اترا ہے وہ زمیں پہ، کچھ ایسی شان سے منقبت مولا علی علیہ السلام

اترا ہے وہ زمیں پہ، کچھ ایسی شان سے
دیوار و در پہ ہیں اب بھی اُس کے نشان سے

یوں تو گھروں سے روز نکلتی ہیں بیبیاں
آئیں علی کی والدہ کس آن بان سے

کعبے میں جس سکوں سے آئی علی کی ماں
چلتے ہیں زلزلوں میں اسی اطمینان سے؟؟

دیوار سے گُزر کے جو کعبے میں آگیا
میں کس طرح سے اُس کو نکالوں اذان سے

کعبہ علی کی ماں کو جھُکے نہ،تو کیا کرے
اُس کو خُدا ملا هے اسی آستان سے

در بھی نیا، طعامِ عدن، تین دن قیام
رشتہ علی کی ماں کا ہے کیا میزبان سے

تیرا رجب کی رات خدا نے کرم کیا
خود آسمان بھیج دیا آسمان سے

منظر ہے ایک،اُس میں ہیں تینوں ولایتیں
لائے نبی، علی کو، خدا کے مکان سے

تھاما ہے یوں علی کو محمد نے جس طرح
قرآن کو اٹھاتا ہے قاری دھیان سے

آتے ہی مرتضیٰ کو نبی نے زبان دی
ہم نے نبی لیا ہے علی کی زبان سے

اس کے سوا بتول کا کفو کون ہو سکے؟
دی ہو جسے زبان محمد نے مان سے

چہرا خدا کا، نورِ جلی، جسمِ کبریا
نکلا مِرا علی کہیں وحدت کی کان سے

نسبت نبی کی میرے علی سے ہے اس طرح
جیسے کسی کے جسم کا رشتہ ہو جان سے

چاہو کہ عمر بھر کی خباثت سے وہ بچے
لفظِ علی گزار دو بچے کے کان سے

شبیر کی قسم ہے یہ شوکت ہے اس لیے
عشقِ علی ٹپکتا ہے میرے بیان سے

سردار تیرے ذکر میں خیرات چاہیے
اس رات تو ملا دے امامِ زمان سے
تیرہ رجب یوم ولادت مولا کائنات حضرت علی علیہ اسلام مبارک ہو
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا کوثر نیازی مرحوم عاشقانِ علیؑ میں شمار ہوتے تھے۔

بغیر حب علیؑ مدعا نہیں ملتا
عبادتوں کا بھی ہر گز صلہ نہیں ملتا
خدا کے بندو سنو! غور سے خدا کی قسم
جسے علیؑ نہیں ملتے اسے خدا نہیں ملتا
بصد تلاش نہ کچھ وسعتِ نظر سے ملا
نشان منزلِ مقصود راہبر سے ملا
علیؑ ملے تو ملے خانۂ خدا سے ہمیں
خدا کو ڈھونڈا تو وہ بھی علیؑ کے گھر سے ملا
 
Top