اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش

جاسم محمد

محفلین
اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش
22/06/2019 ڈاکٹر ساجد علی

ایک دن شعبہ فلسفہ میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم تشریف لائے۔ وہ مجھ سے مدد کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنا تحریر کردہ خاکہ دکھایا جس کا سرآغاز کچھ یوں تھا: مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب۔ ان سے عرض کیا یہ پی ایچ ڈی کے مقالے کی زبان نہیں ہے۔ یہ تو طعن و تضحیک ہے۔ تحقیقی مقالے کی زبان کا انداز معروضی اور علمی ہوتا ہے نیز اسے جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ اور بھی شعبہ ہائے علم کے اساتذہ سے بھی مل چکے ہیں لیکن کسی نے ان کو یہ بات نہیں بتائی۔

زبان ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے لیکن زبان کا استعمال کئی سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم اسے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی ان پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ مکروہ حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ کے جامے میں چھپایا جاتا ہے۔ ایک ہی بات کو کئی مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا ایک اکھان تحسین و تحقیر کےاس عمل کا بہت عمدہ اظہار ہے: اپنا پت لما ہووے تے سرو جیہا، دوجے دا پت لما ہووے تے ڈھانگا ۔ یعنی اپنے بیٹے کے لمبے قد کی تحسین کرتے ہوئے اسے سرو قد کہا جاتا ہے۔ دوسرے کے بیٹے کے لمبے قد کو بانس سے تشبیہ دے کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔

زبان کا غلط استعمال راست فکری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم حقائق کو جاننے اور تلاش کرنے کے بجائے نسلی، قبائلی، قومی، مذہبی، مسلکی تعصبات کو زبان دینے والے پیرائہ اظہار کے اسیر ہو جاتے ہیں۔

اردو نثر میں جب مذہب، تاریخ اسلام اور مغرب کے متعلق خامہ فرسائی کی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر جذبات کا دھارا بہہ نکلتا ہے۔ معروضی اور تجزیاتی انداز بیان کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ہم نے بہت سے ہیرو تراش رکھے ہیں۔ جب ان کے متعلق بات کرنا ہو تو جوش ایمانی سے سرشار ہو کر ایسا انداز بیان اختیار کرتے ہیں جو جذبات کے شیرے میں لتھڑا ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اکثر اوقات اصل مصنف کی عبارتوں میں کبھی کتربیونت کرتے ہیں اور کبھی اس کے انداز تحریر کو یکسر الٹ دیتے ہیں۔

ابن خلدون مسلم تاریخ نویسی کی روایت کا ایک بہت معتبر نام ہے۔ اس کا مقدمہ تو مشہور عالم ہے ہی لیکن اس کی تاریخ بھی معرکے کی چیز ہے۔ اس کا انداز بیان جذبات سے عاری اور بہت حد تک معروضی ہے۔ مذہبی جوش و جذبہ اس کے ہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ بہت روکھے پھیکے انداز میں واقعات کو بیان کرتا جاتا ہے اور عام طور پر غیر ضروری تفصیلات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت ہیرو سازی سے گریز ہے۔ وہ ملوک و سلاطین کے واقعات، فتوحات، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو بغیر کسی تحیسن و تنقید کے بیان کرتا چلا جاتا ہے۔

اس کی تاریخ کا مکمل ترجمہ نفیس اکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ مترجم حکیم احمد حسین الہٰ آبادی ہیں۔ حکیم صاحب نے اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کرکے یقیناً ایک معرکے کا کام کیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ابن خلدون کے بیان سادہ سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتح اندلس کے بیان کا ترجمہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“فتح اندلس کی کیفیت علامہ مورخ نے جس پیرایہ اور طرز سے تحریر کی ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ واقفیت کے لیے بہت کافی ہے۔ علامہ مورخ نے فتح اندلس کے کسی اہم واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جس کے لکھنے کی زحمت مترجم کا قلم گوارا کرتا مگر چونکہ آج کل لوگوں میں ناول بینی کا مذاق حد سے زیادہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی واقعہ کو گھٹا بڑھا کر نہ لکھو انھیں لطف نہیں آتا۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کو چلبلے جملوں اور پھڑکتے ہوئے فقروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” (جلد پنجم، ص 230)

اس کے بعد مترجم نے مذاق حاضر کی تسکین کی خاطر رنگین بیانی سے کام لیتے ہوئے چند صفحات تحریر فرمائے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بات کو اصل مصنف کے کلام سے خلط ملط نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہوتا ہے جب مترجم صاحب بغیر وضاحت کیے اپنی طرف سے متن میں جملوں کا اضافہ کر دیتے ہیں یا انداز بیان میں ایسی تراکیب استعمال کرتے ہیں جو اصل مصنف کے سادہ بیان کو جذبات سے مملو کر دیتی ہیں۔ اس کی چند مثالیں بیان کرنا چاہوں گا۔

ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ہشام بن عبدالملک کے دور کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے: “105 ہجری میں مسلم بن سعید والی خراسان بقصد جنگ ترک نہر عبور کرکے ان کے بلاد پر جا پہنچا۔ دو ایک لڑائیاں لڑیں لیکن کوئی شہر فتح نہ ہوا اور وہ بے نیل مرام واپس ہوا۔ ترکوں نے تعاقب کیا اور نہر کے قریب مسلم سے جا بھڑے۔ مسلم نہایت تیزی سے مع اپنے ساتھیوں کے نہر عبور کر گیا اور ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔”

کیا کمال دکھایا ہے ترجمے میں۔ مسلم لشکر کی پسپائی کو فرار کہنے کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے بیان کا ترجمہ کرتے ہوئے فاضل مترجم شدت جذبات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اپنی طرف سے عبارتوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ابن خلدون جہاد کا لفظ بہت کم لیکن لفظ غزوہ کا بہت استعمال کرتا ہے۔ سیاق کلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس لفظ کو کسی مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ عام جنگ ہی مراد لیتا ہے۔ مثلاً سلطان محمود جب غوریوں کے علاقے پر حملہ کرتا ہے تو وہ اسے بھی غزوہ ہی لکھتا ہے حالانکہ غوری مسلمان تھے۔ لیکن اردو ترجمے میں ہندوستان پر ہر حملہ جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لشکر کو کہیں لشکر اسلام کر دیا جاتا ہے تو کہیں دلیران اسلام کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ محمود کی سواری مرکب ہمایونی قرار پاتی ہے اور اس کے لشکرکے بیان کے لیے فوج ظفر موج، لشکر ظفر پیکر جیسی تحسینی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں جن کا اصل متن میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

سلطان محمود کے ملتان پر حملے کے بیان کا ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے: پھر محمود کو غزنی پہنچ کر یہ خبر لگی کہ گورنر ملتان ابو الفتوح بے دین ہو گیا ہے اور اپنے صوبے کے رہنے والوں کو بے دینی اور لامذہبی کی تعلیم دیتا ہے۔ “محمود کو اس کی تاب کہاں تھی کہ بے دینی کا نام سنتا اور خاموش رہ جاتا۔” لشکر آراستہ کرکے جہاد کی غرض سے ملتان پر چڑھائی کر دی۔ ( حصہ ششم۔ ص 677) واوین میں لکھا گیا جملہ اصل عبارت میں کہیں موجود نہیں۔

اس کے بعد کشمیر پر حملے کا بیان دیکھیے:”409 ہجری میں جہاد کی غرض سے ہندوستان پر چڑھائی کی صوبہ پنجاب کے تمام علاقے مقبوضہ میں داخل ہو گئے تھے صرف کشمیر کا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ وہاں کی زمین کو مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے جانے کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ( حصہ ششم۔ ص 685) اس ترجمے کے آخری جملے کا اصل متن سے کوئی تعلق نہیں۔

ان چند مثالوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم زبان کے درست استعمال کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ شعر و ادب کی اپنی دنیا ہے لیکن علم کی دنیا میں زبان کا سادہ اور راست استعمال حقائق کو حقائق کے طور پر جاننے میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ اور غیر متعصابانہ طور پر حقائق کو جاننے اور سمجھنے کا کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک دن شعبہ فلسفہ میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم تشریف لائے۔ وہ مجھ سے مدد کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنا تحریر کردہ خاکہ دکھایا جس کا سرآغاز کچھ یوں تھا: مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب۔ ان سے عرض کیا یہ پی ایچ ڈی کے مقالے کی زبان نہیں ہے۔ یہ تو طعن و تضحیک ہے۔ تحقیقی مقالے کی زبان کا انداز معروضی اور علمی ہوتا ہے نیز اسے جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ اور بھی شعبہ ہائے علم کے اساتذہ سے بھی مل چکے ہیں لیکن کسی نے ان کو یہ بات نہیں بتائی۔
یہ معاشرہ کی تقریبا مکمل اسلامائیزیشن کی ایک اہم مثال ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش
22/06/2019 ڈاکٹر ساجد علی

ایک دن شعبہ فلسفہ میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم تشریف لائے۔ وہ مجھ سے مدد کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنا تحریر کردہ خاکہ دکھایا جس کا سرآغاز کچھ یوں تھا: مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب۔ ان سے عرض کیا یہ پی ایچ ڈی کے مقالے کی زبان نہیں ہے۔ یہ تو طعن و تضحیک ہے۔ تحقیقی مقالے کی زبان کا انداز معروضی اور علمی ہوتا ہے نیز اسے جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ اور بھی شعبہ ہائے علم کے اساتذہ سے بھی مل چکے ہیں لیکن کسی نے ان کو یہ بات نہیں بتائی۔

زبان ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے لیکن زبان کا استعمال کئی سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم اسے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی ان پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ مکروہ حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ کے جامے میں چھپایا جاتا ہے۔ ایک ہی بات کو کئی مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا ایک اکھان تحسین و تحقیر کےاس عمل کا بہت عمدہ اظہار ہے: اپنا پت لما ہووے تے سرو جیہا، دوجے دا پت لما ہووے تے ڈھانگا ۔ یعنی اپنے بیٹے کے لمبے قد کی تحسین کرتے ہوئے اسے سرو قد کہا جاتا ہے۔ دوسرے کے بیٹے کے لمبے قد کو بانس سے تشبیہ دے کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔

زبان کا غلط استعمال راست فکری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم حقائق کو جاننے اور تلاش کرنے کے بجائے نسلی، قبائلی، قومی، مذہبی، مسلکی تعصبات کو زبان دینے والے پیرائہ اظہار کے اسیر ہو جاتے ہیں۔

اردو نثر میں جب مذہب، تاریخ اسلام اور مغرب کے متعلق خامہ فرسائی کی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر جذبات کا دھارا بہہ نکلتا ہے۔ معروضی اور تجزیاتی انداز بیان کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ہم نے بہت سے ہیرو تراش رکھے ہیں۔ جب ان کے متعلق بات کرنا ہو تو جوش ایمانی سے سرشار ہو کر ایسا انداز بیان اختیار کرتے ہیں جو جذبات کے شیرے میں لتھڑا ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اکثر اوقات اصل مصنف کی عبارتوں میں کبھی کتربیونت کرتے ہیں اور کبھی اس کے انداز تحریر کو یکسر الٹ دیتے ہیں۔

ابن خلدون مسلم تاریخ نویسی کی روایت کا ایک بہت معتبر نام ہے۔ اس کا مقدمہ تو مشہور عالم ہے ہی لیکن اس کی تاریخ بھی معرکے کی چیز ہے۔ اس کا انداز بیان جذبات سے عاری اور بہت حد تک معروضی ہے۔ مذہبی جوش و جذبہ اس کے ہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ بہت روکھے پھیکے انداز میں واقعات کو بیان کرتا جاتا ہے اور عام طور پر غیر ضروری تفصیلات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت ہیرو سازی سے گریز ہے۔ وہ ملوک و سلاطین کے واقعات، فتوحات، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو بغیر کسی تحیسن و تنقید کے بیان کرتا چلا جاتا ہے۔

اس کی تاریخ کا مکمل ترجمہ نفیس اکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ مترجم حکیم احمد حسین الہٰ آبادی ہیں۔ حکیم صاحب نے اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کرکے یقیناً ایک معرکے کا کام کیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ابن خلدون کے بیان سادہ سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتح اندلس کے بیان کا ترجمہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“فتح اندلس کی کیفیت علامہ مورخ نے جس پیرایہ اور طرز سے تحریر کی ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ واقفیت کے لیے بہت کافی ہے۔ علامہ مورخ نے فتح اندلس کے کسی اہم واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جس کے لکھنے کی زحمت مترجم کا قلم گوارا کرتا مگر چونکہ آج کل لوگوں میں ناول بینی کا مذاق حد سے زیادہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی واقعہ کو گھٹا بڑھا کر نہ لکھو انھیں لطف نہیں آتا۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کو چلبلے جملوں اور پھڑکتے ہوئے فقروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” (جلد پنجم، ص 230)

اس کے بعد مترجم نے مذاق حاضر کی تسکین کی خاطر رنگین بیانی سے کام لیتے ہوئے چند صفحات تحریر فرمائے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بات کو اصل مصنف کے کلام سے خلط ملط نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہوتا ہے جب مترجم صاحب بغیر وضاحت کیے اپنی طرف سے متن میں جملوں کا اضافہ کر دیتے ہیں یا انداز بیان میں ایسی تراکیب استعمال کرتے ہیں جو اصل مصنف کے سادہ بیان کو جذبات سے مملو کر دیتی ہیں۔ اس کی چند مثالیں بیان کرنا چاہوں گا۔

ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ہشام بن عبدالملک کے دور کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے: “105 ہجری میں مسلم بن سعید والی خراسان بقصد جنگ ترک نہر عبور کرکے ان کے بلاد پر جا پہنچا۔ دو ایک لڑائیاں لڑیں لیکن کوئی شہر فتح نہ ہوا اور وہ بے نیل مرام واپس ہوا۔ ترکوں نے تعاقب کیا اور نہر کے قریب مسلم سے جا بھڑے۔ مسلم نہایت تیزی سے مع اپنے ساتھیوں کے نہر عبور کر گیا اور ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔”

کیا کمال دکھایا ہے ترجمے میں۔ مسلم لشکر کی پسپائی کو فرار کہنے کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے بیان کا ترجمہ کرتے ہوئے فاضل مترجم شدت جذبات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اپنی طرف سے عبارتوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ابن خلدون جہاد کا لفظ بہت کم لیکن لفظ غزوہ کا بہت استعمال کرتا ہے۔ سیاق کلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس لفظ کو کسی مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ عام جنگ ہی مراد لیتا ہے۔ مثلاً سلطان محمود جب غوریوں کے علاقے پر حملہ کرتا ہے تو وہ اسے بھی غزوہ ہی لکھتا ہے حالانکہ غوری مسلمان تھے۔ لیکن اردو ترجمے میں ہندوستان پر ہر حملہ جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لشکر کو کہیں لشکر اسلام کر دیا جاتا ہے تو کہیں دلیران اسلام کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ محمود کی سواری مرکب ہمایونی قرار پاتی ہے اور اس کے لشکرکے بیان کے لیے فوج ظفر موج، لشکر ظفر پیکر جیسی تحسینی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں جن کا اصل متن میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

سلطان محمود کے ملتان پر حملے کے بیان کا ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے: پھر محمود کو غزنی پہنچ کر یہ خبر لگی کہ گورنر ملتان ابو الفتوح بے دین ہو گیا ہے اور اپنے صوبے کے رہنے والوں کو بے دینی اور لامذہبی کی تعلیم دیتا ہے۔ “محمود کو اس کی تاب کہاں تھی کہ بے دینی کا نام سنتا اور خاموش رہ جاتا۔” لشکر آراستہ کرکے جہاد کی غرض سے ملتان پر چڑھائی کر دی۔ ( حصہ ششم۔ ص 677) واوین میں لکھا گیا جملہ اصل عبارت میں کہیں موجود نہیں۔

اس کے بعد کشمیر پر حملے کا بیان دیکھیے:”409 ہجری میں جہاد کی غرض سے ہندوستان پر چڑھائی کی صوبہ پنجاب کے تمام علاقے مقبوضہ میں داخل ہو گئے تھے صرف کشمیر کا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ وہاں کی زمین کو مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے جانے کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ( حصہ ششم۔ ص 685) اس ترجمے کے آخری جملے کا اصل متن سے کوئی تعلق نہیں۔

ان چند مثالوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم زبان کے درست استعمال کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ شعر و ادب کی اپنی دنیا ہے لیکن علم کی دنیا میں زبان کا سادہ اور راست استعمال حقائق کو حقائق کے طور پر جاننے میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ اور غیر متعصابانہ طور پر حقائق کو جاننے اور سمجھنے کا کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
معذرت! پورا مضمون پڑھنے کی فرصت نہ مل سکی۔ کم از کم نصف آرٹیکل تو پڑھ لیا ہے اور کوئی شک نہیں، یہ ایک معیاری مضمون ہے اور صاحبِ مضمون نے عمدہ انداز میں بہترین نکات پیش کیے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے بھی مضمون پسند آیا ہے۔
جہاں تک بات ریسرچ کی ہے تو واقعی ایک ریسرچر کی زبان جذبات اور کسی بھی طرح کے تعصب اور ہماری پسند و ناپسند سے پاک ہونی چاہیے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ ریسرچر کو کون سے اساتذہ نے راہنمائی دی۔ ہمیں تو یہی کہا گیا/کہا جاتا ہے کہ تحقیق میں آپ کے جذبات یا آراء نہیں چلتیں۔ میں نے دو حساس موضوعات پہ تحقیق کی ہے اور دونوں میں کئی ایسی باتیں کہ جن کے بارےمیں میری رائے کچھ اور تھی لیکن تحقیق کے نتائج کچھ اور دکھاتے ہیں۔
دوسرے۔۔۔۔"مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب" یہ ریسرچ کی زبان قطعی نہیں ہے۔ اگر کسی تحقیق کے نتیجہ میں کوئی تہذیب اس طرح کی ثابت بھی ہو تب بھی زبان ایسی ہرگز استعمال نہیں ہوگی۔
 
مجھے بھی مضمون پسند آیا ہے۔
جہاں تک بات ریسرچ کی ہے تو واقعی ایک ریسرچر کی زبان جذبات اور کسی بھی طرح کے تعصب اور ہماری پسند و ناپسند سے پاک ہونی چاہیے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ ریسرچر کو کون سے اساتذہ نے راہنمائی دی۔ ہمیں تو یہی کہا گیا/کہا جاتا ہے کہ تحقیق میں آپ کے جذبات یا آراء نہیں چلتیں۔ میں نے دو حساس موضوعات پہ تحقیق کی ہے اور دونوں میں کئی ایسی باتیں کہ جن کے بارےمیں میری رائے کچھ اور تھی لیکن تحقیق کے نتائج کچھ اور دکھاتے ہیں۔
دوسرے۔۔۔۔"مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب" یہ ریسرچ کی زبان قطعی نہیں ہے۔ اگر کسی تحقیق کے نتیجہ میں کوئی تہذیب اس طرح کی ثابت بھی ہو تب بھی زبان ایسی ہرگز استعمال نہیں ہوگی۔
متفق
 

جان

محفلین
بہت عمدہ مضمون ہے۔ اس حوالے سے میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلے ہم نے مذہب کو جذبات کا تڑکا لگایا تاکہ اپنا نقطہ نظر آسانی سے بیچا جا سکے اور پھر انہی مذہبی جذبات کی بنا پر تاریخ نویسی کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب تاریخ لکھی جا رہی تھی اس وقت تاریخ نویسی کا قلم مذہبی طبقے کی اکثریت کے پاس تھا اس لیے تاریخ نویسی مذہب کی عینک لگا کر کی گئی۔ اب چونکہ ہمیں غیر مسلموں پہ برتری ثابت کرنی تھی اس لیے مسلمان کے غیر مسلمان پر حملے کو 'اسلامی حملے' سے تعبیر کیا گیا جب کہ عین وہی مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے سر قلم کرتے رہے۔
 
آخری تدوین:
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب تاریخ لکھی جا رہی تھی اس وقت تاریخ نویسی کا قلم مذہبی طبقے کے پاس تھا اس لیے تاریخ نویسی مذہب کی عینک لگا کر کی گئی۔
راہ اعتدال اور میانہ روی سے تجاوز صرف مذہبی طبقے کے چند افراد کی روش نہیں ہے. اس طرز عمل کو کم و بیش ہر طبقے کے کچھ نہ کچھ افراد نے گلے لگا رکھا ہے. لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل لگتا ہے کہ ہر طبقے کے تمام افراد ہی راہ اعتدال سے منحرف اور تعصب کی عینک لگائے ہوئےگئے ہیں.
بطور مثال، لڑی میں پروئے گئے اصل مضمون کو ہی دیکھ لیجئے کہ جہاں اس میں مترجم کی جانبداری پر تنبیہ کی گئی ہے وہیں اصل تاریخ نگار کی غیر جانبداری کی داد بھی دی گئی ہے، اور اصل تاریخ نگار کا تعلق بھی دیندار طبقے سے ہی تھا. ابن خلدون جامعة الأزهر میں أستاذ اور مالکی فقہ کے قاضی رہے.
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
راہ اعتدال اور میانہ روی سے تجاوز صرف مذہبی طبقے کی روش نہیں ہے. اس روش کو کم و بیش ہر طبقے کے کچھ نہ کچھ افراد نے گلے لگا رکھا ہے. لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل لگتا ہے کہ ہر طبقے کے تمام افراد ہی راہ اعتدال سے منحرف اور تعصب کی عینک لگائے ہوئےگئے ہیں.
بطور مثال، لڑی میں پروئے گئے اصل مضمون کو ہی دیکھ لیجئے کہ جہاں اس میں مترجم کی جانبداری پر تنبیہ کی گئی ہے وہیں اصل تاریخ نگار کی غیر جانبداری کی داد بھی دی گئی ہے، اور اصل تاریخ نگار کا تعلق بھی دیندار طبقے سے ہی تھا. ابن خلدون جامعة الأزهر میں أستاذ اور مالکی فقہ کے قاضی رہے.
آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن جب بھی مذہبی طبقہ یا کسی بھی مخصوص طبقے کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے میری مراد یہ کبھی بھی نہیں ہے کہ سارا طبقہ ہی ایسا ہے اور نہ ہی ایسا حقیقی دنیا میں ہوتا ہے بلکہ اس سے مراد ہمیشہ اکثریت کے معنوں میں ہوتی ہے۔ میرا مراسلہ اگر 'سوئیپنگ سٹیٹمنٹ' کا منظر پیدا کر رہا ہے تو میں مناسب تدوین کر دیتا ہوں۔
 

جان

محفلین
یہ بات بالکل درست ہے۔ صرف کچھ مذہبی طبقہ ہی نہیں ہر طبقہ کے کچھ لوگ اس روش پہ گامزن ہیں۔
اگر ہر طبقہ کے کچھ لوگوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا جائے تو بھی اسے صحیح عمل تصور نہیں کیا جائے گا۔ مذہبی طبقے کی اکثریت نے بھی اگر وہی کام کرنا ہے جو باقی طبقے کر رہے ہیں تو پھر غیر مذیبی طبقے سے گلہ کس بنیاد پر؟
 
آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن جب بھی مذہبی طبقہ یا کسی بھی مخصوص طبقے کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے میری مراد یہ کبھی بھی نہیں ہے کہ سارا طبقہ ہی ایسا ہے اور نہ ہی ایسا حقیقی دنیا میں ہوتا ہے بلکہ اس سے مراد ہمیشہ اکثریت کے معنوں میں ہوتی ہے۔ میرا مراسلہ اگر 'سوئیپنگ سٹیٹمنٹ' کا منظر پیدا کر رہا ہے تو میں مناسب تدوین کر دیتا ہوں۔
وضاحت کا بہت شکریہ :)
 
اگر ہر طبقہ کے کچھ لوگوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا جائے تو بھی اسے صحیح عمل تصور نہیں کیا جائے گا۔ مذہبی طبقے کی اکثریت نے بھی اگر وہی کام کرنا ہے جو باقی طبقے کر رہے ہیں تو پھر غیر مذیبی طبقے سے گلہ کس بنیاد پر؟
یہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کسے مذہبی طبقہ کہیں اور کسے آزاد خیال. ایک جانب ہر اس شخص کو مذہبی طبقے میں شمار کیا جارہا ہے جو محض ظاہری لحاظ سے معمولی سی مذہبی ہیئت اپنائے ہوئے ہو، خواہ وہ مذہب کی ابجد سے بھی کوسوں دور ہو، جبکہ دوسری جانب ہر اس شخص کو آزادی فکر کا متوالا سمجھا جاتا ہے جس کے ظاہری خد و خال میں مذہب کی جھلک دکھائی نہ دے، خواہ وہ کتنا ہی با اخلاق، با کردار اور اعلی اقدار پر قائم و دائم ہو.
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جانب تو مذہب کی ظاہری چادر میں ملبوس ہر فرد کا ہر عمل اس وضع قطع والے ہر شخص کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے، تو دوسری جانب ہر آزاد خیال نظر آنے والے ہر فرد کے ہر عمل کو اس سے مماثلت رکھنے والے ہر فرد کی داستان حیات کا واحد باب گردانا جاتا ہے.
کاش! ہر شخص کی پہچان اس کی اپنی ذات کے نشیب و فراز کو پیش نظر رکھ کر کی جانے لگے.
 

جاسمن

لائبریرین
اگر ہر طبقہ کے کچھ لوگوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا جائے تو بھی اسے صحیح عمل تصور نہیں کیا جائے گا۔ مذہبی طبقے کی اکثریت نے بھی اگر وہی کام کرنا ہے جو باقی طبقے کر رہے ہیں تو پھر غیر مذیبی طبقے سے گلہ کس بنیاد پر؟
اس طرز عمل کو صحیح تو ہم میں سے کوئی بھی تصور نہیں کر رہا۔
باقی رہی مذہبی طبقہ کی" اکثریت"۔۔۔۔تو یہ بات بھی بغیر تحقیق کے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں!
آپ کی یہ بات درست ہے کہ جن کے پاس اللہ و اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پسند و ناپسند کا کچھ علم ہے، انھیں خاص طور پہ ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔ لیکن بہرطور وہ انسان ہیں۔ خطا تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔
 

جان

محفلین
یہاں ایک بنیادی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کسے مذہبی طبقہ کہیں اور کسے آزاد خیال.
پیارے بھائی جہاں تک میرے مراسلے کا ذکر ہے تو اس میں مذہبی طبقہ وہی ہے جو مسجد کے منبر پہ بیٹھ کر باقی طبقے کی سمت طے کرتا ہے یا مذہب کا قلم جس کے پاس ہے۔ اس سے قطعی مراد عام مسلمان نہیں ہے، عام مسلمان تو بیچارہ یا تو کم علمی کے باعث یا جہنم کی وعیدوں کے باعث تو اپنا ذاتی نقطہ نظر دینے سے بھی قاصر ہے۔ ظاہر ہے جب ٹریفک ون وے ہو گی تو اسی کا نظریہ چلے گا جس کے پاس مسجد کا منبر ہے یا مذہب کی قلم ہے۔
ایک جانب ہر اس شخص کو مذہبی طبقے میں شمار کیا جارہا ہے جو محض ظاہری لحاظ سے معمولی سی مذہبی ہیئت اپنائے ہوئے ہو، خواہ وہ مذہب کی ابجد سے بھی کوسوں دور ہو، جبکہ دوسری جانب ہر اس شخص کو آزادی فکر کا متوالا سمجھا جاتا ہے جس کے ظاہری خد و خال میں مذہب کی جھلک دکھائی نہ دے، خواہ وہ کتنا ہی با اخلاق، با کردار اور اعلی اقدار پر قائم و دائم ہو.
ایسا قطعی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے یہ کہیں دعوی کیا ہے، یہ آپ کا گمان تو ہو سکتا ہے لیکن میری نیت میں اس کا کوئی دخل نہیں۔ میں نے اسی فورم پہ غیر مذہبی طبقے پہ بھی اتنی ہی کھل کے تنقید کی ہے جس طرح اپنی یعنی مسلمانوں کی خامیوں پہ کی ہے۔ اپنوں پہ تنقید کرنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ہمیں ان سے دشمنی ہے بلکہ یہ تو اس دکھ کا اظہار ہے جو ہمیں اپنے زوال پہ ہونے پر ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جانب تو مذہب کی ظاہری چادر میں ملبوس ہر فرد کا ہر عمل اس وضع قطع والے ہر شخص کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے، تو دوسری جانب ہر آزاد خیال نظر آنے والے ہر فرد کے ہر عمل کو اس سے مماثلت رکھنے والے ہر فرد کی داستان حیات کا واحد باب گردانا جاتا ہے.
یہ معاملہ یک طرفہ معلوم نہیں پڑتا بلکہ مذہبی طبقہ بھی غیر مذہبی طبقے کے لیے 'لبرلز' کا نعرہ لگاتا ہے اور بالکل اسی طرح غیر مذہبی طبقہ بھی 'مذہبی طبقے' کا نعرہ لگاتا ہے۔ اب ان میں سے جو طاقت میں ہے اسی کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ اس لیے طاقت کا حصول بہت ضروری ہے اور اس کے لیے محض کھوکھلے مذہبی نعروں اور مذہبی تاریخ سے نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں موجودہ دنیا کے تناظر میں محنت کرنے اور سمت درست کرنے کی سخت ضررت ہے۔
کاش! ہر شخص کی پہچان اس کی اپنی ذات کے نشیب و فراز کو پیش نظر رکھ کر کی جانے لگے.
متفق لیکن اس کا تعلق محض مذہبی یا غیر مذہبی طبقے سے نہیں ہے بلکہ معاشرے میں یہ اصول بہت حد تک سرایت کر چکا ہے کہ کسی فردِ واحد کے عمل کو فردِ واحد کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا بلکہ بات اس کے باپ، دادا اور دوستوں تک جاتی ہے۔
 
Top