اجنبیت کے نئے ذائقے بخشے اب کے۔اسلم کولسری

اجنبیت کے نئے ذائقے بخشے اب کے
اس کے ہاتھوں میں تو پتھر بھی نہیں تھے اب کے

بستیوں پر کسی آسیب کا سایہ ہی سہی
جنگلوں میں بھی پرندے نہیں چہکے اب کے

گلی کوچوں میں بہت روشنیاں پھرتی ہیں
پھر بھی در بند ہوئے شام سے پہلے اب کے

کپکپانا تو سدا ہی سے تھی فطرت ان کی
لڑکھڑاتے ہوئے لگتے ہیں ستارے اب کے

ٹوٹنا اور کسی طور سمٹ بھی جانا
کیجئے کیا کہ ہوا لے اڑی ریزے اب کے

وقت نے ہاتھ ہی کچھ ایسا دکھایا اسلم
آج تک جو نہیں سمجھے تھے وہ سمجھے اب کے
 
Top