ابر برسا نہ ہی کرم برسا

ایم اے راجا

محفلین
تھر کے خشک سالی سے مارے ہوئے غریب تھریوں کے نام بہت عرصہ بعد ایک غزل۔

ابر برسا نہ ہی کرم برسا
اُن پہ اس سال بھی ستم برسا

کرب و افلاس کا کھلا ہے در
اور اُس سے بہت الم برسا

چشمِ جاناں کا قہر یہ مجھ پر
اک نہیں پر کئی جنم برسا

دشتِ دامن پہ آنکھ کا بادل
رات بھر برسا پھر بھی کم برسا

تیرے ہوتے ہوئے بھی کیوں مجھ پر
دردِ تنہائی دم بہ دم برسا

شوخ کلیوں کے شہر میں راجا
خار کا ڈر قدم قدم برسا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے اور درست۔ مطلع میں ’نہ ہے‘ اچھا نہیں لگتا، اس کو یوں کر دو۔
ابر ہی برسا، نے کرم برسا
قہر والا شعر سمجھ میں نہیں آیا، محبوب اتنا قہار ہے؟ اور ’قہر یہ‘ بجائے دو الفاظ کے ایک لفظ پڑھا جا سکتا ہے، بیانیہ، اظہاریہ کی طرح۔
ظلم کر دو اس کی بجائے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اچھی غزل ہے اور درست۔ مطلع میں ’نہ ہے‘ اچھا نہیں لگتا، اس کو یوں کر دو۔
ابر ہی برسا، نے کرم برسا
قہر والا شعر سمجھ میں نہیں آیا، محبوب اتنا قہار ہے؟ اور ’قہر یہ‘ بجائے دو الفاظ کے ایک لفظ پڑھا جا سکتا ہے، بیانیہ، اظہاریہ کی طرح۔
ظلم کر دو اس کی بجائے۔

سر الف عین صاحب مطلع اگر یوں کیا جائے تو ؟

ابر برسا نہ کچھ کرم برسا
اُن پہ اس سال بھی ستم برسا

اور قہر والا شعر یوں

چشمِ جانا ں کا سحر یہ مجھ پر
اک نہیں پر کئی جنم برسا


یوں بھی کیا جا سکتا ہے اگر قہر لائیں تو،
چشمِ جانا ں کا قہر تو مجھ پر
اک نہیں پر کئی جنم برسا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع یوں بھی بہتر ہے۔
اور قہر والا شعر ہی بہتر ہے اس طرح۔ سحر کے ساتھ برسنا درست نہیں لگتا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ابر برسا نہ کچھ کرم برسا
اُن پہ اس سال بھی ستم برسا

کرب و افلاس کا کھلا ہے در
اور اُس سے بہت الم برسا

چشمِ جاناں کا قہر تو مجھ پر
اک نہیں پر کئی جنم برسا

دشتِ دامن پہ آنکھ کا بادل
رات بھر برسا پھر بھی کم برسا

تیرے ہوتے ہوئے بھی کیوں مجھ پر
دردِ تنہائی دم بہ دم برسا

شوخ کلیوں کے شہر میں راجا
خار کا ڈر قدم قدم برسا
 
Top