اردو بلاگرز کا بین الاقوامی قبیلہ

انوارالحسن
بی بی سی مانیٹرنگ، برطانیہ




اردو زبان میں نت نئی بلاگنگ ویب سائیٹوں کی بڑھتی تعداد دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آن لائن اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں نہ صرف خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اب اردو بلاگرز کے بین الاقوامی قبیلے میں شامل بھی ہوتے جارہے ہیں۔
بی بی سی عالمی سروس کے انٹرایکٹیویٹی ایڈیٹر سنتوش سنہا کا کہنا ہے کہ’گزشتہ چار پانچ سالوں میں اردو زبان کی آن لائن موجودگی، اردو زبان میں شائع ہونے والے اخباروں اور شاعری کی کتابوں کے صفحات کی تصاویر سے آگے بڑھ کر اب خبروں اور حالات حاضرہ کی ایسی ویب سائٹوں تک پہنچ گئی ہے جو مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اِس کے علاوہ اب اردو زبان میں ایسے فورم اور بلاگنگ ویب سائٹیں بھی وجود میں آچکی ہیں جہاں مختلف النوع سیاسی و سماجی موضوعات پر مسلسل مباحثے جاری رہتے ہیں۔ اردو زبان بولنے والوں کا یہ نسبتًا نیا ’آن لائن تعلق‘ اب عالمی سرحدیں پار کرچکا ہے۔
2001 میں بی بی سی نے ایک ایسا طریقہ متعارف کروایا جس کی مدد سے اردو زبان کے حروف تہجی کی آن لائن لکھائی، تدوین اور اشاعت ممکن ہوسکی۔ اس ایجاد نے اردو زبان کی عالمی سطح پر ترویج میں ایک بڑا اور اہم کردار ادا کیا کیونکہ اس طریقہ کار کی بنیاد پر جہاں اردو زبان میں خبروں اور حالات حاضرہ کی ویب سائٹوں کی بنیاد پڑی تو وہاں اردو زبان بولنے والوں کو فورم اور بلاگ کے ذریعے ایک ایسی جہت بھی نصیب ہوئی جہاں وہ اپنے دل و دماغ سے قریب موضوعات پر بے لاگ بحث کرسکیں۔
اردو زبان میں بلاگنگ کا آغاز

اس وقت اردو زبان میں ایسی کئی بلاگنگ سائٹیں موجود ہیں جنہیں دنیا کے مختلف ممالک سے چلایا جارہا ہے لیکن ان کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔بی بی سی اردو آن لائن کے ایڈیٹر مرزا وحید کہتے ہیں کہ ’اردو بلاگنگ کی ابتداء کم و بیش چار پانچ سال قبل بی بی سی کی جانب سے اردو آن لائن پر ’یونی کوڈ‘ اور اردو کی بورڈ کے اجراء کے بعد ہوئی۔ یونی کوڈ، اردو کے حروف تہجی آن لائن لکھنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے اردو حروف کی تدوین بھی ممکن ہے۔ لگ بھگ اسی وقت ہم نے اپنی ویب سائٹ پر بلاگ کی ابتداء بھی کی۔ ہماری ویب سائٹ پر آنے والوں نے پہلے تو اردو کے اس نئے طریقے کو اپنایا اور پھر ان میں سے چند لوگوں نے اپنی بلاگ ویب سائٹیں شروع کیں۔
چار پانچ سال کی نسبتا قلیل مدد میں ہی اردو بلاگ کے موضوعات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ اس وقت اردو بلاگنگ میں ہارڈویئر سافٹ ویئر مشوروں، لطیفوں ، بصری آرٹ، کھیل، سیاست، سمندر پار اردو بولنے والے، فلمی صنعت، موسیقی، شاعری، مذہب اور نسل جیسے موضوعات پر علیحدہ علیحدہ ویب سائٹیں موجود ہیں۔
پاکستان میں امریکی عمل دخل

’میرا پاکستان‘ نامی بلاگ کے میزبان 4 اگست کو اپنے بلاگ باعنوان ’یہ وطن ہمارا ہے ، ہم ہیں حکمراں اس کے‘ میں ایشیا ٹائمز آن لائن کی ایک خبر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’امریکہ میں رہنے والے ہم پاکستانی اس خبر سے بہت خوش ہیں کہ ہمارے ملک امریکہ نے کوڑیوں کے عوض اسلام آباد میں سی ڈی اے سے زمین خریدی ہے ۔۔۔۔جس طرح اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کو وسعت دی جارہی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے حکمراں کون ہوں گے‘۔
جعفر اس بلاگ پر تبصرہ کرتے لکھتے ہیں۔
’ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے‘۔
چوری کا سافٹ وئیر

سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی یاسر عمران اپنے بلاگ میں اس بحث کو چھیڑتے ہیں کہ ’چوری کا سافٹ ویئر استعمال کرنا حرام ہے یا حلال‘۔
اس بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے راشد کامران نے لکھا ’میں نے اب تک کوئی بھی ایسا پاکستانی کمپیوٹر نہیں دیکھا جو چوری کے ونڈوز سافٹ ویئر سے نہ شروع ہوتا ہو‘۔
مذہبی فسادات

’میرا پاکستان‘ بلاگ پر میزبان نے گوجرہ کے مسلم عیسائی فساد کو اس افواہ کا نتیجہ قرار دیا کہ کسی عیسائی نے قرآن کے صفحات کو جلادیا ہے۔
اس بلاگ پر یاسر عمران اپنے تبصرے میں کہتے ہیں کہ’جہالت اس واقعے کا ایک سبب ہوسکتی ہے لیکن ہمیں اس واقعے کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ خفیہ ہات یقینًا امریکہ، اسرائیل اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہیں۔ اسی انداز کے فسادات چین میں بھی کروائے گئے تھے‘۔
بھارت میں اردو بلاگنگ

حروف تہجی مختلف ہونے کے باوجود عام بول چال میں اردو اور ہندی زبانوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ جارج ویبر 1997 میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’آج کی زبانیں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اردو/ ہندی زبان بولنے والے دنیا کی آبادی کا 4.7 فیصد ہیں اور یوں یہ زبان عالمی سطح پر میندرین، انگریزی اور ہسپانوی زبانوں کے بعد چوتھے نمبر پر آتی ہے‘۔
بھارت کی آبادی کا ایک بہت ہی مختصر حصہ اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حروف تہجی کا یہ فرق دنیا میں اردو اور ہندی بولنے والوں کے درمیان خلیج کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مشاہدے سے سامنے آیا ہے کہ اردو اور ہندی بولنے والے لوگ آن لائن تعلق کے لیے اکثر یا تو انگریزی بحثیت مشترکہ زبان استعمال کرتے ہیں اور اگر نہیں تو اردو یا ہندی کو رومن حروف تہجی میں لکھ کر ایک دوسرے تک اپنی بات پہونچاتے ہیں۔
حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے 37 سالا سجادالحسنین کہتے ہیں کہ ’چند سالوں سے کئی معاملات پر پاکستانیوں سے اردو میں بات چیت کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی بھی طرح کے تعلق میں زبان اور مذہب کی خاصی اہمیت ہے‘۔
پاکستان کے اردو اور انگریزی زبان کے بلاگر

انگریزی زبان پر قدرت رکھنے والے پاکستانی باآسانی بین الاقوامی سوشل میڈیا سے جڑ کر پوری دنیا سے اندرونی اور بیرونی معاملات پر تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ عالمی سطح پر ایک وسیع نقطہ نظر تو بنا سکتے ہیں لیکن یہ نقطہ نظر اندرونی معاملات پر ان کی گرفت اور اثر کو کمزور بھی کرسکتا ہے۔
اردو زبان میں بلاگنگ کرنے والوں کی زبان کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک طرح کی آن لائین تنہائی انہیں اندرونی معاملات پر پاکستان کے انگریزی بلاگرز کے مقابلے میں زیادہ پرجوش، مرکوز اور شامل رکھ سکتی ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
بی بی سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اردو زبان میں نت نئی بلاگنگ ویب سائیٹوں کی بڑھتی تعداد دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آن لائن اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں نہ صرف خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اب اردو بلاگرز کے بین الاقوامی قبیلے میں شامل بھی ہوتے جارہے ہیں۔

بی بی سی عالمی سروس کے انٹرایکٹیویٹی ایڈیٹر سنتوش سنہا کا کہنا ہے کہ’گزشتہ چار پانچ سالوں میں اردو زبان کی آن لائن موجودگی، اردو زبان میں شائع ہونے والے اخباروں اور شاعری کی کتابوں کے صفحات کی تصاویر سے آگے بڑھ کر اب خبروں اور حالات حاضرہ کی ایسی ویب سائٹوں تک پہنچ گئی ہے جو مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اِس کے علاوہ اب اردو زبان میں ایسے فورم اور بلاگنگ ویب سائٹیں بھی وجود میں آچکی ہیں جہاں مختلف النوع سیاسی و سماجی موضوعات پر مسلسل مباحثے جاری رہتے ہیں۔ اردو زبان بولنے والوں کا یہ نسبتًا نیا ’آن لائن تعلق‘ اب عالمی سرحدیں پار کرچکا ہے۔

2001 میں بی بی سی نے ایک ایسا طریقہ متعارف کروایا جس کی مدد سے اردو زبان کے حروف تہجی کی آن لائن لکھائی، تدوین اور اشاعت ممکن ہوسکی۔ اس ایجاد نے اردو زبان کی عالمی سطح پر ترویج میں ایک بڑا اور اہم کردار ادا کیا کیونکہ اس طریقہ کار کی بنیاد پر جہاں اردو زبان میں خبروں اور حالات حاضرہ کی ویب سائٹوں کی بنیاد پڑی تو وہاں اردو زبان بولنے والوں کو فورم اور بلاگ کے ذریعے ایک ایسی جہت بھی نصیب ہوئی جہاں وہ اپنے دل و دماغ سے قریب موضوعات پر بے لاگ بحث کرسکیں۔
اردو زبان میں بلاگنگ کا آغاز

اس وقت اردو زبان میں ایسی کئی بلاگنگ سائٹیں موجود ہیں جنہیں دنیا کے مختلف ممالک سے چلایا جارہا ہے لیکن ان کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔بی بی سی اردو آن لائن کے ایڈیٹر مرزا وحید کہتے ہیں کہ ’اردو بلاگنگ کی ابتداء کم و بیش چار پانچ سال قبل بی بی سی کی جانب سے اردو آن لائن پر ’یونی کوڈ‘ اور اردو کی بورڈ کے اجراء کے بعد ہوئی۔ یونی کوڈ، اردو کے حروف تہجی آن لائن لکھنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے اردو حروف کی تدوین بھی ممکن ہے۔ لگ بھگ اسی وقت ہم نے اپنی ویب سائٹ پر بلاگ کی ابتداء بھی کی۔ ہماری ویب سائٹ پر آنے والوں نے پہلے تو اردو کے اس نئے طریقے کو اپنایا اور پھر ان میں سے چند لوگوں نے اپنی بلاگ ویب سائٹیں شروع کیں۔

چار پانچ سال کی نسبتا قلیل مدد میں ہی اردو بلاگ کے موضوعات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔ اس وقت اردو بلاگنگ میں ہارڈویئر سافٹ ویئر مشوروں، لطیفوں ، بصری آرٹ، کھیل، سیاست، سمندر پار اردو بولنے والے، فلمی صنعت، موسیقی، شاعری، مذہب اور نسل جیسے موضوعات پر علیحدہ علیحدہ ویب سائٹیں موجود ہیں۔
پاکستان میں امریکی عمل دخل

’میرا پاکستان‘ نامی بلاگ کے میزبان 4 اگست کو اپنے بلاگ باعنوان ’یہ وطن ہمارا ہے ، ہم ہیں حکمراں اس کے‘ میں ایشیا ٹائمز آن لائن کی ایک خبر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’امریکہ میں رہنے والے ہم پاکستانی اس خبر سے بہت خوش ہیں کہ ہمارے ملک امریکہ نے کوڑیوں کے عوض اسلام آباد میں سی ڈی اے سے زمین خریدی ہے ۔۔۔۔جس طرح اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کو وسعت دی جارہی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے حکمراں کون ہوں گے‘۔

جعفر اس بلاگ پر تبصرہ کرتے لکھتے ہیں۔

’ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے‘۔
چوری کا سافٹ وئیر

سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی یاسر عمران اپنے بلاگ میں اس بحث کو چھیڑتے ہیں کہ ’چوری کا سافٹ ویئر استعمال کرنا حرام ہے یا حلال‘۔

اس بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے راشد کامران نے لکھا ’میں نے اب تک کوئی بھی ایسا پاکستانی کمپیوٹر نہیں دیکھا جو چوری کے ونڈوز سافٹ ویئر سے نہ شروع ہوتا ہو‘۔
مذہبی فسادات

’میرا پاکستان‘ بلاگ پر میزبان نے گوجرہ کے مسلم عیسائی فساد کو اس افواہ کا نتیجہ قرار دیا کہ کسی عیسائی نے قرآن کے صفحات کو جلادیا ہے۔

اس بلاگ پر یاسر عمران اپنے تبصرے میں کہتے ہیں کہ’جہالت اس واقعے کا ایک سبب ہوسکتی ہے لیکن ہمیں اس واقعے کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ خفیہ ہات یقینًا امریکہ، اسرائیل اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہیں۔ اسی انداز کے فسادات چین میں بھی کروائے گئے تھے‘۔
بھارت میں اردو بلاگنگ

حروف تہجی مختلف ہونے کے باوجود عام بول چال میں اردو اور ہندی زبانوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ جارج ویبر 1997 میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’آج کی زبانیں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اردو/ ہندی زبان بولنے والے دنیا کی آبادی کا 4.7 فیصد ہیں اور یوں یہ زبان عالمی سطح پر میندرین، انگریزی اور ہسپانوی زبانوں کے بعد چوتھے نمبر پر آتی ہے‘۔

بھارت کی آبادی کا ایک بہت ہی مختصر حصہ اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حروف تہجی کا یہ فرق دنیا میں اردو اور ہندی بولنے والوں کے درمیان خلیج کی ایک بڑی وجہ ہے۔

مشاہدے سے سامنے آیا ہے کہ اردو اور ہندی بولنے والے لوگ آن لائن تعلق کے لیے اکثر یا تو انگریزی بحثیت مشترکہ زبان استعمال کرتے ہیں اور اگر نہیں تو اردو یا ہندی کو رومن حروف تہجی میں لکھ کر ایک دوسرے تک اپنی بات پہونچاتے ہیں۔

حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے 37 سالا سجادالحسنین کہتے ہیں کہ ’چند سالوں سے کئی معاملات پر پاکستانیوں سے اردو میں بات چیت کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی بھی طرح کے تعلق میں زبان اور مذہب کی خاصی اہمیت ہے‘۔
پاکستان کے اردو اور انگریزی زبان کے بلاگر

انگریزی زبان پر قدرت رکھنے والے پاکستانی باآسانی بین الاقوامی سوشل میڈیا سے جڑ کر پوری دنیا سے اندرونی اور بیرونی معاملات پر تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ عالمی سطح پر ایک وسیع نقطہ نظر تو بنا سکتے ہیں لیکن یہ نقطہ نظر اندرونی معاملات پر ان کی گرفت اور اثر کو کمزور بھی کرسکتا ہے۔

اردو زبان میں بلاگنگ کرنے والوں کی زبان کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک طرح کی آن لائین تنہائی انہیں اندرونی معاملات پر پاکستان کے انگریزی بلاگرز کے مقابلے میں زیادہ پرجوش، مرکوز اور شامل رکھ سکتی ہے۔
 
Top