احمد ندیم قاسمی۔ ۔ ۔ ایک عہد ساز شخصیت

F@rzana

محفلین
یوں تو آپ سب نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ اس عظیم شخصیت کے بارے میں تھوڑی تھوڑی معلومات بھی فراہم کی ہے لیکن میں یہاں پر ‘بی بی سی‘ سے لی ہوئی کچھ معلومات پیش کرہی ہوں ان تمام قارئین کے لئے جو اس سروس کو استعمال نہیں کر سکتے، ساتھ ہی لنک بھی دے رہی ہوں۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/07/060710_qasmi_dead.shtml

معروف شاعر، افسانہ نگار اور کالم نویس احمد ندیم قاسمی پیر کی صبح لاہور کے ایک ہسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر تقریبًا نوے سال تھی۔
گزشتہ سنیچر کو انہیں سانس لینے میں دشواری کے سبب لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کیا گیا تھا اور عارضی تنفس فراہم کیا گیا تھا۔ تاہم پیر کی صبح ان کی حرکت قلب بند ہوگئی۔ ان کا جنازہ پیر کی شام پانچ بجے سمن آباد میں واقع ان کی رہا ئش گاہ سے اٹھایاگیا۔​
احمد ندیم قاسمی کے والد کا نام پیر غلام نبی تھا۔ انیس سو تیس کی دہائی میں ادبی سفر شروع کرنے والے احمد ندیم قاسمی شمال مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں بیس نومبر انیس سو سولہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا اور وہ اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔
انہوں نے اپنے گاؤں کے امام مسجد سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
انہوں نے اٹک (اس وقت کیمبل پور) میں ابتدائی تعلیم حاصل کی
انہوں نے انیس سو اکیس میں انگہ پرائمری سکول میں داخلہ حاصل کیا۔ انیس سو چوبیس میں ان کےوالد انتقال کرگئے۔ والد کے انتقال کے ایک سال بعد انہوں نے اپنے چچا پیر حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور (موجودہ اٹک) میں رہنا شروع کر دیا اور وہاں کے گورنمنٹ مڈل سکول میں داخلہ حاصل کر لیا۔
احمد ندیم قاسمی نے انیس سو تیس اکتیس میں گورنمنٹ ہائی سکول شیخوپورہ میں داخلہ لیا۔
مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ایک نوحہ لکھا
جو لاہور کے روزنامہ سیاست میں شائع ہوا۔ انہوں نے اسی سال میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بہاول پور کے ایک کالج صادق ایجرٹن کالج میں داخلہ لیا۔
احمد ندیم قاسمی اس وقت کے بادشاہی مسجد کے امام مولانا غلام مرشد کے قریبی عزیز تھے جو انہیں لاہور لائے اور انہیں اس وقت کی شہر کی ادبی شخصیت غلام صوفی تبسم سے متعارف کرایا۔
انیس سو پینتیس میں احمد ندیم قاسمی نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے پاس کیا۔
احمد ندیم قاسمی نے انیس سو پینتیس سے شاعری اور افسانہ نگاری شروع کی۔ وہ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے۔
انیس سو چھتیس سے اڑتیس کا عرصہ انتہائی غربت اور تنگ دستی کا زمانہ تھا لیکن انہی دِنوں اُردو کے کئی معروف ادیبوں شاعروں اور صحافیوں سے شناسائی حاصل ہوئی۔ کرشن چندر اور منٹو سے دوستانہ مراسم پیدا ہوئے۔
ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’چوپال‘ انیس سو انتالیس میں شائع ہوا۔ اسی برس محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر کے طور پر بھرتی ہوئے۔ فلم ’دھرم پتنی‘ کے مکالمے اور گانے انہوں نے انیس سو چالیس میں لکھے لیکن یہ فلم کبھی مکمل نہ ہوسکی۔
انیس سو بیالیس میں نوکری سے انتہائی بیزار احمد ندیم قاسمی استعفٰی دے کر امتیاز علی تاج کے اشاعتی ادارے میں شامل ہوگئے۔ جہاں انہیں بچّوں کے رسالے ’پھول‘ اور خواتین کے میگزین ’تہذیبِ نسواں‘ کی ادارت کے فرائض سونپے گئے۔ وہ انیس سو تینتالیس میں معروف جریدے ’ادب لطیف‘ کے ایڈیٹر بنے۔
’ادب لطیف‘ میں منٹو کی کہانی بُو کی اشاعت کے باعث انہیں انیس سو چوالیس میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نےانیس سو چھیالیس میں ادب لطیف کی اِدارت چھوڑ دی۔ اسی برس مجموعہ کلام ’جلال و جمال‘ شائع ہوا۔
اس سے پہلے شعری مجموعہ ’دھڑکن‘ اور تراجم کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا تھا۔
ضلع سرگودھا میں اُن دِنوں یونینسٹ پارٹی کا بڑا زور تھا لیکن احمد ندیم قاسمی نے اس کے مقابل مُسلم لیگ کی تنظیم و توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
اسی برس ریڈیو پاکستان پشاور میں سٹیشن ڈائریکٹر کے بہت اصرار پر وہاں سکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ انیس سو سینتالیس میں انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور کے لیئے بہت سے قومی نغمے، ملی گیت اور حُبِ وطن کے موضوع پر فیچر اور ڈرامے تحریر کیئے۔ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کو انہی کا لکھا ہوا اوّلین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔
احمد ندیم قاسمی نے لاہور کے متعدد ادبی رسالوں کی ادارت کی۔ انیس سو تینتالیس سے پینتالیس تک’ ادب لطیف‘ کے مدیر جبکہ انیس سو سینتالیس میں ’سویرا‘ کے چند ابتدائی شماروں کے مدیر بھی رہے۔ جب محمد طفیل نے ’نقوش‘ کا اجراء کیا تو احمد ندیم قاسمی اس کے مدیر بنے تاہم جلد وہ اس سے الگ ہوگئے۔
انیس سو تریسٹھ میں انہوں نے اپنے ادبی رسالہ ’فنون‘ کا اجراء کیا جو آج تک شائع ہوتا ہے۔
انہوں نے انیس سو اڑتالیس میں ادبی میگزین ’سویرا‘ شروع کیا۔ انیس سو اڑتالیس اور انچاس میں پشاور ریڈیو کی نوکری چھوڑ کر وہ لاہور واپس آگئے اور ادبی رسالے نقوش کی ادارت شروع کی۔ ترقی پسند ادیبوں کی انجمن کے لیئے
دِن رات کام کیا اور انجمن کی پاکستان شاخ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
انیس سو اکیاون میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیئے گئے۔ انیس سو باون میں روزنامہ امروز میں چراغ حسن حسرت کی جگہ فکاہیہ کالم حروف و حکایات لکھنا شروع کیا۔
انیس سو ترپن میں انہوں نے روزنامہ امروز کی ادارت سنبھالی۔ حروف و حکایت اور اِدارت کا یہ سلسلہ چھ برس تک جاری رہا لیکن انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد ختم ہوگیا۔ اکتوبر انیس سو اٹھاون سے فروری انیس سو انسٹھ تک انہیں پھِر سے سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا۔
ادبی رسالوں کے ساتھ ساتھ وہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ وہ کچھ عرصہ امتیاز علی تاج کے رسالے ’پھول اور تہذیب نسواں‘ سے وابستہ رہے اور بعد میں ترقی پسند اردو اخبار ’امروز‘ کے لیئے فکاہی کالم لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں وہ عبدالمجید سالک کو اپنا استاد مانتے تھے۔
احمد ندیم قاسمی کا کالم پنج دریا کے عنوان سے طویل عرصہ تک امروز میں شائع ہوتا رہا۔ بعد میں وہ اس اخبار کے مدیر مقرر ہوگئے لیکن جب انیس سو انسٹھ میں اس ادارے کو جنرل ایوب خان نے سرکاری انتظام میں لیا تو وہ اس سے الگ ہوگئے۔ تاہم اس کے لیئے ’عنقا‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے۔
وہ انیس سو اننچاس میں مختصر مدت کے لیئے انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انیس سو اکیاون میں احمد ندیم قاسمی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند بھی رہے۔
انیس سو چون میں انہوں نے انجمن کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اکتوبر انیس سو اٹھاون میں ایک سال انیس سو چون میںکے لیے وہ دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ بعد ازاں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے بھی دور ہوگئے۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی ان کا امتیازی وصف قرار پایا۔
انیس سو ترپن سے انیس سو تریسٹھ میں وہ مختلف اخبارات اور رسائل میں کالم لکھ کر روزی کماتے رہے۔ انیس سو تریسٹھ میں انہوں نے اپنا ادبی رسالہ ’فنون‘ نکالنا شروع کیا۔ انیس سو چونسٹھ میں دشت وفا کی اشاعت، جِسے آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔
انیس سو پچھہتر میں مجلسِ ترقی ادب کے ناظم مقرّر ہوئے۔ انیس سو اسی میں ستارہ امتیاز مِلا اور اگلے برس اُن کی کہانیوں کا پہلا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ جس کے مترجم پروفیسر سجاد شیخ تھے۔
انیس سو اٹھاسی میں حج کی سعادت حاصل کی اور بعد ازاں کئی بار عمرے کے لیئے بھی گئے۔ انیس سو پچانوے میں کہانیوں کا آخری مجموعہ ’کوہ پیما‘ شائع ہوا اسی برس شاعری کی آخری کتاب ’بسیط‘ بھی شائع ہوئی۔
انیس سو ننانوے میں عمر بھر کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے نشانِ امتیاز دیا۔ دو ہزار میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے احمد ندیم قاسمی کی کہانیوں کا ایک اور انگریزی ترجمہ شائع کیا، اِس بار فاروق حسن مترجم تھے۔
دوہزار دو میں ’میرے ہم سفر‘ شائع ہوئی جس میں مرحوم نے اپنے ہم عصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھے تھے۔ اگلے برس ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’پاسِ الفاظ‘ شائع ہوا۔ دو ہزار تین میں مجلسِ ترقی ادب کی نظامت سے استعفٰی دے دیا لیکن حکومتِ پنجاب کی فرمائش پر پھر سے کام شروع کر دیا۔
ان کے افسانوں میں میں چوپال، بگولے، سیلاب و گرداب، آنچل، آبلے، آس پاس، درو دیوار، بازار حیات، کپاس کا پھول، برگ حنا، گھر سے گھر تک، سناٹا، نیلا پتھر، گرداب اور طلوع و غروب شامل ہیں۔
قاسمی صاحب کے افسانوں میں گھر سے گھر تک، کنجری، رئیس خانہ، ست بھرائی بہت مشہور ہوئے۔
احمد ندیم قاسمی نے غزل اور نظم دونوں صنفوں میں شاعری کی۔ ان کی شاعری کے مجموعے جلال و جمال اور محیط مشہور ہیں۔ ان کی شاعری کے کلیات بھی شائع ہوچکے ہیں
احمد ندیم قاسمی کی تصنیفات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
افسانوی مجموعے:
چوپال (1939 )، بگولے، طلوع و غروب، گرداب، سیلاب، آنچل، آبلے، آس پاس، درو دیوار، سنّاٹا، بازارِ حیات، برگِ حنا، گھر سے گھر تک، کپاس کا پھول، نیلا پتھر کوہ پیما 1995
شعری مجموعے:
دھڑکنیں (1942)، رِم جھم، جلال و جمال، شعلہء گُل، دشتِ وفا، مُحیط، دوام، لوحِ خاک، جمال، بسیط (1995)
امروز کے بعد احمد ندیم قاسمی روزنامہ جنگ اور بعد میں کراچی سے نکلنے والے روزنامہ حریت میں کالم لکھتے رہے۔ ان دنوں وہ روزنامہ جنگ میں لکھتے تھے۔
وہ گزشتہ بتیس سال سے لاہو رمیں ادبی ادارہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر تھے۔
انیس سو باسٹھ میں ان کی ایک مشہور ہونے والی نظم کے چند مصرعے کچھ یوں ہیں۔
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار
ایک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں
لیکن کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
انہوں نے لاتعداد کتابوں کے فلیپ لکھے۔ ان کے تنقیدی مضامین کی کتابوں میں ادب کی تعلیم کا مسئلہ اور تہذیب و فن شامل ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کی بیوی اور ایک بیٹی نشاط انتقال کرچکی ہیں۔ پسماندگان میں ان کا ایک بیٹا نعمان قاسمی اور بیٹی ناہید قاسمی شامل ہیں۔
 

F@rzana

محفلین
احمد ندیم قاسمی کے چند قطعات

میرے شعر
تم بھی اے دوستو ہجوم کے ساتھ
اصطلاحوں کی رو میں بہتے ہو
یہ جوانی کے چند سپنے ہیں
تم جنھیں میرے شعر کہتے ہو

گہرائیاں

بہت اٹھے محبت کے مفسر
کوئی اس راز میں کامل نہ پایا
تہوں سے سیپیاں چنتے رہے سب
مگر اس بحر کا ساحل نہ پایا

رم جھم

میں دور سہی لیکن تیرے اشکوں کی رم جھم سنتا ہوں
بیٹھا ہوا دیس پرائے میں روتا ہوں اور سر دھنتا ہوں
جب برکھا دھوم مچاتی ہے اور کوئل بن میں گاتی ہے
احساس کے موتی چنتا ہوں تخیل کے نغمے بنتا ہوں

شبنم کے چراغ

گل و نسریں کے محلات میں شبنم کے چراغ
یہ فقط ایک تصور ہی نہیں اے ہمدم
یہ اگر صرف تصور ہے مرا تو اے کاش
ہوتی اس طرح حقیقت بھی حسیں اے ہمدم

عشق یا ہوس

بجتے ہی گجر اڑے پتنگے
لالچ تھا یہ بندگی نہیں تھی
مٹی کے دیئے کا ذکر کیسا
دراصل دیئے کی لو حسیں تھی

فریب نظر

رخسار ہیں یا عکس ہے برگ گل تر کا
چاندی کا یہ جھومر ہے کہ تارا ہے سحر کا
یہ آپ ہیں یا شعبدہ ء خواب جوانی
یہ رات حقیقت ہے کہ دھوکا ہے نظر کا

یاد ماضی

جبیں بے رنگ کاکل گرد آلود
لبوں پر پپڑیاں گالوں پہ سایہ
تری آنکھوں کے ڈورے سرخ کیوں ہیں
تجھے کیا عہد ماضی یاد آیا؟

جوگ

شکستہ مقبروں میں ٹوٹتی راتوں کو اک لڑکی
لئے ہاتھوں میں بربط جوگ میں کچھ گنگناتی ہے
کہا کرتے ہیں چرواہے کہ جب رکتے ہیں گیت اس کے
تو اک تازہ لحد سے چیخ کی آواز آتی ہے

احمد ندیم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ اور بہت ہی خوب فرزانہ۔ جزاک اللہ۔ اگر ابھی آپ مزید بھی اس دھاگے پر پوسٹ کرنا چاہیں تو میرا پیغام ختم کر دیجئے گا
قیصرانی
 

F@rzana

محفلین
نوازش منصور صاحب

آپ کا جواب اہمیت رکھتا ہے۔ ۔ ۔
میں پوری کوشش کروں گی کہ ‘قاسمی صاحب‘‘ کا مزید کلام پوسٹ کرتی رہوں۔ ۔ ۔
حوصلہ افزائی کے لئے۔ ۔ ۔ شکریہ :lol:
 

قیصرانی

لائبریرین
کرم نوازی فرزانہ صاحبہ (آپ نے مجھے صاحب لکھا، کچھ تو مجھے بھی خیال ہے آپ کا) :lol:
میں آپ کی کوشش کی پوری حوصلہ افزائی کرتا رہوں گا
بقول رضوان بھائی
بھاگ لگے رین
قیصرانی
 

F@rzana

محفلین
ہرجائی

مری ہی دین ہے تیرا تبسم ہمہ گیر
ترے خرام کا لہراؤ ہے مرا ہی کمال
قدم قدم پہ نگاہوں نے وہ چراغ جلائے
ہرآئینے میں جھلکتا ہے صرف تیرا جمال

بھلا کسی کا ستاروں پہ کیا اجارہ چلے
زمانے بھر کے لئے وقف ہیں یہ قندیلیں
یہ سلسبیل تجلی اسی لئے ہے رواں
کہ تیرگی کے ستائے ہوئے ذرا جی لیں

مجھے خبر نہ ہوئی اور مری محبت خام
کئی فسردہ دلوں کے لئے علاج بنی
مجھے پتہ نہ چلا اور مری یہی نیکی
جہاں کی لاج بنی میری احتیاج بنی

میں سوچتا ہوں کہ اے کاش تیرا پیکر ناز
بس ایک پل کے لئے صرف میرا ہوجاتا
مری نظر میں ستارے کچھ ایسے گھل جاتے
کہ آسمان و زمیں پر اندھیرا ہوجاتا

مگر یہ خام خیالی خلاف فطرت ہے
کبھی رکے ہیں پتنگے اگر چراغ جلے
زمانے بھر کے لئے وقف ہیں ‌یہ قندیلیں
بھلا کسی کا ستاروں پہ کیا اجارہ چلے

احمد ندیم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
فرزانہ ہرجائی پر قیصرانی کا بہت عمدہ لکھنا بہت اچھا لگا :lol:

تم پر تو فرض ہے احمد ندیم قاسمی کا لکھنا ، جانتی ہو نہ کیوں۔

ریت سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نظم ہے وہ بھی پوسٹ کرنا :)
 
Top