اردو زبان وادب کی معروف روسی اسکالر ڈاکٹرلڈمیلا واسیلیواسے مکالمہ

193704-FaizAhmedFaizDoctorLidmelaPhotoFile-1383760169-964-640x480.JPG
اردو سے اپنے رشتے کو عاشق اور معشوق جیسا رشتہ قرار دیتی ہیں۔اس زبان میں لکھے ادب کی شناورہیں۔

کئی اردو ادیبوں کی نگارشات کو روسی زبان میں منتقل کیا۔اردو ادب کی جید شخصیات ان کے کام کو قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔اردو زبان پران کی دسترس کا اندازہ کرنے کے لیے ان کا کام ہی کافی ہے۔گفتار کا اسلوب بھی دل نشیں ہے۔اپنا مافی الضمیراردو میں رواں دواں انداز میں بیان کرنے پرقادر ہیں۔گفتگو کے بیچ شعربھی ٹانکتی ہیں ،جو زیادہ تران کے محبوب شاعر غالب کے ہوتے ہیں۔ ان سے زبان کا وہ محاورہ بھی سننے کو مل جاتا ہے جو ہمارے ہاں ایک طرح سے متروک ہوگیا ہے۔

مثلاً اب ہمارے ہاں کسی اجنبی کا نام جاننے کے لیے ایسا کوئی کم ہی ہوگاجو ان کی طرح سے استفسار کرے:آپ کا اسم شریف۔ہمارے ہاں تو اب حال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ایک اینکرصاحب نے انٹرویومیں فلم اور ادب کی معروف شخصیت گلزارسے ایک شعردوبارہ سننے کا تقاضا کچھ ان الفاظ میں کیا ’’سرپلیز اسے تو آپ رپیٹ کر ہی دیں‘‘ کاش! موصوف کو علم ہوتاکہ اس ٹوٹے پھوٹے جملے کے بجائے وہ محض مکررکہہ دیتے تو بات پوری ہوجاتی۔ اردو دنیا میں ڈاکٹر لڈمیلا واسیلیواکی شناخت کے کئی حوالے ہیں ،جن میں سے معتبرترین فیض شناسی ہے۔سخن فہم ہیں، اس لیے اردو شاعری میں سب سے بڑھ کر غالب کی طرف دار ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت و فن ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع بنی۔

غالب کے وسیلے سے فیض سے شناسائی ہوئی، جو بعد ازاں گہرے تعلق میں بدل گئی۔کہتی ہیں ،غالب صاحب نے مجھے فیض سے روشناس کرایا۔ماسکویونیورسٹی سے اردو اور ہندی میں ماسٹرزکرنے کے بعدایک برس زبان سیکھنے کے سلسلے میں ہندوستان گزارا جہاں سے واپس اپنے دیارلوٹیں تومعروف روسی اسکالرمریم سلگانیک نے ان کی توجہ دلائی کہ غالب کا صدسالہ جشن منانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں، اس لیے کلام غالب کا انتخاب اور ترجمہ روسی میں ہونا چاہیے۔انھوں نے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے یہ ذمہ داری اپنے سرلے لی۔ لیکن جب کام میں ہاتھ ڈالا تو جانا کہ یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ دیوان غالب پڑھا تو وہ سراپا انتخاب نظرآیا۔’’مجھے توسب شعربرابرلگ رہے تھے۔‘‘ترجمہ کرنے بیٹھیں تو شعر سمجھ میں آرہا ہے مگرجس اسلوب میں روسی میں منتقل کرنا چاہ رہی ہیں، وہ پکڑائی نہیں دے رہا۔

گھبرا کر اس کارداردسے دامن چھڑانا چاہا لیکن مریم سلگانیک نے مان کر نہ دیااور کہا’’اب کچھ نہیں ہوسکتا، تم نے ہاں کی ہے تو اب کرو۔‘‘ لجاجت سے عرض کی’’مریم!میں نہیں کرسکتی۔‘‘ اس پرمریم نے یہ کہہ کر ہمت بندھائی ’’گھبراؤ نہیں۔ فیض صاحب آئے ہوئے ہیں، وہ تمھاری مدد کریں گے۔‘‘یہ سن کر حق دق رہ گئیں: ’’فیض ، ہیں فیض!میں کہاں فیض صاحب کہاں!وہ میری مدد کریں گے؟‘‘ہاں ہاں کیوں نہیں، مریم نے جواب دیا۔ جلد وہ ساعت آپہنچی جب وہ فیض کے روبرو تھیں۔فیض سے بات چیت کا سلسلہ دراز ہوا تو ان کے لہجے کی نرمی اور اپنائیت سے جلد ہی یہ احساس جاتا رہا کہ وہ پہلی ملاقات کررہی ہیں۔فیض نے انھیں انتخاب کی اہمیت سے آگاہ کیااور بتایاکہ غالب کے کن اشعار کا ترجمہ ہوناچاہیے۔

فیض نے یہ کہہ کربھی حوصلہ بڑھایا کہ وہ چند ماہ بعد دوبارہ ماسکوآئیں گے ، تو اگر کچھ سوال ذہن میں پیدا ہوں تو انھیں لکھ رکھنا۔فیض سے ملاقات کا یہ اثر ہوا کہ لڈمیلا نے بعد میں کلام غالب کا انتخاب بھی کیا اور لفظی ترجمہ بھی۔البتہ اسے منظوم صورت کسی اور نے دی۔فیض سے ان کا سترہ برس متواتر ربط ضبط رہا، اس عرصے میں باکمال شاعرکا جب جب سوویت روس آنا ہوا ، لڈمیلا نے مترجم کے فرائض انجام دیے۔فیض کی اس دور میں اپنے ملک میں مقبولیت کا نقشہ یوں کھینچتی ہیں۔

’’ فیض کو جب لینن انعام ملا تو اس کی بڑی اہمیت تھی، اور کسی غیرملکی کو ملنے والا یہ سب سے بڑا اعزازہوتا۔انعام ملنے سے میڈیا میں ہر طرف فیض فیض ہوگئی۔معروف روسی شعرا نے خوشی خوشی ان کی شاعری کا ترجمہ کیا جو لوگوں تک پہنچا تو انھیں لگا کہ یہ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے۔فیض صاحب لینن انعام یافتہ کی حیثیت سے روس میں تشریف لائے اور ایک بلند پایہ شاعرکی حیثیت سے ہمیشہ کے لیے بس گئے۔ادھر ان کی شاعری کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل رہی۔ ‘‘

فیض سے تعلق خاطر کو انھوں نے ارادت کی چادر میں لپیٹ کرنہیں رکھابلکہ ان کی نہایت عمدہ سوانح عمری لکھ کرتعلق کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا۔عام طور پر قلم کارجس شخصیت پرلکھ رہا ہے، اگراس سے قریبی مراسم رہے ہوںتو وہ اس کے رعب میں آجاتا ہے اوربات ادھوری رہ جاتی ہے مگر لڈمیلا اس روش عام سے ہٹ کر چلی ہیں۔ممتاز نقاد شمیم حنفی کے بقول’’فیض کو لڈمیلا نے قریب سے دیکھااور جاناہے لیکن فیض سے قربت کے باوجود ان کی نگاہیں کبھی خیرہ نہیں ہوئیں اس لیے ان کے مطالعے میں ایک رچی ہوئی سنجیدگی اور معروضیت ملتی ہے۔‘‘

فیض سے متعلق یوں تو ساری کتاب پڑھنے لائق ہے لیکن سب سے بڑھ کروہ باب ہے، جس میں انھوں نے بعض نظموں کی نئے سرے سے تفہیم کی اور بتایا ہے کہ آخری زمانے میں سوویت نظام کی خرابیاں اور خامیاں آشکار ہونے پر شاعرکے اندرٹوٹ پھوٹ جاری تھی، جس کا وہ عام زندگی میں کھل کر اظہار تو نہ کرتے لیکن شاعری میں اس کرب کو محسوس کیا جاسکتاہے۔ ان کے بقول’’آخری عمر میں انھیں احساس ہوگیاتھا کہ سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔وہ جان گئے تھے، المیہ ہونے والا ہے۔‘‘

فیض کا ذکر ہورہا ہے تو اب قرۃالعین حیدرکے اس ناول پرتھوڑی بات ہوجائے، جس کا عنوان فیض کے مصرع سے مستعار ہے۔یعنی’’آخرشب کے ہمسفر‘‘۔روسی میں اس ناول کے ترجمے میں لڈمیلاشریک مترجم تھیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے ہاں اس ناول کو بعض ترقی پسندوں نے اس لیے ناپسند کیا کہ انھیں لگا، جیسے ان پرطنز ہے۔’’ آپ نے اس ناول کو کیسے دیکھا؟ ‘‘’’میرے خیال میں تو عینی صاحبہ نے درست لکھا ہے۔بڑے بڑے ادیبوں میں پیش گوئی کی جو صلاحیت ہوتی ہے، اس ناول میں اس کا اظہار ہے۔انھوں نے اس ناول میں ان لوگوں کو دکھایا ہے جو بلند آدرشوں کو بیچ کررویہ بدل لیتے ہیں۔ہمارے ہاں کیمونسٹوں نے یہی کیا۔ یہی انھوں نے ریحان دا کے کردار کے ذریعے دکھایا ہے۔مجھے تو یہ ناول پسند ہے۔

فیض کی شاعری کے آخر ی حصے کے بارے میں جو میں نے لکھا ہے اس کا اطلاق اس ناول پربھی ہوسکتا ہے۔‘‘سوویت یونین میں قائم نظام کے زمین بوس ہونے کا انھیں رنج ہے۔ اس بابت بتاتی ہیں:’’سوویت یونین کے ٹوٹنے سے دماغ منتشر ہو گیا، اب ہم دھیرے دھیرے اپنے پرزے سمیٹ رہے ہیں۔ پریشانی تو ہے، جس ملک میں رہی،پلی بڑھی۔جس سے میری ساری خوشیاں اور غم وابستہ تھے،وہ اب نہیں رہا۔اب وہی دنیا آگئی ہے جس کے عیوب اور منفی باتیں ہم پہلے کتابوں میں پڑھتے تھے، اب ہم پر سب گزررہا ہے۔ پہلے ہم خوشی منارہے تھے کیونکہ پہلے ہمیں بہت سی چیزوں کی آزادی نہیں ہوتی تھی،مثلاً ہم بول توسکتے تھے لیکن جھوٹ میں لپیٹ کر۔کچھ لوگوں کی زبان بندی ہوتی تھی۔خرابیاں بیس فیصد تھیں لیکن نظام ختم ہوا تو وہ جو اسی فیصد خوبیاں تھیں وہ بھی ساتھ چلی گئیں۔اب تو کچھ بھی نہیں رہا۔ نہ جنوں رہا نہ پری رہی…‘‘

روسی سے اردو میں ترجمہ کرنے والوں میں ظ انصاری نہایت معتبرنام ہے۔ لڈمیلا ان کی زبان دانی سے بے حد متاثر ہیں۔ان کے خیال میں’’ انھیں زبان پرعجیب وغریب قدرت تھی، اور ساتھ میں بڑے ذہین اور باذوق بھی تھے۔‘‘ لڈمیلا واسیلیوارجب علی بیگ سرور کی ’’فسانہ عجائب‘‘ کی بھی شریک مترجم ہیں۔ ابوالکلام آزاد کی ’’ غبارخاطر‘‘سے منتخب خطوط کا ترجمہ بھی کیا۔عاشور کاظمی کی ’’سخن گسترانہ بات‘‘ اور جوگندر پال کی ’’ندید‘‘ کو بھی توجہ کا مستحق جانا ۔ کئی سرکردہ اردو شاعروں اوراہم افسانہ نویسوں کو ترجمے کے ذریعے روسی قارئین سے متعارف کرایا۔اردو ادب سے متعلق اردو زبان میں بھی مضامین لکھے۔فیض کی سوانح عمری جو اردو میں ’’پرورش لوح وقلم:فیض،حیات اور تخلیقات‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی، اس کے پہلے نو ابواب کا ترجمہ اسامہ فاروقی نے ، آخری پانچ کا مصنفہ نے خود کیا۔کتاب کا انتساب بہن تتیانہ کے نام ہے۔اردو سے ان کا ایک تعلق تعلیم ،تدریس اور براڈ کاسٹنگ کی سطح پربھی رہا ہے۔

23مئی1942ء کو روس میں آنکھ کھولنے والی ڈاکٹر لڈمیلاوسیلیوانے 1965ء میںماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے اردو اور ہندی زبان وادب میں ایم اے کیا۔1987ء میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، اکیڈمی آف سائنسزسے پی ایچ ڈی کی ، سردست اسی ادارے کے شعبہ ’’ایشیائی لوگوں کا ادب ‘‘میں لیڈنگ ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔اس سے قبل ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی اوررشین اسٹیٹ یونیورسٹی میں اردو ادب سے متعلق تدریسی ذمہ داریاں انجام دیں۔

ماسکو ریڈیو کی اردو سروس سے براڈ کاسٹر،مترجم اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے جڑی رہیں۔ 2005ء میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ وہ ماسکو میں قیام پذیر ہیں ، اور جس فلیٹ میں رہتی ہیں، بقول مستنصر حسین تارڑ اسے انھوں نے کبوترخانہ کا نام دے رکھا ہے۔ ہم نے اردو ادب کے حوالے سے مستقبل کے منصوبوں کا پوچھا توجواب دیا:میرے بہت سے نیک ارادے ہیں۔دیکھیے!ان پرکہاں تک عمل درآمد کرپاتی ہوں۔‘‘حال ہی میں انھوں نے اردو غزل کے ابتدائی زمانے کے بارے میں کتاب مکمل کی ہے۔ان دنوں وہ اپنے استادسوخا چیوف کے قلم سے ہونے والے’’حیات جاوید‘‘کے روسی ترجمے کی اشاعت کے لیے دوڑ دھوپ کررہی ہیں
ربط
http://www.express.pk/story/193704/
 

جیہ

لائبریرین
میں نے فیض کو سرسری سا پڑھا ہے۔ مذکورہ نظم یاد نہیں






مجھے فیض کی شاعری نہیں بھاتی۔ بدذوق ہوں
 

جیہ

لائبریرین
فیض سے متعلق یوں تو ساری کتاب پڑھنے لائق ہے لیکن سب سے بڑھ کروہ باب ہے، جس میں انھوں نے بعض نظموں کی نئے سرے سے تفہیم کی اور بتایا ہے کہ آخری زمانے میں سوویت نظام کی خرابیاں اور خامیاں آشکار ہونے پر شاعرکے اندرٹوٹ پھوٹ جاری تھی، جس کا وہ عام زندگی میں کھل کر اظہار تو نہ کرتے لیکن شاعری میں اس کرب کو محسوس کیا جاسکتاہے۔ ان کے بقول’’آخری عمر میں انھیں احساس ہوگیاتھا کہ سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔وہ جان گئے تھے، المیہ ہونے والا ہے۔‘‘

سوچ رہی ہوں اب فیض کو سنجیدگی سے پڑھ ہی لوں
 
Top