آہ ! امیر شریعت مفکر اسلام مولانا سید ولی رحمانی صاحب علیہ الرحمہ

فاخر

محفلین
آہ! امیر شریعت حضرت سیدمحمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
غرق ماہِ چرخ وگردوں ، مہر تاباں کردیا!

(قسط اول )

FB_IMG_1617509742540-1.jpg



افتخاررحمانی فاخرؔ

جب شعورکی آنکھیں کھولیں ، اور اپنے پاس پڑوس کے احوال کی خبر ہونے لگی، تو اس وقت جو لفظ بار بار بصد عزت و احترام والدین کی زبانی سنتا تھا ،وہ لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ تھا۔جہاں کہیں بھی ،اور جب بھی لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ بولا جاتا ، اس سے مراد مونگیر والے حضرت صاحب ہوا کرتے تھے ۔حتیٰ کہ اگر غیر کی مجلسوںمیں بھی لفظ ’’حضرت صاحب‘‘ بولا گیا ، تو گنہ گار کے ذہن نے مونگیر والے حضرت صاحب کو ہی تصور کیا ۔ جب بھی یہ لفظ والدین یا دیگر رشتہ دار کی زبانی سنتا ، تو ذہن میں ایک عظیم ستودہ صفات ، فرشتہ رو اور شفیق شخصیت کا خاکہ ذہن میں ابھر کر آتا تھا، غرض کہ ایک ننھی سی عقیدت کی کل کائنات مونگیر والے’ حضرت صاحب‘ ہی تھے ۔لیکن ہائے ! آج ’’حضرت صاحب ‘‘ کو مدظلہ العالی کے بجائے ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ لکھ رہا ہوں ، توجگر پاش پاش ہورہا ہے ،حواس اڑ چکے ہیں ،دماغ متحیر اور ہوش مختل ہیں۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حضرت صاحب اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،آمین ۔
حسن ِ اتفاق کہہ لیں، اُسی زمانے میں غالباً 1993-94میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار میں کوئی اصلاحی یا مدرسہ کا سالانہ جلسہ تھا۔ اس جلسے کے بعد حضرت صاحب کا مختلف گاؤں، جس میں برداہا، کنہی، جمال پور ، للہول، سنگھیا ، وغیرہ میں دورہ بھی متعین تھا۔دورہ کی فہرست میں ہمارے چھوٹے سے گاؤں ’’سویا ‘‘(SIWAIYA)کو بھی میزبانی کے شرف سے نوازا گیا تھا۔ ایک صبح آنکھ کھلی ، تو گاؤں میں سنا کہ حضرت صاحب تشریف لانے والے ہیں ۔ اِس مسرت آمیز خبر سے گاؤں کے ہر شخص کے چہرے پر خوشی،مسرت اور انبساط جھلکنا لگا ۔ بچے بوڑھے ،مرد و خواتین گاؤں کے تمام لوگ حضرت صاحب کی تشریف آوری سے مسرور دیدہ ودل فرشِ راہ کئے، سراپا استقبال تھے ۔جیسا کہ یاد پڑتا ہے، اس خوشی میں گاؤں کے ہندو بھائی بھی شریک تھے ۔استقبال کی تیاریوں میں گاؤں کے وسیع و عریض میدان میں پنڈال لگایا گیا تھا، استقبالیہ بینر جس میں ’آنا تیرا مبارک ہو تشریف لانے والے ‘ جیسا مصرعہ جلی حرف میں لکھا گیا ۔ گاؤں کے صدر گیٹ پر ’’ خوش آمدید‘‘کئی رنگوں میں منقش لکھا گیا تھا ۔برقی روشنی کا انتظام کیا گیا تھا، گاؤں میں بڑی چہل پہل اور عید کی جیسی خوشی کا عالم تھا۔رات کب ہوئی اور کب ’حضرت صاحب‘ تشریف لائے ، ہمیں اس کا پتہ تو نہ چلا۔ البتہ جب صبح ہوئی، تو والدہ مرحومہ برداللہ مضجعہا نے جگاکر کہا’ اٹھو حضرت صاحب آگئے ہیں ،ہاتھ منھ دھوؤ،اور جاؤ فلاں جگہ حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں ، سلام مصافحہ کرآؤ‘۔اپنے کسی قریبی کی معیت میں حضرت صاحب سے ملاقات کیا ، اس وقت حضرت صاحب ایک صوفے پر مثل شمع تشریف رکھے ہوئے تھے ،اور عقیدت مند، ان کے ارد گرد حلقہ بنائے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ حضرت صاحب سے یہ باضابطہ ھماری پہلی ملاقات تھی۔ لفظ ’حضرت صاحب ‘سے ذہن نے جوعقیدت و محبت کا خاکہ بنایا تھا، اس خاکے سے اُنہیں بدرجہا افضل و برتر دیکھا ،اور محسوس کیا۔جب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام پیش کیا، تو حضرت صاحب نے ہمارا نام اور ولدیت پوچھی ۔ ہم نے سر جھکائے اپنا’’افتخار احمد‘‘ اور ابو کا نام ’مولانا نثار الحق قاسمی‘ ؔبتایا ۔ یاد پڑتا ہے حضرت صاحب ھمارے گاؤں میں تقریباً گیارہ بارہ بجے تک قیام فرما ہوئے تھے۔خواتین کی بیعت کے سلسلے میں ھمارے غریب خانہ کو بھی اپنے قدم کی عزت بخشی تھی،ھمار ے گھر پر ہی خواتین سے بیعت لیا تھا۔اصلاحی خطاب میں شریعت پر پابندی ،احکام پرعمل در آمد اور گناہوں سے اجتناب کی واضح تلقین فرمائی تھی ۔ یاد پڑتا ہے کہ ھمارے گاؤں کے اکثر جام و مینا کے دلدادہ شرابی جام شکستہ کرکے تائب ہوکر معتکف ِ منبر و محراب ہوگئے تھے، چہرے پر سنت نبوی داڑھی سجالی تھی۔خواتین میں نمازوں کی کثرت،لڑائی جھگڑے سے اجتناب ، اوراٹھتے بیٹھتے درودپاک کا ورد میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اورکانوں سے سنا ہے ،حضرت نے ھمارے گاؤں کے بدنام زمانہ شرابی سے توبہ کروائی اور کبھی نہ ’پینے ‘کا عہد بھی لیا تھا۔ حضرت صاحب کا پہلا اور گہرانقش مجھ پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوکر رہ گیا۔دل میں یہی خواہش رہتی کہ حضرت صاحب کے نقش قد م پر چلتا رہوں۔ والدین بالخصوص والدہ مرحومہ حضرت صاحب کی سچی عقیدت مند تھیں،بناء بریں اِسی عقیدت و محبت کے باعث جب کچھ سیپارے حفظ کرلئے اوراردو کی کچھ کتاب پڑھ لیں، تو جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگیر میں درجہ ٔحفظ میں داخل کرایا گیا، جہاں حضرت صاحب سے میری دوسری ملاقات ہوئی ،اور پھر یہ گناہ گار ہمیشہ کے لئے خانقاہ رحمانی اور جامعہ رحمانی کا ایک ادنیٰ فرد بن گیا ۔

جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی میں چار سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران گرچہ میں حفظ کاادنیٰ طالب علم تھا، لیکن وہاں کی علم دوست فضا اور خانقاہ کی برکت سے اردو زبان کی شناسائی، تذکیر و تانیث کا خیال، تقریر و خطاب اور، مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا ،دستی خط میں کمالِ مہارت جامعہ رحمانی کے طلبائے عزیز کی خصوصی شناخت ہے، دستی خط کی مشق کرکے اپنا خط درست کیا ۔وہاں منعقد ہونے والی طلبہ کی خصوصی بیت بازی سے’شاعری‘ سے دلچسپی ہوئی۔ یہیں حالی ؔ،اقبالؔ،غالبؔ ، حفیظؔ جالندھری،شیخ سعدی ؔاور مولانا رومؔ اور مولانا محمدعلی جوہر ؔ کوجانا۔یہیں مسدسِ حالی،کلیات ِ اقبال اور شاہنامہ اسلام کی شکل دیکھی ۔ گرچہ راقم اپنی بزدلی کی وجہ سے کبھی کسی مسابقہ کا مساہم تو نہ بن نہ سکا،لیکن خانقاہ کی بابرکت فضاکے باعث اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی ۔گویا افتخار رحمانی فاخر ؔ کی تخم ریزی خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوچکی تھی ، البتہ اس کا اظہار جامعہ رحمانی کے سطح پر نہ ہوسکاتھا، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔ گنا ہ گار جامعہ رحمانی خانقاہ، مونگیر میں ایک گمنام طالب علم ہی رہا، سوائے استا د خاص قاری عبد القادر صاحب زید مجدہ اور مولانا حافظ اکرام الحق رحمانی صاحب زید مجدہ اور اپنے چند ہم شرارت دوست کے ،کوئی مجھے وہاں جانتا نہیں تھا، (یہ الگ با ت ہے سوشل میڈیا کے توسط سے کہ اب کئی لوگ جاننے لگے ہیں)۔جب دارالعلوم وقف دیوبند میں شعبہ تفسیر کا طالب علم تھا، تو اُس وقت2013-14 میں فارغ وقت میں استاد مکرم حضرت مولانا فضیل احمد ناصری مدظلہ استادحدیث جامعۃ ا لامام محمد انور شاہ ،دیوبند کی سرپرستی میں مستقل سیاسی موضوعات پر لکھنے لگا۔ میری تحریر ملک کے بیشتر اخبار ات میں شائع بھی ہونے لگی ۔ حضرت صاحب ؒ مستقل اخبارات دیکھتے تھے ، کئی بار ادارتی صفحہ میں ’’افتخاررحمانی‘ نام دیکھا ،تو افتخاررحمانی کو تلاش کیا ۔ خادم ِ خاص حافظ امتیاز رحمانیؔ صاحب کو حکم دیا کہ پتہ کیا جائے کہ ’افتخاررحمانی ‘کون ہے؟حضرت صاحب کا ’افتخار رحمانی‘ کے بارے میں پوچھنا ،اور تلاش کرنے کا حکم دینا ، میرے لئے عمر بھر کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت جلدی معلوم کرلیا گیا کہ افتخاررحمانی کون ہے ؟ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب اپنی مبارک زبان سے ’’افتخاررحمانی ‘‘ کا نام لے رہے ہیں ، تو ایسا لگا کہ دنیا کا سب سے بڑا عزاز میرے نام کردیا گیا ہے ۔

”ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے‘‘
(باقی آئندہ ، ان شا ء اللہ الرحمن)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
افتخاررحمانی کون ہے ؟ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب اپنی مبارک زبان سے ’’افتخاررحمانی ‘‘ کا نام لے رہے ہیں ، تو ایسا لگا کہ دنیا کا سب سے بڑا عزاز میرے نام کردیا گیا ہے ۔

”ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے‘‘
(باقی آئندہ ، ان شا ء اللہ الرحمن)
بہت خوب ماشاء اللّہ
جیتے رہیے افتخار رحمانی فاخر بہت ساری دعائیں
 

فاخر

محفلین
آہ! امیر شریعت حضرت سیدمحمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
غرق ماہِ چرخ وگردوں ، مہر تاباں کردیا
(قسط آخر )

افتخاررحمانی فاخرؔ

جب جامعہ رحمانی ، خانقاہ ، مونگیر میں 1999 میں درجہ حفظ میں داخل ہوا تھا، تو وقتاً فوقتاً حضرت امیرشریعت کے خطاب ، پند و نصیحت اورتذکیر و وعظ سے مستفید ہوتا رہا ،حضرت کی تقریر کا نک سک ،زیر و بم اور لب ولہجہ کی طلباء نقل بھی کرتے تھے ،ناچیز بھی اُن ’نقالوں‘ میں شامل ہے۔استاد مکرم قاری عبدالقادر صاحب کی2سالہ خدمت کا راقم پر گہرا اثر پڑا ہے ؛ اِسی لئے کم نام ،گم نام، کم آمیز ، اور خلوت پسند طبیعت پائی ہے، کم آمیز ہی رہا ،اور اب بھی کم آمیز ہی ہوں ۔بناء بریں تعلق و خدمت کا کبھی کوئی موقعہ میرے حصہ میں نہ آیا۔لیکن فیض سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ شمع کی روشنی تمام حلقہ کو منو رکرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دور رہ کر ہی سہی ،مگرالحمدللہ فیضیاب ہوگئے ۔ حضرت علیہ الرحمۃتلاوتِ قرآن پاک بھی بہت ہی عمد گی سے فرمایا کرتے ، طلباء میں حسن قرأت کی تلقین و تشجیع فرماتے ،حسن قرآت کے ساتھ حسنِ صوت کے بھی قائل تھے،ہمارے وقت میں جامعہ رحمانی ، خانقاہ ، مونگیر میں دو مشہور قاری تھے۔ایک درویش صفت ،قلندر مزاج استاد مکرم حضرت قاری عبدالقادر صاحب مدظلہ العالی اورثانیاً قاری خورشید اکرم رحمانی صاحب ،پنج وقتہ نمازوں کی امامت ان ہی دونوں بزرگوار کے ذمہ تھی،جب کبھی نمازِ فجر کی امامت حضرت الاستاد قاری عبد القادرحفظہ اللہ فرمایا کرتے، تو ایسا لگتا کہ قرآنی آیات سینوں میں مع اپنے برکات و فضائل کے ساتھ پیوست ہورہی ہیں ۔حضرت علیہ الرحمۃاز خودجب کبھی نمازِ عشاء میں سورۃ النورکی آ یت ’’اللہ نورالسمٰوات والارض مثل نوُرہ کمشکوٰۃٍ فیھا مصباح ‘‘ کی قرأت عمدہ لب و لہجے میں فرمایا کرتے تھے ، یوں لگتا کہ کوئی مشاق قاری بغیر تصنع اپنے خداداد فن کامظاہرہ کر رہا ہے،قرأت سن کر دل باغ باغ ہوجاتا ،طبیعت کا رنگ دوبالا ہوجاتا۔ غالباً حضرت علیہ الرحمہ کے خادمِ خاص جناب حافظ امتیاز رحمانیؔ کے پاس حضرت علیہ الرحمۃ کی تلاوت قرآن پاک کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہوگی ، اُن سے ادنیٰ گزارش ہے کہ حضرت علیہ الرحمۃ کی آواز میں تلاوت قرآن پاک کی ریکارڈنگ عام کریں ، تاکہ حضرت علیہ الرحمۃ کے دوسرے متوسلین حضرت کی آواز میں تلاوت سے محظوظ ہوسکیں ۔
خانقاہ رحمانی مونگیرمیں ہر ماہ پابندی کے ساتھ درود شریف کی مجلس ہوا کرتی تھی ، جس میں خانقاہ کے متوسلین ، منتسبین ، مریدین اور عشق کی حد تک محبت کرنے والے لوگ، جامعہ رحمانی کے اساتذہ و طلبائے عظام خصوصی طور پر شریک ہوکر شہنشاہِ کونینﷺ کے دربار میں ہدیۂ درود پاک پیش کرتے تھے ، وہ سماں عجیب رقت آمیز ہوا کرتا تھا ، جب حضرت امیر شریعت دعا کیلئے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھاتے،حضرت خود بھی روتے ،اور تمام حاضرین مجلس بھی رُلاتے،ملک و ملت کے تمام مسائل کے حل کے لئے خصوصی طور پر دعا کی جاتی، اور بفضل خدا میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دعائیں قبول ہوتی ہوئے بھی دیکھی ہیں۔ اس ضمن میں یاد پڑتا ہے کہ اِسی ماہانہ درود پاک کی مجلس میں ’’بلغ العلیٰ بکمالہ ،کشف الدجیٰ بجمالہ‘‘ کی عاشقانہ و دلبرانہ تشریح نیز اس کی شانِ نزول حضرت علیہ الرحمۃ کی زبانی سنی تھی ،دل عش عش کر اٹھا تھا، اُسی وقت شیخ سعدی کو پہچانا تھا،کہ گلستاں والے ’’شیخ سعدی‘‘بڑے پہنچے ہوئے ولی ہیں،جن کا ذکر حضرت علیہ الرحمۃ اپنی تقریر میں فرما رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ کرونا نامی وبا کی آمد سے قبل تک چلتا رہا۔ان شا ء اللہ الرحمن نئے سجادہ نشیں حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے قیادت و سیادت میں درود پاک کی ماہانہ مجلس پھر آراستہ ہوگی۔ عشاق پھر جمع ہوں گے ، رندانِ ازل پھر جام و مینائے ’’رحمانیہ ‘‘ لنڈھائیں گے اور ساقیٔ میخانہ پھر جام ِ جمشید و عشق مئے محمودبھر بھر کرلٹائیں گے۔ ساقی نہیں ہے، اس کا صدمہ ہمیشہ رہے گا ، مگرساقی کا جانشیں تو ہے۔ مے کدہ بھی وہی ہے ، مے بھی وہی ہے، سفالِ ہندی میں جامِ ِالست ،مینائے رحمانیہ اور بادۂ توحید رندانِ با صفا میں لٹائے جائیں گے ۔ ۲۷-۲۸مارچ کو خبر آئی کہ حضرت امیر شریعت بیمار ہیں ۔ سوشل میڈیا پر دعائے صحت کی درخواست کی جارہی تھی ، لوگ خود بھی دعائیں کر رہے تھے ، اپنے احباب و متعلقین سے بھی دعائے صحت کی اپیل بھی کر رہے تھے ، مساجد و خانقاہ میں بھی دعائے صحت کی جا رہی تھی،لیکن وائے حسرتا! ۳؍اپریل کو یہ لرزہ خیزاور قیامت انگیز خبر آگئی کہ حضرت امیر شریعت مالکِ حقیقی سے جاملے (انا للہ وانا الیہ راجعون )۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام ۔ اِس تلخ حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ موت نہیں آئے گی ،’’ کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کا بیانیہ اسی گمانِ غلط کے بیانِ حقیقت کے لئے ہے ۔
ہم حضرت امیر شریعت کے آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل کارہائے گراں مایہ کی تفصیلات پیش تو نہیں کر رہے ہیں ، اس سلسلے میں ہمارے دیگر ہم مشرب افراد نے عمدگی سے انہیں بیان کیا ہے ۔ ہم تو محض مرثیہ خواں اور ماتم کناں ہیں ، نالہ و شیون ہمارا شیوہ ہے ۔بہ سبب طبیعت سو نالہ اور آہ و فغاں کر رہے ہیں،بقول غالب ع

”مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں“

آج حضرت امیر شریعت داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے ، لیکن آنے والا وقت بار بار ملت اسلامیہ ہندیہ کو بتائے گا کہ ’محمدولی رحمانی‘‘ کون تھے؟ جب جب ملت پر آنچ آئے گی ، جب بھی ملت کے اوپر ا نگشت نمائی کی جائے گی ،اور جب فسطائی طاقتیں سر جوڑ کر ملت کے خلاف سازشیں کریں گی ، تو ’محمدولی رحمانی‘ بے اختیار یاد آئیں گے ۔جب سیاسی طور پر قوم و ملت پرمظالم ڈھائے جائیں گے، اور جب ملت کو بے آ ب و گیاہ صحرامیں تڑپنے کے لئے مجبور کیا جائے گا ، تو’محمد ولی رحمانی ‘کی یاد بے ساختہ شدت کے ساتھ بار بار آئے گی۔ جب قوم کی سربلندی اور تعلیمی میدان میں تفوق و امتیاز کے لئے کوششیں کی جائیں گی ، تو ’محمدولی رحمانی ‘کی پالیساں مشعل راہ بنیں گی، اور محمد ولی رحمانی یاد آئیں گے ۔جب بھی اہل خانقاہ اپنی صفوں میں جذبۂ شبیر تلاش کریں گے ،تو’ محمد ولی رحمانی ‘کی یاد آئے گی ، اور جب غیر وں کی صفوں میں جاکر نعرۂ مستانہ لگانے والے مست مئے الست کو ڈھونڈا جائے گا، تو ’محمد ولی رحمانی‘ کی یاد آئے گی ۔ محمد ولی رحمانی ‘ کی یاد اُس وقت بھی آئے گی ، جب دنیامیں رسم شبیری ختم ہوچکی ہوگی ۔’ محمد ولی رحمانی‘ گوشت پوست کے سجادہ نشیں محض نہیں تھے ،محمد ولی رحمانی خانقاہ میں بیٹھ کر ’’نعرۂ ’’اللہ ھو‘‘ لگانے والے سجادہ نشیں بھی نہیں تھے، بلکہ ایک زندہ ، متحرک ، فعال ،بیدار مغز، ملت کے درد کوسوزجاں بنانے والے ،اور اسے اکسیر سمجھنے والے ،حالات کی نبض پر سخت گرفت رکھنے والے سجادہ نشیں تھے ۔ ہم اور آپ یہ کہتے ہیں کہ خانقاہی لوگوں کا سیاست سے کیا تعلق ؟ یا سیاسی لوگوں کا ’خانقاہی اشغال و اذکار‘ سے کیا واسطہ؟ لیکن محمد ولی رحمانی نے یہ گمان غلط کردیا کہ سیاست ،خانقاہ،درس و تدریس ، بیعت ،مسند وعظ و نصیحت ، سجادہ نشینی ، تصوف ، اوراصلاحِ نفس سربلندیِ اسلام کے لئے ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں ، جن کے ادراک میں ’’یار لوگ‘‘ خطا کے شکار ہوگئے ہیں ۔اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے ، مغلوب و مفتوح ہونے کے لئے نہیں آیا ہے ۔ شیخ محی الدین ابن العربی کو خلافت عثمانیہ کے قیام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے ، محمد ولی رحمانی نے ابن العربی کی طرح پس پردہ تحریک کے بجائے اغیار کے سامنے آکر کھل کر اپنے موقف کو پیش کیا ، نئے منصوبے بنائے ،رجال سازی کی ،ان پڑھوں کو پڑھایا، برے وقت میں ملت کے کس طرح کا م آیا جائے، اس کے ہنر سکھائے ، جن پروں میں طاقت ِ پرواز نہ تھی ، انہیں طاقت ِ پرواز دی ۔ وقت کا یہی تقاضاتھا کہ سامنے آکر للکارا جائے، سید احمد شہید کی سیرت پڑھیں ، اس سیرت میں’ محمد ولی رحمانی ‘ کی سیرت اور ان کا کردار منقح ہوکر سامنے آجائے گا، نیز یہ بھی ادارک ہوجائے گا کہ خانقاہ میں رہ کر ’محمدولی رحمانی ‘نے کیوں کر مردانہ وار میدانِ سیاست میں رسم ِ شبیری اداکی تھی۔
آہ حضرت امیر شریعت! کس روسیاہ اور خاک رومنھ سے ، لزرتی زبان اور کانپتے ہاتھوں سے لکھوں کہ ہم نے وہ گوہر ِ نایاب کھودیا،جو تمام سلسلہ تصوف کا تاجدار تھا۔ ہم نے وہ رہنما کھودیا ، جو تصوف و بیعت کا امام بھی تھا، اور میدانِ سیاست کی معرکہ آرائی کا سپہ سالار بھی تھا ۔ ہم نے’ میکدہ رحمانیہ ‘کا وہ با فیض ساقی و پیرمغاں کھودیا ، جوجامِ عرفان لنڈھانے والوں میں سرفہرست تھا۔ وہ محض ساقی ہی نہیں تھے، بلکہ عشقِ محمودکی راہوں کا ہاد ی و رہبر بھی تھے ۔ یقین تو نہیں ہوتا ہے کہ میکدہ کا ساقی چلاگیا ، لیکن میکدہ کی بے رونقی بیان کررہی ہے کہ ساقی محبوب حقیقی سے جا ملا ہے ۔وقت کا انقلاب اس بات کا تقاضہ کر ر ہا ہے کہ محمد ولی رحمانی ہوتے ، لیکن موت کی ستم خیزی پر نہ تو کسی کا بس چلا ہے ، اورنہ کبھی کسی کا بس چلے گا ،ہائے !وہ مسیحا جس کے ’’دم ِ عیسوی‘‘ سے کروڑوں نے شفا پائی تھی ، موت کی تلخ سچائی کے سامنے سرنگوں ہوگیا۔ جب اُن کی قبراور نمازِ جنازہ کا منظر دیکھتا ہوں ، تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ ہائے افسوس ! حضرت امیر شریعت مالک حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ہرسو ُ سوگواری کا عالم ہے ، ہر شخص گریہ و بسمل نظر آرہاہے ،جامعہ رحمانی ، خانقاہ ، مونگیرسے ادنیٰ سی نسبت رکھنے والا شخص بھی مایوس و رنجور ہے ، بدحواسی کی کیفیت ہے ،امارت شرعیہ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اہل خانقاہ ، قدآور سیاسی لیڈران اور دیگر تنظیموں کے ذریعہ تعزیت مسنونہ پیش کی جارہی ہے ۔ لیکن قرار آئے تو کیوں کر آئے ، سکوں میسر ہوتو کیوں کر ؟ کس دل سے خود کو کہوں کہ حضرت صاحب راہیِ ملک عدم ہوگئے اور قوم و ملت کو اللہ کے حوالے کرگئے ۔ وہ چرخِ تصوف و سیادت کے آفتاب ، ماہتاب اور خورشید وقمر تھے ، کہ جس کے پرتو کی بھیک زیست بھر زمانہ مانگتارہے گا ؎

”چہرۂ یار تو باعث ِ رشک ہے
ماہ و خورشید شمس و قمر کے لئے
مطلعِ نور سے مانگ لوں روشنی
قرض، میں اپنے تاریک گھر کے لئے“
ہائے ! ہم نے وہ متاعِ گراں مایہ کھودیا ، جس کا بدل قرنوں اور صدیوں کے بعد مبدأ فیاض پیدا کرتا ہے ۔ ہم اس نعمت کبریٰ سے محروم ہوگئے، جو قوم و ملت بالخصوص باشندگانِ بہار و اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے لئے ’’سایہ ھما‘‘ تھی۔ ھمارے ہاتھ ستم کیش ہیں ، بے رحم ہیں ، اور جفا رو بھی ہیں ، ہائے ! ہم نے ان ہاتھوں سے مونگیر کی خاک میں ماہِ اختر بلند ، آفتابِ تصوف ، ماہتابِ شریعت ، چراغِ شب ِ سیاست اور نازش ِ راہِ طریقت ،عظمتوں کے تاجدار، کئی مؤثر تعلیمی اداروں کے بانی و سرپرست اور بہار کی دھرتی کے ’’مہرتاباں‘‘ کو منوں مٹی میں چھپا دیا؏
ہائے ان دست ِ جفارو نے اچانک خاک میں
غرق ماہِ چرخ و گردوں ،مہرتاباں کردیا​
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ،إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ باَجَلٍ مُسَمًّى۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور قوم و ملت کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم ۔
 
Top