محسن نقوی اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے

سیما علی

لائبریرین
اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے

موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے

دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے

ایک شعلہ کہ تہہِ خیمہءِ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے

میرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے

ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ میری سنگینیءِ فن ٹوٹی ہے
 
Top