اداسی سے غصے تک

ساجد

محفلین
دسمبر کا مہینہ ہے ، دن چھوٹے اور راتیں لمبی ۔ میں اس فلسفے سے متفق ہوں کہ سردی کا موسم اداسی کا موسم ہوتا ہے اور اداسی سے چھٹکارا پانے کے لئیے ٹی وی یا پھر انٹر نیٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ جی میں آیا کہ کرید لگائی جائے کہ اس اداسی کا سبب کیا ہے۔ مختلف طبی سائٹس کا دورہ کیا ، کچھ کتابیں بھی کھنگالیں تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اداسی کی کیفیت دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ آپ کے لاشعور میں بسے احساس محرومی کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہے اور سردی کی لمبی اور خاموش راتیں اس احساس کو بڑھاوا دے دیتی ہیں۔ ایک لمحے میں اس تحقیق سے متفق ہو گیا کہ 16 دسمبر کے دن ہی ا س تحقیق کا مطالعہ کر رہا تھا اور یہ دن ہمارے قومی احساس محرومی کو مہمیز دیتا ہے۔ ہم نے اس دن وہ کھو دیا تھا جس نے ہمیں پہچان دی تھی۔ قائداعظم کی مسلم لیگ کی جائے پیدائش اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے مجاہدین کی جنم بھومی ہم سے ناطہ توڑ گئی تھی۔ اداسی کا سبب اور اس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش میں مزید اداسی کا شکار ہو گیا۔ ماضی کی غلطیوں اور حال کی بد اعمالیوں کا موازنہ کیا تو ادسی کی کیفیت غصے میں بدلنے لگی تو نے کمپیوٹر بند کر دیا۔
کل پھر سے تحریک پیدا ہوئی کہ غصے پر بھی کوئی تحقیق پڑھنا چاہیے۔ نفسیاتی ماہرین کی خشک تحریریں پڑھتے پڑھتے جب دماغ تھک گیا تو سمجھ میں آیا کی غصہ کی کیفیت دیگر عوامل کے علاوہ احساس کمتری اور برتری دونوں میں زیادہ حملہ آور ہوتی ہے۔تحقیق کے مطابق احساس کمتری کی وجہ سے جو غصہ آتا ہےاس کا نقصان عام طور پر غصہ کرنے والے فرد تک محدود رہتا ہے۔ اسی حالت میں اس فرد کے دماغی خلیات میں جو اضطراب پیدا ہوتا ہے وہ اس کی دماغی صلاحیت پر مستقل منفی اثر ڈالتا ہے اور ایسے لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق غصے کی جو قسم احساس برتری سے تعلق رکھتی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس کیفیت میں فرد آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ برتری کے گھمنڈ میں دوسروں سے گالی گلوچ کرنے اور تشدد کرنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔ اس کی دماغی صلاحیتیں منفی کاموں میں استعمال ہونے لگتی ہیں۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر اس کا مدعا ڈال کر مزید غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے افراد مالیخولیا (ایک قسم کا پاگل پن) کا شکار ہونے کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق یہ مرض ایک عارضی کیفیت سے شروع ہوتا ہے لیکن بتدریج ایک پیچیدہ نفسیاتی مسئلے کا روپ دھار لیتا ہے۔
بشریات اور نفسیات کے ماہرین کی ملی جلی تحقیقات بہت معلومات افزا اور دلچسپ تھیں کہ سامنے پڑے ٹیلیویژن پہ خبروں کا بلیٹن چلنے لگا اور مجھے ایک خبر کی ضمنی تفصیل سن کر ان تحقیق کاروں کی علمی قابلیت کا ایک ناقابل تردید ثبوت مل گیا ۔ میں نے نیٹ پر وہ خبر تلاش کی اور اب آپ بھی اسے دیکھئیے اور جانئیے کہ غصہ کس طرح سے ایک نفسیاتی بیماری میں تبدیل ہو تا ہے۔
 
بہت خوب ساجد بھائی۔۔۔اس کاؤبوائے کا ردعمل اس پوری قوم کی نفسیات کی غمازی کرتا ہے۔۔انکی فلمیں دیکھ لیں وہاں بھی یہی نفسیات کارفرما ہے۔۔پھر تعجب یہ ہے کہ یہی لوگ پوری دنیا کے امن اور انسانیت وغیرہ وغیرہ کے ٹھیکیدار بھی کہلانا چاہتے ہیں۔۔۔اور بڑی معصومیت سے یہ گلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔"آخر لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟"
 
Top