اب آگے صرف سیاست ہے

عامر احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے مل کر یہ سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ گو یہ ملاقات ان کے صدارتی امیدوار ہونے کے باقاعدہ اعلان سے صرف دو گھنٹے قبل ہوئی، لیکن آصف زرداری نے کہیں یہ تاثر نہ دیا کہ وہ صدارتی انتخابات کے بارے میں کوئی فیصلہ کر چکے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح انہیں مل کر یہی لگا کہ وہ اپنی سوچ کو اپنے سائے سے بھی چھپائے رکھنا چاہتے ہیں جیسے یہی ایک امر ان کی ذاتی سیاست کے مستقبل کی واحد ضمانت ہو۔
واہ فیکٹری کے باہر ہونے والے خود کش حملوں کے بعد آصف زرداری اپنے گھر سے وزیر اعظم کے گھر چلے گئے ہیں۔ لیکن مون سون بارشوں کے آخری بادل، انتہائی سخت سکیورٹی، وزیر اعظم ہاؤس کے کشادہ لان اور اردگرد پھیلی پہاڑیوں سے بہنے والا ٹھہراؤ بھی ان کی اندرونی کشمکش کو ڈھانپنے میں ناکام نظر آیا۔
ان میں ابھی بھی وہی بے چینی، توانائی اور ایک عجیب قسم کی بے قراری دیکھنے کو ملی جو انتخابات کے فوراً بعد ان سے زرداری ہاؤس میں ملاقات کے دوران دیکھنے کو ملی تھی۔ اس وقت سب کچھ ان کے نیا نیا تھا لیکن اب تو اس ملاقات کو کئی ماہ بیت گئے۔ اس دوران وہ جس قسم کی سیاسی الجھنوں کا شکار رہے، ان میں گھرے ہوئے شخص کو تو ہفتہ بھی سال برابر لگتا ہو گا۔ اتنے لمبے سیاسی سفر کے دوران کچھ تو بدلنا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں بدلا۔ آخر کیوں؟
ہمارے وزیراعظم ہاؤس پہنچنے سے تھوڑی ہی دیر پہلے پی پی پی کا ایک وفد لاہور میں میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے واپس لوٹا تھا۔ آصف زرداری کو ان سے ملنے کا ابھی وقت نہیں ملا تھا لیکن وہ یقیناً جان چکے تھے کہ لاہور مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ صدر بننے کے معاملے پر اپنے سب سے بڑے حلیف میاں نواز شریف کے عدم تعاون یا عدم حمایت سے پریشان ہیں یا پھر یہ کہ وہ شاید خود بھی اپنے فیصلے سے مطمئن نہیں۔
آصف زرداری کا صدر بننے کی خواہش رکھنا کئی اعتبار سے سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر وہ کسی بھی ایسے عہدے کی خواہش کیوں کریں گے جس کے اختیارات سلب کرنے کے لیے ان کی اپنی ہی جماعت نے ایک جامع آئینی اصلاحاتی پیکیج ترتیب دیا ہے۔ اور پھر ان کے صدر بننے کے بعد ان کی جماعت کا کیا ہو گا؟
اس میں شک نہیں فاروق احمد خان لغاری کے تلخ تجربے کے بعد آئین میں دیے گئے صدارتی اختیارات کو ختم کیے بغیر پی پی پی اپنے شریک چئرمین کے علاوہ کسی پر بھی صدارتی عہدے کے معاملے میں اعتماد نہیں کر سکتی۔ لیکن کیا پی پی پی کے پاس آصف علی زرداری کے علاوہ پارٹی سنبھالنے کے لیے کوئی ایک بھی امیدوار ہے؟ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ آصف علی زرداری کی ذاتی سیاسی قوت کا سرچشمہ ان کی پارٹی ہے نہ کہ ایوان صدر۔
آصف زرداری کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو صدر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے چئرمین بھی رہے۔ اس لیے صدر بن کر پارٹی چھوڑنا قطعی ضروری نہیں۔
لیکن ایسی صورت میں مسلم لیگ نواز کے علاوہ کیا ان کے باقی حلیف بھی ان کے ساتھ رہ سکیں گے؟ اور کیا ان کی جماعت ایسی صورت میں ایک نئی قاف لیگ نہیں بن جائے گی جس کے سیاسی مستقبل کی ضامن اس کی اپنی سیاست سے کہیں زیادہ کرسیِ صدارت بن جائے گی۔
تو پھر ایسا کیا کام ہے جس کی تکمیل کے لیے آصف زرداری کے دل میں صدر کے عہدے کی خواہش جاگی؟
صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کرتے وقت یقیناً یہی سب سوال آصف زرداری کے ذہن میں بھی ابھرے ہونگے۔ انہوں نے ابھی تک تمام معاملات میں پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے۔ شدید تنقید کا سامنا کیا ہے، طرح طرح کے الزامات سہے ہیں لیکن حتمی فیصلہ جو بھی کیا ہے صرف اور صرف اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے بل بوتے پر کیا ہے۔
شاید وہ جان گئے ہیں کہ حکومتی اتحاد ٹوٹنے والا ہے۔ معزول ججوں کے معاملے کو مزید التوا میں ڈالنا شاید اب پی پی پی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کے لیے پچھلے چند مہینوں میں کمایا ہوا سیاسی سرمایا کھوئے بغیر اب پی پی پی کو مزید ڈھیل دینا ممکن نظر آتا ہے۔
یہ بالکل بجا ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد ہمیشہ کے لیے نہیں بنا تھا۔ یہ طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے وجود میں آیا۔ اس اتحاد کے بنیادی مقاصد میں ججوں کی بحالی، مسٹر پرویز مشرف سے چھٹکارہ اور آئینی ترامیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کی مضبوطی اور استحکام شامل تھے۔
ظاہر ہے کہ اچھا یہ ہوتا کہ حکومتی اتحاد ان تینوں اہداف کے حصول تک قائم رہتا۔ لیکن اب جبکہ ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا تو ایسی صورتحال میں پی پی پی کی قیادت کے پاس کیا رستہ ہو سکتا تھا۔ یہ جاننے کے لیے شاید یہ سمجھنا ضروری ہو کہ حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے فوراً بعد کی سیاست کیا ہو گی۔
پہلا فرق تو یہ پڑے گا کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات سے لے کر اب تک کی سیاست میں کہیں کہیں اصولوں اور نظریات کی جھلک مل جاتی تھی۔ لیکن اب، آگے صرف سیاست ہے۔ میاں نواز شریف لاکھ کہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی سے ناطہ معزول ججوں کی بحالی میں التوا کی وجہ سے توڑا لیکن اگر یہ بات سچ ہوتی تو بحالی کے طریقۂ کار پر الجھنے کی بجائے مسلم لیگ نواز معزول ججوں کو ہر حالت اور کسی بھی شرط پر بحال کرنے پر زیادہ توجہ دیتی۔
حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد مسلم لیگ نواز کے موقف سے قطعہ نظر عوام میں یہی تاثر پھیلے گا کہ میاں نواز شریف کو ججز کی بحالی سے بڑھ کر اپنی سیاست عزیز تھی۔
اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی شدید تنقید کی جائے گی کہ اس نے اتحاد کو قائم رکھ کر جمہوری روایات کو مضبوطی اور طاقت دینے کی بجائے اپنی موجودہ سیاسی طاقت کو قائم رکھنے پر توجہ دی۔
گویا پہلے اگر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں محض اعتماد کا فقدان تھا تو اب یہ فقدان کھلم کھلا سیاسی عداوت کی شکل اختیار کرے گا۔ اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟
مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں حکومت شدید دباؤ میں آئے گی۔ اسے ہٹانے کے لیے پی پی پی اور قاف لیگ میں گٹھ جوڑ ہو گا اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔
ماضی میں اس طرح کی صورتحال زیادہ تر فوجی قیادت کے اکسانے پر پیدا کی جاتی تھی اور مناسب حالات کی شبیہہ بنتے ساتھ ہی حکومت وقت کو صدارتی اختیارات کے ذریعے چلتا کیا جاتا تھا۔ اس دفعہ مسلم لیگ کو شاید فوج سے ویسی حمایت حاصل نہ ہو کیونکہ اپنی مجبوریوں اور بیرونی دباؤ کے تحت فوجی قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا کہ وہ موجودہ حکومت کو قائم رکھے۔
صدر کی جگہ ایک سیاسی مخالف اور سیاسی مداخلت سے باز فوجی قیادت کی موجودگی میں مسلم لیگ نواز ہر اس گلی میں جھانکے گی جہاں اسے حلیف ملنے کی توقع ہو۔ چھوٹی جماعتوں میں سے اسے نہ تو جمیعت علماء اسلام، نہ عوامی نیشنل پارٹی، نہ قاف لیگ اور نہ ہی متحدہ قومی موومنٹ سے سہارہ مل سکتا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ نواز نہ چاہتے ہوئے بھی مذہبی انتہا پسندوں کے قریب ہوتی جائے گی۔
یہاں سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی فوجی قیادت کی جانب سے ملک کے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں میں زبردست تیزی کی پیشین گوئی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا بعید از قیاس نہ ہو گا کہ جس طرح سن دو ہزار سات میں ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی سیاسی، معاشی و سکیورٹی صورتحال میں صدر مشرف اپنے سیاسی حریفوں سمیت مذہبی انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن گئے تھے اسی طرح آنے والے دنوں میں ان ناراض قوتوں کا ہدف شاید آصف زرداری بن جائیں۔
نواز لیگ نئے حلیف تلاش کرے گی
صدر کی جگہ ایک سیاسی مخالف اور سیاسی مداخلت سے باز فوجی قیادت کی موجودگی میں مسلم لیگ نواز ہر اس گلی میں جھانکے گی جہاں اسے حلیف ملنے کی توقع ہو
حکومت سے باہر ناراض سیاسی قوتوں میں مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن کر ابھرے گی اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند اپنی خونی تحریک پہلے سے زیادہ بھرپور اور موثر بنانے کی کوشش کریں گے۔ اور ایسا کرنے میں وہ پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہونگے کیونکہ ان کو حالات بگاڑنے میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے علاوہ وکلاء برادری کا سہارہ بھی حاصل ہو گا۔
اس ممکنہ صورتحال کے پیش نظر صرف اتنا ہی سمجھ میں آتا ہے کہ آصف زرداری کا صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ شاید ان بہت سے تلخ فیصلوں کی خاطر ہو جو اب تک حکمران اتحاد کی اندرونی کشمکش کے یرغمال رہے۔ شاید آصف زرداری کے دماغ میں یہ سما گیا ہے کہ وزارت عظمٰی اور عہدہ صدارت پر مکمل اختیار کے بغیر ان کے لیے موجودہ مسائل سے نبٹنا ممکن نہیں رہا۔
اس کی ایک مثال معزول ججوں کی بحالی کا معاملہ ہے۔
وکلاء برادری میں بہت چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ قریباً بیالیس معزول ججوں میں سے تیس کے قریب نیا حلف اٹھانے کو تیار ہیں۔ یہ صورتحال اب تک وکلاء تحریک کے رہنماؤں اور مسلم لیگ نواز کو ناقابل قبول رہی ہے۔ شاید آصف زرداری کا بطور صدر پہلا قدم یہ ہو کہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں معزول ججوں کو بحال کرنا شروع کر دیں۔ اگر وہ یہ کر پائے تو وقت کے ساتھ وکلاء تحریک خود ہی دم توڑ جائے گی۔
یوں کاروبار مملکت کو آگے بڑھانے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گی۔ اسی طرح اتحاد ٹوٹنے کے بعد آئینی اصلاحاتی پیکیج پر بھی مزید پیش رفت کے لیے اب انہیں مسلم لیگ نواز کو راضی کرنا لازم نہ ہو گا۔ شاید اسی لیے آصف زرداری اس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے مسلم لیگ نواز کو الوداع کہنا ضروری ہو گیا ہے۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان کا کونسا فیصلہ درست رہا اور کونسا غلط۔ لیکن موجودہ حالات میں آصف زرداری کا ایک طاقتور صدر کے طور پر ابھرنا پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی ناکامی ملک کو مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی تصادم کی راہ پر دھکیل سکتی ہے جبکہ ان کی کامیابی پاکستان کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کی کنجی ثابت ہو سکتی ہے۔
ماضی میں سیاسی معاملات میں پاکستان کبھی بھی قسمت کا دھنی نہیں رہا لیکن اس بنیاد پر آصف زرداری کے مستقبل میں جھانکنا شاید انصاف کے تقاضوں کے منافی ہو۔
مستقبل میں جو بھی ہو سو ہو، فی الحال صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آصف زرداری کے صدارتی امیدوار بننے کے فیصلے نے ملکی سیاست کو پچھلے چند مہینوں کی اصولی اور نظریاتی بحثوں سے نکال کر خالصتاً ممکنات کی سیاست میں لا پھینکا ہے۔ یہاں سے آگے نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی نظریہ۔ اب آگے صرف سیاست ہے۔
 

arifkarim

معطل
چلیں آصف زرداری کو صدر بنا دیتے ہیں۔ پھر سیاست بھی ہوگی اور سیاحت بھی۔۔۔۔۔
 
Top