امجد اسلام امجد اب وہ آنکھوں کے شگوُفے ھیں نہ چہروں کے گُلاب

ماہی احمد

لائبریرین
اب وہ آنکھوں کے شگوُفے ھیں نہ چہروں کے گُلاب
ایک منحوُس اُداسی ھے کہ مِٹتی ھی نہیں
اِتنی بے رنگ ھیں اب رنگ کی خوگر آنکھیں
جیسے اُس شہرِ تمنّا سے کوئی رَبط نہ تھا
جیسے دیکھا تھا سراب
دیکھ لیتا ھوُں اگر کوئی شناسا چہرہ
ایک لمحے کو اُسے دیکھ کے رُک جاتا ھوُں
سوچتا ھوُں کہ بڑھوں اور کوئی بات کروُں
اُس سے تجدیدِ ملاقات کروُں
لیکن اُس شخص کی مانوُس گریزاں نظریں
مُجھ کو احساس دِلاتی ھیں کہ اب اُس کے لیے
میں بھی انجان ھوُں، اِک عام تماشائی ھوُں
راہ چلتے ھوُئے ان دوسرے لوگوں کی طرح

امجد اِسلام امجد
 
Top