اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں

نوید ناظم

محفلین
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں
اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں

یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں

ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے
مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں

کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں

لوگ پڑھ کے جنازہ مِرا گھر گئے
دیکھیے اُن کا اب تک وضو ہی نہیں

اک شکن بھی نہیں، ان کا دامن ہے یہ
ایک اپنا گریباں، رفو ہی نہیں

میکشوں کی طبعیت ذرا اور ہے
کیا رہیں جس جگہ پر سبو ہی نہیں

لُو نوید ان کی محفل میں پھر سے گیا
جبکہ اس کی وہاں آبرو ہی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
بہتری کی گنجائش ہے ویسے کوئی بہت بڑی خامی نہیں۔ لیکن اکثر اشعار میں ایک آدھ نکتہ پیش نظر ہے
صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں
اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں
۔۔۔اول مصرع سے یوں مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ دل میں تیرے علاوہ آرزو بھی تھی، اب کچھ نہیں رہا! الفاظ بدل کر واضح کرنے کی ضرورت ہے
یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں
۔۔۔ کن بہاروں کی؟ ہاں پہلے مصرع میں 'اب' ہو تو بہتر ہو۔۔۔
ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے
مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں
۔۔۔درست، 'آئے ہیں' درست املا ہو گی۔ مفہوم البتہ واضح نہیں
کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں
۔۔۔دوسرے مصرع میں 'خیر سے' کے ساتھ پہلا مصرع سوالیہ اچھا نہیں لگتا۔غالب کا مصرع زیادہ فٹ ہوتا ہے
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
لوگ پڑھ کے جنازہ مِرا گھر گئے
دیکھیے اُن کا اب تک وضو ہی نہیں
۔۔۔جنازہ نہین، نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے
اک شکن بھی نہیں، ان کا دامن ہے یہ
ایک اپنا گریباں، رفو ہی نہیں
۔۔۔درست
میکشوں کی طبعیت ذرا اور ہے
کیا رہیں جس جگہ پر سبو ہی نہیں
۔۔۔
لُو نوید ان کی محفل میں پھر سے گیا
جبکہ اس کی وہاں آبرو ہی نہیں
۔۔۔ شاید یوں بہتر ہو
لُو نوید ان کی محفل میں پھر آ گیا
جبکہ اس کی یہاں آبرو ہی نہیں
 

نوید ناظم

محفلین
سر الف عین
بہت شکریہ سر۔۔
بہتری کی گنجائش ہے ویسے کوئی بہت بڑی خامی نہیں۔ لیکن اکثر اشعار میں ایک آدھ نکتہ پیش نظر ہے
صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں
اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں
۔۔۔اول مصرع سے یوں مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ دل میں تیرے علاوہ آرزو بھی تھی، اب کچھ نہیں رہا! الفاظ بدل کر واضح کرنے کی ضرورت ہے

سر اسے کہا ہی ایسے تھا۔


یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں
۔۔۔ کن بہاروں کی؟ ہاں پہلے مصرع میں 'اب' ہو تو بہتر ہو۔۔۔

یوں کر دیا سر۔
اب بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
لاکھ آتی رہیں جستجو ہی نہیں

ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے
مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں
۔۔۔درست، 'آئے ہیں' درست املا ہو گی۔ مفہوم البتہ واضح نہیں

مجھ سے ٹائپو ہو گیا۔۔۔

کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں
۔۔۔دوسرے مصرع میں 'خیر سے' کے ساتھ پہلا مصرع سوالیہ اچھا نہیں لگتا۔غالب کا مصرع زیادہ فٹ ہوتا ہے
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

اسے اس طرح کر دیا ہے سر۔۔
وہ نہ سمجھے مری بات کو آج تک
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں

لوگ پڑھ کے جنازہ مِرا گھر گئے
دیکھیے اُن کا اب تک وضو ہی نہیں
۔۔۔جنازہ نہین، نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے

اس کے متبادل تو ہیں مگر اسے نکال دیا۔۔۔


لُو نوید ان کی محفل میں پھر سے گیا
جبکہ اس کی وہاں آبرو ہی نہیں
۔۔۔ شاید یوں بہتر ہو
لُو نوید ان کی محفل میں پھر آ گیا
جبکہ اس کی یہاں آبرو ہی نہیں

جی بالکل ایسے ہی!!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں
کے ساتھ پہلا مصرع کچھ اس مطلب کا ہونا تھا کہ ان سے تعلق ختم ہو گیا تو اچھا ہی ہوا، لیکن جو غلط فہمیاں رہیں، ان کو دور کرنا بھی اب نا ممکن ہے۔ شاید میں بھی اپنی بات واضح نہیں کر سکا ہوں۔ بہر حال اتنی کامپلیکس بات چھوٹی بحر کے شعر میں مشکل ہی ہے۔
باقی تو درست ہو گئی ہے غزل
 
Top