احمد بھائ کا جن قسط ١

احمد بھائ تین چلّے کی جماعت میں تھے کہ ایک رات اچانک پیٹ میں شدید درد اُٹھا
تبلیغی جماعت کراچی کے قریب ایک گوٹھ میں تھی- رات گئے کسی ڈاکٹر کا ملنا بھی محال تھا- فرسٹ ایڈ کی صورت میں امیر صاحب کا دم ، اجوائن اور قہوہ ہی میسّر آ سکا- ساتھیوں نے نوافل پڑھنے کی تلقین فرمائ اور ٹانگیں دباتے رہے- قریباً نصف گھنٹہ بعد احمد بھائ کا “مجاھدہ” ختم ہوا اور وہ بھلے چنگے ہو گئے
اگلے روز بعد از دوپہر پھر مروڑ اُٹھا- اس بار درد کی شدّت پہلے سے زیادہ تھی- ساتھی انہیں قریبی گوٹھ ایک “سیانے” کے پاس لے گئے- سیانے نے ان کا پیٹ چیک کر کے ” واء بادی” تشخیص کی اور کچھ سفوف کھلایا- نصف گھنٹے بعد درد رکا تو احمد بھائ بھلے چنگے ہو گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
رات کو وہ پرسکون نیند سوئے مگر عین صبح کاذب چیخیں مارتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے- پھر نصف گھنٹہ درد میں تڑپنے کے بعد بوقت سحر سوئے تو ساتھیوں نے نماز کےلئے بھی نہ جگایا کہ مبادہ دردِ شکم پھر نہ جاگ جائے
تقریباً ایک ہفتہ یونہی تڑپنے سنبھلنے کے بعد امیر صاحب نے خرابئ صحت کی بنا پر انہیں چلّہ موقوف کر کے گھر جانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ کسی مستند ڈاکٹر سے اپنا علاج کروا سکیں
احمد بھائ کو چلّہ فوت ہو جانے کا افسوس تو تھا ہی مگر مسئلہ صحت نے بھی انہیں نڈھال کر رکھا تھا چنانچہ گاؤں پہنچتے ہی میڈیکل اسپیشلسٹ سے ملنے شہر کے بڑے ھسپتال پہنچ گئے- شومئ قسمت کہ انتظار گاہ میں ان کی ملاقات ایک “سیانے” سے ہوگئ اور یوں کہانی میں ایک نیا ٹویسٹ آ گیا
“سیانے” نے انہیں ڈاکٹری علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج کا مفت مشورہ دیا اور ایک روحانی بابا کا ایڈریس سمجھا دیا
اس رات دوا کھانے کے باوجود صبح سویرے درد پھر جاگا تو احمد بھائ ” بابا ڈھیلے والا” کے ہاں جا پہنچے جو درد کے مریضوں کو “ڈھیلا” دم کر کے دیتا تھا
بابا نے احمد بھائ کا معائنہ کر کے شدید قسم کا “جادو ٹونہ” تشخیص کیا اور تگڑی فیس لے کر یہ بھی اطلاع دی کہ خاندان کا کوئ قریبی فرد اس سازش میں شریک ہے
احمد بھائ 15 سو میں مٹّی کا ڈھیلا لیکر گھر لوٹے تو اپنے ہی خاندان پر برسا دیا- ایک گھر میں رہنے کے باوجود بڑے بیٹے اور بہو سے پہلے ہی تعلقات اچھے نہ تھے- انہیں یقین ہو گیا کہ جادو ٹونے کی اس سازش کے پیچھے ضرور بڑی بہو کا ہاتھ ہے- چنانچہ پہلے بہو کو جھاڑا پھر بیٹے کو لتاڑا اور اسے بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا- گھر والے ہکا بکا کہ یہ کیسا درد ہے جو بے لگام ہوا جاتا ہے- خیر اس وقت تو شانت ہو گئے مگر اس کے بعد جب بھی درد شکم جاگا بڑی بہو کی شامت آ گئ
کچھ روز بعد محلّے کے ایک ہم جماعت مولوی صاحب نے صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے انہیں دربار پیر نوری سلطان جانے کا مشورہ دیا جو جنات اسپیشلسٹ تھے
احمد بھائ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم پیروں فقیروں اور درباروں مزاروں کو نہیں مانتے تو پھر یہ تردد کیسا ؟
بھائ ہم مانیں نہ مانیں ، جنات تو مانتے ہیں ناں ؟
کیا مطلب ؟ کیا جنات بریلوی ہوتے ہیں؟ احمد بھائ نے سوال کیا
کیوں نہیں …. جنّات میں بھی مذھب کی تقسیم ہے- اور مسلم جنات میں فرقے بھی ہوتے ہیں- حاجی صاحب کے بیان کے دوران مرکز کے پنکھوں کا ہلنا اور پردوں کا پھڑپھڑانا اس کا بات کا ثبوت ہے کہ کچھ جنات تبلیغ میں بھی وقت لگاتے ہیں ، اور بستر بھی اٹھاتے ہیں … بس ہمیں اس کا ادراک نہیں
اگلے روز احمد بھائ دربار پیر نوری سلطان جا پہنچے- سارا دن انتظار کے بعد ان کی باری آئ تو پیر صاحب نے بیٹھتے ہی پوچھا
“پیر بخش تُم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
احمد بھائ نے پہلے ادھر ادھر دیکھا پھر حیران ہو کر پوچھا
پیر بخش کون؟ میرا نام تو ملک احمد خان ہے
اس پر دربار کے خادم اعلی نے انہیں سمجھایا کہ پیر صاحب تم سے نہیں ، تمہارے “جن” سے مخاطب ہیں- جو پیر صاحب کا پرانا مرید ہے




بشکریہ … ظفر اقبال محمّد
 
Top