حسان خان
لائبریرین
زباں ساکت ہے، لیکن تر زبانی اب بھی ہوتی ہے
لبِ خاموش سے جادو بیانی اب بھی ہوتی ہے
حدیثِ نفس کی صورت میں اکثر خود بخود پہروں
زمانِ کیف کی افسانہ خوانی اب بھی ہوتی ہے
لبِ گل رنگ کو ہوتی ہے جنبش جب تصور میں
سماعت کی زمیں پر گل فشانی اب بھی ہوتی ہے
کبھی جب عہدِ رنگینی کی راتیں یاد آتی ہیں
عروسِ شوق کی پوشاک دھانی اب بھی ہوتی ہے
بہ ایں طغیانِ حکمت، کون مانے گا کہ اِس دل پر
مسلط ہر بلائے آسمانی اب بھی ہوتی ہے
رسولِ شادمانی ہوں مگر چھڑتے ہیں جب نغمے
نظر سے سوزِ غم کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
خدائے خندہ ہوں، لیکن جب اُن کی یاد آتی ہے
مری آنکھوں سے اشکوں کی روانی اب بھی ہوتی ہے
ترانوں سے مری محفل کو گو فرصت نہیں ملتی
مگر تنہائیوں میں نوحہ خوانی اب بھی ہوتی ہے
بہ ایں مشقِ تحمل، بارہا خاموش راتوں میں
کسی کی یاد ۔ مرگِ ناگہانی اب بھی ہوتی ہے
خرد کا دور ہے، لیکن مرے کمبخت سینے میں
جنوں کی گاہے گاہے پَرفشانی اب بھی ہوتی ہے
کسی کے روئے رنگیں کی صباحت کے تصور میں
چمن کی چاندنی اکثر سہانی اب بھی ہوتی ہے
وفورِ یاس سے گو دل رہینِ برف و شبنم ہے
کبھی پچھلے پہر آتش فشانی اب بھی ہوتی ہے
نہ جانے جوش کس ارماں میں اب تک جان جاتی ہے
کہ اکثر آرزوئے زندگانی اب بھی ہوتی ہے
(جوش ملیح آبادی)