اب بھی ہر دسمبر میں ۔۔ خلیل اللہ فاروقی

مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
کس لئیے دسمبر میں
یوں اداس رہتا ہوں
کوئی دکھ چھپاتا ہوں
یا کسی کے جانے کا
سوگ پھر مناتا ہوں

آپ میرے البم کاصفحہ صفحہ دیکھیں‌ گے
آئیے دکھاتا ہوں ضبط آزماتا ہوں
سردیوں کے موسم میں گرم گرم کافی کے
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
کوئی مجھ سے کہتا تھا
ہائے اس دسمبر میں کس بلا کی سردی ہے
کتنا ٹھنڈا موسم ہے کتنی یخ ہوائیں ہیں
آپ بھی عجب شئے ہیں
اتنی سخت سردی میں ہو کے اتنے بے پروا
جینز اور ٹی شرٹ میں کس مزے سے پھرتے ہیں
شال بھی مجھے دے دی کوٹ بھی اڑھا ڈالا
پھر بھی کانپتی ہوں میں
چلئیے اب شرافت سے پہن لیجئے سویٹر
آپ کے لئیے میں‌ نے، بن لیا تھا دو دن میں
کتنا مان تھا اس کو میری اپنی چاہت پر
اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے
گرم گرم کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی
ہاتھ گال پر رکھے حیرت و تعجب سے
مجھ کو دیکھتی رہتی اور مسکرا دیتی
شوخ و شنگ لہجے میں مجھ سے پھر وہ کہتی تھی
اتنے سرد موسم میں
آدھی سلیوز کی ٹی شرٹ!ٓ
"*میل شاوانیزم" ہے
اس قدر نہ اترائیں سیدھے سیدھے گھر جائیں
اب کی بار جب آئیں
براؤن ٹراؤزر کے ساتھ بلیک ہائی نیک پہنیں
کوٹ ڈھنگ کا لے لیں
ورنہ میں‌ قسم سے پھر ایسے روٹھ جاؤں‌ گی
سامنے نہ آؤں گی
ڈھونٹتے ہی رہئیے گا !
پاس بیٹھے ابّو کے آپ سنتے رہیئے گا
تبصرے سیاست پر
کافی لے کے کمرے میں، پھر کبھی نہ آؤں‌ گی
خالی خالی نظروں‌ سے آپ ان خلاؤں‌ میں
یوں ہی تکتے رہئیے گا
اور بے خیالی پر ڈانٹ کھاتے رہئیے گا

کتنی مختلف تھی وہ
سب سے منفرد تھی وہ
اپنی ایک لغزش سے
میں نے کھو دیا اسکو
اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے
گرم گرم کافی کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتی
ہاتھ گال پر رکھے حیرت و تعجب سے
مجھ کو دیکھتی رہتی اور مسکرا دیتی
اب بھی ہر دسمبر میں اسکی یاد آتی ہے
 
Top