اب کیا حکم ہے !

ایک سو دن پورے کرنے والی پاکستان کی نومنتخب حکومت کی ایک خوبی یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ یہ اپنے ہی سر پر اپنے ہی وعدے کا ڈنڈا مارتی ہے اور پھر چوٹ کی شکایت بھی کرتی ہے۔

مثلاً کس نے کہا تھا کہ آپ جوش میں آ کر ججوں کی تیس دن میں بحالی کا تحریری وعدہ کرلیں اور پھر یہ کہہ دیں کہ اعلانِ بھوربن محض ایک سیاسی بیان تھا۔

کس نے آپ کے منہ میں یہ بات ڈالی کہ اٹھارہ فروری کو عوام نے ججوں کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ روٹی کپڑے مکان کے لیے ووٹ دیا تھا اور پھر آپ یہ کہہ کر خود اپنی ہی بات سے جان چھڑا لیں کہ پرانوں نے اتنے مسائل ترکے میں چھوڑے ہیں کہ ان پر قابو پاتے پاتے کم ازکم دو برس لگیں گے۔

وہ کون صاحب ہیں جنہوں نے آپ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کہلوایا تھا کہ صدر مشرف ماضی ہو چکے ہیں اور اگر وہ خود نہ گئے تو مواخذہ کرکے رخصت کیا جائے گا۔اور اب جب صدر نے یہ چیلنج قبول کرلیا ہے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ حالات ایسے نہیں کہ صدارتی منصب سے چھیڑ چھاڑ کرکے ایک اور محاذ کھول لیا جائے۔

چلیں اس شخص کا ہی نام بتا دیں جس نے آپ کی کلائی مروڑ کر آئینی پیکج مرتب کروایا تاکہ سارے غیر آئینی کام ایک ہی ہلے میں سیدھے ہوجائیں۔اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک حکمران اتحاد متفق نہیں ہوجاتا یہ پیکج پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

اور وہ درویش کون تھا جس کی نصیحت پر آپ نے قبائیلی علاقوں میں امن بذریعہ مذاکرات کی پالیسی اپنائی اور اسکی کونپلیں پھوٹنے سے پہلے ہی امن بذریعہ آپریشن کا نعرہ لگادیا۔ پہلے آپ کہتے رہے کہ مذاکراتی پالیسی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپریشن کا بھی امریکہ خیرمقدم کررہا ہے۔

جب آپ نے سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا تھا تو کیا آپ کو معلوم تھا کہ اگلے سو دن میں پیٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے نرخ کہاں سے کہاں پہنچیں گے اور ایسی صورت میں متبادل حکمتِ عملی کیا ہوگی۔

سٹاک ایکسچینج میں کیسے کیسے بھونچال آئیں گے۔ روپیہ لڑھکتا لڑھکتا کہاں پے ٹھہرےگا۔افراطِ زر عفریتِ زر کا روپ دھار لےگا۔ آٹے، دال، سبزی کا بھاؤ
بے نظیر راشن کارڈ چھپنے سے پہلے ہی تیسرے آسمان پر ہوگا۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن قہقہے لگا رہا ہوگا۔ بلوچستان کا مسئلہ ایک انچ آگے پیچھے نہ ہوگا۔اور امریکہ آپ کی گردن پر پہلے سے زیادہ گرم پھونکیں مار رہا ہوگا۔

اگرآپ کو یہ سب اندازہ نہیں تھا تو پھر ٹریڈ یونینوں پر پابندی کا خاتمہ، تنخواہ کی کم از کم حد چھ ہزار روپے ، مفت شناختی کارڈ کی فراہمی، گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے، وزیرِ اعظم ہاؤس میں بجلی کا خرچہ کم کرنے اور شاہراہوں، اضلاع اور ایرپورٹس کے نام بدلنے جیسے اعلانات تو بجٹ تقریر میں بھی شامل ہوسکتے تھے۔اسی طرح جیسے ججوں کی آسامیوں کو انتیس کرنے کا اعلان شامل کیا گیا۔

عوام کو صبر آجاتا اگر سو دن میں کم از کم یہی طے ہوجاتا کہ صدر کے اختیارات تو درکنار خود وزیرِ اعظم کے پاس کیا اختیارات ہیں۔ بانسری کس کے ہاتھ میں ہے۔ بجا کون رہا ہے اور جھوم کون رہا ہے۔

کہاں تو آپ کو تیس دن کی الٹی گنتی سے الرجی تھی اور کہاں سو دن کی ڈیڈ لائن بھی گزرگئی۔ یہ فرمائیے کہ اٹھارہ فروری کے ووٹر کے لیے اب کیا حکم ہے ؟


(بی بی سی ڈاٹ کام پر 6 جولائی 2008 کو شائع ہوا)
 
الٹی گنتی گنتے گنتے تو کئی لوگ لانگ مارچ میں‌ گواچ گئے اور کئی ڈیڈ لائنز بھی گزر گئیں‌۔‌حکم یہ ہے کہ اگلے انتخاب کا جو کہ پانچ اس بعد ائیں‌گے کا انتظار کریں ۔ اب اس ڈیڈ لائن کو ناپیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اگلے انتخاب میں بھی لوگ انہی کرم فرمائوں کو چن لیں گے اور پھر آپس میں ہی دست و گریباں ہوتے رہیں گے۔ آج مہنگائی کے خلاف ہر طبقہ احتجاج کر رہا ہے سوائے اس آخری صارف کے کہ جس کے کندھوں نے آخرکار یہ سارا بوجھ سہارنا ہے ۔ لوگ احتجاج کرکے اپنے کمیشن اور منافع تو بڑھوا لیتے ہیں لیکن اس آخری صارف میں نہ تو اتنی سکت ہے کہ وہ احتجاج کرے اور نہ ہی اس کے پاس وقت ہے۔ رہی بات شعور کی تویہاں شعور کا ہونا رحمت نہیں تکلیف ہی ہے کہ جو لوگ شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج بھی اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں نہ ہی آیندہ انتخاب میں اُن کے ووٹ کا کوئی صحیح حق دارمل سکے گا۔ کیا فائدہ ہے پھر اس شعور کا!
 
Top