اردو ادب میں خاتون شعراء کا فقدان

نایاب

لائبریرین
میں نے ان شاعرات کو جاننے کے باوجود یہ لڑی بنائی ہے اور اس کے پیچھے یہ وجہ ہے کہ جہاں تک میں نے جانا ہے, مندرجہ بالا اچھی اور مشہور شاعرات کے کلام کے تخیلِ پرواز , الفاظ کے چناؤ , نغمگی وغیرہ, کا معیار مرد اچھے اور مشہور شعراء سے مختلف ہے. مرد زیادہ اچھے شاعر ہیں ان کے مقابلے میں بھی. اصل بات ہی یہ ہے اس لڑی میں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ فرق خود بخود پیدا ہوتا ہے؟ حالانکہ کم از کم اس میں کوئی زور زبردستی کی بات تَوہے نہیں, یہ تو شاعرہ کی اپنی پرواز پر منحصر ہے, تو یہ پرواز ہی کسی حد تک نیچی ہے, کن پوشیدہ عوامل کی وجہ سے؟:):tremble:
محترم قرۃ العین طارق صاحبہ اپنے بلاگ پر لکھتی ہیں ۔



یہ درست ہے کہ ادب کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا لیکن زمانی تغیر ، فکری رحجانات اور جدیدیت کے تحت ادب کی اسلوبیاتی ساخت میں نسائیت کی اصطلاح گزشتہ صدی کے دوران موثر متحرک اور متنوع جہت کے طور پر سامنے آئی ہے۔عورت کے جداگانہ وجود صنفی صداقت اور معاشرتی و معاشی اکائی سمجھنے کی جدو جہد ، زمینی و مادی حقائق پر مبنی ہے۔
تحریکِ حقوقِ نسواں یا نسائی تحریک عورت کی حیثیت و اہمیت ، مساوی حقوق آزادی ء رائے کے حصول اور اسے مکمل انسان تسلیم کرنے کے نقطہ نظر کا احاطہ کرتی ہے۔احترامِ آدمیت کے مروج قوانین کے تحت ذہنی و فکری آزادی، معاشرتی انصاف، وقعتِ ذات اور خود مختا رو مکمل زندگی کی خواہش عورت اور مرد دونوں کو ودیعت کی گئی ہے۔لیکن گزشتہ ادوار کے مطالعے و مشاہدے اور تاریخی حوالوں سے یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ ہر عہد میں عورت پر استحصالی قوتیں مذہبی،ریاستی اور خاندانی سطح پر حاوی رہیں، اور اس کے صنفی و ذاتی تشخص اور فردی آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی رہیں۔بقول اینگلر
"انقلاب مجرد صورت میں کہیں اوپر سے نازل نہیں ہوتا بلکہ عملی زندگی کی کشمکش سے جنم لیتا اور جیتی جاگتی انسانی صورتحال میں نمو پاتا ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ جب برطانوی و فرانسیسی انقلاب کے زیرِ اثر سرمایہ درانہ تسلط کے غیر جمہوری و ٖغیر اخلاقی معاشرے نے عورت کی ذات ، حقوق اور نسائی حیثیت پر کاری ضرب لگائی تو صدیوں سے جاری امتیازی و استحصالی طرزِ عمل نے سب سے پہلےمغربی عورت کی لب بستگی کوآزادی اور مساوات کے نعروں میں منقلب کیا۔میری وول ، سٹون کرافٹ،فلورا ٹریسٹاں اور سیمون ڈی بودا کی انفعالی و انقلابی تحریروں نےعورت کی اہمیت ، سماجی و معاشرتی مقام اور فردی آزادی کے ضابطے متعین کر کے تانیثی فکر و ادب پر مثبت و دور رس اثرات مرتب کئے ۔
نسائی تحریک کی جد و جہد میں مارکس کے فلسفہء اشتراکیت نے بھی عورت کی صنفی حیثیت اور سماجی و معاشی تشکیل میں اس کی حصہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے اٹھارویں صدی کے انقلابِ فرانس اور اس کے بعد کے حالات میں صنفی آزادی اور قانونی و آئینی حقوق کی نشاندہی کی ہے۔
نسائی تحریک کے خود انفعالی و معاشرتی انصاف کے نقطہء نظر نے عورتوں پر رجعت پسندانہ اور غیر منصفانہ طرزِ عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نساءی ادب کی بنیاد رکھی ۔ اسی عہد میں ادبی منظر نامے پر ابھرنے والی سارہ ہیلن ،بوسیا الکوٹ ، جولیا ہوم، میری لیور مور اور فیڈریکا بریمبر کی شعری اور نثری تخلیقات نے سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کی شخصی تنزلی ، مصائب اور صنفی تفریق کو پُر اثر اور احتجاجی لب و لہجے میں بیان کیا گیا ۔
اٹھارویں صدی کے نوآبادیاتی تسلط نے برِ صغیر میں جہاں محکومیت اور پسپائی کے احساس کو اجاگر کیا وہیں رسم و رواج میں جکڑی بے بس و محکوم ہندوستانی عورت میںمغربی رحجانات کے تحت نسائی شعور کی آبیاری کی۔اردو ہندی و بنگلہ ادب کی بیشتر تخلیق کاروں کا تعلق روایت پسند جاگیر دار گھرانوں سے تھا۔جہاں عورت کی ذات ، جذبات اور حقوق پر قدامت پسندی اور مذہبی اصطلاحات کا پردہ ڈال کر عمر بھر کے لئے مقید کر دیا جاتا تھا۔رشید النسا ء ، ز۔ خ ۔ شروانیہ ۔ تارا بائی شندے ، سورن کماری دیوی اور رضیہ سخاوت حسین نے اپنی روایات اور ماحول سے بغاوت کرتے ہوئےہندوستانی عورت کی حالِ زار ، مردانہ سماج کے غیر انسانی رویوں اور مذہبی جبر کی نشاندہی کر کے صدیوں سے محکوم و محروم عورت اور اسکی عارضی ناپائیدار اور بے وقعت زندگی کی موثر تصویر کشی کی ۔ علاوہ ازیں عباسی بیگم کے افسانے گرفتارِ قفس ،سجاد حیدر کے خونِ ارمان اور حور صحرائی ، آصف جہاں کے شش و پنج ، انجمن آرا کے ریل کا سفر اور حیاء لکھنوی ، پنہاں بریلوی، نوشابہ خاتوں اور دیگر خواتین کی شعری تخلیقات میں بھی نسائی مصائب و آلام، روایتی بے بسی و مظلومیت اور آزادی ء نسواں کو موضوع بنایا گیا۔
خواتین کے ساتھ مرد تخلیق کاروں نے بھی عورت کی سماجی حیثیت عزت و ناموس ، تعلیم اور آزادی ء نسواںکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے صنفی مساوات اور نسائی نقطہ ء نظر کی وضاحت کی ۔ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس اور بنات العنش ، علامہ راشد الخیری کے سوشل افسانوں ، سجاد حیدر یلدرم کے ازواجِ محبت ، صحبتِ ناجنس عظیم بیگ چغتائی کی خانم و ویمپائر،منشی پریم چند ، رابندر ناتھ ٹیگور، شرت چندر چٹر جی کے افسانوں اور ناولوںمیں مسلم و ہندو سماج میں عورت کی ذہنی و جنسی غلامی اور اخلاقی و صنفی تنزلی کو بطورِ خاص اُجاگر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوبارہ سے موضوع پر واپس آنے کی کوشش میں مددگار لگی یہ تحریر
سو شریک محفل کر دی ۔
ڈھیروں دعائیں
 

انتہا

محفلین
معیار کی بات ہو رہی ہے. تعداد کی نہیں. خواتین اتنا اچھا کیوں نہیں لکھ سکتیں.
بہت اچھی گفتگو پڑھنے کو ملی اس دھاگے میں۔ کافی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ خواتین شعرا کا بہت اچھا تناسب ہر دور میں موجود رہا ہے، لیکن میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ خواتین اتنا اچھا نہیں لکھ پاتیں جتنا مرد شعرا لکھتے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات تو احباب نے بیان فرما ہی دی ہیں جن میں عورت میں فطری حیا اور جھجک کے عنصر کا وجود میرے خیال میں زیادہ اہم ہے، دیگر عوامل بھی لائق اعتنا ہیں۔ چند باتیں جو میرے ذہن میں ہیں وہ بھی گوش گزار کر دیتا ہوں۔
شاعری میں سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ یہی وہ اوزار ہے جس سے شاعری کا عروج و وقار وابستہ ہے۔ قدرت نے فطری طور پر جو اجزا کیا کہنا چاہیے میں شاید صحیح الفاظ استعمال نہیں کر پا رہا عورت کو ودیعت کیے ہیں، جن پر شاعری کی جاتی ہے وہ مرد کی ذات کا خاصہ نہیں، مرد کے پاس نہ ناز ہیں، نہ ادائیں، نہ نخرے، نہ بالوں کی لٹیں، نہ ترچھی نگاہوں سے مار ڈالنے کا فن، اور نہ جانے کیا کیا جو آپ شاعر لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ تو پھر عورت کی شاعری میں وہ بات کہاں سے آئے جو مرد کی شاعری میں ہے۔ لیکن سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر خواتین شعرا کی گرفت حضرات سے ہرگز کم نہیں۔ اور یہ بات تو اتنی یقینی ہے کہ اس کی تو مثالیں بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
 
بہت اچھی گفتگو پڑھنے کو ملی اس دھاگے میں۔ کافی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ خواتین شعرا کا بہت اچھا تناسب ہر دور میں موجود رہا ہے، لیکن میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ خواتین اتنا اچھا نہیں لکھ پاتیں جتنا مرد شعرا لکھتے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات تو احباب نے بیان فرما ہی دی ہیں جن میں عورت میں فطری حیا اور جھجک کے عنصر کا وجود میرے خیال میں زیادہ اہم ہے، دیگر عوامل بھی لائق اعتنا ہیں۔ چند باتیں جو میرے ذہن میں ہیں وہ بھی گوش گزار کر دیتا ہوں۔
شاعری میں سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ یہی وہ اوزار ہے جس سے شاعری کا عروج و وقار وابستہ ہے۔ قدرت نے فطری طور پر جو اجزا کیا کہنا چاہیے میں شاید صحیح الفاظ استعمال نہیں کر پا رہا عورت کو ودیعت کیے ہیں، جن پر شاعری کی جاتی ہے وہ مرد کی ذات کا خاصہ نہیں، مرد کے پاس نہ ناز ہیں، نہ ادائیں، نہ نخرے، نہ بالوں کی لٹیں، نہ ترچھی نگاہوں سے مار ڈالنے کا فن، اور نہ جانے کیا کیا جو آپ شاعر لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ تو پھر عورت کی شاعری میں وہ بات کہاں سے آئے جو مرد کی شاعری میں ہے۔ لیکن سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر خواتین شعرا کی گرفت حضرات سے ہرگز کم نہیں۔ اور یہ بات تو اتنی یقینی ہے کہ اس کی تو مثالیں بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
یعنی کہ عورت Best poet اس لیے نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ میں ایک Best Poem ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بہت اچھی گفتگو پڑھنے کو ملی اس دھاگے میں۔ کافی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ خواتین شعرا کا بہت اچھا تناسب ہر دور میں موجود رہا ہے، لیکن میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ خواتین اتنا اچھا نہیں لکھ پاتیں جتنا مرد شعرا لکھتے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات تو احباب نے بیان فرما ہی دی ہیں جن میں عورت میں فطری حیا اور جھجک کے عنصر کا وجود میرے خیال میں زیادہ اہم ہے، دیگر عوامل بھی لائق اعتنا ہیں۔ چند باتیں جو میرے ذہن میں ہیں وہ بھی گوش گزار کر دیتا ہوں۔
شاعری میں سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ یہی وہ اوزار ہے جس سے شاعری کا عروج و وقار وابستہ ہے۔ قدرت نے فطری طور پر جو اجزا کیا کہنا چاہیے میں شاید صحیح الفاظ استعمال نہیں کر پا رہا عورت کو ودیعت کیے ہیں، جن پر شاعری کی جاتی ہے وہ مرد کی ذات کا خاصہ نہیں، مرد کے پاس نہ ناز ہیں، نہ ادائیں، نہ نخرے، نہ بالوں کی لٹیں، نہ ترچھی نگاہوں سے مار ڈالنے کا فن، اور نہ جانے کیا کیا جو آپ شاعر لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ تو پھر عورت کی شاعری میں وہ بات کہاں سے آئے جو مرد کی شاعری میں ہے۔ لیکن سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر خواتین شعرا کی گرفت حضرات سے ہرگز کم نہیں۔ اور یہ بات تو اتنی یقینی ہے کہ اس کی تو مثالیں بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
شاعری تجربے یا تخیل کو کیفیت میں ڈھالنے کا نام ہے ، جو تجربات ہمارے ہاں مرد حضرات کر سکتے ہیں اس کی اجازت خواتین کو نہیں تو محدود تجربات اور محدود سوچ ۔
مگر مرد حضرات بھی کوئی عظیم شاعری نہیں کر رہے ہیں ۔ شاعری صرف ناز و انداز اور ترچھی نگاہوں کا نام نہیں شاعری مزاحمت اور انقلاب بھی ہے اور عورت اسے بہتر سمجھ سکتی ہے اگر نصابی کتب سے باہر نکل کر حقیقی دنیا اور مسائل کا جائزہ لے۔
 

انتہا

محفلین
شاعری تجربے یا تخیل کو کیفیت میں ڈھالنے کا نام ہے ، جو تجربات ہمارے ہاں مرد حضرات کر سکتے ہیں اس کی اجازت خواتین کو نہیں
بہت اچھا اظہار خیال ہے آپ کا۔ لیکن یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کو مردوں کی طرح اظہار خیال کی آزادی نہیں۔ کیا آپ کوئی مثال پیش کر سکیں گی اس اعتبار سے کہ کسی خاتون شاعرہ نے اپنی کیفیات کو شاعری میں مختلف تجربوں سے روشناس کیا تو انھیں معتوب کیا گیا۔
جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی، واقعی وہ شاعری کا حقیقی جز نہیں، مگر عمومی مزاج یہی ہے۔ پھر اس سے عورت کی شاعری کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں، بلکہ اس بات کا بتانا مقصود تھا کہ عورت کے پاس وہ وسائل نہیں جن سے وہ مرد کے معیار کو پہنچ سکے۔ یعنی اس سے عورت کی بالا دستی ہی ثابت ہوتی ہے۔
باقی یہ اعتراف تو میں کر ہی چکا ہوں اپنے مراسلے میں تو پھر اس بات کا کیا مطلب سمجھا جائے؟
مگر مرد حضرات بھی کوئی عظیم شاعری نہیں کر رہے ہیں ۔ شاعری صرف ناز و انداز اور ترچھی نگاہوں کا نام نہیں شاعری مزاحمت اور انقلاب بھی ہے اور عورت اسے بہتر سمجھ سکتی ہے اگر نصابی کتب سے باہر نکل کر حقیقی دنیا اور مسائل کا جائزہ لے۔
لیکن سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر خواتین شعرا کی گرفت حضرات سے ہرگز کم نہیں۔ اور یہ بات تو اتنی یقینی ہے کہ اس کی تو مثالیں بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
بہت اچھا اظہار خیال ہے آپ کا۔ لیکن یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کو مردوں کی طرح اظہار خیال کی آزادی نہیں۔ کیا آپ کوئی مثال پیش کر سکیں گی اس اعتبار سے کہ کسی خاتون شاعرہ نے اپنی کیفیات کو شاعری میں مختلف تجربوں سے روشناس کیا تو انھیں معتوب کیا گیا۔
جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی، واقعی وہ شاعری کا حقیقی جز نہیں، مگر عمومی مزاج یہی ہے۔ پھر اس سے عورت کی شاعری کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں، بلکہ اس بات کا بتانا مقصود تھا کہ عورت کے پاس وہ وسائل نہیں جن سے وہ مرد کے معیار کو پہنچ سکے۔ یعنی اس سے عورت کی بالا دستی ہی ثابت ہوتی ہے۔
باقی یہ اعتراف تو میں کر ہی چکا ہوں اپنے مراسلے میں تو پھر اس بات کا کیا مطلب سمجھا جائے؟
میں نے اظہار خیال کی آزادی کی بات نہیں کی میں نے شاعری کے لئے محدود تجربات اور تخیل کا ذکر کیا ہے جس میں تربیت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی ترجیحات میں خواتین کا کردار بھی شامل ہے ۔
میں مرد و زن کو انسان ہی مانتی ہوں سو کسی کی بھی بالا دستی اس کے بلند شعور اور علم کی محتاج ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت :)
 

عباد اللہ

محفلین
مگر مرد حضرات بھی کوئی عظیم شاعری نہیں کر رہے ہیں ۔ شاعری صرف ناز و انداز اور ترچھی نگاہوں کا نام نہیں شاعری مزاحمت اور انقلاب بھی ہے اور عورت اسے بہتر سمجھ سکتی ہے اگر نصابی کتب سے باہر نکل کر حقیقی دنیا اور مسائل کا جائزہ لے۔
سر خدا کہ عارف و سالک بہ کس نگفت
در حیرتم کہ باده فروش از کجا شنید
:unsure::unsure:
 

صائمہ شاہ

محفلین
سر خدا کہ عارف و سالک بہ کس نگفت
در حیرتم کہ باده فروش از کجا شنید
:unsure::unsure:
صد بار پیر میکدہ ایں ماجرا شنید

:)
اچھی شاعری اور عظیم شاعری میں فرق ہے قبلہ
آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کی معترف ہوں اور خدا کرے کہ آپ جیسے روشن دماغ شاعر ضرور اس عظمت کو چھوئیں ۔
 
آخری تدوین:
میں مرد و زن کو انسان ہی مانتی ہوں سو کسی کی بھی بالا دستی اس کے بلند شعور اور علم کی محتاج ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت :)

متفق۔ خواتین کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسان ہیں۔ اسی طرح مرد کوئی انوکھی مخلوق نہیں بلکہ انسان ہی ہیں۔
 
خواہ مخواہ لمٹ مت کیجیے اپنے آپ کو، ایسی کوئی بات نہیں۔
میں اپنے آپ کو ہرگز لمٹ نہیں کرتی، محترم کی بات کی تخلیص کی ہے اور خوب کہا ہے۔ اس بات کا بھی ہاتھ کہیں نہ کہیں ہے۔ باقی باتیں تو پہلے ہو ہی چکی ہیں
 
جیسے شوہروں کی جاسوسی
:thumbsup2:
clear.png
:thumbsup2:
clear.png
:thumbsup2:
clear.png
:thumbsup2:
clear.png
:thumbsup2:
clear.png
 

عباد اللہ

محفلین
کوشش کرتے ہیں الاؤ جلا کر روشنی ڈالنے کی !
شاعری تجربے یا تخیل کو کیفیت میں ڈھالنے کا نام ہے
کتنے لوگ اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہوں گے ؟
ہم زبان سے واجبی واقفیت کا اعتراف کرتے ہیں آپ ہی بتائیے کہ کیفیت میں ڈھالنے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟
جو تجربات ہمارے ہاں مرد حضرات کر سکتے ہیں اس کی اجازت خواتین کو نہیں
ہم ایسا نہیں سمجھتے مگر خواتین کے حوالے سے آپ کی رائے یقینا زیادہ معتبر ہے اگر دو چار مثالیں بھی پیش فرمائیں تو آپ کی بات اور مستند ہو جائے

تو محدود تجربات اور محدود سوچ ۔
ابھی پچھلی بات محتاجِ سند ہے سو یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے!
مگر مرد حضرات بھی کوئی عظیم شاعری نہیں کر رہے ہیں
اگر چہ ہمیں اس بات سے اتفاق ہے مگر "عظیم شاعری" کی بھی کوئی لگی بندی حدود تو ہیں نہیں ہر شخص کا اپنا اپنا معیار ہے
ویسے آپ شاعری کی عظمت کا اندازہ کس معیار پر کرتی ہیں بلکہ شاید اس سے پہلے ہم کو یہ پوچھنا چاہئے کہ عظیم شاعری ہے کیا؟
شاعری صرف ناز و انداز اور ترچھی نگاہوں کا نام نہیں
یقینا
شاعری مزاحمت اور انقلاب بھی ہے اور عورت اسے بہتر سمجھ سکتی ہے اگر
عورت بہتر سمجھ سکتی ہے اگر!!!
ویسے خواتین کی ناسمجھی کے بارے تو کسی نے فیصلہ نہیں دیا پھر اس کی ضرورت؟
سمجھنا نہیں ان تجربات کو "کیفیت میں ڈھالنا" بقول آپ کے شاعری ہے سوال اسی متعلق ہے کہ کیفیت میں کیوں نہیں ڈھال سکتیں؟
اگر نصابی کتب سے باہر نکل کر حقیقی دنیا اور مسائل کا جائزہ لے
اسی رمز کشائی پر کہا تھا کہ پیر میکدہ کو بھی بادہ فروش کی مریدی اختیار کرنی چاہئے عارف و سالک کی تو وقعت ہی کیا ہے ( طنز مقصود نہیں ہے نہ پہلے تھا)
میں مرد و زن کو انسان ہی مانتی ہوں سو کسی کی بھی بالا دستی اس کے بلند شعور اور علم کی محتاج ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت
ہمارا بھی یہی مشرب ہے
صد بار پیر میکدہ ایں ماجرا شنید

:)
اچھی شاعری اور عظیم شاعری میں فرق ہے قبلہ
آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کی معترف ہوں اور خدا کرے کہ آپ جیسے روشن دماغ شاعر ضرور اس عظمت کو چھوئیں ۔
یہ آپ کی خوش نظری ہے کہ آپ ہماری شاعرانہ صلاحیتوں کی معترف ہیں اور ہمارے حق میں دعاگو ہیں اس کے لئے بھی سپاس گزار ہیں، سوالات سب کے سب ہم نے سیکھنے ہی کی طلب میں کئے ہیں ۔اگر کسی سوال میں گستاخی کا پہلو نظر آئے تو ہماری ناسمجھی تو مسلم ہے صرفِ نظر فرمائیے گا ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
کوشش کرتے ہیں الاؤ جلا کر روشنی ڈالنے کی !

کتنے لوگ اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہوں گے ؟
ہم زبان سے واجبی واقفیت کا اعتراف کرتے ہیں آپ ہی بتائیے کہ کیفیت میں ڈھالنے سے آپ کی کیا مراد ہے ؟

ہم ایسا نہیں سمجھتے مگر خواتین کے حوالے سے آپ کی رائے یقینا زیادہ معتبر ہے اگر دو چار مثالیں بھی پیش فرمائیں تو آپ کی بات اور مستند ہو جائے


ابھی پچھلی بات محتاجِ سند ہے سو یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے!

اگر چہ ہمیں اس بات سے اتفاق ہے مگر "عظیم شاعری" کی بھی کوئی لگی بندی حدود تو ہیں نہیں ہر شخص کا اپنا اپنا معیار ہے
ویسے آپ شاعری کی عظمت کا اندازہ کس معیار پر کرتی ہیں بلکہ شاید اس سے پہلے ہم کو یہ پوچھنا چاہئے کہ عظیم شاعری ہے کیا؟

یقینا

عورت بہتر سمجھ سکتی ہے اگر!!!
ویسے خواتین کی ناسمجھی کے بارے تو کسی نے فیصلہ نہیں دیا پھر اس کی ضرورت؟
سمجھنا نہیں ان تجربات کو "کیفیت میں ڈھالنا" بقول آپ کے شاعری ہے سوال اسی متعلق ہے کہ کیفیت میں کیوں نہیں ڈھال سکتیں؟

اسی رمز کشائی پر کہا تھا کہ پیر میکدہ کو بھی بادہ فروش کی مریدی اختیار کرنی چاہئے عارف و سالک کی تو وقعت ہی کیا ہے ( طنز مقصود نہیں ہے نہ پہلے تھا)

ہمارا بھی یہی مشرب ہے

یہ آپ کی خوش نظری ہے کہ آپ ہماری شاعرانہ صلاحیتوں کی معترف ہیں اور ہمارے حق میں دعاگو ہیں اس کے لئے بھی سپاس گزار ہیں، سوالات سب کے سب ہم نے سیکھنے ہی کی طلب میں کئے ہیں ۔اگر کسی سوال میں گستاخی کا پہلو نظر آئے تو ہماری ناسمجھی تو مسلم ہے صرفِ نظر فرمائیے گا ۔
سند کس بات کی ؟؟؟
اور کون دے سکتا ہے ؟؟؟
اپنے اپنے شعور کے مطابق حسب توفیق کہا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔
باقی رہی بات کیفیت میں ڈھالنے کی تعریف کی تو ہماری ان کہی شاعری کے لفظی سانچے میں ڈھل کر ہی کیفیت بیان کرتی ہے نا ، آپ کے دل میں جھانک کر کوئی آپ کی کیفیت سمجھنے سے تو رہا ۔
مزید یہ کہ اس تعریف سے کسی کا متفق ہونا ہرگز مقصود نہیں ، کیا ضروری ہے کہ جو میں سمجھتی ہوں وہی باقی سب کی سمجھ بھی ہو ( کیونکہ میں جو سمجھتی ہوں اسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں ) اسی لئے وضاحت مجھے لاحاصل مشق لگتی ہے ۔
سلامت رہیے
( اس تفصیلی وضاحت سے اب پہلا جواب بہتر لگ رہا ہے :) )
 

عباد اللہ

محفلین
سند کس بات کی ؟؟؟
اور کون دے سکتا ہے ؟؟؟
اپنے اپنے شعور کے مطابق حسب توفیق کہا اور سمجھا جا سکتا ہے ۔
باقی رہی بات کیفیت میں ڈھالنے کی تعریف کی تو ہماری ان کہی شاعری کے لفظی سانچے میں ڈھل کر ہی کیفیت بیان کرتی ہے نا ، آپ کے دل میں جھانک کر کوئی آپ کی کیفیت سمجھنے سے تو رہا ۔
مزید یہ کہ اس تعریف سے کسی کا متفق ہونا ہرگز مقصود نہیں ، کیا ضروری ہے کہ جو میں سمجھتی ہوں وہی باقی سب کی سمجھ بھی ہو ( کیونکہ میں جو سمجھتی ہوں اسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں ) اسی لئے وضاحت مجھے لاحاصل مشق لگتی ہے ۔
سلامت رہیے
( اس تفصیلی وضاحت سے اب پہلا جواب بہتر لگ رہا ہے :) )
سند طلب کرنا خواتین سے ( ہر چند کہ مرد بھی کم نہیں) ہمیشہ بھاری پڑا ہے :(
اور اس میں بھلا شک کی کیا گنجائش ہے کہ شعر بہترین تھا :)
اور فائینلی یہ کہ یہ جواب طلبی تھی ہی بےصرفہ ہم نے سوچا جواب کے بہانے اپنے ذہن کا فتور رفع کروالیں مگر شومئی قسمت یہ سہولت دستیاب ہی نہیں تھی :):)
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
آواز کلئیر نہیں آ رہی...
اس کا جواب دینے سے پہلے اتنا واضح کر دوں کہ میں نہ تو خواتین پر اتھارٹی ہوں اور نہ ہی شاعری پر۔
فیلڈز میڈل، ریاضی کی دنیا کا نوبیل پرائز یے۔ شاید سو ڈیڑھ سو سال سے دیا جا رہا ہے اور ابھی تک صرف ایک خاتون کو دیا گیا ہے، سٹینفرڈ کی مریم مرزاخانی کو جن کا ابھی پچھلے دنوں انتقال ہوا ہے، خدا انھیں غریق رحمت میں جگہ دے۔ تو یہ کافی بحث چلتی رہتی ہے کہ ریاضی میں خواتین آگے کیوں نہیں آتیں لیکن میری رائے میں اس کی وجہ یہی ہے کہ خواتین خود اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتیں اور پھر دوسرے لوگ بھی نہیں سمجھتے۔ جو اکا دکا آتی ہیں تو پھر اس طبقے میں ہر ایک کو تو فیلڈز ٹیورنگ نہیں مل سکتے۔
اگر آپ یہ کہتی ہیں کہ غالب اقبال کے برابر ہم کسی اردو کی خاتون شاعر کو کیوں نہیں سمجھتے تو اس قامت کے تو آدمی بھی کتنے ہیں۔ پھر ہم خواتین اول تو پڑھتی نہیں ہیں، پھر لکھتی نہیں، پھر سر عام نہیں لاتیں اسے اور محنت تو اس پر کرتی نہیں۔ اقبال کی شاعرانہ صلاحیت آؤٹ اف دا ورلڈ قسم کی سہی مگر پی ایچ ڈی انھوں نے فلسفے میں کر رکھی تھی تو شعر میں گہرائی تو علم سے ہی آتی ہے۔
رہی بات خواتین کے پیرائے اور انداز اظہار کے مختلف ہونے کی تو یہ بھی کچھ شعوری ہے اور کچھ لاشعوری۔ کسی اچھے شاعر کا کلام اٹھا کر دیکھ لیں، اس سے شاعر کی صنف کا اندازہ نہیں ہوتا سوائے اکا دکا شعر کے اور ہونا بھی نہیں چاہیے کہ شاعری کی اپیل، عالمی ہوتی ہے، اگر اس سے شاعر کا رنگ قد طبقہ عہد جھلکے تو کچھ کمی ہے یعنی۔ ہاں یہ میں نہیں کہتی کہ خواتین بھی عہد رفتہ کی طرح میں کرتا ہوں میں جاتا ہوں کہنے لگیں، وہ کافی بیک ورڈ ہو جاتا ہے۔
کسی نے کہا کہ نثر شاعری سے آسان ہے، اس سے اختلاف کروں گی میں۔ یہ بات کچھ حلقوں کے لیے درست ہو شاید کہ وہاں ہمارے لکھے پر اتنا اعتراض نہیں ہوتا اور اس کا مجھے ڈر بھی رہتا ہے۔ ڈسکلیمر شامل کرتی چلوں کہ میں نہیں سمجھتی کہ یہاں ایسا ہوتا ہے اور مجھے تو ذاتی طور پر ہمیشہ تنقیدی رائے ہی پسند آتی ہے کیونکہ اس سے اپنے آپ کو پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔
ایک سے پیرائے کا ذکر کیا تو میں نہیں سمجھتی کہ کوئی خاتون جان بوجھ کر صرف کسی خاتون کی ہی پیروی کرتی ہوں گی۔
اظہار رائے پر پابندی بھی کوئی کتنی لگا لے گا۔ ہاں اردو کے منظرنامے میں اس لیے بھی اتنا زیادہ سکیو ہے کہ یہاں کی تہذیب میں عام خواتین کے برسر عام بولنے کا رواج نہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ میر کی صاحبزادی شعر کہتی تھیں مگر انھوں نے شاید تذکرہ نکات الشعرا میں ذکر نہیں کیا ان کا۔
انداز بیان کے بارے میں ایک بات کہوں گی اور صرف شاعر کے نکتہ نگاہ سے۔ انسان عام طور پر وہی شعر کہتا ہے جو اس کے سامعین کی سمجھ میں آئیں۔ غالب کی بات اور ہے ورنہ میرے جیسے عام لوگ تبدیل کر ہی لیتے ہیں اپنا پیرایہ وقت کے ساتھ ساتھ کہ جی تنگ ہونے لگتا ہے خود ہی اپنے شعر پڑھ کر۔
یہ ایک پریکٹیکل مسئلہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور لوگوں کو عموما برتن دھلوانے ہوتے ہیں اہنے گھر کے۔
پڑھنے اور لکھنے میں بہت حد تک راست تناسب ہے اور میرے خیال میں ہمارا نہ پڑھنا ہی اصل سبب ہے۔
خلاصہ اس تقریر کا یہ کہ کون کیا ہے اور کیا نہیں سے بے نیاز ہو کر جو جی میں آئے، لکھیے۔
 
Top