فراز احمد فراز کی غزل

zulfiqar Ali

محفلین
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھاہیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں

آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضرور ہے کہ انگڑائیاں بھی ہوں

ہر حُسنِ سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا !
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں

پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔ
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیان بھی ہوں
 
Top