اداروں کے مابین مذاکرات ،اسٹیبلشمنٹ کیا رائے رکھتی ہے؟

جاسم محمد

محفلین
اداروں کے مابین مذاکرات ،اسٹیبلشمنٹ کیا رائے رکھتی ہے؟
بدھ‬‮ 11 ‬‮نومبر‬‮ 2020 | 11:57

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روزنامہ جنگ میں سینئر صحافی انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ایک ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بات سے ناراض نہیں کہ جس خیال پر زیادہ بحث ہو رہی ہے اور جس کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اداروں کےمابین مذاکرات ہونا چاہئیں۔اگر ایسا ہوا تو اس سے تمام ادارے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں گے اور ایک ایسا روڈ میپ تیار کر سکیں گے جس سے پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا۔اس ذریعے کا اسٹیبلشمنٹ سے قریبی رابطہ ہے۔ اس ذریعے نے بتایا ہے کہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہے کہ تمام اداروں نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں لہذا سب کو ماضی سے سیکھنا چاہئے اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہئے تاکہ عوام اور ملک کی بہتری ہو۔تاہم، یہ واضح نہیں کہ اداروں کے مابین مذاکرات کیلئے شروعات کون کرے گا۔ آزاد مبصرین کی رائے ہے کہ یہ کام وزیراعظم عمران خان کو کرنا چاہئے جو یہ اقدام کریں لیکن وہ بدستور اپنے سیاسی مخالفین کی جانب جارحانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں حتی کہ قومی مفاد کے حامل معاملات پر بھی مذاکرات کیلئے ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔نواز شریف، جنہوں نے حال ہی میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف جارحانہ موقف اختیار کیا،نے کئی لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا اور ملک کی سیاسی صورتحال کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ نظام کیلئے خطرات پیدا ہوئے۔ لیکن وہ بھی با معنی مذاکرات کیلئے رضامند ہیں۔ تاہم، ان کی حالیہ ٹوئیٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا جارحانہ رویہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔پی ڈی ایم رہنمائوں میں سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بھی مذاکراتی عمل کا خیر مقدم کریں گے۔تاہم، مولانا فضل الرحمن کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حال ہی میں جے یو آئی ف کے سینئر رہنمائوں نے مذاکرات کے عمل کی مخالفت کی۔ اگر وزیراعظم عمران خان نے اپنی سوچ تبدیل نہ کی تو سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کی طرف سے ہی آئے گی۔
 

Ali Baba

محفلین
سب اپنے اپنے مفاد کے سگے ہیں اور بس:

بلاول کے دو بیانوں (بی بی سی کو انٹرویو اور کراچی تحقیقات پر چیف کا شکریہ) سے نون لیگ کے "بھاری بیانیے" سے اسی طرح ہوا نکل گئی ہے جس طرح "بھاری مینڈیٹ" سے کبھی نکلی تھی، اور باجی مریم نے بھی فی الفور بی بی سی کو انٹرویو دے کر فوج سے "بات چیت"کی حامی بھر لی ہے۔ سب کو اگلی باری کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ بیانیہ اور بیانیوں پر مرنے والے جائیں بھاڑ میں۔
 
Top