اردوزبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ / نئے الفاظ کی تشکیل

arifkarim

معطل
تمام احباب سے گزارش ہے کہ کوئی ایسا سلسلہ شروع کیا جائے کہ انگلش یا کس دیگر زبانوں کے الفاظ کو اردہ کا جامہ پہنایا جائے

جامہ پہنانا تو مشکل ہے، ہاں البتہ اگر پاجامہ پہنانا ہے تو اپنا خالہ جی کا اردو وکی پیڈیا حاضر خدمت ہے :)
http://en.wikipedia.org/wiki/Portal:Urdu
 

arifkarim

معطل
یا حکومتیں لغات اور فرہنگیں شائع کرتی ہیں۔ پاکستانی حکومت کو ایسی کوئی توقیق میرے ہوش سنبھالنے کے دوران نہیں ہوئی۔

یہاں کافر یہود و نصاریٰ جیسے ممالک میں باقائدہ حکومتی سطح پر اسکام کیلئے الگ حکومتی ادارے بنائے گئے ہیں جو رواں سال نئے متعارف ہونے والی اصطلاحات کو اپنی اپنی قومی زبانوں کا سرکاری طور اجراء کرتے رہتے ہیں تاکہ بحیثیت قوم "درست" اصطلاحات کو مستقبل میں اپنایا جا سکے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Language_Council_of_Norway
http://en.wikipedia.org/wiki/Academy_of_the_Hebrew_Language


ویسے تو یہاں پاکستان میں بھی اس قسم کے حکومتی ادارے موجود ہیں جیسے ادارہ فروغ قومی زبان ، مرکز فضیلت اردو،مقتدرہ قومی زبان وغیرہ موجود ہیں لیکن انکا مقصد فروغ اردو نہیں بلکہ فروغ ذاتی آمدن ہوتا ہے:
http://nlpd.gov.pk/
 
آخری تدوین:
زبان کے بارے میں ہم آپ کو پریشان ہونے کی حاجت نہیں۔ ہمیں بس شخصی سطح پر اس کی درستگی مطلوب ہونا چاہیے۔ زبان اگر بھاڑے کے الفاظ سے مطلب رسانی بطورِ احسن کر جاتی ہے، تو مقصد پورا ہوا زبان کا۔ اور اگر مطلب رسانی میں کامیاب نہیں ہوتی، تو خود بخود بہ مرورِ زمان، دوسرے الفاظ ان لفظوں کی جگہ لے لیں گے، اور بالفرض اتنی مردہ زبان ہے کہ اس میں الفاظ جائے گزین نہیں ہوتے، تو پھر جنابِ من، ایسی زبان کو تو یوں ہی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔
 
یہاں کافر یہود و نصاریٰ جیسے ممالک میں باقائدہ حکومتی سطح پر اسکام کیلئے الگ حکومتی ادارے بنائے گئے ہیں جو رواں سال نئے متعارف ہونے والی اصطلاحات کو اپنی اپنی قومی زبانوں کا سرکاری طور اجراء کرتے رہتے ہیں تاکہ بحیثیت قوم "درست" اصطلاحات کو مستقبل میں اپنایا جا سکے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Language_Council_of_Norway
http://en.wikipedia.org/wiki/Academy_of_the_Hebrew_Language


ویسے تو یہاں پاکستان میں بھی اس قسم کے حکومتی ادارے موجود ہیں جیسے ادارہ فروغ قومی زبان ، مرکز فضیلت اردو،مقتدرہ قومی زبان وغیرہ موجود ہیں لیکن انکا مقصد فروغ اردو نہیں بلکہ فروغ ذاتی آمدن ہوتا ہے:
http://nlpd.gov.pk/
بھائی جان ، لگتا ہے آپ بہت جلے بھنے بیٹھے ہو، بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی - لیکن ۔۔ میں بروں سے لاکھ برا سہی میرا اس سے ہے واسطہ (بطور مسلم بات کر رہا ہوں) عالم کفر جو بھی کر لے ، اخلاقیات کی جس بلندی کو پا لے اللہ اس کوصرف اس عالم فانی میں دنیا میں بلندی دے گا آخرت میں ذلت و رسوائی اس کا ھمیشگی مقدر، مسلم اگر اللہ کی نافرمانی کرے تو ذلیل و رسوا ، جو آجکل ہے اور آخرت میں بھی اپنی سزا کے بعد ابدی جنت
آ پ کی معلومات کا بہت بہت شکریہ اور معذرت خواہ ہوں تھوڑا جذباتی ہو گیا تھا
 
زبان کے بارے میں ہم آپ کو پریشان ہونے کی حاجت نہیں۔ ہمیں بس شخصی سطح پر اس کی درستگی مطلوب ہونا چاہیے۔ زبان اگر بھاڑے کے الفاظ سے مطلب رسانی بطورِ احسن کر جاتی ہے، تو مقصد پورا ہوا زبان کا۔ اور اگر مطلب رسانی میں کامیاب نہیں ہوتی، تو خود بخود بہ مرورِ زمان، دوسرے الفاظ ان لفظوں کی جگہ لے لیں گے، اور بالفرض اتنی مردہ زبان ہے کہ اس میں الفاظ جائے گزین نہیں ہوتے، تو پھر جنابِ من، ایسی زبان کو تو یوں ہی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔
آپکی زباندانی اور فہم بہت اعلی ،خوشی ہوئی آپ کی بات سن کر- پہلے جواب پر تومضطرب تھا کہ آپ نے بے مقصد کہہ دیا،لیکن آپ کا پہلے فقرہ سے اختلاف ہے کہ ھماری زبان ہے تو تھوڑی پریشانی تو ہو گی
 
نئے الفاظ بنانے کو ہم ترجمے کی زبان میں اصطلاح سازی کہتے ہیں۔ اس کے لیے یا تو مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں مترجم ہائر کرتی ہیں تاکہ ان کی مصنوعات کا ترجمہ ہو سکے۔
یا حکومتیں لغات اور فرہنگیں شائع کرتی ہیں۔ پاکستانی حکومت کو ایسی کوئی توقیق میرے ہوش سنبھالنے کے دوران نہیں ہوئی۔
عوام میں الفاظ فروغ پا جاتے ہیں۔ یا تو وہ بگڑی ہوئی شکل ہوتے ہیں یا زبان میں نئی تخلیق یا پھر مستعار شدہ۔
اس سلسلے کا مقصد اگر ایسے الفاظ تخلیق کرنا ہے تو بے مقصد کام ہے۔ اردو وکی پیڈیا پر تشریف لے جائیں وہاں ایسی مردہ اصطلاحات کا ایک بڑا میانی صاحب وجود میں آ چکا ہے۔
اگر اس کا مقصد ایسے مستعمل الفاظ کو اکٹھا کرنا ہے تو بسم اللہ کریں۔ مجھے فی الوقت ایسا کوئی لفظ یاد نہیں آ رہا جو انگریزی کے کسی تصور کا اردو یا مقامی ترجمہ ہو اور عوام میں قبولیت پا چکا ہو۔
معلومات کا شکریہ آپ تو واقعی دوست بھائی ہیں
 
آپکی زباندانی اور فہم بہت اعلی ،خوشی ہوئی آپ کی بات سن کر- پہلے جواب پر تومضطرب تھا کہ آپ نے بے مقصد کہہ دیا،لیکن آپ کا پہلے فقرہ سے اختلاف ہے کہ ھماری زبان ہے تو تھوڑی پریشانی تو ہو گی
مرے بے مقصد کہنے کی بعد میں دیگر احباب نے وکالت کر لی ہے۔ :)
 
آ پ ذرا غور سے اس کو پڑھ لیں از راہ کرم ربط پھر بات ہو گی
جناب یہ تو مدعا سے ہٹا ہوا ربط ہے۔ اس کالم میں بات کی گئی ہے تعلیمی زبان کی، صحیح اور غلط پر نہیں جاتا۔ آپ بات کر رہے تھے اصطلاح سازی کی تو جناب جب حضرت غالب گلاس کو گلاس لکھ سکتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اسے "لیوان" کہنے والے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
آ پ ذرا غور سے اس کو پڑھ لیں از راہ کرم ربط پھر بات ہو گی
دخل در معقولات کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن ربط سے چند سوالات ذہن میں آئے
1۔ جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے افراد کو امریکہ یا دیگر ممالک بھیج کر غیر ملکی زبان میں تعلیم دلائی، اس کے بعد ان کی ترقی کا عمل شروع ہوا
2۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، وہاں کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں پوری دنیا سے سٹوڈنٹ آن کر غیر ملکی زبان میں تعلیم پاتے ہیں اور پھر ان کی ایک معقول تعداد اسی معاشرے کی ترقی کے لئے وہیں رہ جاتی ہے
3۔ بچپن سے حدیث سنتے آ رہے ہیں کہ علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، یعنی تحصیل علم کے لئے زبان و مکان کی قید بھی نہیں
4۔ اگر دینی علم کا منبع قرآن و حدیث کو مان لیتے ہیں تو پھر توہ بھی تو عربی میں ہیں؟ ہماری مادری زبان میں تو نہیں۔ پھر بھی ہمیں نماز وغیرہ عربی میں ہی پڑھنی ہوتی ہے
5۔ اوریا مقبول جان نے خود تعلیم اپنی مادری زبان سے ہٹ کر حاصل کی ہے، اس سے ان کی ترقی پر کوئی فرق نہیں پڑا
 
دخل در معقولات کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن ربط سے چند سوالات ذہن میں آئے
1۔ جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے افراد کو امریکہ یا دیگر ممالک بھیج کر غیر ملکی زبان میں تعلیم دلائی، اس کے بعد ان کی ترقی کا عمل شروع ہوا
2۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، وہاں کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں پوری دنیا سے سٹوڈنٹ آن کر غیر ملکی زبان میں تعلیم پاتے ہیں اور پھر ان کی ایک معقول تعداد اسی معاشرے کی ترقی کے لئے وہیں رہ جاتی ہے
3۔ بچپن سے حدیث سنتے آ رہے ہیں کہ علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، یعنی تحصیل علم کے لئے زبان و مکان کی قید بھی نہیں
4۔ اگر دینی علم کا منبع قرآن و حدیث کو مان لیتے ہیں تو پھر توہ بھی تو عربی میں ہیں؟ ہماری مادری زبان میں تو نہیں۔ پھر بھی ہمیں نماز وغیرہ عربی میں ہی پڑھنی ہوتی ہے
5۔ اوریا مقبول جان نے خود تعلیم اپنی مادری زبان سے ہٹ کر حاصل کی ہے، اس سے ان کی ترقی پر کوئی فرق نہیں پڑا
آپ نے تو مشکل میں ڈال دیا ہے سوچنے والی بات ہے اپنے ناقص علم سے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں -
نقطہ وار کی بجائے مجموعی جواب دے رہا ہوں -جو میں سمجھا ہوں - کچھ دن معلم کے فرائض بھی انجام دیے ہیں تو پھر ھمیشہ کے طالب علم بھی ہیں تو بات کو حتمی نہ لیجیے گا کیونکہ قرآن و سنت کی بات ہی حتمی ہے جو ہمارے سر آنکھوں پہ
بات اجمالی طور پر قوم کی تدریس کی ہے نہ کہ کچھ افراد کی، استثنا تو ہوتا ہی ہے
صرف اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات ہے کہ انگلش / عربی وغیرہ کے علاوہ باقی علوم اردو میں ہونے چاھیں
یہاں نماز کا وقت ہے با قی پھر کسی وقت
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ نے تو مشکل میں ڈال دیا ہے سوچنے والی بات ہے اپنے ناقص علم سے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں -
نقطہ وار کی بجائے مجموعی جواب دے رہا ہوں -جو میں سمجھا ہوں - کچھ دن معلم کے فرائض بھی انجام دیے ہیں تو پھر ھمیشہ کے طالب علم بھی ہیں تو بات کو حتمی نہ لیجیے گا کیونکہ قرآن و سنت کی بات ہی حتمی ہے جو ہمارے سر آنکھوں پہ
بات اجمالی طور پر قوم کی تدریس کی ہے نہ کہ کچھ افراد کی، استثنا تو ہوتا ہی ہے
صرف اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بات ہے کہ انگلش / عربی وغیرہ کے علاوہ باقی علوم اردو میں ہونے چاھیں
یہاں نماز کا وقت ہے با قی پھر کسی وقت
کیا اس بات کو میں اس طرح بیان کر سکتا ہوں کہ:
اگر ایک ہی علم مادری اور غیر ملکی/غیر مادری زبان میں مل رہا ہو تو مادری زبان کو ترجیح دینی چاہئے۔ لیکن اگر مادری زبان میں علم ہی نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو تو پھر دوسری زبان کے علم سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم یہ امر مستحسن ہے کہ اپنی زبان میں علم کو ترقی دینے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے تاکہ مستقبل میں مادری زبان میں بھی اسی معیار کا علم مل سکے جو آج غیر زبان سے ملتا ہے
 

arifkarim

معطل
لیکن اگر مادری زبان میں علم ہی نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو تو پھر دوسری زبان کے علم سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔

یہاں بات حرج کی نہیں مجبوری کی ہے۔ یہ گرافک دیکھیں:
scilang630.png

اسکے مطابق 1960 تک بین الاقوامی سائنس کی زبان نوبل انعامات کے حساب سے جرمن تھی۔ لیکن اسکے بعد انگریزی زبان کی تعداد بڑھتی گئی جسکے بعد آج انگریزی زبان جدید سائنس کی عالمی زبان بن کر سامنے آگئی ہے:
http://www.idsia.ch/~juergen/scilang.html

اسکی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی دس بہترین یونیورسٹیز میں تعلیم انگریزی زبان میں ہوتی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/QS_World_University_Rankings#Major_rankings
 
کیا اس بات کو میں اس طرح بیان کر سکتا ہوں کہ:
اگر ایک ہی علم مادری اور غیر ملکی/غیر مادری زبان میں مل رہا ہو تو مادری زبان کو ترجیح دینی چاہئے۔ لیکن اگر مادری زبان میں علم ہی نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو تو پھر دوسری زبان کے علم سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم یہ امر مستحسن ہے کہ اپنی زبان میں علم کو ترقی دینے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے تاکہ مستقبل میں مادری زبان میں بھی اسی معیار کا علم مل سکے جو آج غیر زبان سے ملتا ہے
آجکل انگلش ہی علوم کی زبان ہے تو علم کواردو میں منتقل ہونا چاہیے آپ بہتر جانتے ہو کہ ہر یورپی ملک جاپان چین ، اپنی زبان ہی کو ذریعہ تعلیم بناتا ہے
 
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
 
بھئی یہ بحث کہاں کی کہاں پہنچ رہی ہے۔ اگر بات یہ ہے کہ علوم کو اردو میں منتقل کرنا ہے تو صد بسم اللہ۔ کون مانع ہوتا ہے صاحب؟!
لیکن اس کا لائحۂ عمل تیار کرنا، شاعروں، ادیبوں استادوں کا کام نہیں، سیاست مداروں کا ہے۔
اور اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ترکیب سازی، لفظ گری یا اصطلاح گھڑنے سے اس مد میں کوئی پیش رفت ہوگی تو جناب من، ایسا ہرگز نہیں۔
 

آصف اثر

معطل
یہاں بات حرج کی نہیں مجبوری کی ہے۔ یہ گرافک دیکھیں:
scilang630.png

اسکے مطابق 1960 تک بین الاقوامی سائنس کی زبان نوبل انعامات کے حساب سے جرمن تھی۔ لیکن اسکے بعد انگریزی زبان کی تعداد بڑھتی گئی جسکے بعد آج انگریزی زبان جدید سائنس کی عالمی زبان بن کر سامنے آگئی ہے:
http://www.idsia.ch/~juergen/scilang.html

اسکی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی دس بہترین یونیورسٹیز میں تعلیم انگریزی زبان میں ہوتی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/QS_World_University_Rankings#Major_rankings
بھائی خدارا اب یہ اوٹ پٹانگ لنکس دینا روک دیں۔
آپ آدھی معلومات حاصل کرکے سب کو گمرا ہ کررہے ہیں۔۔۔ 1960 تک بین الاقوامی سائنس کی زبان نوبل انعامات کے حساب سے جرمن تھی مگر بعد میں انگریزی زبان کی تعداد بڑھتی گئی۔۔ جسکے بعد آج انگریزی زبان جدید سائنس کی عالمی زبان بن کر سامنے آگئی ہ۔ تو اس کی وجہ بھی آپ کو معلوم ہونی چاہیے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کو شکستِ فاش ہوئی تو وہاں کے بیشتر ماہرین کو قتل کردیا گیا۔ جو بچ گیے انہوں نے کچھ عرصے بعد جرمن مخالف ممالک خصوصاً امریکہ کا رُخ کیا۔ دوسری جنگ عظیم تک دو زبانوں میں سائنسی نام اور مقالے پیش کیے جاتے تھے۔ جرمن اور انگریزی۔ لیکن جیسی ہی جرمن حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ سارے کا سارا منظر نامہ بدل گیا۔ جیسا کے اُصول ہے پورے کا پورا فائدہ انگریزی کے پلڑے میں گِرا۔ امریکی اور یورپی عیسائی و یہودی انتہا پسند بھی یہی چاہتے تھے۔ اب ظاہر ہے جب اس وقت کے انگریز اور امریکی سائنسدانوں کے ساتھ وہ ماہرین بھی مِل گیے جو اس سے پہلے جرمنی میں اپنی تحقیقات پیش کرتے تھے تو سب کچھ انگریزی میں آنا شروع ہوا۔ نہ کے سائنسدان انگریزی زبان سے متاثر ہوکر جوق در جوق اس کو اپنانے لگے۔ جس کی حکومت اس کا سِکّہ۔
آئندہ کے لیے اپنی ہم نوا تحاریر کا ربط دینے سے پہلے دیگر مختلف الرائے حقائق کے کڑوے گھونٹ بھی ذرا پی لیا کرے۔
 

arifkarim

معطل
تو اس کی وجہ بھی آپ کو معلوم ہونی چاہیے۔
ہاہاہا۔ اسکی وجہ مجھے معلوم ہے۔ جرمنی کی دوسری جنگ عظیم میں عبرت ناک شکست! شکست کے بعد انکے آدھے سے زائد جرمن دماغ امریکہ لے گیا۔ باقیوں کو روسیوں نے ہتھیا لیا۔ یوں مفتوح قوم نے فاتح قوم کیلئے کام کرکے اسکو چاند تک پہنچا دیا۔ یہ وہ چوٹی کے جرمن راکٹ سائنسدان ہیں جنہیں امریکہ دوسری جنگ عظیم میں فتح کے بعد مال غنیمت کے طور پر اپنے ساتھ لے اڑا:
Project_Paperclip_Team_at_Fort_Bliss.jpg

http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Paperclip
 

آصف اثر

معطل
ہاہاہا۔ اسکی وجہ مجھے معلوم ہے۔ جرمنی کی دوسری جنگ عظیم میں عبرت ناک شکست! شکست کے بعد انکے آدھے سے زائد جرمن دماغ امریکہ لے گیا۔ باقیوں کو روسیوں نے ہتھیا لیا۔ یوں مفتوح قوم نے فاتح قوم کیلئے کام کرکے اسکو چاند تک پہنچا دیا۔ یہ وہ چوٹی کے جرمن راکٹ سائنسدان ہیں جنہیں امریکہ دوسری جنگ عظیم میں فتح کے بعد مال غنیمت کے طور پر اپنے ساتھ لے اڑا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Paperclip
تعجب ہے۔ میں بات انگریزی اور جرمنی کی ٹکراؤ کی کررہا ہوں۔ اور آپ دوسروں کے مالِ غنیمت پر خوش ہورہے ہیں۔ کتنی مضحکہ خیز ہے انگریزی کی ترقی۔ زبردستی، دھونس دھمکی، اور منافقت سے پُر قومیں جتنی بھی نام نہاد ترقی کرلے یہ ترقی نہیں کہلاسکتی۔
 
Top