اختر ضیائی۔ ابتلائے بشر نہیں لکھتے۔

فرحت کیانی

لائبریرین
ابتلائے بشر نہیں لکھتے
جانتے ہیں مگر نہیں لکھتے

جوڑتے ہیں حروف کو باہم
پر ذرا سوچ کر نہیں لکھتے

خواہشوں کے سراب میں گُم ہیں
داستانِ سفر نہیں لکھتے

گھومتے ہیں گلی گلی لیکن
اکتسابِ نظر نہیں لکھتے

خود پریشاں ہیں اور دل و جاں کو
ڈستا رہتا ہے ڈر نہیں لکھتے

شہر ویرانیوں کا ڈیرہ ہے
کیوں اجڑتے ہیں گھر نہیں لکھتے

جن کو دہشت ہے کنجِ عافیت
کیا ہے اس کا اثر نہیں لکھتے

ایک مدت سے غم کے سوداگر
کوئی اچھی خبر نہیں لکھتے

رہ گزاروں میں روز مرتے ہیں
کس کے لختِ جگر نہیں لکھتے

پتھروں کو خدا سمجھتے ہیں
وصف لعل و گہر نہیں لکھتے

پھرتے رہتے ہیں بے اماں اختر
لوگ کیوں دربدر نہیں لکھتے

کلام: اختر ضیائی
 
Top