ائر چیف مارشل انور شمیم مرحوم کی کتاب " دی کٹنگ ایج" سے اقتباس کا ترجمہ :

سید زبیر

محفلین
ائر چیف مارشل انور شمیم مرحوم کی کتاب " دی کٹٹنگ ایج" سے اقتباس کا ترجمہ : کہوٹہ کے خلاف بھارت اسرائیل اتحاد

"سوموار 29اکتوبر2007کو لاہو ر کے انگریزی اخبار ’’ڈیلی ٹائمز ‘‘ میں کہوٹہ پر حملے کے بھارت اسرائیل منصوبے سے متعلق انکشافات کیے گئے ۔ نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق "The Asian Age"نے 28اکتوبر2007کی اشاعت میں یہ واقعہ تحریر کیا ہے رپورٹ میں Adrean Levyاور Catherin Scott-Clarkکی نئی کتاب "Deception: Pakistan , the United States & The Global Nuclear Consiparcy"کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت اور اسرائیلی انٹیلیجنس کے رابطوں کا ذکر کیا اس نے دعویٰ کیا کہ فروری 1983میں بھارت کے فوجی حکام نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا تاکہ وہ اسرائیل سے کہوٹہ کے فضائی دفاع کو غیر موثر کرنے کے لیے حربی الیکٹرانک آلات خریدیں ۔ کتاب کے مطابق بھارت نے اپنے اس ارادے کو اس وقت ملتوی کر دیا جب پاکستان اٹامک انرجی کے چیر مین نے بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر کے ڈائرکٹر کو آگاہ کیا کہ کہوٹہ پر حملے کی صورت میں اسلام آباد ممبئی کو نشانہ بنائے گا رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ اس موقعہ پر اسرائیل نے بھارتی ہوائی اڈوں سے خود حملے کرنے کی تجویز دی آگے مزید لکھا تھا کہ بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندارا گاندھی نے اسرائیل کی قیادت میں اس حملے کے تجویز پر مارچ 1984میں دستخط کر دیئے تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس تنبیہہ پر کہ ’’ اگر بھارت نے ایسا کیا تو امریکہ جواب دے گا‘‘ بھارت اور اسرائیل اس منصوبے سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کہانی جیسی اخبار میں شائع ہوئی ہے اس کے کچھ مندرجات صحیح ہیں مگر منصوبے سے دستبرداری کی وہ وجہ نہیں تھی جو اخبار میں شائع ہوئی تھی اور جو کتاب میں شائع ہوئی تھی۔

1984کی ایک رات بارہ بجے کے بعد مجھے بیرون ملک سے فون آیا کہ کثیر تعداد میں طیارے اسرائیل سے برصغیر کی طرف جارہے ہیں۔ کیونکہ ہم اس عیارانہ گٹھ جوڑ سے باخبر تھے میں نے فوراًبلا تاخیر وائس چیف آف ائیر سٹاف ائیر مارشل جمال کو پاک فضائیہ کو ہائی الرٹ کرنے کا کہا میں نے صدر مملکت کو آگاہ کیا اورٹرامبے پر جوابی حملے کی اجازت مانگی ۔ صدر نے منصوبے کی منظوری دے دی رات دو بجے پاک فضائیہ کے 80فیصد ارکان اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے تھے اور اپنی پوزیشنیں سنبھال چکے تھے اور طیاروں کی خاصی تعداد قومی اثاثوں کی حفاظت کے لیے فضا میں محو پرواز تھی میں نے ائیر ڈیفنس کمانڈ کو اسلام آباد کے اوپر چند نچلی اور درمیانی سطح کی پروازوں کی ہدایت کی۔ اسی دوران اسلام آباد سے بھارت کی اس احمقانہ مہم کو ختم کرنے کے لیے کسی نے ٹیلیفون پر بھارت سے رابطہ کیا کیونکہ پاک فضائیہ مکمل چوکس اور تیار تھی نتیجتاً حملہ آور واپس ہو گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ نہ سمجھ پائے کہ بھارت نے یہ اسرائیلی منصوبہ کیوں منظور کر لیا کیونکہ اس صورت میں زیادہ نقصان بھارت کو ہی برداشت کرنا تھا۔ ایسا ہونے کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے کھلم کھلا جوابی کاروائی کی وضاحت کر دی تھی بہر حال ہمیں خوشی ہے کہ بہتری کے طور پر کسی نے متعلقین کو اس غیر معقول مہم کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ۔"
 

نایاب

لائبریرین
بہت معلوماتی شراکت ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں محترم سید بھائی
لیکن اک ابہامی سوال بھی ابھرتا ہے کہ یہ " کسی نے " سے کون ہستی یا کونسا ملک مراد ہے ۔۔۔۔؟
اسی دوران اسلام آباد سے بھارت کی اس احمقانہ مہم کو ختم کرنے کے لیے کسی نے ٹیلیفون پر بھارت سے رابطہ کیا کیونکہ پاک فضائیہ مکمل چوکس اور تیار تھی نتیجتاً حملہ آور واپس ہو گئے۔
 

سید زبیر

محفلین
بہت معلوماتی شراکت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت دعائیں محترم سید بھائی
لیکن اک ابہامی سوال بھی ابھرتا ہے کہ یہ " کسی نے " سے کون ہستی یا کونسا ملک مراد ہے ۔۔۔ ۔؟
کچھ مستند معلوم نہیں ، ایران بھی دونوں ممالک میں رابطہ کاکردار ادا کرتا رہا ہے یا کوئی بھی بھارت کا دوست ہوگا ۔بہر حال اچھی حکمت عملی تھی۔
 

سید زبیر

محفلین
استرزئی پایان ایک ہزار فٹ بلند سطح مرتفع پر واقع ہے۔ ہمارا گھر ایک ڈھلوان پر واقع تھا جہاں سے ساری وادی کا دلفریب نظارہ نظر آتا تھا گھر کا مرکزی حصہ برلب سڑک تھا جو ایک کھلے صحن کے باعث بہت خوبصورت تھا دوسری منزل پر ایک کمرہ اور کھلی چھت تھی

جہاں سے آسمان کی وسعتوں میں انسان کھوجاتا تھا۔ درحقیقت یہ گھر کا مرکزی حصہ آجکل کے گھروں کے تہہ خانوں کی مانند تھا۔ حفاظت کے لحاظ سے یہ ایک مثالی عمارت تھی۔ ریلوے لائن ہمارے گھر کے انتہائی قریب سے گزرتی تھی جسکے پار کھیت اور باغات تھے ۔جو موسمی دریا توئی سے سیراب ہوتے تھے تاہم علاقے کے لوگوں کی ضروریات کے لیے سال بھر اس دریا میں تازہ شفاف پانی رواں رہتا تھا۔ جو کھیتی باڑی اور باغات کی سیرابی کے لیے کافی تھا یہاں سے دو میل کے فاصلے پر تین ہزار فٹ بلند وبالا پہاڑ تھا۔ ہمارے گھر سے اس وادی کا بہت خوبصورت منظر نظر آتا تھا۔ لوگ بہت مہذب اور ایک دوسرے کے لیے بہت احترام کا جذبہ رکھتے تھے ۔ ہر قسم کے تنازعات تیسرے فریق کی مدد سے حل کیے جاتے تھے جبکہ نازک مسائل کے لیے گاؤں کے بڑوں پر مشتمل جرگہ مقرر ہوتا اور اس طرح مسائل حل ہوجاتے اگرچہ گاؤں میں پولیس کی مستقل موجودگی نہ تھی۔ تاہم استرزئی بالا میں دو کانسٹیبل تعینات تھے جو ہر دوسرے ہفتے یہاں کا دورہ کرتے مکمل وادی ہنگو پولیس سٹیشن کی حدود میں آتی تھی۔

امن وامان کا انتہائی اعلیٰ معیار قائم تھا۔ انصاف شفاف اور فوری تھا۔ مقامی اور غیر مقامی باشندے بندوق یا ریوالور سے آراستہ ہوتے دراصل یہ انکے روایتی لباس کا ایک جزوہوتا تھا اور وہاں کسی قسم کا قانون نافذنہیں تھا۔ گاوءں میں داخل ہوتے ہی ایک حجرہ نما مہمان خانہ تھا جو مہمانوں کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا یہاں لاتعدادبستر آرام کے لیے موجود تھے۔ دو چلمیں (حقے) بمعہ تمباکو کی ایک بڑی تھیلی کے موجود تھیں تاہم ہر آنے والا اپنے ساتھ اپنا تمباکو لاتا تھا ہاں اگر کوئی تمباکو لانا بھول جاتا تو موجود تھیلی سے استعمال کرلیتا تھا اور روائت کے مطابق اگلی بار اسمیں تمباکو ڈال دیتا ۔اس کے دروازے ہر آنے والے کے لیے کھلے تھے بلاجھجک شب بسری کرسکتا تھا اور کھانے کی دستیابی یقینی تھی۔

مقامی آبادی سو فیصد شیعہ فقہ سے تعلق رکھتی تھی ماسوائے ایک ہندو بنئے ، ایک ہندو استاد، ایک یا دو سنی مسلک کے اساتذہ اوربعدازاں ایک سکھ ،جو ہنگو ہسپتال میں کمپونڈر کی حیثیت سے رہ چکاتھا اور یہاں آکر چھوٹی سی فارمیسی کھول لی۔جیسا کہ یہاں کے لوگ خوش خوراکی کے عادی تھے سردار جی نے لال ، نیلے اور زرد رنگ کے بھر پور استعمال سے ہاضمہ کے مکسچر تیار کیے ہوئے تھے۔پسی ہوئی اسپرین کی گولیاں تھیں یہ دونوں دوائیاں تقریباً نوے فیصد بیماریوں کا علاج تھیں۔ یہی موثر اور زود اثر علاج تھا سردارجی نے دولت کے ساتھ ساتھ اردگرد کے دیہات میں خوب عزت کمائی۔

گاؤں کا واحد تاجر بھر پور طریقے سے کاروبار کر رہا تھا۔ زیادہ تر کاروبار مال کے بدلے مال کی بنیاد پر تھا۔ اس طرح وہ یقینی طور پر دونو ں طرف سے مال بنا رہا تھا۔ اسکے علاوہ وہ سود پر قرض بھی دیا کرتا جو مقامی باشندے بیماری ، بچوں کی تعلیم اور بیوی کی خریداری کے لیے اکثر حاصل کرتے جو کہ یہاں کی روایت تھی کیونکہ اسکا مقابلہ کسی سے نہ تھا اس لیے وہ بہت کامیاب تھا۔ یہ تاجر زمین اور زیورات رہن رکھ کر قرض دیا کرتا۔ اکثر سود کی وجہ سے یہ قرض نہ اتاراجاسکتا۔ بلاشبہ برصغیر کی تقسیم ان کے لیے ایک نعمت تھی جسکے باعث قرض کا بوجھ انکے گلے سے اترا۔ روایتی پشتون مہمان نوازی کا ان کے ساتھ رہنے ہی سے اندازہ ہوتا ہے اور اگر پشتو زبان آتی ہو تو وہ اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ اپنی آمد پر مہمان نوازی کا تجربہ پہلے ہی بیان کرچکا ہوں یہ ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی اگر میں وہاں اپنے خوشگوار قیام کے دوران ان کی زندگی کے دوسرے پہلو نہ اجاگر کروں جن سے ہمارا وہاں قیام ایک انتہائی حسین تجربہ ثابت ہوا۔ ہم ہمیشہ ان کے ممنون رہیں گے جنہوں نے ہمیں قیام کے دوران انتہائی عزت ومحبت سے نوازا آمد کے چند ماہ بعدہی میرے والد کو جرگے میں مدعو کیا جانے لگایہ ایک غیر مقامی باشندے کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔کیونکہ وہ اسلام ، اسلامی تاریخ اور مقامی روایات کا احسن علم رکھتے تھے اس لیے یقینی طور پر انھوں نے جرگوں میں اپنا کردارنہایت بہتر انداز سے ادا کیا ہوگا۔ بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے کے لیے جانے والے بزرگ افراد میں خصوصی طور پر والد صاحب کو شامل کیا جاتا تھا یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ یہ ملاپ کے فیصلے خواتین خاموش سیاست سے پہلے ہی کر لیا کرتی تھیں۔یہ بزرگوں کا وفد صرف منظوری کی مہرثبت کرنے جایا کرتاتھا۔جب رشتہ طے ہوجاتا اور دلہن اس گھر میں آجاتی تو اس کو عزت واحترام کا مقام دیا جاتا۔طلاق کا نام بھی اس علاقے میں نہ تھا گھر کے لوگ ہمیشہ بہو کی حمایت کرتے اگرچہ شوہر کودوسری شادی کرنے کی اجازت تھی مگر پہلی بیوی کو اولین مقام حاصل ہوتاتھا۔اگر دونوں خاندانوں میں تنازعہ ہوتا تو بیوی خاوند کے خاندان کی حمایت کرتی۔ اسی کی توقع کی جاتی جو اصول تھا۔ علاقے کی جوان اور بوڑھی عورتیں میری دادی اماں کے پاس اکثر آیا کرتیں اور گفتگو ہندکو ، پشتو یا بین الاقوامی اشاروں کی زبان میں ہوتی۔ میری دادی اماں کا تعلق وسطی ایشیا کے مرزا قبیلہ سے تھا۔ اس لحاظ سے استرزئی کے لوگوں سے ایک خصوصی قلبی لگاؤ تھا۔ ان لگاتار آنے والوں میں ہندو بنئے کی بیوی بھی تھی کیونکہ اسکو کسی کے گھر جانے کی اجازت نہ تھی اس لیے ہمارا آنا اسکے لیے ایک نعمت ثابت ہوا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے بیٹے اور میرے ہم جماعت پلو کو بھی ساتھ لاتی۔ وہ ہمارے ہاں آکر بہت خوش ہوتا کیونکہ اس پر بھی ویسی ہی پابندی تھی۔ اسکی خاطر میں اپنے دوسرے دوستوں کو بھی بلا لیتا میں اسکے گھر اکثر جایا کرتا اسکی والدہ ہمارے لیے لذیذ پکوڑے پکاتیں ایک معمہ میں حل نہ کر سکا کہ پلّو تو ہمارے گھر میں جہاں چاہتا چلا جاتا مگر ان کے گھر میں میرے لیے چند کمرے اور باورچی خانہ ممنوعہ تھے۔ یہ مجھے بڑے ہوکر معلوم ہوا کہ ہندؤں کے باورچی خانے مسلمان یا کم ذات کے داخلہ سے ناپاک ہوجاتے، یہ مسلمانوں اور ہندوں کے مابین ایک خلیج تھی۔ والد کے ایک دوست نے وہاں ایک قطعہ اراضی میرے نام کر دی تھی۔ اس قطعہ اراضی کی پیداوار میری تھی۔ گرمیوں میں مکئی کی پیداوار ہوتی جنکی بوریاں ہم اپنے گھر بھجواتے جو اگلے موسم تک ہماری ضرورت پوری کرتیں۔ ایک دوسرے دوست نے ایک پھلدار درخت میرے نام کردیا۔ جب میرا دل چاہتا میں باغ میں جاتا اور اپنے لیے پھل توڑ لیتا ۔ ایسی محبت ایسا خلوص صرف قبائلی علاقوں میں ہی ملتا ہے۔استرزئی میں قیام کے موضوع کو ختم کرنے سے پہلے میں قبائل کی روایات کے ایک پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔گاؤں کے سینیئر خان کیپٹن (ریٹائرڈ) نے اپنی بیٹی ہماری کلاس میں داخل کرادی میں کئی دفعہ اس کے گھر اس سے ملنے گیا۔ وہ بھی خاصی مانوس ہوگئی تھی۔ مگر گاؤں کی خواتین اس پر بہت برانگیختہ تھیں جس کے باعث ایک تناؤپیدا ہوگیا بالاخر خان کو فوراً اپنی اداس بیٹی کو سکول سے اٹھانا پڑا۔

میں نے اندازہ لگایا کہ خان جس معاشرے میں رہتا تھا وہ اس سے دو سو سال پیچھے تھا۔دسمبر 1940 میں والد صاحب کا ایبٹ آباد سے دو میل کے فاصلے پر واقع نواں شہر تبادلہ ہوگیا۔جس سے ایک نا ختم ہونے والا عشایؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جنوری 1941 میں میرے ہم جماعت دوستو ں سمیت تقریباً دو سو مرد و زن نے ریلوے اسٹیشن پرہمیں رخصت کیا۔بہت غمزدہ دل سے میں نے اپنے دوستوں کو خداحافظ کہا۔ہم سب غمزدہ تھے۔
 

نکتہ ور

محفلین
بہت عمدہ ہے

لڑی کے عنوان میں غلطی ہے
غلط " دی کٹٹنگ ایج"
درست" دی کٹنگ ایج"
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
عجب یہ ماجرہ ہوا ۔
تبصرہ حساب کے ہندسوں میں بدل گیا ۔۔۔۔۔۔۔
محترم سید سرکار آپ کے شریک کردہ اقتباس کے ترجمے نے جیسے مسحور کر سوچ کو ماضی میں پہنچا دیا ۔
بلاشبہ " پشتون " روایات " جو کہ مہمان داری سے منسلک ہیں ۔ ایسی ہی تھیں کہ اجنبی کو اجنبیت کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا ۔
اور بلاشبہ حکمت میں " سکھ " ہی سردار رہے ۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں ۔
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
"ہمارے سینیئر فلائیٹ کمانڈر لکی (Lucky)حیات تھے۔ یہ ایک نہایت باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ ایک بہترین ہوا باز تھے اور اپنے ماتحتوں سے بھی اسی کارکردگی کی امید کرتے تھے۔ اگرچہ وہ شادی شدہ تھے مگر آفیسرز میس میں انکا اکثر آنا رہتا ۔ ڈیوٹی کے بعد وہ نہایت خوشگوار موڈ میں ملتے۔ باتوں میں انہیں ملکہ حاصل تھا انکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کسی سادہ لوح کو ایفل ٹاور بھی بیچ سکتے ہیں۔ مہینہ کے اختتام پر ایک ہفتہ کی شام وہ آفیسرز میس آئے اور مشہور نائٹ کلب ’’لاگورمٹ‘‘ جانے کے لیے پوچھا۔ ہم سب نے جانے سے انکار کر دیا کیونکہ ہماری جیب نائٹ کلب کی عیاشی برداشت نہ کرسکتی تھی۔ انہوں نے کہا ’’ اس کی فکر نہ کرو یہ میری ذمہ داری ہے‘‘ ہم بڑی خوشی خوشی ساتھ چل پڑے۔ جیسے ہی ہم کلب میں داخل ہوئے لکی نے انتہائی چابکدستی سے جائزہ لیا اور ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے دو نوجوانوں کی طرف انتہائی والہانہ انداز میں بڑھے۔ وہ ان میں سے ایک سے مخاطب ہو ئے وہ شریف آدمی اُٹھا اور نہایت گرم جوشی سے ان سے بغل گیر ہوا۔ اور کہا کہ ایک طویل مدت بعد ملاقات ہو رہی ہے لکی نے اس سے ہمارا تعارف کرایا نو جوان نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور ہمارے لیے مشروبات کا آرڈر دیا کچھ وقت کے بعد نوجوان کو اندازہ ہو گیا کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی۔ اور وہ خاموشی سے دوسری میز پر چلا گیا۔ ایک خاص چیز ہم نے غور کی کہ لکی نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا صرف ہمیں ہی متعارف کرایا تھا۔ حقیقت میں لکی نے اس شخص کے ساتھ داؤ کھیلا تھا۔ بعدمیں ہم نے لکی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو لکی نے بتایا کہ وہ اس شخص سے زندگی میں پہلی دفعہ ملے تھے۔

31دسمبر کو وہ آفیسرز میس آئے اورہمیں بار میں بیٹھا پایا تو انہوں نے نئے سال کا جشن منانے کے بارے میں ہماری رائے پوچھی ہم نے مہینہ کے اختتام کی وجہ سے انکار میں جواب دیا۔ انہوں نے نہایت فراخ دلانہ انداز میں کہا ’’ کوئی بات نہیں، تم میرے مہمان ہو گے اور ہم یہ جشن ہوٹل میٹرو پول میں منائینگے جہاں اس جشن کیلئے ایمی مینوالا آرہی ہے‘‘ انہوں نے ہمیں شب نو بجے ہوٹل لابی میں ملنے کو کہا۔ جب ہم وہاں پہنچے وہ لابی میں موجود ہوٹل کے ملازم سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کچن کے راستے سے ہال میں داخل ہونگے اور ہمیں تین تین منٹ کے وقفے سے باری باری پیچھے آنے کو کہا اور اس طرح ہم باآسانی ہال میں پہنچ گئے۔ اور اپنے فلائیٹ کمانڈر کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے۔

لکی کو اندازہ تھا کہ اسکے انداز زندگی کیلئے یہ تنخواہ نا کافی ہے۔ اسلیئے انہوں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی۔ پی اے ایف کو بھی یقین ہو گیا تھا ہر چند وہ ہوابازی کی بہترین صلاحیت کے حامل تھے مگر ان کی ریٹائرمنٹ کی درخواست کو منظور کرنے میں پی اے ایف کا مفاد تھا۔ لکی نے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز میں شمولیت اختیار کر لی جہاں انکی آمدنی انکے انداز زندگی کے لئے موزوں تھی۔

سجاد حیدر جنہیں سب پیار سے نوز ی کہتے تھے میرے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ انکے انکل ایک ریٹائرڈ جج تھے۔ اور ہوٹل میٹروپول کراچی میں رہتے تھے۔ انہوں نے ہوٹل میں عشائیہ پر ہمیں مدعو کیا۔ ہم دونوں کے پاس ٹیکسی کا کرایہ نہ تھا ہم نے اپنے مقامی ساہوکار جو جمعدار تھا سے قرض لیا۔ وہ مہینہ کے تیسرے ہفتہ کے بعد اکثر و بیشتر ہمارے معاشی مسائل حل کرتا ۔ اس دفعہ اس نے ہمیں پانچ روپے کی دونیاں ( دو آنے کا سکہ) لا کر دے دیں۔ ان حالات میں اسکے سوا کوئی حل نہ تھا۔ ہم نے چالیس چالیس سکے باہم تقسیم کیے اور اپنی مختلف جیبوں میں رکھ لیے۔ ہم نے ان کے گرد اچھی طرح کاغذ لپیٹ لیا تاکہ جیب میں شور نہ کریں ۔ ایک شاندار دعوت سے محظوظ ہوتے ہوئے ہماری لا پرواہی سے چلتے پھرتے ہماری جیب میں سکے بجتے رہے۔

ایک رات فلائینگ آفیسر ظہیر کو کراچی سے رات کو دیر سے آنے کی وجہ سے ٹیکسی نہ ملی۔ صرف سائیکل رکشہ موجود تھا جسکا مالک اتنی دور جانے کے لئے تیا ر نہ تھا۔ ظہیر نے اسے زیادہ رقم کی پیش کش کی بہر حال رکشہ ڈرائیور مان گیا۔ اور جب آدھے راستے پر پہنچے تو رکشہ والا تھک گیااور مزید آگے جانے سے انکار کر دیا۔ظہیر نے اسے پیچھے بیٹھنے کو کہا اور خود ڈرگ روڈ کے آفیسرز میس تک رکشہ چلاتے ہوئے آیا۔ظہیر نے رکشہ والے کو مکمل معاوضہ دیا اگرچہ رکشہ والا صرف آدھے سفر کا کرایہ طلب کر رہا تھا۔ لیکن ظہیر کے مجبور کرنے پر اس نے پورے پیسے لے لیے ۔

29اکتوبر کو ہم نے ترکی کے ادانہ کے لئے پرواز کی ایک گھنٹہ پچیس منٹ میں ہم ادرنہ پہنچ گئے۔ ترکی کے دوسرے شہر دیار باقر کیلئے ہمیں یکم نومبر کو روانہ ہونا تھا۔ ادانہ میں ہمارا قیام بہت خوشگوار تھا۔ یکم نومبر ہی کو ہمیں دیار باقر سے ایندھن لینے کے بعد دہران(سعودی عرب) جانا تھا۔ جب ہم دیار باقر پہنچے تو ہمیں بتایا کہ ہمارے اعانتی ٹرانسپورٹ طیارے کو تکنیکی وجوہات کی بنا ء پر واپس ادانہ اترنا پڑا اس لیے ہماری شب بسری دیار باقر ہی میں ہوگی۔ ہمیں ترکی کے اس دوسرے شہر کی سیر کے موقع ملنے کی بہت خوشی ہوئی۔ ہاں البتہ ہمیں دن رات اوورآل ہی میں رہناتھا کیونکہ ہمارے کپڑے ٹرانسپورٹ طیارے میں تھے اگرچہ موسم بہت ٹھنڈا تھا مگر قیام کی خوشی میں یہ بالکل محسوس نہ ہوا ۔ شام کو ہم بازار سیر کے لئے گئے تو ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی ایسا لگا کہ ہم پشاور کے قصہ خوانی بازار پہنچ گئے اسی طرح کی تنگ بل کھاتی ہوئی گلیاں اور چھوٹے چھوٹے کافی ہاؤس جہاں پشاور کے قہوہ کی طرح ترکی کافی ملتی تھی۔ بالکل پٹھانوں کی طرح شلوار قمیض میں ملبوس لوگ تھے۔ خواتین بالکل نظر نہیں آر ہی تھیں۔ تہذیب کی اس ہم آہنگی کی وجہ دونوں کا مرکز وسطی ایشیاء تھا ۔ جہاں سے یہ تہذیب پھیلی۔ ہم ایک دکان میں بیٹھے اور کافی کا کہا جب انہیں علم ہوا کہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ ہم سے ملکر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہم سے کافی کے پیسے لینے سے انکار کردیا ہم نے ان کا بہت شکریہ ادا کیاانہوں گلے مل کر نہایت گرم جوشی سے ہمیں خداحافظ کہا ۔ جس سے ہمیں ترکی کے عوام کی پاکستانیوں کیلئے محبت کا اندازہ ہوا دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کی عوام پاکستانیوں کے لئے اتنے چاہت بھرے جذبات رکھتی ہو۔ صبح جب ہم ناشتہ کیلئے نیچے گئے تو ویٹر نے ڈبل روٹی پنیر، زیتون اور کافی لاکر دی۔ ذکی بٹ اور چند دیگر نے چائے اور انڈے منگوانے چاہے لیکن ہوٹل میں ایسا کوئی فرد نہیں تھا جو انگریزی سمجھتا ہو اور انکو اپنی خواہش بتانا بہت مشکل تھا۔ وضاحت کیلئے ذکی بٹ نے مرغی کی طرح جھک کر کلک کلک کی آوازیں اور انڈا دینے کا منظر اشاروں سے بتایا۔ ہر شخص اس حرکت سے لطف اندوز ہوا اور مقصد حاصل ہو گیا اسی طرح دودھ کے بارے میں اظہار بھی بہت مشکل تھا خصوصاً ذکی بٹ جیسے بھاری بھرکم انسان کیلئے یہ منظر پیش کرنا نہایت دلچسپ تھا۔ بہر حال ایک ویٹر بھاگتا ہوا گیا اور دودھ انڈے لے آیا۔ اس خوش کن ناشتہ کے بعد ہم ائیر بیس کے لیے روانہ ہوئے۔دو نومبر کوہم نے دیار باقر چھوڑا اور دہران(سعودی عرب) کیلئے عازم سفر ہوئے۔ اس ائیر بیس پر مکمل طور پر امریکی تھے۔ ہم دو دن دہران میں قیام کے بعد4 نومبر کو مسرور (کراچی ) پہنچ گئے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کیا خوب اقتباس پوسٹ کیا ہے سید زبیر انکل!
آپ اتنے دن نہیں آ رہےتھے تو پڑھنا پڑھانا بھی کم ہو گیا تھا۔ آپ کی پوسٹس کا اسی لیے تو انتظار رہتا ہے۔
جزاک اللہ خیر۔
 
Top