اختر شیرانی (شاعر رومان)

اختر شیرانی ”شاعر رومان“

داود خان اختر شیرانی (1905۔ 1948) کی شاعری شباب ، اس کے رومان اور اس کے حسین خوابوں اور دلکش یادوں کی شاعری ہے۔ ان کا کلام پڑھ کر یہ تاثر پیداہوتا ہے کہ عورت اس کا حسن اور اس کی محبت ہی کانام اس کے نزدیک زندگی ہے ۔ انہوں نے اردو شاعری کی تاریخ میں پہلی بار اپنی محبوبائوں کے نام لے کر کھلم کھلا اور بے دھڑک پر جوش جذبات محبت ادا کئے لیکن وہ ماورائی لطافت اور سرمستی کی جس طرح پرستش کرتے ہیں اس سے گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ کسی خاص محبوبہ کی ادائوں کا شکار ہونے سے زیادہ خود اپنی سرمستی و عشق پر فدا ہیں ۔وہ اس مادی و کثیف دنیا سے دور محبت کی اس دنیا میں پہنچ جانا چاہتے ہیں جہاں روزمرہ زندگی کی کثافتیں اور رکاوٹیں نہ ہوں ۔ کوئی آزار نہ ہو، نور ہو ، شراب ہو، نشہ ہو، رنگ و بو ہو، فطرت کاحسن ہو ، بہار ہو، پھول ہوں ، چاندنی ہو، فضامیں کیف و مستی کی طغیانی ہو اور محبت کرنے کی پوری آزادی ہو۔ اختر شیرانی کا عشق عفوان شباب کا عشق ہے جس میں جوش و جذبہ ہے، گرمی و شدت ہے، وجد و کیف ہے اور جسے زندگی صرف شراب و شعر اور نغمہ و نور سے عبارت نظر آتی ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں مایوسی و ناکامی ، حسرت و حرمان، پامالی و بربادی کے نقوش کم ہیں اور چاہنے اور چاہے جانے کی لذت زیادہ ہے لیکن ان کی عشقیہ سپردگی میں جسمانیت اور احتساسی کیف و سرور کے باوجود عریانی و پستی یا سوقیت و ابتذال نہیں۔
اختر شیرانی کی جنت یوں تو سلمیٰ ، یا ریحانہ یا عذرا کی آغوش میں ہے لیکن اس جنت کی تعمیر میں فطرت کا حسن و جمال بھی بڑا اہم عنصر ہے یوں بھی فطرت کی آغوش میں انہیں بڑا سکون ملتا ہے فطرت اور اس کے مناظر و مظاہر کے ساتھ ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے بادل، بہار، برسات اور چاندنی کے مناظر خاص طور پر انہیں متاثر کرتے ہیں ،چونکہ جس زمانے میں وہ شعر کہہ رہے تھے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی و معاشی بیداری کا دور تھا اس لئے بحیثیت ایک حساس شاعر کے وہ اپنے زمانے کے تحریکات اور رجحانات سے غیر متاثر نہ رہ سکے۔ اور آزادی ، انصاف مساوات اور ریا کاری و فرقہ واریت کے خاتمے کا مطالبہ بھی اپنی نظموں میں کرنے لگے اگر چہ اس مطالبے میں نہ وہ تیز ی وتندی ہے نہ زور و شدت جو جوش کے یہاں محسوس ہوتی۔

رومانیت:۔

رمانیت کے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں،
” میری سمجھ میں رومانیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسا اظہار اسلوب جس میں فکر کے بجائے تخیل پر زور دیا جائے اور اس کا جدھر بہائو ہو دریا کی طرح بہنے دیا جائے اس میں قاری بھی بہہ جاتا ہے۔“
اختر رومانی شاعر تھے لیکن تمام رومان پسند اپنے شخصی میلانات کی وجہ سے ایک ہی دائرے میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کوئی شفق کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے کوئی فطرت کی محبت میں گم ہو جاتا ہے کوئی انسانی حسن کے بغیر کائنات کو نامکمل سمجھتا ہے اور کوئی اپنی محبوبہ کے جسم کو اس طرح چھوُنا چاہتا ہے۔ جیسے رنگ و بو کی لہروں کو نسیم ِ صبح کے جھونکے چھوتے ہیں غرضیکہ ہر شخص کسی نہ کسی طرح اپنی روح کو تسکین دینا چاہتا ہے اور نئی راہوں پر چل کر اپنی دنیا بناتا ہے۔ یہی چیز کسی کو ورڈزورتھ ، کسی کو شیلے کسی کو کیٹس اور اسی رومانی انداز نظر سے روسو کے نقطہ نظر میں محسوس ہوتی ہے یہ سب رومانی ہیں ایک دوسرے سے مختلف بھی پھر بھی ایک دوسرے سے اتنا دور نہیں ان سب میں کئی باتیں مشترک ہیں جمود کو توڑنا تخیل کی مدد سے ایک دنیا تعمیر کرنا ، نئی دنیا کی جستجو ، بھر ی بہار ، محبوبہ کی آغوش مسرتوں کی گو د میں مرجانے کی آرزو ، یہ خواہشیں نت نئے رنگ میں ہر رومانی کے یہاں ملتی ہیں ۔ اختر کے یہاں بھی یہ تمام اجزاءبھر پور انداز میں ملتے ہیں ۔ مگر ان کے شعور کا سماجی اور سیاسی پس منظر دوسرے بہت سے شعراءسے مختلف ہے اس لئے ان کے محرکات ِ شاعری اور تخیل کے اجزائے ترکیبی دوسروں سے جد ا ہیں ۔ انہوں نے اپنے تخیل سے حسن و شباب ، سرخوشی و خود فراموشی اور امن و سکون کی ایک نئی دنیا تخلیق کی ہے۔ ان کے گیتوں میں رس ہے ان کے نغموں سے مخصوص نغماتی فضا پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اس میں ڈوب کر محبت کے گیت گانے لگتے ہیں

محبت کے لئے آیا ہوں میں دنیا کی محفل میں
محبت خون بن کر لہلہاتی ہے مرے دل میں
محبت ابتداءمیری محبت انتہا میری
محبت سے عبارت ہے بقا میری فنا میری
محبت ہی مرے نزدیک معراج ِ عبادت ہے
محبت ہی مرے نزدیک سرتاجِ عباد ت ہے

نیر واسطی اختر شیرانی کی رومانیت کے متعلق یوں رقم طراز ہیں ،
” مشرق میں رومانی شاعری کے تین پیغمبر آئے ہیں ایک امراالقیس دوسرا حافظ شیرازی اور تیسرا اختر شیرانی جس کی زبان حافظ کی تھی اور تخیل امراالقیس کا ۔“
حسن پرستی ان کا شعار ہے ان کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے ایک جگہ خود کہتے ہیں ،

ادب سے جا کے کہنا اے صبا اس شوخ پر فن سے
کہ روماں اور محبت ، مشغلہ ہے میرا بچپن سے

اختر کی شاعری:۔

اختر شیرانی محبت و عشق کے نشہ میں سرشار چناروں کے جانفزاءچھائوں میں حسن و عشق کے علاوہ بہاروں اور نظاروں کے گیت گاتے نظر آتے ہیں ان کے نغموں میں زندگی، جوش ، حسن، سوز ،تڑپ ، روانی، ترنم ، شباب ، مسرت، محبت و الفت اور ہیجان خیز کیفیات ہیں ۔ یہ نغمے اُن کی روح کی اتھاہ گہرائیوں میں جنم لیتے ہیں اور خونِ جگر سے پرورش پاتے ہیں ۔اسی سبب اُن کے کلام میں وہ تمام شعری محاسن بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ جو اعلیٰ و عمدہ شاعری کا طرئہ امتیاز ہوتے ہیں اُن کی شاعری میں دراصل سنہرے خوابوں کے دلکش نغمات ہیں جن میں شعریت کے علاوہ موسیقیت غائیت درجے تک موجود ہے اسی غنائیت ، موسیقیت ، نغمگی اور شعریت کے حسین و جمیل امتزاج کا نام اختر شیرانی کی شاعری ہے۔

جہاں رنگیں بہشتیں کھیلتی ہیں سبزہ زاروں میں
جہاں حوروں کی زلفیں جھومتی ہیں شاخساروں میں
جہاں پریوں کے نغمے گونجتے ہیں کوہساروں میں
جوانی کی بہاریں تیرتی ہیں آبشاروں میں
مری سلمیٰ مجھے لے چل تو اُن رنگیں بہاروں میں!

اختر کا تصور عشق:۔

اختر کے تخیل کا رہنما عشق ہے وہ اس کی مدد اور رہبری میں محبت کی اس دنیا میں پہنچ جانا چاہتے جہاں دنیا کی کثافتیں اور نا آسودگیاں ان کا دامن نہ چھو سکیں وہ جگہ ایسی ہو جہاں انسان نہ بستی ہوں جو نور اور طور کی وادی ہو۔ اختر کا عشق افلاطونی اور جنسی محبت دنوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے ۔لیکن اس کی معراج تخیلی محبت ہے جب دنیا اور سماج ان کے عشق کے راستے میں حائل ہوتے ہیں تو اپنی محبوبہ کو لے کر کسی اور دنیا میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں انہیں محبت کی آزادی ہو ان کے یہاں گجرات کی خوبصورت حور سلمیٰ، حسین غزالوں کی طرح وادیوں میں گلگشت کرنے والی ریحانہ اور مرمر یں جسم رکھنے والی عذرا کا ذکر والہانہ انداز میں بار بار آتا ہے۔ اب یہ سوال پیداہوتا کہ آیا یہ سب الگ الگ ہستیاں ہیں یا ایک ہی ہیں اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصل محبوب وہ ہے جس کو ایک بار دیکھا تھا اور دوسری جھلک دیکھنے کی تمنا باقی ہے کہیں کہیں یہ حسین پیکر خیال و خواب بن کر اس کو اُفق کے اس پار سے اپنے پاس بلاتے ہیں ۔

اے عشق ہمیں لے چل اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں اک طور کی وادی میں
حوروں کے خیالات ِ مسرور کی دنیا میں
تا خلد بریں لے چل!
اے عشق کہیں لے چل!

مگر مری نگہ شوق کو شکایت ہے
کہ اُس نے تم کو فقط ایک بار دیکھا ہے
دکھا دو ایک جھلک اور بس نگاہوں کو
دوبارہ دیکھنے کی ہے ہوس نگاہوں میں

ڈاکٹر یونس یوں رقمطراز ہیں
” جہاں تک ان کے عشق کا تعلق ہے وہ حقیقتاً بڑا حجاب آلود ہے اظہار کی جرات میں بھی کئی دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب کرتے بھی ہیں تو ان سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں،

کیا غضب ہے کہ غم ہجر سنا بھی نہ سکیں
سینے کازخم دکھاتے تو دکھا بھی نہ سکیں

سلمیٰ سے عشق:۔

پروفیسر سید وقار عظیم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ،
” جب اختر شیرانی کا ذکر چھیڑتا ہے تو بات گھوم کر سلمیٰ کی گھنی زلفوں اور شبنمی عارضوں پر جا کر ٹھہرتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سارا سکون ان کی زلفوں کے سائے میں اور زندگی کی تمام تر خوشیاں ان کی عارضوں کی ہم نشینی میں ہے۔“
اختر شیرانی کی رومانی شاعری کا مدار سلمیٰ کے گرد گھومتا ہے بعض نقاد اس نام کو فرضی جانتے ہیں اختر کو اس سے عشق ہوگیا تھا اور باقاعدہ ملتا تھا سلمیٰ کی تصویر کو دیکھ کر انہوں نے یہ سانیٹ لکھا۔

تو از سرتا بہ پا اک نکہت و تنویر ہے سلمیٰ!
شراب وشعر و موسیقی میں پنہاں تیری رنگت ہے
میری خاموش دل میں موجزن تیری محبت ہے

ایک اور جہ سلمیٰ کے متعلق لکھتے ہے

وہ روتی ہے تو ساری کائنات آنسو بہاتی ہے
وہ ہنستی ہے تو فطرت بے خودی سے مسکراتی ہے
وہ سوتی ہے تو ساتوں آسماں کو نیند آتی ہے
وہ اُٹھتی ہے تو کل خوابیدہ دنیا کو اُٹھاتی ہے

سلمیٰ سے اُسے پاکیزہ محبت تھی اس لئے وہ کہتے ہیں ،

قسم اُس پاکبازی کی جو تھی باہم خیالوں میں
قسم اُس بے نیازی کی جو تھی باہم سوالوں میں

سلمیٰ کی کسی اور سے شادی ایک ایسا عظیم سانحہ تھا جس نے اختر کی بقیہ زندگی کو سلمیٰ کی یادگار بنا دیا۔

اگر مجھے نہ ملیں تم تمہارے سرکی قسم
میں اپنی ساری جوانی تباہ کر لوں گا
جو تم سے کردیا محروم آسمان نے مجھے
میں اپنی زندگی صرف گناہ کر لوں گا

اختر کی پوری فضاءمیں سلمیٰ کے جسم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ان کا شعری مجموعہ ”صبح بہار“ میں ایک دیہاتی گیت ”بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہا ہوں “ میں ہر بند سے سلمیٰ کے سے ان کی دل کی گہرائیوں سے کیا ہوا عشق کا مظہر ہے۔

اس شمع رو کا جب سے پروانہ بن گیا ہوں
بستی کی لڑکیوں میں افسانہ بن گیا ہوں
ہر ماہ وش کے لب کا پیمانہ بن گیا ہوں
دیوانہ ہو رہا ہوں ، دیوانہ بن گیا ہوں

سلمی سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں


نسوانی حسن کا تصور:۔

حجاب و عصمت و شرم و حیا کی کان ہے عورت
جو دیکھو غور سے ہر مرد کا ایمان ہے عورت
اگر عورت نہ آتی کل جہاں ماتم کدہ ہوتا
اگر عورت نہ ہوتی ہر مکاں اک غم کدہ ہوتا
جہاں میں کرتی ہے شاہی مگر لشکر نہیں رکھتی
دلوں کو کرتی ہے زخمی مگر خنجر نہیں رکھتی

اختر شیرانی ارد و شاعری میں شاعر رومان کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کے ہاں رومانی جذبات کی فروانی ہے انہوں نے نسوانی حسن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ عورت کو مختلف شاعروں نے کائنات کا حسن قرار دیا ہے۔ اختر کے ہاں محبت اور عشق کا وہ جوش دیکھنے میں آتا ہے کہ محبوب پس پردہ رہ جاتا ہے اورمحبت ہر سمت میں چھا جاتی ہے۔ سلمیٰ تو محض ایک نام ہے ورنہ انہوں نے عورت کے وجود سے پیار کیا۔ اس طرح اختر کے ہاں نسوانی حسن کی تعریف و توصیف جا بجا ملتی ہے۔

غرض جب تک یہ دنیا اور اس کی خوشنمائی ہے
ہماری زندگی میں صرف عورت کی خدائی ہے

عورت کی بعض جلوہ آفرین صلاحیتوں کے اعتراف کے باوجود اختر عورت کو حسن اور رعنائی مجسم خیال کرتے ہیں ۔ وہ اس کے حسن سے متاثر بھی ہوتے ہیں اور لطف اندوز بھی ۔ عورت کے حسن سے اکتساب ِ کیف میں لا پروائی ان کی شریعت کا عظیم گناہ ہے۔ حسن فروشی ور آبروباختگی ان کے نزدیک قابل ِ نفرین افعال ہیں ۔ وہ حسن کے معصوم اور اچھوتے مظاہر سے محبت کرتے ہیں ۔ عورت ایک ایسا پھول ہے جو ہاتھ لگانے سے کملا جاتا ہے اس لئے ان کی جمالیاتی حس ان کے ذہن و شعور کی حدود کی پابند رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دست درازیوں کا حوصل کبھی نہیں ہو سکا۔ عورت اور پھول کے موازنے میں وہ پھول کی زبانی عورت کی برتری اس طرح بیان کرتے ہیں۔

نوائے زہرہ گم ہے تیرے نغموں کی فضائوں میں
نزاکت سیکھتا ہے خندہ حور جناں تجھ سے
افق پر صبح کی پہلی کرن جب مسکراتی ہے
سبق لیتی ہے بیداری کا روح گلستاں تجھ سے

اختر کے نزدیک عورت کے لئے پردے میں مستور رہنا ضروری ہے۔ اس کے جلوے مخصوص اوقات اور مخصوص لوگوں کے لئے ہونے چاہییں۔ اس کی بے حجابی نسوانیت کی توہین کے مترادف ہے۔

حیا ہر اک طرفہ لطافت ہے نہاں پردے میں
پھر برا کیا ہے جو عورت ہے نہاں پردے میں

اختر کے ہاں جس عورت کا ذکر ملتا ہے وہ عورت نسوانی جذبات سے معمور ہے اور پختہ کار عورت کے بجائے الہڑ مٹیار ہے کہ جہاں وہ قدم رکھتی ہے زمین گل و گلزار ہو جاتی ہے۔ وہ خود چاہتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کوئی اسے جی جان سے پیار کرے ۔ یہ عشق یک طرفہ نہیں بلکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی کی تفسیر ہے۔ محبوب اور محب دونوں عشق کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ ان کی نظم ”جہاں ریحانہ رہتی تھی“ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،

وہ اس ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گیت گاتی تھی
پرانے سورمائوں کے فسانے گنگناتی تھی
یہیں پر منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی

موسیقیت اور غنائیت:۔

اختر شیرانی کی شاعری کی روح رواں اور بنیادی خصوصیت ان کی موسیقی ہے اس موسیقیت اور غنائیت سے ان کی شاعری کو الگ نہیں کیا جا سکتا وہ موقع و محل کے مطابق ایسے الفاظ اشعار میں سموتے ہیں کہ قاری کے دل اور روح کو مسرت کے پھولوں سے بھر دیتے ہیں۔ اس لئے ان کے الفاظ لڑی میں پروئے ہوئے ان موتیوں کی مانند ہیں جن میں چمک اور کشش دونوں موجود ہوتے ہیں۔

دامانِ خرابہ میں ہے
ایک شاعر نوجواں کی تربت
شاعر کو مگر خبر نہیں کچھ
وہ تیرا نصیب سو رہا ہے
اس پر نہیں حال کا اثر کچھ
جاگا تھا غریب سو رہا ہے

اختر کی شاعری دراصل سنہرے خوابوں کے دلکش نغمات ہیں جن میں شعریت کے علاوہ موسیقیت اور غنائیت نہایت درجے تک موجود ہیں اسی غنائیت نغمگی اور شعریت کے حسین و جمیل امتزاج کا نام اختر شیرانی کی شاعری ہے۔

بہار کیف کی بدلی اتر آئے گی وادی میں
سرود و نور کا کوثر چھڑک جائے گی وادی میں
نسیم باد یہ منظر کو مہکائے گی وادی میں
شباب و حسن کی بجلی سی لہرائے گی وادی میں

اختر شاعری میں موسیقی پیدا کرنے کے لئے گاتی بجاتی بحریں ، مترنم قوافی ، اور ردیفیں بھی استعمال کرتے ہیں ایسی ردیفوں اور بحروں سے شاعری میں موسیقی کے علاوہ بے پناہ روانی اور بلا کا حسن پید ا ہوتا ہے۔

بزم ہستی سے نکالے گئے اختر کیا جلد
ابھی پینے بھی نہیں پائے تھے پیمانے چند

فطرت پرستی:۔

اس سلسلے میں اختر اورینوی لکھتے ہیں،
” اختر کیٹس کی طرح الفاظ سے بت گری بھی کرتا ہے اس مجسم تصویر کشی میں اختر کا بڑا درجہ ہے۔“
رومانی شاعر عموماً فطرت پرست ہوتے ہیں وہ مناظر ِ قدرت کو دیکھ کر اس دنیا کی آلائیشوں اور ہنگامہ خیزیوں سے صرفِ نظر کرکے تخیل کی بلند پروازیاں شروع کر دیتے ہیں اختر شیرانی کی رومانیت میں بھی فطرت کو بڑا دخل حاصل ہے وہ فطرت کی صناعی میں تصرف سے باز نہیں رہتے اور مناظرِ قدرت میں اپنے معجزہ قلم کے ذریعے رنگ آمیزی کرتے ہیں اختر کی منظر نگاری میں جوش کی طرح کی مثالیت پسندی کی جھلک نمایاں ہے۔

گنگناتی ہوئی ، ہنستی ہوئی ،اٹھلاتی ہوئی
شام بنگال اُٹھی زلفوں کو لہراتی ہوئی
بھر کے دامن میں حسینوں کا لہکتا ہوا نور
قصہ طور کو ہر گام پہ دھراتی ، ہوئی

حسن پرستی:۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر یونس رقم طراز ہیں کہ،
” اختر شیرانی ایک مخلص اور جذباتی انسان تھے انہیں عقل و خرد کے بکھیڑوں سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ سوچنے کے لئے بھی دماغ کے بجائے دل سے کام لیتے تھے ان کی اس جذباتیت کو ان کی حسن پرستی نے اور جلا دی ہے حسن پرستی اُن کا شعار ہے ان کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔“
حسن کی تلاش اور اُس کے لئے بے چینی اختر کو فردوس ارضی کی سیر کراتی ہے۔ اختر صرف نسوانی حسن سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی رومانیت انہیں پہاڑوں ، وادیوں ، کہساروں مرغزاروں اور صحرائوں میں بھی حسن کی تلاش میں لے جاتی ہے وہ سچے رومانی کی طرح حسن کا کوئی نہ کوئی پہلو دریافت کرلیتے ہیں ایسے میں ان کی منظر نگاری قابلِ دید ہوتی ہے ان مناظر میں وہ بعض اوقات کوئی خیالی پیکر بنا لیتے ہیں ۔ مثلاً ان کی نظم ”جوگن “ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سنہرے پانی میں چاندنی سے پائوں لٹکائے سر جوئبار بیٹھا ہواور کوئی جوگن جنگل میں گا رہی ہو۔ یا گائوں کی معصوم پنہاریاں پنگھٹ پر پانی بھر رہی ہوں۔

ا ک نہر بہہ رہی ہے تھوڑے سے فاصلے پر
گاتی ہوئی جو اپنی منزل کو جارہی ہے
یا جل پری ، رو پہلی موجوں کے بربطوں پر
تاروں کے دیوتا کو نغمے سنا رہی ہے
دیکھو! وہ کوئی جوگن جنگل میں گار ہی ہے

تخیلاتی اور مثالی دنیا:۔

محبت کے علاوہ اختر شیرانی ایک ایسی تخیلاتی اور مثالی دنیا کی تعمیر کے آرزو مند ہیں جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ بے نقاب ہوتی ہے جہاں سرود و نور کی بارش برستی ہے ۔آبشاریں گاتی اور جھرنے رقص کرتے ہیں ۔ فطرت کی اس دلفریب اور دلکش وادی میں وصالِ محبوب نہ صرف دنیا کے غم و الم کو نقش و نگار ِ طاق نسیاں بنا دیتا ہے بلکہ فطری حسن کے لطف کو مئے دو آتشہ کر دیتا ہے۔ اختر لکھتے ہیں۔

مری آغوش میں ہوگا وہ جسم مرمریں اُس کا
وہ اُس کے کاکل مشکیں وہ روئے نازنیں اُس کا
و ہ رخسار حسیں اُس کے وہ حسن یاسیمیں اُس کا
وہ جس سے شوق کی دنیا کو مہکائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں !

انقلاب پسندی اور ماضی پرستی:۔

رومانی شعراءانقلاب پسند ہوتے ہیں وہ ماضی کی یادوں میں اپنے آپ کو گم رکھتے ہیں وہ انقلاب پسند ضرور ہوتے ہیں لیکن ان میں قوتِ عمل کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ انقلاب برپا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ وہ دنیا سے مایوس ہیں اور یہاں ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں کہتے ہیں،

جہاں کا ذرہ ذرہ درسِ خونخواری سکھاتا ہے
جہاں حیران یزداں اور شیطاں مسکراتا ہے
جہاں حیوانیت ہروقت سرور ِ بغاوت ہے
یہ دنیا دیکھنے میں کس قدر معصوم جنت ہے

اختر ایسے میں ایک سیاسی و سماجی اور معاشی انقلاب برپا کرنے کی آرزو کرنے لگتے ہیں تاکہ زمین و آسمان اپنے معاملات بدل ڈالے وہ کہتے ہیں،

اُٹھا جام ساقی جہاں کو بدل دیں
نظام زمیں و زماں کو بدل دیں

لیکن ایک سچے رومانی کی طرح یہ صرف ان کی سوچ ہی ہے ورنہ عملی اعتبار سے وہ اتنی قوت نہیں پاتے کہ اپنے حسب ِمنشاءکوئی تبدیلی لا سکیں۔

مجموعی جائزہ:۔

اختر نے اردو ادب کو ایک نیا ذہن دیا تخیل کو ایک نئی جہت دکھائی ان کی شاعری میں تخیل کی فراوانی ، انفرادیت ، ماضی پرستی ، فطرت سے لگائو ، جمال آفرینی ، اور تجربوں کی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو انگریزی رومانیت سے وابستہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کی رومانوی شاعری انگریزی یا مغربی روایات کا چربہ نہیں۔ انہوں نے فارسی ، عربی ، اور اردو کے رومانوی عناصر سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ اختر اپنے آپ میں عہد تھے اردو شاعری میں رومانوی تحریک بڑی حد تک ان کے گرد گھومتی ہے۔ جب تک حسن کا جادو چلتا رہے گا۔ جب تک عشق کی گھاتیں ہوتی رہیں گی جب تک کسی کے انتظار میں راتیں کاٹ دینے اور تارے گننے کی روایت باقی رہے گی اور جب تک عشق کے ہونٹوں پر فغاں باقی ہے اس وقت تک اختر کی شاعری زندہ رہے گی۔اُن کے بارے میں انور سدید لکھتے ہیں،
” اختر رومانیت کی توانا آواز ہے اس کی شاعری میں جذبے کی بدوی صورت نمایاں ہے اس میں شدت بھی ہے اور دل بستگی بھی چنانچہ اختر نے نہ صرف رومانوی تحریک کو فروغ دیا بلکہ نئی اُردو نظم کو بھی کروٹ دی۔“
جبکہ اُن کے متعلق ڈاکٹر محمد حسن ”اردو ادب میں رومانوی تحریک “ میں لکھتے ہیں،
” اختر شیرانی یا رومانی شاعر ہیں یا کچھ بھی نہیں “
 

سیما علی

لائبریرین
حجاب و عصمت و شرم و حیا کی کان ہے عورت
جو دیکھو غور سے ہر مرد کا ایمان ہے عورت
اگر عورت نہ آتی کل جہاں ماتم کدہ ہوتا
اگر عورت نہ ہوتی ہر مکاں اک غم کدہ ہوتا
جہاں میں کرتی ہے شاہی مگر لشکر نہیں رکھتی
دلوں کو کرتی ہے زخمی مگر خنجر نہیں رکھتی
بہت خوبصورت پیرائے میں نسوانی حسنُ کا بیان ۔
 

سیما علی

لائبریرین
اختر شیرانی کی رومانی شاعری کا مدار سلمیٰ کے گرد گھومتا ہے بعض نقاد اس نام کو فرضی جانتے ہیں اختر کو اس سے عشق ہوگیا تھا
یہ فرضی یا اصلی نام اُنکی شاعری کا محور ۔۔۔

قدرت ہو حمایت پر ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمیٰؔ بھی ہو پہلو میں سلمیٰؔ کی محبت بھی
ہر شے سے فراغت ہو اور تیری عنایت بھی
اے طفل حسیں لے چل!
اے عشق کہیں لے چل!
 

سیما علی

لائبریرین
سلمیٰ سے عشق:۔

پروفیسر سید وقار عظیم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ،
” جب اختر شیرانی کا ذکر چھیڑتا ہے تو بات گھوم کر سلمیٰ کی گھنی زلفوں اور شبنمی عارضوں پر جا کر ٹھہرتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سارا سکون ان کی زلفوں کے سائے میں اور زندگی کی تمام تر خوشیاں ان کی عارضوں کی ہم نشینی میں ہے۔“
اختر شیرانی اور سلمیٰ لازم و ملزوم ہیں !سب سے زیادہ شرمندگی اُن لڑکیوں کو ہوتی جنکا نام سلمیٰ ہوتا اور اُنھیں مخاطب کرکے کہا جاتا کہ آپ میں اور اختر شیرانی کی سلمیٰ میں کیا قدرِ مشترک ہے!
 
Top