ابھی کچھ دیر باقی ہے - شکیل جعفری

ابھی کچھ دیر باقی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے
تمہارے درپہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں اب تک دودھ باقی ہے
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی
کہ ان کی کوئی شب اب تک نہیں گزری ہے تھانے میں میں؟
تمہاری بہن کو اب تک کوئی” کاری ” نہیں کہتا
شریکِ زندگی کے کھلتے چہرے پر کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے؟
نہ دختر نیک اختر نے ابھی تک اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
بتاؤ کیا کبھی لختِ جگر اغوا ہوا ہے
اور کبھی تم سے کسی نے آج تک تاوان مانگا ہے؟
دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر اب تک
تمھارا بھائی مسجد سے بخیر و عافیت گھر کو پہنچتا ہے
بھتیجا اب بھی ان گلیوں میں کرکٹ کھیلتا ہے
اور ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اسکی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس ظلم کے عفریت میں اور تم میں
تھوڑا فاصلہ ہے
اور ابھی تم تک پہنچنے میں
اسے کچھ وقت لگ جائیگا
تم سوتے رہو بھائی
ابھی کچھ دیر باقی ہے

شکیل جعفری
 
Top