احمد مشتاق :::: مِل ہی جائے گا کبھی دِل کو یقیں رہتا ہے

طارق شاہ

محفلین
غزل
احمد مشتاق
مِل ہی جائے گا کبھی دِل کو یقیں رہتا ہے
وہ اِسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام تِرے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
روز مِلنے پہ بھی لگتا ہے کہ جُگ بِیت گئے
عِشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دِل فُسردہ تو ہُوا دیکھ کے اُس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسِیں رہتا ہے
احمد مشتاق
 
Top