احمد نثار کی غزل

مخلص انسان

محفلین
کہاں میں عمر اپنی جاودانی لے کے آیا ہوں
یہاں میں آسماں سے عمر فانی لے کے آیا ہوں
کہوں کیسے کہ میں یادیں سہانی لے کے آیا ہوں
مگر ہاں درد میں ڈوبی کہانی لے کے آیا ہوں
مہذب ہوں اسی خاطر ظرافت سے گریزاں ہوں
میں سنجیدہ ہوں ، سنجیدہ بیانی لے کے آیا ہوں
میری شامِ غزل کو سرخروئی ہے تیرے دم سے
میں لفظوں میں تمازت ارغوانی لے کے آیا ہوں
کئی چہرے پڑے ہیں زرد بس اس بات پر لیکن
شکستہ ہوں ، پہ چہرہ ضوفشانی لے کے آیا ہوں
نگاہِ قلب کو ایسی بصارت بھی ضروری ہے
تبھی میں اپنے دل پر حکمرانی لے کے آیا ہوں
میری اسلاف سے الفت بڑی ہی آفرینی ہے
نئی ہیں آج بھی ، باتیں ، پرانی لے کے آیا ہوں
مجھے اغیار میں گن کر حقیقت سامنے رکھ دی
نثارِ بے نوا کی ترجمانی لے کے آیا ہوں
 
Top