اب انتظار ہو رہا ہے تو صرف ’’ڈنڈے‘‘ کا - (شہباز شریف کے لئے کڑوا سچ)

اب انتظار ہو رہا ہے تو صرف ’’ڈنڈے‘‘ کا
نصرت جاوید
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی دبنگ افسر عائشہ ممتاز صاحبہ لائیو ٹیلی وژن کی مہربانیوں سے میڈیا میں جو طوفان برپا کئے ہوئے تھیں، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میںایک کالم لکھنا چاہ رہا تھا۔ مقصد اس کالم کا عائشہ ممتاز صاحبہ کی ذات کو زیر بحث لانا نہ تھا۔ میری خواہش اور کوشش بلکہ قطعی طورپر منطقی انداز اختیار کرتے ہوئے شہباز شریف کی ذات سے مختص گڈ گورننس کی باریکیوں کو سمجھنے کی تھی۔
بہت سوچ بچار کے باوجود ابھی تک کوئی ’’باریکی‘‘ میرے ہاتھ نہیں آئی ہے۔ ایک بار پھر ’’دریافت‘‘ ہوا ہے تو صرف اتنا کہ شہباز صاحب ’’گڈگورننس‘‘ کسی سیاسی عمل یا اداروں کے ذریعے فراہم نہیں کرتے۔ چند ’’فرض شناس‘‘ افسران جو ان ہی کی طرح متحرک، بے چین اور بے خوابی کے مارے نظر آتے ہیں، درحقیقت وہ Toolsہیں جن کے ذریعے شہباز صاحب ’’گڈ گورننس‘‘ فراہم کرنے کی کوششوں میں مبتلا رہتے ہیں۔
1840ء میں کئی برسوں کی ’’سکھا شاہی‘‘ سے وابستہ ہیجان اور افراتفری کے بعد انگریز دلّی سے پنجاب تک آپہنچا تو قانون کی بالادستی وغیرہ کو ایسے ہی افسروں کے ذریعے متعارف کروایا۔ لارنس جس کے نام سے لاہورکا سب سے بڑا اور مشہور باغ کئی برس تک منسوب رہا ہے ایسے افسروں کا حتمی Iconتھا۔
لارنس کے سدھائے افسر اپنے دفتروں میں ٹک کر صاحبی فرمانے تک محدود نہیں رہتے تھے۔ اپنے اضلاع کے ہر کونے تک پہنچتے اور کچہریاں لگاکر مقامی لوگوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت میں مصروف رہتے۔ خلقِ خدا سے مسلسل اور براہ راست مکالمے کی وجہ سے انہوں نے مقامی لوگوں کی نفسیات سے مکمل آگاہی حاصل کی۔ انہیں یہ بات سمجھنے میں بہت دیر نہ لگی کہ برسوں کی سکھا شاہی نے لوگوں کے دلوں میںایک سخت گیر منتظم کی شدید خواہش پیداکردی تھی۔ ’’ڈنڈا‘‘ وگڑے تگڑے یعنی بھٹکے ہوئے لوگوں کا اصل ’’پیر‘‘ ٹھہرا۔ لارنس نے ’’ڈنڈے‘‘ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا اور اپنے ماتحت ضلعی افسران کو ’’ڈنڈے‘‘ کی انسانی صورتوں میں ڈھال دیا۔
لارنس کا بنایا نظام مگر ’’ڈنڈے‘‘ کے استعمال تک محدود نہ تھا۔ پنجاب کی زمین بہت زرخیز تھی مگر یہاں کے لوگوں کو اس زرخیزی سے نقدی کمانے کا ہنر نہیں آتا تھا۔لارنس اور اس کے بعد آنے والے افسران نے نہروں کا ایک عظیم الشان منصوبہ بنایا۔ کشمیر میں مختلف وقفوں سے نازل ہوتی قحط سالی وہاں سے سینکڑوں بے زمین افراد کو جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کردیتی۔ ’’ہاتو‘‘ کہلاتے انسانوں کے اس ہجوم کو انگریز سرکار نے نہروں کی تعمیر میں لگادیا۔ نہری نظام کے بعد متعارف ہوئی ریلوے۔ ان دونوں نے باہم مل کر ٹھیکے داروں اور ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں کی ایک بے پناہ کھیپ متعارف کروائی۔
نہری نظام کی بدولت جو بے تحاشہ ’’رقبے‘‘ دریافت ہوئے انہیں انگریزوں نے پوری چھان پھٹک کے بعد اپنے وفاداروں میں بانٹ کر خوش حال اور نقد آور فصلیں اُگانے والوں کا ایک مخصوص طبقہ پیدا کیا۔ اسی طبقے کی اولاد کو ’’مزید تہذیب یافتہ‘‘ بنانے کے لئے ایچی سن کالج جیسے ادارے بنائے گئے۔ 1840ء کے بعد سے متعارف کردہ نظام کی بدولت پنجاب میں ’’پڑھے لکھے‘‘اور خوش حال مسلمانوں کے جو طبقات پیدا ہوئے وہ ذہنی طورپر سامراج کے احسان مند غلام رہے۔ ’’یونینسٹ پارٹی‘‘ ان ذہنی غلاموں کا سیاسی اتحاد تھا جو 1946ء تک قیامِ پاکستان کا شدید مخالف رہا۔ اقبال نے اپنی ساری عمر اُن غلاموں کے ذہنی افلاس کے بارے میں مسلسل کڑھتے رہنے میں گزاردی تھی۔
’’ڈنڈے‘‘ کی اہمیت پنجاب کی عمومی نفسیات میں ان دنوں بھی بہت شدت سے موجود ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی مشہور یونیورسٹیوں سے سماجی علوم میں ڈگریاں حاصل کرنے والے ’’ممی ڈیڈی‘‘ ٹائپ نوجوانوں کی اکثریت کے دلوں میں پائی جانے والی تڑپ کسی ’’دبنگ خان‘‘ کا بے چینی سے انتظار ہی تو ہے۔ عمران خان اپنے دھرنے کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اس انتظار بھری چاہت کا رُخ بتدریج جنرل راحیل شریف کی طرف ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مجھے خود کو اس کالم میں لیکن ’’شہباز صاب‘‘ تک محدود رکھنا ہے۔
شہباز صاحب اپنے لارنس مارکہ افسروں کے ذریعے جو ’’گڈگورننس‘‘ دے پائے ہیں اس کے جلوے ہمیں سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد قصور میں بھی نظر آئے۔ دوسرے صوبوں اور خاص کر سندھ سے چند روز کے لئے پنجاب آنے والوں کو مگر لاہور بہت خوب صورت اور جدید نظر آتا ہے۔ پنجاب کی سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہر برانڈ کے تازہ ترین ماڈل انہیں حیران کردیتے ہیں۔ انگریز کے پاس دکھانے کو نہری نظام تھا اور ریلوے۔ شہباز صاب نے پہلے موٹروے دی۔ ان دنوں میٹروبس ہے۔
شاہ جہان کے تاج محل کی طرح موٹروے ،شہروں کی سگنل فری سڑکیں، انڈر اور بائی پاسز اور پھر لش لش کرتی دلہن کی طرح سرخ لباس والی میٹرو بسیں۔ یہ سب آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں اور خوش حالی کی علامتیں بھی۔ مگر واہمے ہیں۔ نظر کے دھوکے۔
شہباز صاحب ابھی تک سمجھ نہیں پائے کہ لارنس مارکہ گورننس نے جو نہری نظام دیا تھا اس نے ہزار ہا ایکٹر پر مشتمل نئے رقبے بنائے تھے۔ انہیں آباد کرنے کو نقد آور فصلیں متعارف ہوئیں۔ ان سب کی بدولت ایک نئی نوعیت کے خوش حال طبقات پیدا ہوئے۔ ان طبقات کے پاس جسے آج کی دُنیا میں Disposable Incomeکہا جاتا ہے، کی بہتات ہوا کرتی تھی۔
شہباز صاب نے جو ’’گڈ گورننس‘‘ متعارف کروائی ہے اس نے ’’دبنگ‘‘ افسران کی ایک کلاس ٹی وی سکرینوں کے لئے یقینا پیدا کی ہے مگر آج جن طبقات کے پاس Disposable Incomeکی بہتات ہے وہ اپنی خوش حالی کا سبب کسی طور بھی شریف برادران اور ان کی حکومت کو نہیں ٹھہراتے۔
70ء کی دہائی کے بعد سے پنجاب میں نظر آتی خوش حالی کا اصل ماخذ وہ زرمبادلہ ہے جو وسطی پنجاب کے کھاریاں، گجرات، وزیر آباد اور سیالکوٹ جیسے شہروں سے یورپ اور خلیجی ممالک گئے ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد اپنے خاندانوں کو ’’پکے کوٹھے‘‘ بنانے اور بچوں کو ایسے سکولوں میں تعلیم کے لئے بھیجتے رہے جہاں ’’پہلی جماعت سے انگریزی اور اسلامیات لازمی مضامین ہیں‘‘۔
شریف برادران نے 80ء کی دہائی کے وسط سے ان Upwardly Mobileخاندانوں کے ذہنوں میں موجود روایت پرستی، خود غرضی اور آپا دھاپی والی ہوس کو سیاسی حوالوں سے Harnessکیا۔ پیپلز پارٹی ان طبقات کی نفسیات کو پوری طرح سمجھ ہی نہ پائی۔ کسی زمانے کی ’’انقلابی جماعت‘‘ اب وٹو صاحب جیسے افراد کی اس ’’کاریگری‘‘ سے رجوع کرنے پر مجبور ہے جو قصبوں اور دیہاتوں میں دھڑے بندی اور ڈیرے داری سے سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پنجاب کے قصبے اور دیہات مگر اب کلاسیکی معنوں میں ’’دیہی‘‘ نہیں رہے۔ کیبل ٹی وی اور موبائل فونوں نے پورے پنجاب کو ’’شہری‘‘ بنادیا ہے جہاں کاہر رہائشی اپنی Upward Mobilityکو بے چین ہے۔ اس بے چینی کی تشفی ممکن ہی نہیں۔ اس بے چینی کو ہوا دے کر مگر دھرنوں کے ذریعے افراتفری ضرور پیدا کی جاسکتی ہے۔ عمران خان نے پنجاب کو بھرپور انداز میں ہیجان میں مبتلا کردیا۔ اب انتظار ہورہا ہے تو صرف ’’ڈنڈے‘‘ کا۔ جان کی امان پاتے ہوئے عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ شہباز صاب کے دبنگ افسروں کے پاس وہ ’’ڈنڈا‘‘ موجود ہی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ذرا ’’سیاسی‘‘ ہوجائیے۔ بلدیاتی انتخابات کروائیں اور اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرتے ہوئے اس کے جلوے دکھانے کا بندوبست کیجئے۔
 
Top