احمد ندیم قاسمی ابھی نہیں اگر اندازۂ سپاس ہمیں

طارق شاہ

محفلین

غزلِ
احمد ندیم قاسمی

ابھی نہیں اگر اندازۂ سپاس ہمیں
تو کیوں مِلی تھی بھلا تابِ التماس ہمیں

اُفق اُفق پہ نقُوشِ قدَم نُمایاں ہیں
تلاش لائی کہاں سے تُمھارے پاس ہمیں

کبھی قرِیب سے گُزرے، بدن چُرائے ہُوئے
تو دُور تک نظر آتے رہے اُداس ہمیں

جو ہو سکے تو اِس اِیثار پر نِگاہ کرو
ہماری آس جہاں کو، تُمھاری آس ہمیں

ڈبو چُکا ہے اُمنگوں کو جِس کا سنّاٹا
بُلا رہا ہے اُسی بزْم سے قیاس ہمیں

یہ پُوچھنا ہے، کب آدم زمِیں پہ اُترے گا
جو لے چلے کوئی کامِل، خُدا کے پاس ہمیں

یہیں مِلیں گے تُمھیں پُھول بھی، سِتارے بھی
بتا رہی ہے دِلآویزیِ لِباس ہمیں

احمد ندیم قاسمی
normal_post.png
 
Top