کہ خدا کی پناہ ، یہ ڈھیر کتابوں کا پڑا ہے۔
نوٹ: یہ کا لفط اکثر کسی دوسری صفت کے ساتھ آتا ہے مگر وہ تنہا۔
۵۔ صفات ضمیری
وہ ضمائر جو صفت کا کام دیتی ہیں مثلاً وہ ، یہ ، کون ، کونسا ، جو ، کیا۔
وہ عورت آئی تھی۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ کون شخص ایسا کہتا ہے۔ جو کام تم سے نہیں ہوسکتا اسے ہاتھ کیوں لگاتے ہیں۔ کیا چیز گرپڑی۔
یہ الفاظ جب تنہا آتے ہیں تو ضمیر ہیں اور جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو صفات ہیں۔
صفاتِ ذاتی و نسبتی جب اسم کے ساتھ ہیں تو اسم کی صفت ہوتے ہیں اور جب تنہا آتے ہیں تو اسم کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً اچھا آدمی یہاں اچھا صفت ہے۔ چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے ، یہاں وہی لفظ اسم کا کام دیتا ہے۔ یہ بنگالی لڑکا بڑا ذہین ہے۔ (صفت) بنگالی بڑے ذہین ہوتے ہیں (اسم)
صفت کی تذکیر و تانیث
اردو میں صفات کی تذکیر و تانیث اکثر ہندی الفاظ میں ہوتی ہے اور وہ بھی بعض بعض حالتوں میں۔ جب مذکر کے آخر میں الف ہوتا ہے تو یہ الف یائے معروف سے بدل جاتا ہے۔ اسی طرح جمع میں الف یائے مجہول سے بدل جاتا ہے مگر جمع مؤنث میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
واحد مزکر۔۔۔۔۔جمع مذکر۔۔۔۔۔واحدمؤنث۔۔۔۔۔۔جمع مؤنث
اچھا مرد۔۔۔۔۔۔اچھے مرد۔۔۔۔۔۔اچھی عورت۔۔۔۔۔۔ اچھی عورتیں
بعض اوقات فارسی صفات میں بھی جو اردو میں بکثرت مستعمل ہیں اور جن کے آخر ہ یا ا ہوتا ہے یہی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جیسے دیوانہ مرد ، دیوانے مرد ، دیوانی عورت ، دیوانی عورتیں ، اسی طرح جدا اور جدی۔
صفاتِ عددی باترتیب میں مذکر کا اں مؤنث میں یں سے بدل جاتا ہے جیسے پانچواں مرد ، پانچویں عورت۔ لیکن جب مذکر کے بعد حرفِ ربط آجاتا ہے تو الف یائے مجہول سے بدل جاتا ہے جیسے پانچویں مرد نے کہا مگر مؤنث کی حالت یکساں رہتی ہے۔ جیسے پانچویں عورت نے کہا۔
صفات کی تصغیر
بعض اوقات صفات کی تصغیر بھی آتی ہے۔ لمبے سے لنبوا لنبوترا ، چھوٹے سے چھٹکا ، موٹے سے مٹکا۔
۳۔ ضمیر
وہ الفاظ جو بجائے اسم کے استعمال کیے جاتے ہیں ضمیر کہلاتے ہیں جیسے وہ نہیں آیا۔ میں آج نہیں جاؤں گا۔ ضمیر سے فائدہ یہ ہے کہ بار بار انہی اسماء کو جو گزر چکے ہیں دہرانا نہیں پڑتا۔ اور زبان میں الفاظ کے دہرانے سے جو بدنمائی پیدا ہوجاتی ہے وہ نہیں ہونے پاتی۔
ضمائر کی قسمیں
(۱) شخصی (۲) موصولہ (۳) استفہامیہ (۴) اشارہ (۵) تنکیر۔
(۱)ضمیر شخصی وہ ہیں جو اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔
ایک وہ جو بات کرتا ہے۔ اسے متکلم کہتے ہیں۔
دوسرا وہ جس سے بات کی جاتی ہے۔ اسے مخاطب کہتے ہیں۔
تیسرا وہ جس کی نسبت ذکر کیا جاتا ہے۔ اسے غائب کہتے ہیں۔
ضمائر کی تین حالتیں ہوتی ہیں ایک فاعلی دوسری مفعولی تیسری اضافی۔
ہر ایک کی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔
ضمائر متکلم
| واحد | جمع |
حالتِ فاعلی | میں | ہم |
حالتِ مفعولی | مجھے یا مجھ کو | ہمیں یا ہم کو |
حالتِ اضافی | میرا | ہمارا |
ضمائر مخاطب
| واحد | جمع |
حالتِ فاعلی | تو | تم |
حالتِ مفعولی | تجھے یا تجھ کو | تمہیں یا تم کو |
حالتِ اضافی | تیرا | تمہارا |
ضمائر غائب
| واحد | جمع |
حالتِ فاعلی | وہ | وہ |
حالتِ مفعولی | اُسے یا اُس کو | انہیں یا اُن کو |
حالتِ اضافی | اُس کا | اُن کا |
اردو ضمائر میں تذکیر و ثانیث کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔
ضمائر غائب میں واحد جمع دونوں کے لیے وہ آتا ہے (وو پرانی اردو ہے) اور اس میں اشخاص اور اشیا کا امتیاز نہیں ہوتا۔
وہ کے بعد جب حروفِ ربط آتے ہیں تو۔
| واحد | جمع |
حالتِ فاعلی | اُس نے | انہوں نے |
حالتِ مفعولی | اُسے یا اُس کو | انہیں یا اُن کو |
حالتِ اضافی | اپس کا | اُن کا |
تو یا تونے بے تکلفی اور محبت کے لیے آتا ہے جیسے ماں بچے سے ، گرو چیلے سے باتیں کرتا ہے یا مخاطب کی کم حیثیتی کو ظاہر کرتا ہے جیسے آقا نوکر سے باتیں کرتے وقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اوقات بہت سے بے تکلف دوست بھی تو کہہ کر باتیں کرتے ہیں۔
نظم میں اکثر تو لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھی اسی طرح خطاب کیا جاتا ہے۔
بعد شاہانِ سلف کے تجھے یوں ہے تفضیل
جیسے قرآن پس، توریت و زبور و انجیل
(ذوق)
دعا پر ختم کروں اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں تو چنیں ہے چناں ہے
(میر)
دعا مانگتے وقت خدا سے بھی تو سے خطاب کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانون کی توحید کا اثر ہے جو اردو سے ہندی زبانوں میں پہنچا ہے۔ دوسرے مواقع پر واحد مخاطب کے لیے تم ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم بھی اکثر نوکروں اور چھوٹے لوگوں سے خطاب کرتے وقت بولا جاتا ہے۔ ورنہ اکثر اور عموماً واحد مخاطب اور جمع مخاطب دونوں کے لیے آپ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
آپ تعظیماً واحد غائب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اگرچہ لوگ طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے تھے مگر آپ کو کبھی ملال نہ ہوتا یا جب کوئی شخص کسی دوسرے سے ملاتا ہے تو تعظیماً کہتا ہے کہ آپ فلاں شہر کے رئیس ہیں۔ آپ شاعر بھی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہم ضمیر متکلم جمع میں استعمال ہوتا ہے لیکن بڑے لوگ بجائے واحد متکلم کے بھی استعمال کرتے ہیں جیسے ہم نے جو حکم دیا تھا اس کی تعمیل کیوں نہیں کی گئی۔ نظم میں یہ تخصیص نہیں وہاں اکثر واحد متکلم کے لیے آتا ہے جیسے۔
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
ایک ہم ہیں کہ دیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
کبھی متکلم عمومیت کے خیال سے ہم استعمال کرتا ہے جیسے ایک روز ہمیں یہ سب کچھ چھوڑنا پڑےگا۔ ترقی کیسی ، ہماری حالت ہی اس قابل نہیں۔
کبھی متکلم اپنے لیے ہم کا استعمال کرتا ہے۔ جیسے یہ چند روزہ صحبت غنیمت ہے ورنہ پھر ہم کہاں تم کہاں۔ ہماری قسمت ہی بری ہے جو کام کیا بگڑ گیا۔ وہ بڑے ضدی ہیں۔ کسی کی کیوں ماننے لگے آخر ہمیں کو دینا پڑا۔
بعض اوقات یار اور یاروں کا لفظ واحد متکلم کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے یار تو گوشئہ تنہائی میں رہتے ہیں کہیں آئیں نہ جائیں ، یاروں سے بچ کر جائے گا کہاں ، یاروں کا لفظ واحد متکلم اور جمع متکلم دونوں کے لیے آتا ہے۔ مگر عموماً بے تکلفی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے۔
کیا مدِ نظر تم کو ہے یاروں سے تو کہیے
گر منہ سے نہیں کہتے اشاروں سے تو کہیے
(ذوق)
جب کسی جملے میں کوئی اسم یا ضمیر حالتِ فاعلی میں ہو اور وہی مفعول بھی واقع ہو تو بجائے ضمیر مفعولی کے آپ کو ، اپنے تئیں ، اپنے آپ میں سے کوئی ایک استعمال کرتے ہیں جیسے احمد آپ کو دور کھینچتا ہے۔ یا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ یا اپنے کو فاضل خیال کرتا ہے۔
اسی طرح جب کوئی اسم یا ضمیر کسی فقرے میں فاعل ہے اور اس کی اضافی حالت لانی منظور ہو تو بجائے اصل ضمیرِ اضافی کے اپنا ، اپنی ، یا اپنے حسب موقع استعمال ہوں گے۔ جیسے احمد اپنی حرکت سے باز نہیں آتا ، تم اپنا کام کرو ، مجھے اپنے کام سے فرصت نہیں۔ وہ خود تو چلے گئے مگر اپنا کام مجھ پر چھوڑ گئے۔ یہ اُسی حالت میں ہے جب کہ فاعل ایک ہو۔ اگر فاعل الگ الگ یا مضاف ، مضاف الیہ مل کر خود کسی فعل کا فاعل ہیں تو اپنے کی ضمیر نہیں آئے گی بلکہ جس ضمیر کا موقع ہوگا اُسی کی اضافی ضمیر لکھی جائے گی۔ جیسے وہ تو چلے گئے مگر ان کا کام مجھ پر آن پڑا۔ یہاں چلے گئے کے فاعل وہ ہیں اور آپڑا کا فاعل ان کا کام ہے۔ یا جیسے تم تو چلے گئے مگر تمہارا کام انہوں نے مجھے سونپ دیا۔ یہاں چلے گئے کا فاعل تم ہے اور سونپ دیا کا فاعل انہوں نے۔ اپنے کی ضمیر صرف فاعل کی نسبت مفعولی اور اضافی حالت میں استعمال ہوتی ہے۔
اپنا ، اپنی اور اپنے مضاف کے لحاظ سے حسبِ ترتیب واحد مذکر ، واحد مؤنث اور جمع مذکر کے لیے آتے ہیں۔ اگر حروفِ ربط میں سے کوئی مضاف کے بعد آجاتا ہے تو اپنا بدل کر اپنے ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ اپنے کام سے غافل ہے۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ دراصل ایسے فقروں میں اصل ضمیریں اپنا ، اپنے ، اپنی سے بدل گئی ہیں۔ مثلاً "مجھے اپنے کاموں سے فرصت نہیں" اصل میں تھا " مجھے میرے کاموں سے فرصت نہیں"۔ آپ اور اپنا دوسرے ضمائر کے ساتھ تاکید کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً حالتِ فاعلی میں " میں آپ گیا تھا۔ وہ آپ آئے تھے۔ ہم آپ آئے تھے۔ تم آپ گئے تھے۔" حالتِ اضافی میں میرا اپنا کام تھا۔ یہ ان کا اپنا باغ ہے۔
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام (غالب)
فارسی کا لفظ خود بھی (جس کے معنی آپ یا اپنے کے ہیں) انہیں معنوں میں آتا ہے جیسے انہوں نے خود فرمایا۔ خود بعض حالتوں میں زیادہ فصیح ہے ، اور خصوصاً حالتِ مفعولی میں خود استعمال کیا جاتا ہے آپ نہیں آسکتا۔ جیسے میں نے خود اسے دیا۔ یہاں خود کا تعلق اسے سے ہے۔ اگرچہ ابہام پایا جاتا ہے کہ خود کا تعلق میں نے سے بھی ہے۔ لہذا اس کے دفع کے لیے ایسے موقعوں پر استعمال کی یہ صورت ہونی چاہیے کہ جس لفظ سے اس کا تعلق ہو اس کے اول استعمال کیا جائے۔ مثلاً اگر یہاں خود کا تعلق میں نے ظاہر کرنا مقصود ہو تو یوں کہا جائے خود میں نے اسے دیا۔ مگر حالتِ اضافی میں خود کا کہنا فصیح نہیں ہے ، ایسے موقع پر اپنا زیادہ فصیح ہے۔
۔ضمیر موصولہ
وہ ہے جو کسی اسم کا پتہ یا حالت بیان کرے ، اور ساتھ ہی دو جملوں کو ملانے کا کام دے جیسا وہ کتاب جو کل چوری ہوگئی تھی مل گئی ، آپ کے دوست جو چیچک رو ہیں مجھے ملے تھے ، پہلے جملے میں جو کتاب کا اور دوسرے میں جو دوست کا پتہ دیتا ہے۔ ضمیر موصولہ صرف جو ہے جس کی مختلف حالتیں یہ ہیں۔
واحد جمع
حالتِ فاعلی جو (حرف نے کے ساتھ) جس نے جو اور(نے کے ساتھ) جنہوں نے
حالتِ مفعولی میں جس کو یا جسے جن کو یا جنہیں
حالتِ اضافی میں (مذکر) جس کا جن کا ، (مؤنث) جس کی جن کی
جن کو ، جنہیں ، جنہوں نے ، جن کا۔ اگر جمع ہیں مگر تعظیماً واحد کے لیے بھی آتے ہیں۔
جس اسم کے لیے یہ ضمیر آتی ہے اسے مرجع کہتے ہیں۔
ضمیر موصولہ ہمیشہ ایک جملہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسرا جملہ اس کے جواب میں ہوتا ہے مثلاً وہ کتاب جو کل خریدی تھی جاتی رہی ، اس میں دو جملے ہیں ایک جو کل خریدی تھی صلہ (ضمیر) ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو کل آئے تھے آج چلے گئے۔
یہ حالت فاعلی میں واحد اور جمع دونوں میں یکساں استعمال ہوتا ہے ، مگر جب فاعل کے ساتھ نے ہو تو واحد میں جو بدل کر جس ہو جاتا ہے مثلاً جس نے ایسا کیا برا کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے قصور کیا تھا معاف کر دیئے گئے۔
کبھی کبھی جو کے جواب میں فقرہ ثانی میں سو آتا ہے جو ہو سو ہو۔ جو چڑھے گا سو گرے گا۔ جون بھی ہندی ضمیر موصولہ ہے مگر اردو میں سا کے ساتھ مل کر آتا ہے جیسے ان میں سے جون سا چاہو لے لو۔ جمع میں جون سے اور واحد و جمع مؤنث میں جون سے استعمال ہوتا ہے۔ بعض اوقات صفت بھی ہوتا ہے جیسے جون سی کتاب چاہو لے لو۔
کبھی کہ بطور ضمیر موصولہ کے استعمال ہوتا ہے جیسے
میں کہ آشوبِ جہاں سے تھا ستم دیدہ بہت
امن کو سمجھا غنیمت دلِ غم دیدہ بہت (آزاد)
جو اور جن بہ تکرار بھی آتے ہیں ، جس سے اگرچہ حالت جمع ظاہر ہوتی ہے مگر اطلاق اس کا فرداً فرداً ہوتا ہے۔ مثلاً جو جو پسند ہو لے لو۔ جن جن کے پاس گیا انہوں نے یہی جواب دیا۔